بظاہر چھوٹا دکھنے والا سنگین مسئلہ

بچوں کو وہ پڑھنے دینا چاہیے جو وہ پڑھنا چاہتے ہیں، بجائے اس کے کہ ہم ان پر زبردستی وہ تھوپیں جو وہ پڑھنا ہی نہیں چاہتے


ورشہ شاہد April 02, 2018
بچوں کو اتنا خوصلہ مند بنایئے کہ وہ اپنی مرضی سے اپنا راستہ چنیں اور آگے بڑھیں۔ فوٹو: انٹرنیٹ

عمومی طور پر ہمیں اپنے آس پاس معاشرے میں صرف بڑے بڑے مسائل ہی نظر آتے ہیں جن میں گِھر کر ہم چھوٹے مسئلوں پر توجہ نہیں دے پاتے، جو آگے چل کر کسی طوفان سے کم ثابت نہیں ہوتے۔ ایسا ہی بظاہرچھوٹا دکھنے والا ایک مسئلہ یہ بھی کہ ہم چاہے بچہ ہو یا بڑا، اس پر جانتے بوجھتے اس کی مرضی کے خلاف چیزیں تھوپنا شروع ہوجاتے ہیں اور آؤ دیکھیں نہ تاؤ، بس اپنے گن گاتے چلے جاتے ہیں۔ اور تب تک سکون سے نہیں بیٹھتے جب تک وہ ہماری بات پر ہاں نہ کر بیٹھے۔

اپنی منوانے میں کامیابی کے بعد ہم تو پُرسکون ہوجاتے ہیں، لیکن کسی کی چاہت، دلچسپی اور مرضی کا قتل کرکے ہم ایک طوفان کو خود ہی دعوت دے رہے ہوتے ہیں جس کے اثرات بعد میں بہت زیادہ دکھائی دیتے ہیں۔ افسوس... وہ اثرات زیادہ ترمنفی ہی ہوتے ہیں۔

ذیل میں ایسے ہی ایک مسئلے پر ہمارے معاشرے کی سوچ اور گھسے پٹے نظریے کی منظر کشی کی گئی ہے جو ہمارے ہاں ایک عام بات ہے۔ لیکن ہم سمجھنے سے قاصر ہیں کہ یہ مسئلہ چھوٹا نہیں بلکہ بہت بہت بڑا ہے، جو معاشرے میں ایک طرح سے بگاڑ ہی لاتا ہے، اور یہ ایک اَن دیکھا بگاڑ ہوتا ہے۔

 

منظرکشی


ماں بیٹے سے: ''بیٹا تمہیں ڈاکٹربننا ہے بس، اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ خوب محنت کرو، دن رات پڑھو، کسی چیزکی فکرکرنے کی ضرورت نہیں ہے؛ بس پڑھائی میں دل لگاؤ کیونکہ انٹری ٹیسٹ سر پرہیں۔ تھوڑے دن کے لیے اپنا سوشل سرکل اور مصروفیات چھوڑ دو، کیونکہ میں اور تمہارے بابا چاہتے ہیں کہ تم ڈاکٹر بنو اور ہمارا نام روشن کرو۔''

بیٹا: ''پر امی! میں تو ڈاکٹر بننا نہیں چاہتا، بڑی آپی ڈاکٹر بن تو رہی ہیں، مجھے میڈیکل کی فیلڈ بالکل بھی نہیں پسند، میں تو انجینئیرنگ کے کسی شعبہ کی جانب جانا چاہتا ہوں کیونکہ مجھے ایسا لگتا ہے کہ میری دلچسپی اِس فیلڈ کی جانب زیادہ ہے، اس لیے میں یہ ہی پڑھنا چاہتا ہوں؛ میں میڈیکل پڑھ نہیں پاؤں گا تو ڈاکٹر کیسے بنوں گا۔''

ماں: ''نہیں بیٹا، جب کوشش کروگے، خوب دل لگاؤ گے تو کیوں نہیں ہوگا، ضرور ہوگا۔ دیکھو تمہاری بڑی بہن نے کتنی محنت کی، اور آج اس کا چوتھا سال ہے، ایک سال بعد وہ ڈاکٹر بھی بن جائے گی، پھر پریکٹس کرے گی اور ہمارا خواب پورا ہوجائے گا۔ اس کی دلچسپی تھی ، دیکھو اس نے کرلیا، تو تم بھی اس ہی کے بھائی ہو ناں... تم بھی کرسکتے ہو۔''

بیٹا: ''امی میں آپ سے یہ ہی تو کہہ رہا ہوں کہ آپی کی دلچسپی تھی تب ہی وہ اچھے سے کر رہی ہیں، پر میری میڈیکل پڑھنے میں دلچسپی ہی نہیں ہے، تو کیسے کروں گا؟ میں تو فیل ہی ہوتا رہوں گا ہرسال، اس سے آپ لوگوں کو بہت دکھ ہوگا اور میرا بھی حوصلہ پست ہوگا۔ اس لیے آپ مجھے وہ پڑھنے دیں جو میں پڑھنا چاہتا ہوں، آپ دیکھیے گا میں انجینئیرنگ کے شعبے میں آگے نکل جاؤں گا، کیونکہ میں ہمیشہ سے اسی شعبے کے بارے میں سوچتا رہا ہوں، لیکن اب ایک دم سے میڈیکل؛ نہیں ہوپائے گا امی، پلیززز...!''

یہ ایک المیہ ہے کہ ہم اپنے بچوں کو اس جانب گامزن ہونے ہی نہیں دیتے جہاں وہ خود جانا چاہتے ہیں یا پھر ان کی دلچسپی ہو۔ ہم نے اپنے بچوں کو تعلیم جیسے زیور سے آراستہ کرنے کے بجائے ان پر تھوپنا شروع کردیا ہے جو ان کو سنوار نہیں رہا، بلکہ بگاڑرہا ہے۔ یا پھر وہ اپنی تعلیم کے ساتھ بس چل چلاؤ والا کام کر رہے ہیں اور برائے نام ڈگری لے رہے ہیں، جس کے بعد وہ جب فیلڈ میں جاتے ہیں تو ان کے پاس سوائے ڈگری کے کچھ نہیں ہوتا۔ افسوس صد افسوس... کہ فیلڈ میں اچھی جی پی اور پوزیشن کے علاوہ کارکردگی، معلومات یا پریکٹیکل ورک (عملی کام) ہی کام آتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ ہم اپنے بچوں کو اس شعبے میں کیوں نہیں جانے دیتے جہاں ان کی دلچسپی ہو؟ کیا پڑھائی کے معاملے میں دلچسپی اورلگن سے بڑھ کر کچھ ہے؟ میرے خیال میں اسی دلچسپی کے ساتھ طالب علم آگے بڑھتے ہیں اوراچھے کریئر کے لیے اپنا راستہ نکال لیتے ہیں۔ وہ اُس فیلڈ میں اپنا بہترین کیرئیر کس طرح تلاش کرسکتے ہیں جہاں اُن کا دل ہی اُن کے ساتھ نہ ہو، پھر ہمیں ان سے کامیابی کی توقع بھی نہیں رکھنی چاہیئے۔

بچوں کو وہ پڑھنے دینا چاہیے جو وہ پڑھنا چاہتے ہیں، بجائے اس کے کہ ہم ان پر زبردستی وہ تھوپیں جو وہ پڑھنا ہی نہیں چاہتے۔ چاہے وہ میڈیکل، انجینیئرنگ، سوشل سائنس سمیت کوئی بھی فیلڈ ہو۔ وہاں وہ بہترین نتائج بھی دے سکیں گے اور خوشی و دل جمعی کے ساتھ پڑھ لکھ کر کامیابیاں بھی سمیٹیں گے۔ آپ کی خواہش یا زبردستی کی وجہ سے عین ممکن ہے کہ کچھ عرصے بعد ان کے رویے میں تبدیلی آجائے، وہ ڈپریس رہنے لگیں اور اظہار بھی نہ کریں۔ یہ اُس وقت تو ان کے لیے برا ثابت ہوگا ہی، پر بہت بعد میں اس کے اثرات سب پر ظاہر ہوں گے، لیکن تب تک دیر ہوچکی ہوگی جو کسی صورت بہترنہیں۔

اس لیے بچوں کے سامنے ایک کھلا راستہ رکھیے اور ان کو اتنا خوصلہ مند بنایئے کہ وہ اپنی مرضی سے اپنا راستہ چنیں اور آگے بڑھیں۔ اور بچوں کو حوصلہ مند بنانے کا یہ اہم کام اہل خانہ اور تعلیمی اداروں سے بہتر کوئی کر ہی نہیں سکتا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |