بے حسی شرط ہے جینے کے لیے

اوسطاً دنیا میں ہر 40 سیکنڈ میں ایک شخص خودکشی سے ہلاک ہوجاتا ہے۔


شاہد سردار April 01, 2018

عالمی ادارہ صحت کے ایک سروے کے مطابق ہر سال خودکشی کی وجہ سے تقریباً دس لاکھ لوگوں کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ عالمی آبادی کے تناسب سے یہ تعداد ایک لاکھ میں 16 بنتی ہے۔

یوں اوسطاً دنیا میں ہر 40 سیکنڈ میں ایک شخص خودکشی سے ہلاک ہوجاتا ہے۔ پوری دنیا میں سب سے زیادہ خودکشی کا تناسب جاپان میں ہے، جب کہ پاکستان میں سالانہ 6 سے 8 ہزار افراد خودکشی کرتے ہیں اور اس کی بنیادی وجہ ڈپریشن بتائی جاتی ہے، دیگر وجوہات میں بے روزگاری، محبت میں ناکامی اور گھریلو تنازعات وغیرہ شامل ہیں۔

خودکشی کرنے والوں کی زیادہ تعداد 30 سال سے کم عمر نوجوانوں اور شادی شدہ خواتین کی ہوتی ہے اور یہ بات بہت ہولناک ہے کہ پاکستان میں ہر سال اقدام خودکشی کرنے والوں کی تعداد ڈیڑھ لاکھ تک پہنچ گئی ہے جنھیں موت کے منہ میں جانے سے روک دیا جاتا ہے لیکن ہزاروں کی تعداد پھر بھی عالم بالا میں پہنچ جاتی ہے۔

ماہرین نفسیات کے مطابق خودکشی دراصل کسی شدید ذہنی مرض کی علامت ہوتی ہے۔ یہ ایسی کیفیت ہوتی ہے جس میں لوگوں کو امید کی کرن نظر نہیں آتی۔ ذہن میں خوشی، امید یا یقین کا کوئی تصور نہیں ہوتا اور مستقبل کے منظر نامے پر صرف ماضی نظر آتا ہے۔ عام طور پر مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ خودکشی کرنے والا ، خودکشی کرنے سے پہلے ہمیشہ اپنے پیاروں، اپنوں، دوستوں، معالج کوکوئی اشارہ ضرور دیتا ہے۔ حساس معاشرے اس اشارے کو سمجھ کر لوگوں کو اس حرام چیز سے باز رکھنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن کیا ہے کہ:

بے حسی شرط ہے جینے کے لیے

اور ہمیں احساس کی بیماری ہے

کے مصداق نہ کسی کو کسی کا احساس ہے نہ خیال اور نہ ہی کوئی کسی کو اس کی منشا کے مطابق زندگی گزارنے پر تیار ہے، نتیجے میں ڈپریشن، نفسیاتی پن، احساس کمتری حد درجہ عروج پر ہے اور ظلم، زیادتی اور استحصال کی فراوانی ہے۔ وطن عزیز میں اکثر لوگوں کو امید کی کرن دکھائی نہیں دے رہی، نفسا نفسی کا عالم ہے، خاندان کی طرف سے سپورٹ یا مدد ملنے کا رجحان دم توڑ چکا ہے۔ انفرادی سطح پر مایوسی اور اجتماعی بے حسی میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے، برداشت اور معاملہ فہمی کی سطح پست ہوتی جا رہی ہے۔

ماہرین نفسیات کے مطابق ملک بھر میں خودکشی کے بڑھتے ہوئے تناسب کے جو رجحانات ہیں اس کی وجہ فکری انتشار نہیں بلکہ بے بسی کی کیفیت ہے۔ لوگوں کو جب اپنے سامنے کوئی مدد کرنے والا نظر نہیں آتا تو وہ مسائل پر قابو پانے میں خود کو بے بس محسوس کرتے ہیں اور خودکشی کے 90 سے 95 فیصد واقعات کی وجہ یہی ہوتی ہے، باقی واقعات کی وجہ نفسیاتی مسائل ہوتے ہیں۔ موجودہ حالات میں بعض مواقعے پر نارمل انسان کو بھی یہ خیال آتا ہے کہ فلاں صورتحال سے بہتر ہے کہ موت کو گلے لگا لیا جائے۔ یوں جب انسان بے بسی کی کیفیت میں مبتلا ہوجاتا ہے تو موت کا خیال اس کے دل میں راسخ ہوجاتا ہے اور وہ خودکشی کی کوشش میں خود کو آمادہ کرلیتا ہے۔

یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ ہر طرف سے مایوس افراد ہی خود کو نقصان پہنچاتے یا خودکشی کرتے ہیں ۔ دراصل یہ ایک طرح سے مدد کی آواز ہوتی ہے اور شدید مایوسی کا عمل ہوتا ہے۔ یوں بھی ذہنی امراض زندگی میں اجالوں کی جگہ اندھیرے بھر دیتے ہیں جس سے متاثرہ افراد اپنے گرد روشنی دیکھ نہیں پاتے اور اندھیرے کی سرنگ میں خود کو پاتے ہیں۔ ہماری دانست میں خودکشی بہت بہادری کا کام ہے اور خودکشی کے لیے زہرکی نہیں ہمت کی ضرورت ہوتی ہے، حالانکہ خودکشی کرنے والے کو بزدل کہا جاتا ہے۔ تاہم ہمیں من حیث القوم سوچنا چاہیے کہ ایسا کیوں ہورہا ہے؟ اس رجحان کو روکنے کے لیے ہمارے والدین، اساتذہ، بالخصوص علمائے کرام اور ملک کے اکابرین کو اپنا کردار احسن طریقے سے ادا کرنا چاہیے اور ان وجوہات کا تعین کیا جانا چاہیے جن کے تحت یہ واقعات رونما ہوتے ہیں۔

نوجوان تو کسی بھی ملک و قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں جو گزشتہ اور آنے والی نسلوں میں رابطے کا کردار ادا کرتے ہیں۔ اسی طرح خواتین کے اقدام خودکشی کے واقعات میں ہونے والا اضافہ بھی معاشرے میں بے چینی اور بے یقینی کا پتا دیتا ہے۔ حکومت اور ماہرین نفسیات اور دینی رہنماؤں کو معاشرے سے بے انصافی کی ہر شکل کے خاتمے کے ذریعے اس صورتحال کے سدباب کے لیے نتیجہ خیز اقدامات کرنے چاہئیں لیکن افسوس ایسی کوئی کوشش کسی سطح کسی پلیٹ فارم سے دیکھنے میں نہیں آرہی۔ معلوم نہیں کہ ہم زوال کی دلدل میں دھنستے جارہے ہیں یا اس سے باہر آجانے میں کس قدرکامیاب ہوئے ہیں؟ دراصل ہمارے ہاں مصلحین کی بہت کمی واقع ہوچکی ہے اور معاشرتی اصلاح کا صبر آزما کام کئی عشروں سے رکا ہوا ہے۔

اس حقیقت سے کسی طور بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ زندگی میں بعض اوقات ایسے واقعات پیش آتے ہیں، جن میں انسان جذبات سے مغلوب ہوجاتا اور غیض وغضب سے بھر جاتا ہے ایسا کرکے وہ ذہنی و قلبی سکون اپنے تئیں محسوس کرتا ہے مگر اسلام نے جذبات میں آکرکسی فیصلے کی اجازت نہیں دی ہے۔ تمام ایسے مواقعے پر جہاں انسان عام طور پر بے قابو ہوجاتا ہے، شریعت نے اپنے آپ کو قابو میں رکھنے، عقل و ہوش سے کام کرنے اور سوچنے اور غوروفکر کی دعوت دی ہے جسے اسلام کی اصلاح میں صبروتحمل کہا جاتا ہے۔

اسلام تو ویسے بھی رواداری، تحمل، تدبر، برداشت اور امن وسلامتی کا دین ہے اور اسلام میں جذباتیت کے بدلے حقیقت پسندی، غصہ اور اشتعال کے بجائے صبر وتحمل کی صفت اختیارکرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ خودکشی کی ایک بڑی وجہ عدم برداشت یا غصہ بھی ہے اور یہ بھی عقل، ایمان اور عمل کے لیے انتہائی مہلک کہا جاتا ہے۔ اچھے سے اچھا سمجھدار انسان بھی شدید غصے میں عقل سے خارج اور پاگل ہو جاتا ہے، بعض اوقات شدید غصے سے انسان مر بھی جاتا ہے ورنہ فالج کا شکار ہوکر زندگی بھر کے لیے معذور ہوجاتا ہے۔

انسان کی زندگی کا مشاہدہ کیا جائے تو پتا چلے گا کہ اس کے جذبات یا غیض و غضب سے اسے ہمیشہ نقصان ہی پہنچا ہے، ویسے بھی انسانی زندگی کا وہ کون سا لمحہ ہے جس میں اسے کسی نہ کسی طرح کی جسمانی اور روحانی اذیت و پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑتا ہو، تاریخ شاہد ہے کہ جس نے بھی ان تکلیف دہ مواقعوں پر صبر و تحمل سے کام لیا اس کے بعد میں راستے ہموار ہوگئے، کامیابی کی منزل اس کے قریب ہوگئی۔ کسی شخص کی کامیابی اور بلندی کا راز ویسے بھی یہ ہے کہ وہ انتہائی جذباتی مواقعے پر انتہائی عقل ودانش سے فیصلہ کرلے۔

انفرادی زندگی میں تحمل اور صبر وضبط کی ضرورت تو ہے ہی لیکن اس کی اہمیت اجتماعی جگہوں میں مزید بڑھ جاتی ہے، اگر تحمل اور صرف ضبط سے کام نہ لیا جائے تو زندگی گزارنی مشکل ہوجاتی ہے۔ لہٰذا اپنی زندگی کو نکھارنے، مسائل سے نجات پانے اورخوشگوار زندگی گزارنے کے لیے ضروری ہے کہ جذبات کو قابو میں رکھا جائے۔ لہٰذا ضرورت اس امرکی ہے کہ تمام شعبہ حیات میں صبر و تحمل سے کام لیا جائے، پرسکون اور کامیاب زندگی کے لیے صبر و تحمل اور قوت برداشت بنیادی عنصر ہے۔

ہماری پستی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم وقتی طور پر جذبات کی رو میں بہہ جاتے ہیں جس سے اپنا اور اپنی اس زندگی کا نقصان کردیتے ہیں جس پر ہم سے زیادہ دوسروں کا حق ہوتا ہے۔ معاشرے کے ہر فردکو دوسروں کے لیے اپنے دل میں گنجائش پیدا کرنے کی بہرطور ضرورت تھی اور ہمیشہ رہے گی اور ایک دوسرے کی مدد، اس کا لحاظ، خیال اور ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا مادہ اپنے اندر پروان چڑھانے سے خودکشی کے محرکات میں حد درجہ کمی واقع ہوسکتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں