الیکشن امیدواروں کی سکروٹنی کئی اہم رہنما انتخابی عمل سے باہر
آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت انتخابی امیدواروں کی جانچ پڑتال کے عمل سے سیاستدان ایک آزمائش سے گزرے ہیں۔
عام انتخابات کا دوسرا ہم ترین مرحلہ مکمل ہو گیا ہے، کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کے دوران ملک کے کئی سرکردہ سیاستدان انتخابی عمل سے باہر ہو گئے ہیں۔
پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ انتخابی امیدواروں کی سکروٹنی کا انتہائی سخت طریقہ کار اختیار کیا گیا ہے، ریٹرننگ افسروں کی طرف سے امیدواروں سے پوچھے گئے سوالات پر سخت تنقید کی جا رہی ہے اور امیدواروں سے پوچھے گئے سوالات کا لاہور ہائی کورٹ نے نوٹس لیتے ہوئے ریٹرننگ افسروں کو ہدایات جاری کی ہیں کہ غیر ضروری سوالات امیدواروں سے نہ پوچھے جائیں، سابق وزیر اعظم پرویز اشرف کے کاغذات نامزدگی مسترد کر دیئے گئے ہیں جبکہ سابق صدر پرویز مشرف کے کاغذات نامزدگی چترال سے منظور کر لئے گئے ہیں۔
آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت انتخابی امیدواروں کی جانچ پڑتال کے عمل سے سیاستدان ایک آزمائش سے گزرے ہیں، بعض سیاسی جماعتوں کے قائدین نے موقف اختیار کیا ہے کہ آرٹیکل 62 اور 63 کی غلط تشریح کر کے بعض امیدواروں کے کاغذات نامزدگی مسترد کر دیئے گئے ہیں، ایک دلچسپ امر یہ ہے کہ بعض امیدواروں کے کاغذات نامزدگی ایک حلقے سے مسترد کر دیئے گئے جبکہ دوسرے حلقے میں کاغذات نامزدگی منظور کر لئے گئے، صدر آصف علی زرداری نے طویل خاموشی توڑتے ہوئے کہا ہے کہ ریٹرننگ افسروں اور الیکشن کمیشن کا رویہ نامناسب ہے غلط تاثر روکنے کیلئے مداخلت نہیں کی گئی ہے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے حکام کہہ رہے ہیں کہ انتخابات میں کامیابی کے بعد بھی اگر کوئی امیدوار نادہندہ ثابت ہوا تو اسے نااہل قرار دیا جائے گا، یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کا عمل انتخابات کے بعد بھی جاری رہے گا، قوم کے نمائندوں کے انتخاب کو شفاف بنانے کے لئے سکروٹنی کے عمل کی شفافیت حد درجہ ضروری ہے، انتخابات کے انعقاد میں اب زیادہ عرصہ نہیں رہا ہے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے تمام تر تیاریاں مکمل کر لی گئی ہیں الیکشن کمیشن کے حکام نے عام انتخابات کو شفاف، آزادانہ اور منصفانہ بنانے کی غرض سے تمام تر بیورو کریسی کو تبدیل کرنے کے احکامات دیئے ہیں، الیکشن کمیشن کے احکامات پر عملدرآمد نہیں کیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے موجودہ نگراں حکومت کے کرداراورغیر جانبداری پر سوالات اٹھنا شروع ہو گئے ہیں، نگراں حکومت میں شامل شخصیات نے بعض اہم عہدوں پر تعینات افسروں کو تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاہم عملدرآمد نہیں کیا گیا ہے، یہ پہلا موقع ہے کہ ملک بھر میں نگراں حکومتیں 20 ویں ترمیم کے تحت اور الیکشن کمیشن کی مرضی سے قائم کی گئی ہیں ، اب جبکہ نگراں حکومت کو بیورو کریسی کو تبدیل کرنے کے اختیارات تفویض کر دیئے گئے ہیں، ان احکامات پر عملدرآمد نہ ہونے سے ایک بے یقینی کی فضا پیدا ہو رہی ہے۔
پانچ روز گزرنے کے باوجود وزیر داخلہ کے احکامات پر اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی طرف سے عملدرآمد نہ کرنا سوالیہ نشان ہے۔ اگر اسلام آباد کی بیورو کریسی نے نگراں حکومت کے احکامات پر عملدرآمد نہیں کرنا ہے تو یہ بات ظاہر کر رہی ہے کہ ان بیورو کریٹس کو ایوان صدراسلام آباد اور سابق طاقتور وزراء کی مکمل تائید و حمایت حاصل ہے۔ نگراں وزیر اعظم میر ہزار خان کھوسو کے فعال نہ ہونے سے نگراں حکومت کی کارکردگی قابل تحسین نہیں ہے، بطور نگراں وزیر اعظم انہیں چاہئے کہ وہ اسلام آباد میں اہم عہدوں پر تعینات وفاقی سیکرٹریز کی اکھاڑ پچھاڑ کو ہر صورت یقینی بنائیں ورنہ نگراں وزراء بے بسی کی تصویر بنے رہیں گے اور عام انتخابات کی شفافیت پر بھی سوالات اٹھائے جائیں گے۔
نگراں وزیر اعظم نے ایک طرف نگراں وزیر داخلہ کو لاء اینڈ آرڈر کے حوالے سے مکمل مینڈیٹ دے رکھا ہے جبکہ دوسری طرف نگراں وزیر داخلہ کے احکامات کے راستے میں بیورو کریسی غیر ضروری رکاوٹیں ڈال رہی ہے۔ اس ساری صورتحال کا نگراں وزیر اعظم کو نوٹس لینا چاہئے، نگراں حکومت نے انتخابات کے دوران سیاستدانوں کو دہشت گردی کے واقعات اور خطرات کے پیش نظر سکیورٹی فراہم کرنے کے لئے ایک نیا ایس او پی جاری کیا ہے۔
وزارت داخلہ نے انٹیلی جنس رپورٹس کی روشنی میں یہ خدشہ ظاہر کیا ہے کہ بعض اہم اور بڑی سیاسی جماعتوں کے سرکردہ قائدین پر خودکش حملے ہو سکتے ہیں، ان خدشات کے پیش نظر ایسے سیاستدانوں سے کہا گیا ہے کہ وہ عوامی جلسوں، ریلیوں میں جانے سے گریز کریں، نگراں حکومت کے لئے اگر دیکھا جائے تو یہ سب سے اہم اور بڑا چیلنج ہے امن و امان کا قیام اور انتخابات کے دوران فضا کو ساز گار بنانے کے لئے حکومت پر یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ لاء اینڈ آرڈر کو ٹھیک کرنے کے لئے اہم نوعیت کے فیصلے کئے جائیں۔
پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ جعلی ڈگری رکھنے والے ارکان پارلیمنٹ کی بڑی تعداد نااہل ہو گئی ہے، بہت سارے ایسے سابق ارکان اسمبلی ہیں جنہوں نے گرفتاری کے ڈر سے اپنی اسناد ہائر ایجوکیشن کمیشن سے تصدیق کرانے کی زحمت گوارہ نہیں کی، یہ بھی پہلا موقع ہے کہ جعلی ڈگری کی پاداش میں سابق ارکان اسمبلی جیلوں میں جا چکے ہیں اس سارے عمل سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ قانون کی حکمرانی کا دور آ رہا ہے اور اب بااثر افراد بھی پہلی مرتبہ قانون کی گرفت میں آ رہے ہیں ورنہ پہلے تو اس ملک کا غریب آدمی ہی قانون کی گرفت میں آتا تھا۔
سابق صدر پرویز مشرف وطن واپس آ کر توقعات کے عین مطابق کئی مشکلات میں پھنس گئے ہیں، سپریم کورٹ نے ان پر غداری کا مقدمہ چلانے کا کیس سماعت کیلئے منظور کرنے کا تحریری حکم جاری کر دیا ہے، عدالت کے احکامات پر ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کر دیا گیا ہے، پرویز مشرف پر غداری کا مقدمہ بڑی اہمیت کا حامل ہے، سیاسی اور سفارتی حلقے اس اہم کیس میں گہری دلچسپی لے رہے ہیں۔
پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ انتخابی امیدواروں کی سکروٹنی کا انتہائی سخت طریقہ کار اختیار کیا گیا ہے، ریٹرننگ افسروں کی طرف سے امیدواروں سے پوچھے گئے سوالات پر سخت تنقید کی جا رہی ہے اور امیدواروں سے پوچھے گئے سوالات کا لاہور ہائی کورٹ نے نوٹس لیتے ہوئے ریٹرننگ افسروں کو ہدایات جاری کی ہیں کہ غیر ضروری سوالات امیدواروں سے نہ پوچھے جائیں، سابق وزیر اعظم پرویز اشرف کے کاغذات نامزدگی مسترد کر دیئے گئے ہیں جبکہ سابق صدر پرویز مشرف کے کاغذات نامزدگی چترال سے منظور کر لئے گئے ہیں۔
آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت انتخابی امیدواروں کی جانچ پڑتال کے عمل سے سیاستدان ایک آزمائش سے گزرے ہیں، بعض سیاسی جماعتوں کے قائدین نے موقف اختیار کیا ہے کہ آرٹیکل 62 اور 63 کی غلط تشریح کر کے بعض امیدواروں کے کاغذات نامزدگی مسترد کر دیئے گئے ہیں، ایک دلچسپ امر یہ ہے کہ بعض امیدواروں کے کاغذات نامزدگی ایک حلقے سے مسترد کر دیئے گئے جبکہ دوسرے حلقے میں کاغذات نامزدگی منظور کر لئے گئے، صدر آصف علی زرداری نے طویل خاموشی توڑتے ہوئے کہا ہے کہ ریٹرننگ افسروں اور الیکشن کمیشن کا رویہ نامناسب ہے غلط تاثر روکنے کیلئے مداخلت نہیں کی گئی ہے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے حکام کہہ رہے ہیں کہ انتخابات میں کامیابی کے بعد بھی اگر کوئی امیدوار نادہندہ ثابت ہوا تو اسے نااہل قرار دیا جائے گا، یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کا عمل انتخابات کے بعد بھی جاری رہے گا، قوم کے نمائندوں کے انتخاب کو شفاف بنانے کے لئے سکروٹنی کے عمل کی شفافیت حد درجہ ضروری ہے، انتخابات کے انعقاد میں اب زیادہ عرصہ نہیں رہا ہے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے تمام تر تیاریاں مکمل کر لی گئی ہیں الیکشن کمیشن کے حکام نے عام انتخابات کو شفاف، آزادانہ اور منصفانہ بنانے کی غرض سے تمام تر بیورو کریسی کو تبدیل کرنے کے احکامات دیئے ہیں، الیکشن کمیشن کے احکامات پر عملدرآمد نہیں کیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے موجودہ نگراں حکومت کے کرداراورغیر جانبداری پر سوالات اٹھنا شروع ہو گئے ہیں، نگراں حکومت میں شامل شخصیات نے بعض اہم عہدوں پر تعینات افسروں کو تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاہم عملدرآمد نہیں کیا گیا ہے، یہ پہلا موقع ہے کہ ملک بھر میں نگراں حکومتیں 20 ویں ترمیم کے تحت اور الیکشن کمیشن کی مرضی سے قائم کی گئی ہیں ، اب جبکہ نگراں حکومت کو بیورو کریسی کو تبدیل کرنے کے اختیارات تفویض کر دیئے گئے ہیں، ان احکامات پر عملدرآمد نہ ہونے سے ایک بے یقینی کی فضا پیدا ہو رہی ہے۔
پانچ روز گزرنے کے باوجود وزیر داخلہ کے احکامات پر اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی طرف سے عملدرآمد نہ کرنا سوالیہ نشان ہے۔ اگر اسلام آباد کی بیورو کریسی نے نگراں حکومت کے احکامات پر عملدرآمد نہیں کرنا ہے تو یہ بات ظاہر کر رہی ہے کہ ان بیورو کریٹس کو ایوان صدراسلام آباد اور سابق طاقتور وزراء کی مکمل تائید و حمایت حاصل ہے۔ نگراں وزیر اعظم میر ہزار خان کھوسو کے فعال نہ ہونے سے نگراں حکومت کی کارکردگی قابل تحسین نہیں ہے، بطور نگراں وزیر اعظم انہیں چاہئے کہ وہ اسلام آباد میں اہم عہدوں پر تعینات وفاقی سیکرٹریز کی اکھاڑ پچھاڑ کو ہر صورت یقینی بنائیں ورنہ نگراں وزراء بے بسی کی تصویر بنے رہیں گے اور عام انتخابات کی شفافیت پر بھی سوالات اٹھائے جائیں گے۔
نگراں وزیر اعظم نے ایک طرف نگراں وزیر داخلہ کو لاء اینڈ آرڈر کے حوالے سے مکمل مینڈیٹ دے رکھا ہے جبکہ دوسری طرف نگراں وزیر داخلہ کے احکامات کے راستے میں بیورو کریسی غیر ضروری رکاوٹیں ڈال رہی ہے۔ اس ساری صورتحال کا نگراں وزیر اعظم کو نوٹس لینا چاہئے، نگراں حکومت نے انتخابات کے دوران سیاستدانوں کو دہشت گردی کے واقعات اور خطرات کے پیش نظر سکیورٹی فراہم کرنے کے لئے ایک نیا ایس او پی جاری کیا ہے۔
وزارت داخلہ نے انٹیلی جنس رپورٹس کی روشنی میں یہ خدشہ ظاہر کیا ہے کہ بعض اہم اور بڑی سیاسی جماعتوں کے سرکردہ قائدین پر خودکش حملے ہو سکتے ہیں، ان خدشات کے پیش نظر ایسے سیاستدانوں سے کہا گیا ہے کہ وہ عوامی جلسوں، ریلیوں میں جانے سے گریز کریں، نگراں حکومت کے لئے اگر دیکھا جائے تو یہ سب سے اہم اور بڑا چیلنج ہے امن و امان کا قیام اور انتخابات کے دوران فضا کو ساز گار بنانے کے لئے حکومت پر یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ لاء اینڈ آرڈر کو ٹھیک کرنے کے لئے اہم نوعیت کے فیصلے کئے جائیں۔
پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ جعلی ڈگری رکھنے والے ارکان پارلیمنٹ کی بڑی تعداد نااہل ہو گئی ہے، بہت سارے ایسے سابق ارکان اسمبلی ہیں جنہوں نے گرفتاری کے ڈر سے اپنی اسناد ہائر ایجوکیشن کمیشن سے تصدیق کرانے کی زحمت گوارہ نہیں کی، یہ بھی پہلا موقع ہے کہ جعلی ڈگری کی پاداش میں سابق ارکان اسمبلی جیلوں میں جا چکے ہیں اس سارے عمل سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ قانون کی حکمرانی کا دور آ رہا ہے اور اب بااثر افراد بھی پہلی مرتبہ قانون کی گرفت میں آ رہے ہیں ورنہ پہلے تو اس ملک کا غریب آدمی ہی قانون کی گرفت میں آتا تھا۔
سابق صدر پرویز مشرف وطن واپس آ کر توقعات کے عین مطابق کئی مشکلات میں پھنس گئے ہیں، سپریم کورٹ نے ان پر غداری کا مقدمہ چلانے کا کیس سماعت کیلئے منظور کرنے کا تحریری حکم جاری کر دیا ہے، عدالت کے احکامات پر ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کر دیا گیا ہے، پرویز مشرف پر غداری کا مقدمہ بڑی اہمیت کا حامل ہے، سیاسی اور سفارتی حلقے اس اہم کیس میں گہری دلچسپی لے رہے ہیں۔