پاکستان کے اقتصادی حالات مزید خراب ہوئےمعاشی نمو کم ہوگی ایشیائی بینک
مالی وتوانائی کے شعبوں میں بہتری کاامکان ہے نہ ریونیو اہداف حاصل ہونگے.
ایشیائی ترقیاتی بینک نے کہا ہے کہ منتخب حکومت کی 5سالہ میعاد کے اختتام پر کسی بڑی پالیسی یا ڈھانچہ جاتی اصلاحات کے حوالے سے محدود سیاسی امکانات کے باعث مالی سال 2013 میں اقتصادی پیشرفت مالی سال 2012سے مماثل ہی رہے گی۔
تاہم غیرملکی زرمبادلہ ذخائر کے متعلق خدشات میں شدت آسکتی ہے، رواں مالی سال کی پہلی ششماہی میں پاکستان کی اقتصادی صورتحال مزید کمزور ہوگئی ہے، سرکاری زرمبادلہ ذخائر میں نمایاں کمی ہوئی جبکہ جنوری میں فود اور عمومی انفلیشن دونوں میں اضافہ ہوا جبکہ برآمدات جمود کا شکار ہیں اور درآمدات بھی سکڑ رہی ہیں۔
گزشتہ روز جاری ایشین ڈیولپمنٹ آؤٹ لک نامی رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال پاکستان کی معاشی ترقی کی رفتار 0.1 فیصد کمی سے 3.6 فیصد رہنے کی امید ہے جو مالی سال2014 میں مزید کم ہو کر 3.5 فیصد ہو جائے گی، 2012 میںگروتھ ریٹ 3.7 فیصد رہا تھا جبکہ زرعی پیداوار میں کمی کے باعث گروتھ ریٹ مزید گرنے کاخدشہ ہے مگر زرعی پیداوار میں کمی کے اثرات پہلی ششماہی میں بڑے پیمانے کی صنعتوں (ایل ایس ایم) کی کارکردگی میں بہتری سے زائل ہوسکتے ہیں، پٹرولیم مصنوعات، آئرن و اسٹیل کی پیداوار میں اضافہ ہوا ہے ۔
تاہم ٹیکسٹائل اور خوراک کے شعبوں کی نمو معمولی رہی ہے اور یہی شعبے ایل ایس ایم اور برآمدات میں بڑے حصے کے حامل ہیں۔ ایشیائی بینک کا کہنا ہے کہ پیداواری شعبے کی کارگردگی کا دارومدار موسم گرما میں بجلی کی محدود فراہمی پر ہوگا جب طلب اپنی انتہا کو پہنچ جاتی ہے تاہم توانائی کی رسد یا سرمایہ کاری میں بہتری کا امکان انتہائی کم ہے۔ رپورٹ کے مطابق سی پی آئی کی بنیاد پر افراط زر کی شرح میں رواں مالی سال کے ابتدائی 8ماہ کے دوران کمی کا رجحان رہا ہے۔
جس کی بڑی وجہ فوڈ انفلیشن میں کمی ہے ،فروری 2013 میںخوراک مہنگی ہونے کے باعث افراط زر کی شرح 7.4 فیصد رہی تاہم رواں مالی سال مجموعی طور پر فوڈ انفلیشن سپلائی میں بہتری کے باعث 2012 سے کافی کم رہی ہے، خوراک اور توانائی کی قیمتوں میں سست رو اضافے کے باعث مالی سال 2013 کے دوران افراط زر کی شرح اوسطاً9فیصد رہنے کی امید ہے جو مالی سال 2012 سے 2فیصد کم ہے۔ رپورٹ کے مطابق مالی سال 2014 میں بھی مالی وتوانائی کے عدم توازن میں کسی بہتری کا امکان نہیں۔
تاہم مہنگائی کی شرح بڑھ کر 9.5فیصد پر پہنچ سکتی ہے۔ ایشیائی بینک نے کہاکہ مرکزی بینک کی جانب سے شرح سود میں کی گئی 250 بیسس پوائنٹس کمی کے سرمایہ کاری و کاروبار پر اثرات توانائی کے بحران و بدامنی جیسی دیگر بے یقینیوں کے باعث محدود ہو گئے، رواں سال کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ جی ڈی پی کے 0.8فیصد تک رہنے کا خدشہ ہے،برآمدات میں سست رو اضافہ ٹیکسٹائل ایکسپورٹ میں 2.7فیصد کمی کا نتیجہ ہے جو توانائی کی قلت، پیداواری اہداف پورے کرنے میںمشکلات اور کمزور عالمی طلب کی عکاسی ہے۔
رپورٹ کے مطابق سرکاری زرمبادلہ ذخائر میں مزید کمی ہوئی ہے اور وہ جون 2012 میں 10.8ارب ڈالر سے کم ہو کر فروری2013 میں 7.9 ارب ڈالر رہ گئے جس کی بڑی وجہ آئی ایم ایف سمیت دیگر قرض ادائیگیاں، کم فنانشل انفلوز ہے، زرمبادلہ ذخائر کا 2ماہ کی درآمدات کی مالیت سے کم ہونا بیرونی شعبے کی پائیداری کے متعلق خدشات کو ابھار رہا ہے، آئی ایم ایف کو رواں مالی سال کے اختتام تک مزید 1.7اور آئندہ مالی سال 3.2ارب ڈالر کی ادائیگیوں کے باعث زرمبادلہ زخائر پر دباؤ برقرار رہنے کا امکان ہے۔
رواں مالی سال کے ابتدائی 8ماہ میں فورٹ فولیوانویسٹمنٹ میں اضافے کے باوجود فنانشل اکاؤنٹ خسارے میں رہا جس کی بڑی وجہ براہ راست بیرونی سرمایہ کاری پر طاری جمود ہے،اس دوران روپے کی قدر میں 4فیصد کمی ہوئی، کمزور برآمدات، سست رو معاشی نمو اور خام تیل کی مستحکم قیمتوں کے باعث آئندہ مالی سال کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھ کر جی ڈی پی کے0.9فیصد پرپہنچ سکتا ہے جبکہ کمزور کیپٹل انفلوز اور آئی ایم ایف سمیت دیگر قرض ادائیگیوں کے باعث سرکاری زرمبادلہ ذخائر اور ایکسچینج ریٹ پر دباؤ برقرار رہے گا۔
رپورٹ کے مطابق مالی سال 2013 کے بجٹ میں اعلان کردہ ریونیو اہداف حاصل ہونے کا امکان نہیں کیونکہ مالی سال کی پہلی ششماہی میں ٹیکس وصولیوں میں صرف 12 فیصد اضافہ ہوا ہے جوبجٹ اہداف حاصل کرنے کیلیے درکار 23.7 فیصد کے اضافے سے کہیں کم ہے۔ ایشیائی بینک نے کہاکہ سود کی ادائیگیاں اور سبسڈی اورپاور سیکٹر کے واجبات مزید بڑھنے کا امکان ہے، سبسڈیز 120ارب روپے کے ہدف سے بڑھ چکی ہیں اور 200ارب روپے تک پہنچ سکتی ہیں، بجٹ خسارہ پہلی ششماہی میں جی ڈی پی کا 2.5فیصد رہا۔
مالیایت توازن کے سہ ماہی رجحانات کو دیکھتے ہوئے رواں مالی سال کے اختتام تک بجٹ خسارہ 4.7 فیصد کے ہدف سے تجاوز کرتے ہوئے 7سے 7.5فیصد تک پہنچ جائے گا جس میں پاور سیکٹر کے بقایاجات شامل نہیں۔ رپورٹ میں کہاگیا کہ حکومت نے ایک بار پھر اسٹیٹ بینک آف پاکستان ایکٹ کی خلاف ورزی کی اور دوسرہ سہ ماہی میںمرکزی بینک سے بجٹ اخراجات کیلیے 183ارب روپے کاقرض لیا جبکہ کمرشل بینکوں سے بڑے پیمانے پر قرضے لینے کے باعث مرکزی بینک کو بینکاری نظام میں ہفتہ وار بنیادوں پر سرمائے کی فراہمی کرنا پڑ رہی ہے، افراط زر سے نمٹنے کیلیے اس رجحان کو روکنا ہوگا۔
تاہم غیرملکی زرمبادلہ ذخائر کے متعلق خدشات میں شدت آسکتی ہے، رواں مالی سال کی پہلی ششماہی میں پاکستان کی اقتصادی صورتحال مزید کمزور ہوگئی ہے، سرکاری زرمبادلہ ذخائر میں نمایاں کمی ہوئی جبکہ جنوری میں فود اور عمومی انفلیشن دونوں میں اضافہ ہوا جبکہ برآمدات جمود کا شکار ہیں اور درآمدات بھی سکڑ رہی ہیں۔
گزشتہ روز جاری ایشین ڈیولپمنٹ آؤٹ لک نامی رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال پاکستان کی معاشی ترقی کی رفتار 0.1 فیصد کمی سے 3.6 فیصد رہنے کی امید ہے جو مالی سال2014 میں مزید کم ہو کر 3.5 فیصد ہو جائے گی، 2012 میںگروتھ ریٹ 3.7 فیصد رہا تھا جبکہ زرعی پیداوار میں کمی کے باعث گروتھ ریٹ مزید گرنے کاخدشہ ہے مگر زرعی پیداوار میں کمی کے اثرات پہلی ششماہی میں بڑے پیمانے کی صنعتوں (ایل ایس ایم) کی کارکردگی میں بہتری سے زائل ہوسکتے ہیں، پٹرولیم مصنوعات، آئرن و اسٹیل کی پیداوار میں اضافہ ہوا ہے ۔
تاہم ٹیکسٹائل اور خوراک کے شعبوں کی نمو معمولی رہی ہے اور یہی شعبے ایل ایس ایم اور برآمدات میں بڑے حصے کے حامل ہیں۔ ایشیائی بینک کا کہنا ہے کہ پیداواری شعبے کی کارگردگی کا دارومدار موسم گرما میں بجلی کی محدود فراہمی پر ہوگا جب طلب اپنی انتہا کو پہنچ جاتی ہے تاہم توانائی کی رسد یا سرمایہ کاری میں بہتری کا امکان انتہائی کم ہے۔ رپورٹ کے مطابق سی پی آئی کی بنیاد پر افراط زر کی شرح میں رواں مالی سال کے ابتدائی 8ماہ کے دوران کمی کا رجحان رہا ہے۔
جس کی بڑی وجہ فوڈ انفلیشن میں کمی ہے ،فروری 2013 میںخوراک مہنگی ہونے کے باعث افراط زر کی شرح 7.4 فیصد رہی تاہم رواں مالی سال مجموعی طور پر فوڈ انفلیشن سپلائی میں بہتری کے باعث 2012 سے کافی کم رہی ہے، خوراک اور توانائی کی قیمتوں میں سست رو اضافے کے باعث مالی سال 2013 کے دوران افراط زر کی شرح اوسطاً9فیصد رہنے کی امید ہے جو مالی سال 2012 سے 2فیصد کم ہے۔ رپورٹ کے مطابق مالی سال 2014 میں بھی مالی وتوانائی کے عدم توازن میں کسی بہتری کا امکان نہیں۔
تاہم مہنگائی کی شرح بڑھ کر 9.5فیصد پر پہنچ سکتی ہے۔ ایشیائی بینک نے کہاکہ مرکزی بینک کی جانب سے شرح سود میں کی گئی 250 بیسس پوائنٹس کمی کے سرمایہ کاری و کاروبار پر اثرات توانائی کے بحران و بدامنی جیسی دیگر بے یقینیوں کے باعث محدود ہو گئے، رواں سال کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ جی ڈی پی کے 0.8فیصد تک رہنے کا خدشہ ہے،برآمدات میں سست رو اضافہ ٹیکسٹائل ایکسپورٹ میں 2.7فیصد کمی کا نتیجہ ہے جو توانائی کی قلت، پیداواری اہداف پورے کرنے میںمشکلات اور کمزور عالمی طلب کی عکاسی ہے۔
رپورٹ کے مطابق سرکاری زرمبادلہ ذخائر میں مزید کمی ہوئی ہے اور وہ جون 2012 میں 10.8ارب ڈالر سے کم ہو کر فروری2013 میں 7.9 ارب ڈالر رہ گئے جس کی بڑی وجہ آئی ایم ایف سمیت دیگر قرض ادائیگیاں، کم فنانشل انفلوز ہے، زرمبادلہ ذخائر کا 2ماہ کی درآمدات کی مالیت سے کم ہونا بیرونی شعبے کی پائیداری کے متعلق خدشات کو ابھار رہا ہے، آئی ایم ایف کو رواں مالی سال کے اختتام تک مزید 1.7اور آئندہ مالی سال 3.2ارب ڈالر کی ادائیگیوں کے باعث زرمبادلہ زخائر پر دباؤ برقرار رہنے کا امکان ہے۔
رواں مالی سال کے ابتدائی 8ماہ میں فورٹ فولیوانویسٹمنٹ میں اضافے کے باوجود فنانشل اکاؤنٹ خسارے میں رہا جس کی بڑی وجہ براہ راست بیرونی سرمایہ کاری پر طاری جمود ہے،اس دوران روپے کی قدر میں 4فیصد کمی ہوئی، کمزور برآمدات، سست رو معاشی نمو اور خام تیل کی مستحکم قیمتوں کے باعث آئندہ مالی سال کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھ کر جی ڈی پی کے0.9فیصد پرپہنچ سکتا ہے جبکہ کمزور کیپٹل انفلوز اور آئی ایم ایف سمیت دیگر قرض ادائیگیوں کے باعث سرکاری زرمبادلہ ذخائر اور ایکسچینج ریٹ پر دباؤ برقرار رہے گا۔
رپورٹ کے مطابق مالی سال 2013 کے بجٹ میں اعلان کردہ ریونیو اہداف حاصل ہونے کا امکان نہیں کیونکہ مالی سال کی پہلی ششماہی میں ٹیکس وصولیوں میں صرف 12 فیصد اضافہ ہوا ہے جوبجٹ اہداف حاصل کرنے کیلیے درکار 23.7 فیصد کے اضافے سے کہیں کم ہے۔ ایشیائی بینک نے کہاکہ سود کی ادائیگیاں اور سبسڈی اورپاور سیکٹر کے واجبات مزید بڑھنے کا امکان ہے، سبسڈیز 120ارب روپے کے ہدف سے بڑھ چکی ہیں اور 200ارب روپے تک پہنچ سکتی ہیں، بجٹ خسارہ پہلی ششماہی میں جی ڈی پی کا 2.5فیصد رہا۔
مالیایت توازن کے سہ ماہی رجحانات کو دیکھتے ہوئے رواں مالی سال کے اختتام تک بجٹ خسارہ 4.7 فیصد کے ہدف سے تجاوز کرتے ہوئے 7سے 7.5فیصد تک پہنچ جائے گا جس میں پاور سیکٹر کے بقایاجات شامل نہیں۔ رپورٹ میں کہاگیا کہ حکومت نے ایک بار پھر اسٹیٹ بینک آف پاکستان ایکٹ کی خلاف ورزی کی اور دوسرہ سہ ماہی میںمرکزی بینک سے بجٹ اخراجات کیلیے 183ارب روپے کاقرض لیا جبکہ کمرشل بینکوں سے بڑے پیمانے پر قرضے لینے کے باعث مرکزی بینک کو بینکاری نظام میں ہفتہ وار بنیادوں پر سرمائے کی فراہمی کرنا پڑ رہی ہے، افراط زر سے نمٹنے کیلیے اس رجحان کو روکنا ہوگا۔