’’عدالتی‘‘ مارشل لاء 

ہمارے تمام چھوٹے بڑے سیاسی، معاشی ادارے قانون کے پابند ہیں اور عدلیہ اس پر عمل درآمد کی ضامن ہے۔


اکرام سہگل March 31, 2018

KUALA LUMPUR: ہمارا یوم جمہوریہ ، اس دن کی حقیقی روح کی درست انداز میں ترجمانی کا بہترین موقعہ ہوتا ہے، اس 23مارچ کو لاہور میں چیف جسٹس آف پاکستان کی گفتگو میں سب سے زیادہ فکر انگیز نکات تھے۔

عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید کے بیان کے، جس میں آیندہ انتخابات کے انعقاد کے لیے نوّے روز کا ''عدالتی مارشل لاء'' کی بات کی گئی تھی، حوالے سے بات کرتے ہوئے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ایسے کسی امکان کو یکسر مسترد کردیا۔قانون کی بالادستی، عدلیہ کی آزادی اور انصاف کی غیر جانب دارانہ فراہمی کو انھوں نے ''ملکی ترقی کے لیے اہم ترین'' قرار دیا، اور ملک کو اس کے سپریم لاء یعنی دستور کے مطابق چلانے کی ضرورت پر زور دیا۔

ملک میں مارشل لاء کا نفاذ اور بعدازاں نظریہ ضرورت کے تحت اس کی منظوری پاکستان کی سیاسی تاریخ کا حصہ ہے۔ ماضی میں آئین کی تشریح اور عمل درآمد کی اپنی ذمے داری نبھانے کے بجائے مارشل لاء کو درست قرار دینا اپنے آئینی اختیارات سے دست بردار ہونے کے مترادف ہے۔ یہاں تک کہ مشرف حکومت کو بھی آئین میں من مانی ''ترمیم'' کا اختیار دیا گیا۔

پاکستانی سماج، سول اور دیگر اداروں نے ریاست کے بنیادی جوہر کا ادراک ہی نہیں کیا، جمہوریت قانون کی حکمرانی کے اصول پر چلتی ہے اور اس کی اوّلین شرط یہ ہے کہ تمام پاکستانی یہ بات سمجھتے اور تسلیم کرتے ہوں کہ اس سرزمین کا بالادست ترین قانون آئین ہے، اس کا احترام اور اس پر عمل درآمد ہی کو فوقیت حاصل ہے۔

دو سو برس قبل جرمن فلسفی ہیگل نے آزادی کی تعریف یہ بیان کی تھی کہ یہ ضرورت کو سمجھنا اور تسلیم کرنا ہے، ایک پُرامن اور ترقی پسند سماج کی تعمیر کے لیے قانون سازی کی ضرورت اور قانون کی بالادستی کو سمجھنے کا نام ہے۔

آزادیٔ رائے کے ساتھ قانون کی اطاعت اور اس کا تحفظ کرنا اس لیے ہماری ضرورت ہے کہ قانون کی حکمرانی کے بغیر ہم ترقی کے قابل ہی نہیں رہیں گے۔ ہمارے تمام چھوٹے بڑے سیاسی، معاشی ادارے قانون کے پابند ہیں اور عدلیہ اس پر عمل درآمد کی ضامن ہے۔ مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب قانون کی روح کو نافذ کرنے کے بجائے محض اس کی عبارت پر اکتفا کرلیا جائے۔

23مارچ 1940کو قراردادِ لاہور پیش کرنے والوں نے صرف برطانیہ سے آزادی کا مطالبہ نہیں کیا تھا بلکہ مسلمانوں کے لیے اسلامی اصولوں کی بنیاد پر ، کثرت رائے کے برطانوی سیاسی نظام کو قبول کرتے ہوئے، زندگی گزارنے کی آزادی کا بھی مطالبہ کیا تھا۔ 14اگست 1947 کو برصغیر برطانوی راج سے آزاد ہوگیا لیکن پاکستان آج بھی اس مطالبے کے دوسرے حصے کی تکمیل کے لیے کوشاں ہے، جس میں ''برطانوی طرز'' کی جمہوریت میں آئین کی بالادستی قبول کی گئی تھی۔

آزادی کے درست تصور میں قانون کی حکمرانی تسلیم شدہ اصول ہے اور اسے ہماری سوسائٹی اور سیاسی قیادت کی غالب اکثریت نے قبول نہیں کیا ہے۔ اپنے جاگیردارانہ پس منظر کی وجہ سے ہم چنیدہ لوگوں کو خاص مان لیتے ہیں اور انھیں اس قدر اہم اور غیر معمولی تسلیم کرلیتے ہیں کہ ہمارے نزدیک یہ خاص طبقہ قانون سے بالاتر ہوجاتا ہے۔ ہماری اشرافیہ کی جاگیردارانہ ذہنیت انھیں قوم کے بجائے اپنے ذاتی مفادات سے باندھے رکھتی ہے۔

حالات کی ناساز گاری کا تصور کیجیے کہ 2008میں پاکستانی شہریت سے دست بردار ہوجانے والا ایک شخص، ایک تشکیل کردہ اس اعلیٰ پینل کے لیے نامزد کیا گیا ہے، غیر قانونی دولت کی بازیابی جس کے ذمے لگائی گئی ہے؟ برسوں یہ سرکاری اداروں کے بورڈز تک رسائی کے لیے ''پاکستانی'' ہونے کا تاثر دیتا رہا۔ ''اشرافیہ کلب'' میں شامل اس کے دوست اب اس کے قدم جمائے رکھنے کے لیے اداروں کا استعمال کر رہے ہیں۔

کیا سابق وزیر اعظم ، ان کے اہل خانہ اور قریبی ساتھی خود کو قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں۔ اعداد وشمار کے مطابق اس وقت ملک کی آبادی 19کروڑتھی جس میں سے ڈیڑھ کروڑ ووٹ حاصل کرنے والے نواز شریف اس خیال کو آگے بڑھا رہے ہیں کہ عوامی ریلیاں اور جلسے ان کی نااہلی کے عدالتی فیصلے کو غلط ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں۔ کیا 2013ء کے انتخابات میں مجموعی طور پر ڈالے جانے والے ووٹوں کا بیس فی صدسے کچھ زائد حاصل کرکے پاکستان کی پوری آبادی کے ''مینڈیٹ'' کا دعویٰ کیا جاسکتا ہے؟

اسی سے واضح ہے کہ ہمارا اختیار کردہ ''فرسٹ پاسٹ دی پوسٹ'' کی بنیاد پر قائم برطانوی نظام کس قدر مضحکہ خیز ہے۔گزشتہ نو ماہ میں ایک مرتبہ بھی نواز شریف اپنی دولت اور غیر ملکی اثاثوں کا کوئی قابل اعتبار ثبوت پیش نہیں کرسکے۔ کیا نواز شریف کا مؤقف اور بیانات آئین و قانون کی بالادستی تسلیم کرنے سے کھلا انکار ہے اور وہ مستقل الزامات لگا کر عدلیہ کے آئینی کردار کی بھی نفی کررہے ہیں۔

''سالِ نو کے لیے ایک آرزو نامہ'' کے عنوان سے 30دسمبر 2016کو اپنے کالم میں عرض کیا تھا:'' سپریم کورٹ کے آنے والے چیف جسٹس کے خلاف سوشل میڈیا پر جو مہم چلائی گئی، جسٹس ثاقب نثار کی دیانت داری اور انصاف پسندی کا معیار کسی طور ان غیر سنجیدہ الزامات سے میل نہیں کھاتا۔ ان کے پیش رو کے کئی بیانات عوام کے لیے امید افزا تھے لیکن ان کے بعض فیصلے ان بیانات سے مختلف۔ تاریخ مصلحت پسندوں اور اصول پر شخصیات کو فوقیت دینے والوں کو کبھی معاف نہیں کرتی۔

جسٹس منیر ایک غیر معمولی قانون داں تھے لیکن آنے والی نسلیں انھیں ''نظریۂ ضرورت'' کے خالق کے طور پر ہی پہچانیں گی۔ جو یونانی دیوتا انصاف کی علامت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، اس کی آنکھوں پر سیاہ پٹی بندھی ہے، اس کی نظر میں دوست دشمن اور امیر غریب کی کوئی تمیز نہیں۔ غریب کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا، لفظوں کے جال سے قانون کی روح کا شکار کرنے والے دولت مند وکیلوں کے کھیل کے اب وہ متحمل نہیں رہے ۔

آنے والے چیف جسٹس کا ماضی بتاتا ہے کہ وہ قانون کے نفاذ میں کسی تفریق کے قائل نہیں۔ آنے والے چیف جسٹس ثاقب نثار ہی اب پاکستانیوں کی آخری امید ہیں، اس منصب پر فائز ہونے کے بعد انھیں اپنی بلند کرداری کو دلیلِ عمل سے آشکار کرنا ہوگا۔'' ہزاروں کی افرادی قوت سے معاملہ کرنے کا تجربہ رکھنے والے اس راقم کے لیے کسی ایک فرد کے بارے میں تجزیہ درست ثابت ہونا باعث اطمینان ہے۔

چیف جسٹس ثاقب نثار کا وعدہ ہے کہ بادشاہت کی بنیاد پر چلنے والی جمہوریت کو راستہ نہیں دیا جائے گا، امید یہی ہے کہ وہ اور ان کے ساتھی جج صاحبان ملک کے دستور کی درست تشریح اور اس کے نفاذ پر اصرار کرتے رہیں گے۔

موجودہ آرمی چیف(اور ان کے پیش رو) فوجی حکومت کے امکان کو مسترد کرچکے ہیں۔ ہمارے سر پر خطرے کی یہ تلوار نہیں، سیاسی نظام کی بہتری کے لیے اقدامات کرنے سے ہمیں کیا اندیشہ روکے ہوئے ہے۔ چاہے آیندہ انتخابات شفاف ہوں تب بھی ہماری جمہوریت کے لیے کسی آزمایش سے کم نہیں ہوں گے۔ کیا الیکشن کمیشن آف پاکستان دستور کی شق 62اور 63پر پورے نہ اترنے والوں کو روک سکے گا؟

چیف جسٹس اپنے کہے گئے لفظوں کو عمل سے ثابت کررہے ہیں، اسی بنا پر یکسوئی کے ساتھ اپنے فرائض کی ادائیگی کے لیے چیئرمین نیب جسٹس جاوید اقبال کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے، یہی وجہ ہے کہ نیب اقربا پروری اور کرپشن پر خاموش تماشائی بننے کے بجائے بلا امتیاز ذمے داران کو انصاف کے کٹہرے میں لارہی ہے۔

(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں