انسانی اور منشیات کی اسمگلنگ

اعلیٰ تعلیم یافتہ خوش حال اور ہنر مند نوجوان بھی یہاں سے نکل بھاگنے کے طریقے تلاش کرتے پائے جاتے ہیں۔

h.sethi@hotmail.com

بعض لوگوں میں ایسی خداداد صلاحیتیں ہوتی ہیں کہ وہ نچلی سطح سے بلندی کی طرف اٹھتے ہیں لیکن اکثر پیچھے مڑ کر دیکھنا نہیں بھولتے۔ ان کی بعض نیکیوں کے سبب اللہ ان پر مہربان رہتا ہے۔

آج مجھے پچیس سال پرانا وہ دن یاد آ رہا ہے جب سینیٹر اور سابق مرکزی وزیر ملک رحمان میرا ہم مرتبہ کولیگ تھا، وہ میرا ہم شہر بھی ہے، میرے ایک دوست نے سیالکوٹ سے ایک شخص کو میرے پاس بھیجا کہ یہ نوجوان عمرہ کی سعادت حاصل کرنا چاہتا ہے لیکن اسے سعودی عرب کا ویزہ ملنے میں دشواری کا سامنا ہے۔

میں نے اس شخص کی شدید خواہش کے پیش نظر ایک خط ملک رحمان کے نام لکھ کر دیا کہ اس کی مدد کرو۔ وہ نوجوان ایک ہفتے کے بعد پھر میرے دفتر میں آکر ملا اور بولا کہ وہ اسی روز عمرہ کے لیے روانہ ہو رہا ہے اور ملنے اس لیے آیا ہے کہ شکریہ ادا کرے۔ اس نے کہا کہ عمرہ کے دوران وہ میرے اور ملک رحمان کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا بھی کرے گا۔

میں نے اس کو بٹھایا اور ویزہ ملنے کی تفصیل دریافت کی۔ اس نے بتایا کہ وہ راولپنڈی جا کر ملک صاحب سے ملا اور انھیں میرا خط دیا۔ انھوں نے اسے سعودی ایمبیسی کے ایک ملازم کا نام بتا کر اسے ملنے کے لیے کہا جب وہ ان کے دفتر سے نکلنے لگا تو رحمان ملک نے اسے روک کر پوچھا، تم کہاں ٹھہرو گے۔ اس نے کہا ، کسی ٹرک ہوٹل میں رات بسر کروں گا۔

ملک صاحب نے اپنے ڈرائیور کو بلاکر کہا اس شخص کو میرے فلیٹ پر لے جاؤ، رات وہیں ٹھہرے گا۔ صبح اسے سعودی ایمبیسی لے جانا فلاں شخص کو ویزے کے لیے کہہ دوں گا جب اسے ویزہ مل جائے تو پھر اسے بس اڈے پر چھوڑ آنا۔ مجھے یقین ہے اس شخص نے ہر سجدے میں میرے لیے اور خاص طور پر رحمان ملک کے لیے دعائیں کی ہوں گی۔

جن دنوں کا یہ واقعہ ہے ملک صاحب اوورسیز ایمپلائمنٹ کارپوریشن میں افسر تھے اور سعودیہ، لیبیا، دبئی، عراق و دیگر ممالک میں ملازمت کے لیے جانے والے پاکستانیوں کے معاملات دیکھتے تھے۔ اپنی سرکاری ملازمت کے دوران ملک صاحب نے ہزاروں افراد کو بیرون ملک مختلف ملازمتوں پر بھجوایا ہوگا لیکن ان کی ایک خوبی یہ رہی کہ وہ جو کام کرنے کا ارادہ کرلیں اسے سو فیصد نہیں دو سو فیصد تکمیل تک پہنچاتے ہیں۔ شاید ان کی یہی خوبی یا مہارت بینظیر بھٹو اور آصف علی زرداری سے قرب کا باعث رہی۔


پچاس ساٹھ سال قبل یورپ برطانیہ کے ہوائی اڈوں اور وہاں کی بندرگاہوں پر اترنے والے غیر ملکیوں کو وہیں داخلے کا ٹکٹ مل جاتا تھا، اس لیے برطانیہ اور ناروے وغیرہ میں لوگوںکی بڑی تعداد نقل مکانی کرتی رہی۔ ان افراد میں بیشتر کا تعلق گوجرانوالہ، سیالکوٹ، گجرات اور ان شہروں کے نواحی علاقوں سے تھا ۔ خود میرے کئی دوست جو میٹرک کا امتحان پاس نہ کرسکے تھے ڈنمارک پہنچ گئے تھے۔ اب ان کے بچے بھی وہاں صاحب اولاد ہیں۔

میرا سکول کا دوست منیر شیخ بھی مجھے پندرہ سال قبل ڈنمارک میں ملا ، اس نے تمام عرصہ فیکٹری میں مزدوری اور گراس کٹنگ کی لیکن اس کے بچے تعلیم یافتہ اور اچھی جگہ ملازمتیں کررہے ہیں۔ اسی طرح جب ناروے میں مقیم سابق پاکستانیوں نے جسٹس پاشا، بریگیڈیئر اعجاز شاہ اور مجھے اوسلو میں چودہ اگست کی تقریب پر ہوائی ٹکٹ بھجوا کر دعوت دی تو معلوم ہوا وہاں چالیس ہزار پاکستانی مقیم ہیں اور جس ہال میں تقریب کا اہتمام تھا اس میں پانچ ہزار سے زیادہ پاکستانی نارویجین جمع تھے۔ یہ بھی پندرہ سال پرانی بات ہے۔

اگرچہ پاکستان میں حالات پچاس ساٹھ سال جیسے نہیں رہے لیکن بدقسمتی سے اب بھی سب اچھا نہیں اور لوگ اب بھی روزگار اور بہتر لائف اسٹائل کے لیے سعودی عرب، امریکا، کینیڈا، گلف، یورپ، برطانیہ، آسٹریلیا اور دیگر کئی ممالک میں جائز و ناجائز طریقوں سے جانا چاہتے اور جا رہے ہیں۔ یہاں تک کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ خوش حال اور ہنر مند نوجوان بھی یہاں سے نکل بھاگنے کے طریقے تلاش کرتے پائے جاتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ کافی عرصہ سے پاکستانیوں کے لیے ترقی یافتہ ممالک کا ویزہ حاصل کرنے میں دشواریاں ہیں۔ بہت سے لوگ وزٹ ویزہ لے کر بیرون ملک جاتے اور Asylum کلیم کر لیتے جب کہ کئی نوجوان شادی کر کے بیرون ملک مقیم ہو رہے ہیں۔

نقل مکانی یا ہجرت انسانی فطرت اور بعض اوقات ضرورت رہی ہے اور اب تک نہ صرف پاکستان میں بلکہ ساری دنیا میں موجود ہے۔ انسان ہی کیا جانوروں میں بھی ضرورت کے تحت نقل مکانی ہوتی ہے۔ بیروزگاری، کم اجرت، غیر یقینی صورتحال، محرومی، عدم مساوات، عدم تحفظ، عزت نفس، خوراک، موسم، ماحول اور سہولیات کی عدم دستیابی کے علاوہ بھی کئی فیکٹر انسانی نقل مکانی، فرار اور ہجرت کا سبب بنتے ہیں۔

اس صورتحال سے ناجائز فائدہ حاصل کرنے کے لیے انسانی اسمگلر جال ڈالتے ہیں۔ گورنمنٹ کے لائسنس ہولڈر تو بیرون ملک سے حاصل کردہ ڈیمانڈ کے پیش نظر مطلوبہ اہلیت کے مطابق امیدواروں کا چناؤ کر کے OEC کے ذریعے اپنی جائز و ناجائز فیس وصول کرکے لوگوں کو بیرون ملک بھجواتے ہیں لیکن جو لوگ مطلوبہ معیار پر پورے نہیں اترتے اور ناکام ہو چکے ہوتے ہیں انسانی اسمگلروں کے جھانسے میں آ جاتے ہیں۔ ایسے لوگ اپنا گھر بار بیچ کر یا ادھار لے کر ادائیگی کرتے ہیں۔

ادھر انسانی اسمگلر نے اپنے بیس تیس یا پچاس مرغوں کو انتہائی Risky ذرائع سے ملک کی سرحد سے باہر نکالنا ہوتا ہے۔ لوگوں کو کشتیوں، کنٹینروں میں بھی بھجوایا گیا ہے۔ بے شمار اموات ہوئی ہیں، لوگ بیرون ملک داخلے پر پکڑے گئے ہیں لیکن یہ سلسلہ رک نہیں سکا۔ حکومت اس کھیل کو روکنے کے لیے سنجیدہ اقدام اٹھا رہی ہے۔ انسانی اسمگلنگ ایک طرف کوئی ہفتہ نہیں گزرتا کہ پاکستان کے ہوائی اڈے پر یا بیرون ملک پاکستانی مسافر کے سامان میں سے منشیات برآمد نہ ہوتی ہوں۔
Load Next Story