کوئی وزیر اعظم بنتے ہی عوام سے کٹ جاتا ہے
عوام کے ووٹوں سے منتخب شخص جب وزیر اعظم بن جاتا ہے تو وہ ایوان وزیر اعظم کے اندر قدم رکھتے ہی عوام سے کٹ جاتا ہے۔
KARACHI:
کوئی بھی شخص جب اقتدار کے ایوان میں داخل ہوتا ہے تو اس پر پہلا سانحہ یہ گزرتا ہے کہ وہ عوام سے کٹ جاتا ہے اور اس سے بھی بڑا سانحہ یہ کہ اسے اپنی اس تنہائی کا علم نہیں ہوتا اور وہ اسی لاعلمی کا شکار ہو جاتا ہے۔
اقتدار کے ایوان میں اس کے ارد گرد جو کاریگر لوگ جمع ہو جاتے ہیں وہ اسے یقین دلاتے رہتے ہیں کہ عوام اس کی پالیسیوں سے بہت خوش ہیں اور وہ اسی خوش فہمی میں رہتا ہے لیکن جب کبھی اس پر کوئی مشکل پڑتی ہے تو اس کے نورتن یہ بتاتے ہیں چند سازشی لوگ عوام کو گمراہ کر رہے ہیں، اس لیے ان کا سختی کے ساتھ محاسبہ ہونا چاہیے ۔
یہی وہ غلطی یا وہ وقت ہوتا ہے جب اس بے چارے بے خبر حکمران کا انجام شروع ہو جاتا ہے مگر اس وقت تک اس کے ارد گرد آہنی دیوار بننے اور بنانے والے ہنر مند لوگ اپنا کام کر چکے ہوتے ہیں اور ان کے پاس ذاتی مفادات کا انبار لگ چکا ہوتا ہے۔ آپ کبھی غور کریں کہ جب یہ کسی حکمران کے حواری بنتے ہیں تو ان کے پاس کیا کچھ تھا اور جب یہ باہر نکلتے ہیں تو ان کے پاس کیا کچھ ہوتا ہے اور یہ کس طرح نئی آب و تاب کے ساتھ اپنی زندگی کا دوبارہ سے آغاز کرتے ہیں۔
کچھ ایسی ہی صورتحال کا شکار ہمارے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف بھی ہوئے ہیں حالانکہ اقتدار کے یہ ایوان ان کے لیے نئے نہیں تھے بلکہ وہ ان ایوانوں سے اور یہ ایوان ان سے کئی بار آشنا رہ چکے تھے لیکن برا ہو اقتدار کے نشے کا اسی صورتحال کا شکار میاں نواز شریف بھی اپنے اقتدار کے شروع میں ہی ہو گئے اور یہ کمال ان لوگوں کا تھا جو ان کے آس پاس تھے اور ان کے گرد آہنی دیوار بنے ہوئے تھے۔
میاں نواز شریف کو ان ہی نادان مشیروں نے اس حالت تک پہنچایا جو اپنے حلووں مانڈوں میں لگے رہے اور ان کو سب اچھا کی رپورٹ دیتے رہے اور صرف وہی بات ان کے گوش گزار کی جاتی رہی جس کو سن کر میاں صاحب خوش رہے۔ میں نے کافی عرصہ ہوا ، ان کے ایک رتن سے کہا کہ میاں صاحب کو ان کی بھلائی میں فلاں بات کہہ دینا، اس رتن کا جواب تھا کہ میری تو یہ جرات نہیں جب ملاقات ہو آپ خود ہی یہ کہہ دیجیے گا۔
یہ وہ مشیر ہیں جن کے مشوروں نے میاں صاحب جیسے درددل رکھنے والے کو اس حال تک پہنچا یا ۔ شاید ہی کوئی ایسا مشیر وزیر ہو جو اپنی دانست میں درست بات کہنے کی نیت کے ساتھ حاضری دیتا ہو چنانچہ قوم کے بھاری مینڈیٹ کے ساتھ تیسری بار اقتدار میں آنے والے میاں صاحب اس وقت مشکلات میں گھر چکے ہیں جس کی ذمے داری خود ان پر ہی عائد ہو تی ہے کہ عوام کے ساتھ براہ راست رابطہ انھوں نے خود ہی ختم کر دیا۔ وہ صرف اسلام آباد سے مری یا جاتی عمرہ کے ہو کر رہ گئے اور وہاں پر بھی وہ لوگ موجود ہوتے جنھوں نے اپنی حاضری لگوانی ہوتی۔
انھوں نے لاہور میں اپنے حلقہ انتخاب کو بھی بھلا دیا اور جب ضرورت پڑی تو لاہوریوں نے ان کی صاحبزادی کی جانب سے یاد آوری پر لبیک کہتے ہوئے محترمہ کلثوم نواز کو کامیاب کرا دیا۔ اسلام آباد جہاں انھیں ہفتے میں چودہ دن رہنا چاہیے تھا اور جاگتے رہنے چاہیے تھا وہاں وہ کبھی سات دن بھی نہیں رہے۔ میاں صاحب کسی بھی ملک میں آتے جاتے لندن کو اپنے سفر میں ضرور شامل رکھتے تا کہ لندن کی خوبصورت شاموں میں آکسفورڈ اسٹریٹ پر اپنے پسندیدہ ریستوران میں کافی سے لطف اندوز ہو سکیں۔
وزیر اعظم کے گھر اور دفتر میں کیا ہوتا ہے، اس کا اندازہ آپ اس بات سے بھی کریں وزیر اعظم تک وزراء کی رسائی بھی اس وقت ہو سکتی ہے جب اس کی ان کو اجازت ملتی ہے یا طلبی ہوتی ہے۔ وزیر اعظم کا ملٹری سیکریٹری ملاقات کے خواہشمندوں کی خواہشوں کو کنٹرول کرتا ہے، وزیر اعظم تک جانے کا راستہ ملٹری سیکریٹری کے کمرے سے ہو کر گزرتا ہے۔
ایک عام ملاقاتی تو بیچارہ وہیں آدھ موا ہو جاتا ہے۔ وزیر اعظم کا روز مرہ کا پروگرام ملٹری سیکریٹری بناتا ہے اس کے علاوہ کوئی ایسا کامیاب طریقہ نہیں کہ کوئی عام آدمی وزیر اعظم تک پہنچ جائے۔ وزیر اعظم کے گرد حلقہ بنا کر رہنے والے لوگ کڑی نگاہوں سے اپنے حلقہ زنجیر کی حفاظت کرتے ہیں اور کسی ایسے آدمی کو داخل نہیں ہونے دیتے جو ان کے لیے خطرہ بن سکتا ہو۔
عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والا شخص جب وزیر اعظم بن جاتا ہے تو وہ ایوان وزیر اعظم کے اندر قدم رکھتے ہی عوام سے کٹ جاتا ہے۔ ہو سکتا ہے اس کی ایسی کوئی خواہش نہ ہو مگر اس ایوان کا جو دستور ہے اس کو بدلے بغیر وہ حکمران اپنی اس تنہائی اور عوام سے دوری اور جدائی کو ختم نہیں کر سکتا۔ عوام کے ساتھ رابطے کا ایک ذریعہ جو کسی حکمران کے رتنوں کے قابو میں نہیں آتا وہ ذرائع ابلاغ ہیں لیکن حکمرانوں کو میڈیا سے دور رکھنے کا بھی کسی ہنر مند نے ایک طریقہ ایجاد کر لیا اور وہ ہے میڈیا کے پروگراموں اور اخبارات کی سمری جس کو وزیر اعظم کی میز پر رکھ دیا جاتا ہے اور اس سمری میں وہی کچھ ہوتا ہے جو یہ ہنر مند لوگ صاحب کو پڑھانا چاہتے ہیں۔ صرف ضیاء الحق ایک ایسا حکمران تھا جو خود اخبارات پڑھتا تھا اور وہ سمری سے پہلے ہی تفصیل سے اخبارات کا مطالعہ کر چکے ہوتے تھے۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے ہم لوگ جو اپنی دانست میں وزیر اعظم کے سامنے کاغذی مشوروں کا انبار لگاتے رہتے ہیں، اطمینان رکھیں کہ یہ اخبار ردی کی ٹوکری میں پھینکا جاتا ہے۔ وزیر اعظم کو اس کی ہوا بھی نہیں لگنے دی جاتی۔
سابق وزیر اعظم کے ساتھ تو ایک اور ہاتھ بھی کیا گیا ہے وہ تمام اخبار نویس جو ان کی میڈیا ٹیم میں تھے یا ان کے ارد گرد اور ہم خیال تھے ان سب کو اقتدار ملنے کے بعد کسی سرکاری نوکری پر لگا دیا گیا یا بالواسطہ مراعات دے کر انھیں بدنام اور بے اعتماد کر دیا گیا۔ چنانچہ جب میاں صاحب کو اقتدار سے علیحدگی کے بعد ان کی ضرورت پڑی تو معلوم ہوا کہ وہ تو ختم کیے جا چکے ہیں۔
اول تو وہ اب لکھنے کے لائق نہیں رہے اور اگر لکھیں تو ان کی کوئی مانتا نہیں کہ ان پر سرکار کی مہر جلی حروف میں لگا دی گئی ہے۔ یہ تمام کارروائی میاں صاحب کی مرضی اور ان کے ہاتھ سے کی گئی ہے اور کسی ایسے طریقے سے کہ میاں صاحب کو یہ اندازہ ہی نہیں ہو سکا کہ وہ کیا کر رہے ہیں یا ان سے کیا کرایا جا رہا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ میڈیا میں ان کی حمایت یافتہ لابی غیر موثر ہو گئی ہے۔
کوئی اگر ملکی مفاد کے تحت میاں صاحب کی تعریف کر بھی دیتا ہے اور ان کے کسی اقدام کو مفید سمجھتا ہے تو یہ اس کی مہربانی ہے ورنہ میاں صاحب کی موجودہ میڈیا ٹیم بالکل بے بس ہے۔ بلکہ سچ بات کی جائے تو وہ اب میاں صاحب کے لیے میڈیا کی حمایت حاصل کرنے میں بوجوہ کوئی خاص دلچسپی بھی نہیں رکھتی۔ میاں صاحب کی تنہائی بڑھتی جا رہی ہے اور میڈیا مینیجرز کی وجہ سے یہ قصہ طویل ہوتا جا رہا ہے۔
کوئی بھی شخص جب اقتدار کے ایوان میں داخل ہوتا ہے تو اس پر پہلا سانحہ یہ گزرتا ہے کہ وہ عوام سے کٹ جاتا ہے اور اس سے بھی بڑا سانحہ یہ کہ اسے اپنی اس تنہائی کا علم نہیں ہوتا اور وہ اسی لاعلمی کا شکار ہو جاتا ہے۔
اقتدار کے ایوان میں اس کے ارد گرد جو کاریگر لوگ جمع ہو جاتے ہیں وہ اسے یقین دلاتے رہتے ہیں کہ عوام اس کی پالیسیوں سے بہت خوش ہیں اور وہ اسی خوش فہمی میں رہتا ہے لیکن جب کبھی اس پر کوئی مشکل پڑتی ہے تو اس کے نورتن یہ بتاتے ہیں چند سازشی لوگ عوام کو گمراہ کر رہے ہیں، اس لیے ان کا سختی کے ساتھ محاسبہ ہونا چاہیے ۔
یہی وہ غلطی یا وہ وقت ہوتا ہے جب اس بے چارے بے خبر حکمران کا انجام شروع ہو جاتا ہے مگر اس وقت تک اس کے ارد گرد آہنی دیوار بننے اور بنانے والے ہنر مند لوگ اپنا کام کر چکے ہوتے ہیں اور ان کے پاس ذاتی مفادات کا انبار لگ چکا ہوتا ہے۔ آپ کبھی غور کریں کہ جب یہ کسی حکمران کے حواری بنتے ہیں تو ان کے پاس کیا کچھ تھا اور جب یہ باہر نکلتے ہیں تو ان کے پاس کیا کچھ ہوتا ہے اور یہ کس طرح نئی آب و تاب کے ساتھ اپنی زندگی کا دوبارہ سے آغاز کرتے ہیں۔
کچھ ایسی ہی صورتحال کا شکار ہمارے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف بھی ہوئے ہیں حالانکہ اقتدار کے یہ ایوان ان کے لیے نئے نہیں تھے بلکہ وہ ان ایوانوں سے اور یہ ایوان ان سے کئی بار آشنا رہ چکے تھے لیکن برا ہو اقتدار کے نشے کا اسی صورتحال کا شکار میاں نواز شریف بھی اپنے اقتدار کے شروع میں ہی ہو گئے اور یہ کمال ان لوگوں کا تھا جو ان کے آس پاس تھے اور ان کے گرد آہنی دیوار بنے ہوئے تھے۔
میاں نواز شریف کو ان ہی نادان مشیروں نے اس حالت تک پہنچایا جو اپنے حلووں مانڈوں میں لگے رہے اور ان کو سب اچھا کی رپورٹ دیتے رہے اور صرف وہی بات ان کے گوش گزار کی جاتی رہی جس کو سن کر میاں صاحب خوش رہے۔ میں نے کافی عرصہ ہوا ، ان کے ایک رتن سے کہا کہ میاں صاحب کو ان کی بھلائی میں فلاں بات کہہ دینا، اس رتن کا جواب تھا کہ میری تو یہ جرات نہیں جب ملاقات ہو آپ خود ہی یہ کہہ دیجیے گا۔
یہ وہ مشیر ہیں جن کے مشوروں نے میاں صاحب جیسے درددل رکھنے والے کو اس حال تک پہنچا یا ۔ شاید ہی کوئی ایسا مشیر وزیر ہو جو اپنی دانست میں درست بات کہنے کی نیت کے ساتھ حاضری دیتا ہو چنانچہ قوم کے بھاری مینڈیٹ کے ساتھ تیسری بار اقتدار میں آنے والے میاں صاحب اس وقت مشکلات میں گھر چکے ہیں جس کی ذمے داری خود ان پر ہی عائد ہو تی ہے کہ عوام کے ساتھ براہ راست رابطہ انھوں نے خود ہی ختم کر دیا۔ وہ صرف اسلام آباد سے مری یا جاتی عمرہ کے ہو کر رہ گئے اور وہاں پر بھی وہ لوگ موجود ہوتے جنھوں نے اپنی حاضری لگوانی ہوتی۔
انھوں نے لاہور میں اپنے حلقہ انتخاب کو بھی بھلا دیا اور جب ضرورت پڑی تو لاہوریوں نے ان کی صاحبزادی کی جانب سے یاد آوری پر لبیک کہتے ہوئے محترمہ کلثوم نواز کو کامیاب کرا دیا۔ اسلام آباد جہاں انھیں ہفتے میں چودہ دن رہنا چاہیے تھا اور جاگتے رہنے چاہیے تھا وہاں وہ کبھی سات دن بھی نہیں رہے۔ میاں صاحب کسی بھی ملک میں آتے جاتے لندن کو اپنے سفر میں ضرور شامل رکھتے تا کہ لندن کی خوبصورت شاموں میں آکسفورڈ اسٹریٹ پر اپنے پسندیدہ ریستوران میں کافی سے لطف اندوز ہو سکیں۔
وزیر اعظم کے گھر اور دفتر میں کیا ہوتا ہے، اس کا اندازہ آپ اس بات سے بھی کریں وزیر اعظم تک وزراء کی رسائی بھی اس وقت ہو سکتی ہے جب اس کی ان کو اجازت ملتی ہے یا طلبی ہوتی ہے۔ وزیر اعظم کا ملٹری سیکریٹری ملاقات کے خواہشمندوں کی خواہشوں کو کنٹرول کرتا ہے، وزیر اعظم تک جانے کا راستہ ملٹری سیکریٹری کے کمرے سے ہو کر گزرتا ہے۔
ایک عام ملاقاتی تو بیچارہ وہیں آدھ موا ہو جاتا ہے۔ وزیر اعظم کا روز مرہ کا پروگرام ملٹری سیکریٹری بناتا ہے اس کے علاوہ کوئی ایسا کامیاب طریقہ نہیں کہ کوئی عام آدمی وزیر اعظم تک پہنچ جائے۔ وزیر اعظم کے گرد حلقہ بنا کر رہنے والے لوگ کڑی نگاہوں سے اپنے حلقہ زنجیر کی حفاظت کرتے ہیں اور کسی ایسے آدمی کو داخل نہیں ہونے دیتے جو ان کے لیے خطرہ بن سکتا ہو۔
عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والا شخص جب وزیر اعظم بن جاتا ہے تو وہ ایوان وزیر اعظم کے اندر قدم رکھتے ہی عوام سے کٹ جاتا ہے۔ ہو سکتا ہے اس کی ایسی کوئی خواہش نہ ہو مگر اس ایوان کا جو دستور ہے اس کو بدلے بغیر وہ حکمران اپنی اس تنہائی اور عوام سے دوری اور جدائی کو ختم نہیں کر سکتا۔ عوام کے ساتھ رابطے کا ایک ذریعہ جو کسی حکمران کے رتنوں کے قابو میں نہیں آتا وہ ذرائع ابلاغ ہیں لیکن حکمرانوں کو میڈیا سے دور رکھنے کا بھی کسی ہنر مند نے ایک طریقہ ایجاد کر لیا اور وہ ہے میڈیا کے پروگراموں اور اخبارات کی سمری جس کو وزیر اعظم کی میز پر رکھ دیا جاتا ہے اور اس سمری میں وہی کچھ ہوتا ہے جو یہ ہنر مند لوگ صاحب کو پڑھانا چاہتے ہیں۔ صرف ضیاء الحق ایک ایسا حکمران تھا جو خود اخبارات پڑھتا تھا اور وہ سمری سے پہلے ہی تفصیل سے اخبارات کا مطالعہ کر چکے ہوتے تھے۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے ہم لوگ جو اپنی دانست میں وزیر اعظم کے سامنے کاغذی مشوروں کا انبار لگاتے رہتے ہیں، اطمینان رکھیں کہ یہ اخبار ردی کی ٹوکری میں پھینکا جاتا ہے۔ وزیر اعظم کو اس کی ہوا بھی نہیں لگنے دی جاتی۔
سابق وزیر اعظم کے ساتھ تو ایک اور ہاتھ بھی کیا گیا ہے وہ تمام اخبار نویس جو ان کی میڈیا ٹیم میں تھے یا ان کے ارد گرد اور ہم خیال تھے ان سب کو اقتدار ملنے کے بعد کسی سرکاری نوکری پر لگا دیا گیا یا بالواسطہ مراعات دے کر انھیں بدنام اور بے اعتماد کر دیا گیا۔ چنانچہ جب میاں صاحب کو اقتدار سے علیحدگی کے بعد ان کی ضرورت پڑی تو معلوم ہوا کہ وہ تو ختم کیے جا چکے ہیں۔
اول تو وہ اب لکھنے کے لائق نہیں رہے اور اگر لکھیں تو ان کی کوئی مانتا نہیں کہ ان پر سرکار کی مہر جلی حروف میں لگا دی گئی ہے۔ یہ تمام کارروائی میاں صاحب کی مرضی اور ان کے ہاتھ سے کی گئی ہے اور کسی ایسے طریقے سے کہ میاں صاحب کو یہ اندازہ ہی نہیں ہو سکا کہ وہ کیا کر رہے ہیں یا ان سے کیا کرایا جا رہا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ میڈیا میں ان کی حمایت یافتہ لابی غیر موثر ہو گئی ہے۔
کوئی اگر ملکی مفاد کے تحت میاں صاحب کی تعریف کر بھی دیتا ہے اور ان کے کسی اقدام کو مفید سمجھتا ہے تو یہ اس کی مہربانی ہے ورنہ میاں صاحب کی موجودہ میڈیا ٹیم بالکل بے بس ہے۔ بلکہ سچ بات کی جائے تو وہ اب میاں صاحب کے لیے میڈیا کی حمایت حاصل کرنے میں بوجوہ کوئی خاص دلچسپی بھی نہیں رکھتی۔ میاں صاحب کی تنہائی بڑھتی جا رہی ہے اور میڈیا مینیجرز کی وجہ سے یہ قصہ طویل ہوتا جا رہا ہے۔