نجکاری کس کے حق میں

آج ہماری قومی ایئر لائن کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا گیا ہے۔

یہ بات تو آپ نے اکثر لوگوں سے سنی ہوگی کہ بے نظیر بھٹوکے دور میں نجکاری کا آغاز ہوا، مگر اس کا علم کم ہی لوگوں کو ہے کہ1988 میں ضیاالحق کے فضائی حادثے کے بعد جو عبوری حکومت بنی تھی ۔ اس نے آئی ایم ایف سے اسٹرکچرل ایڈجسٹمنٹ کا معاہدہ کیا تھا جس کے تحت نجکاری ہونا ضروری تھی حالانکہ عبوری حکومت کو اس طرح کے معاہدے کرنے کا کوئی اختیار نہیں تھا۔ اس طرح کے معاہدے کرنے کا حق عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوکر آنے والی حکومت کا ہوتا ہے۔

اس معاہدے کے بعد انتخابات ہوئے اور بے نظیرکو پاکستان کی بلکہ عالم اسلام کی پہلی خاتون وزیر اعظم بننے کا اعزاز حاصل ہوا ، لیکن سب جانتے ہیں کہ کتنی شرائط منوانے کے بعد انہیں اقتدارکے ایوانوں میں داخل ہونے کا حق دیا گیا تھا ۔ برسر اقتدار آنے کے بعد ان پر نجکاری کے لیے دباؤ رہا یہاں تک کہ 1990میں ان کی حکومت بر طرف کر دی گئی، بظاہر اس کی وجہ کرپشن بتائی گئی لیکن پس پردہ وجہ نجکاری نہ کرنا بھی تھی ۔ ان کے بعد نواز شریف بر سر اقتدار آئے اور نجکاری شروع کی۔

حکومت نے مزدور تنظیموں کے ساتھ معاہدہ کیا کہ نجکاری سے حاصل ہونے والی رقم قرضوں کی ادائیگی ، غربت کے خاتمے اور بے روزگار ہونے والے مزدوروں کے لیے نئے مواقعے کے مطابق تربیت پر خرچ کی جائے گی، مگر آج یہ حال ہے کہ قرضے بھی کئی گنا بڑھ گئے ہیں اور غربت میں بھی اضافہ ہوا ہے ۔

ہمارے پاس ایک ہی اسٹیل مل تھی، ہم اسے بھی چلا نہیں پائے ۔ ٹریڈ یونین الائنس کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ ادارے کی تباہی کی دو وجوہات ہیں ۔ ایک کرپشن ، دوسرے بد انتظامی کے باعث ہونے والے نقصانات ۔ اس وقت ملازمین کے پراویڈنٹ فنڈ اورگریجویٹی فنڈ ٹرسٹ سے اربوں روپے کی رقم غائب ہے ۔ ملازمین کی پانچ ماہ کی تنخواہیں واجب الادا ہیں جب کہ ملازمین کی مراعات اور سہولتوں میں مسلسل کمی کی جا رہی ہے۔

ریٹائرڈ افراد کے واجبات گزشتہ پانچ سال سے ادا نہیں کیے گئے ۔ صنعتوں اور پیداوارکے بارے میں قومی اسمبلی کی اسٹینڈنگ کمیٹی کی اطلاع کے مطابق اسٹیل مل ہر ماہ ایک اعشاریہ چار بلین خسارے میں جا رہی ہے اور فولاد کی درآمد سے زر مبادلہ الگ ضائع ہو رہا ہے ۔ نیب دسمبر 2017 میں اس بارے میں تحقیق شروع کرنے کا اعلان کر چکی ہے ۔

ہماری ایئر لائن کا دنیا بھر میں نام تھا ۔ ہم نے علاقے کے دوسرے ممالک کی اپنی ایئر لائنز بنانے میں مدد کی لیکن آج ہماری قومی ایئر لائن کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا گیا ہے۔ مفتاح اسمعیل صاحب فرماتے ہیں جو پی آئی اے خریدے گا اسے اسٹیل مل مفت میں ساتھ ملے گی۔Buy one, get two ۔اس غیر سنجیدہ رویے پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے ۔ پی آئی اے کا یہ حال ہے کہ تین سو ارب کے قرضے کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔


ریٹائرڈ عملے کو معمولی پنشن مل رہی ہے ۔ چھوٹے ملازمین کو تو چھوڑیے، ایم ڈی کی پنشن 3332 روپے ہے۔اس وقت قومی ایئر لائن ہماری فوری توجہ کی مستحق ہے۔ موجودہ حکومت اپنا دور ختم ہونے سے پہلے پہلے اپریل میں اس کی تقدیرکا فیصلہ کر دے گی ۔Restructuring Actجو پارلیمنٹ میں پاس ہوا، اس کے تحت اب یہ لوگ اسے نجکاری نہیں کہہ رہے بلکہ ری اسٹرکچرنگ کہہ رہے ہیں لیکن بات ایک ہی ہے۔

پی آئی اے میں ریفرنڈم ہونے جا رہا ہے ، یونینیں اس کی تیاری میں مصروف ہیں ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ساری یونینیں نجکاری کے خلاف مہم کو ریفرنڈم کی تیاریوں کا حصہ بنا لیں ۔ پی آئی اے کے اثاثوں کی مالیت کا تخمینہ کچھ سال پہلے لگایا گیا تھا ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ از سر نو ان کی مالیت کا تخمینہ لگایا جائے، ظاہر ہے یہ کام ایک دو ہفتوں میں نہیں ہوسکتا ۔ اس ادارے کے کارکنوں اور ان کے ہمدردوں کو سیاسی اورعملی جدوجہد میں یقین رکھنا چاہیے۔

آخری حربے کے طور پر عدالت کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا جا سکتا ہے۔جیسا کہ اوپر ذکر ہوا ، نجکاری کا عمل 1988میں ہونے والے معاہدے کے نتیجے میں شروع ہوا، حکومت کو چاہیے کہ اس معاہدے کو منظر عام پر لائے ۔ اس معاہدے کو پارلیمنٹ میں لایا جائے اور اسے منسوخ کیا جائے اور اس کے ساتھ ہی نجکاری کمیشن کو بھی ختم کیا جائے۔

اگر ہم ان دونوں اداروں کے حالات کو ایک کیس اسٹڈی کے طور پر دیکھیں تو ان کا سرا فلاحی مملکت میں یقین رکھنے والوں اور نیو لبرل معیشت کے علمبرداروں کے درمیان چھڑی ہوئی بحث سے جا ملتا ہے۔ نیو لبرل ازم کا بنیادی اقتصادی نظریہ ہے کہ منڈیاں زیادہ موثر اورکارگر ہوتی ہیں۔

فری مارکیٹ اکانومی سے زیادہ موثر نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں، گوکہ ان میں سے بھی کچھ اس پر یقین رکھتے ہیں کہ بعض معاملات میں حکومت کی مداخلت ضروری ہے جیسے آلودگی کی روک تھام اور بڑے پیمانے پر اقتصادی استحکام کو یقینی بنانے کے اقدامات ۔ مگر ان کے بقول ٹھوس نتائج مناسب تقسیم نوکے ساتھ فری مارکیٹ اکانومی کی مدد سے ہی حاصل ہوسکتے ہیں ۔ ان کے خیال میں معیشت کا کام پیداوار میں اضافہ کرنا ہے، اس کی تقسیم کا کام سیاسی عمل پر چھوڑ دینا چاہیے۔ وہ سیاستدان جوفلاحی مملکت کے خلاف ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اس سے انحصار یا محتاجی کی ثقافت جنم لیتی ہے۔

جب کہ فلاحی مملکت کے حامیوں کا کہنا ہے منڈیاں عام طور پر موثر ثابت نہیں ہوتی ہیں اور حکومت کو ان کی خامیاں دور کرنے کے لیے اقدامات کرنے پڑتے ہیں ۔ اکیسویں صدی میں جب ہم فلاحی مملکت کی بات کرتے ہیں تو ہمارا مقصد ایک منصفانہ معاشرے کا قیام اور عام شہریوں کے حالات کو بہتر بنانا ہے کیونکہ منڈی کی معیشت خود سے یہ سب کچھ نہیں کرے گی۔ کارپوریٹ مفادات اور قومی مفادات میں بہت فرق ہوتا ہے۔ ہمیں وسائل اور آمدنی کی تقسیم کو منصفانہ بنانا ہو گا اور شہریوں کو بنیادی سہولیات فراہم کرنا ہوں گی ۔
Load Next Story