معاشی خود کفالت کی منزل
ملک قرضوں کے جال میں جکڑا ہوا ہے اور ہر پاکستانی محاورتاً نہیں عملاً مقروض ہے۔
نگراں وزیراعظم میر ہزار خان کھوسو نے وزارت خزانہ کو ہدایت کی ہے کہ ملکی معاشی صورت حال بہتر بنانے کے لیے موجودہ وسائل کا بہتر استعمال یقینی بنایا جائے، بیرونی قرضوں پر انحصار کی پالیسی کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔ ملک میں وسائل کی کمی نہیں ،سرمایہ کاروں کو محفوظ اور ساز گار حالات جب کہ مقامی صنعتوں کو بہتر سہولیات کی فراہمی سے معاشی پہیے کو تیز کیا جا سکتا ہے۔
ٹیکس کے نظام کو وسعت دی جائے، اندرونی و بیرونی قرضوں پر انحصار بتدریج ختم کیا جائے۔ نیب کی طرف سے دی گئی بریفنگ میں میر ہزار کھوسو نے کہا نیب کا ملک میں بدعنوانی کے خاتمے میں اہم کردار ہے۔ نگراں وزیراعظم نے ملک میں بڑھتے ہوئے بجلی بحران کا نوٹس لیتے ہوئے وزارت پانی وبجلی سے اس سلسلے میں رپورٹ طلب کر لی ہے۔ ملکی معیشت اور اقتصادیات کے استحکام کے بغیر کوئی سیاسی اور جمہوری نظام عوامی خوشحالی اور قومی وقار کی سربلندی کا ذریعہ نہیں بن سکتا، ملک انتخابی عمل کے مرحلے سے گزر رہا ہے اور اس عبوری دورانیے میں ملکی معیشت کی تنظیم بے حد ضروری ہے۔
اس اعتبار سے وزیراعظم نے بند ہونے والے بجلی گھروں کو فوری طور پر چالوکرنے کی ہدایت بروقت دی ہے ، جن کی بندش کے باعث ملک کے بعض حصوں میں لوڈشیڈنگ کادورانیہ 20گھنٹے تک پہنچ گیا ہے۔ لوڈشیڈنگ کی وجہ سے گزشتہ پانچ برس میں عوام زندگی کے اذیت ناک تجربات سے دوچار ہوئے۔ ایک ایٹمی ملک میں پٹرول ،ڈیزل، خام تیل ،بجلی،گیس،سی این جی حتیٰ کہ مٹی کے تیل تک کی قیمتوں کا شہریوں کی پہنچ سے دور ہونا تعجب انگیز ہی نہیں افسوس ناک ہی ہے۔ اس سے اقتصادی نظام میں مضمر خرابیوں کی نشادہی ہوتی ہے۔ دوسری جانب وفاقی وز یر پانی وبجلی ڈاکٹرمصدق ملک نے اپنے ایک بیان میں دعویٰ کیاکہ بجلی کے شارٹ فال پر قابو پا لیا گیا ہے۔
سسٹم میں 15سومیگاواٹ بجلی شامل کرنے کے بعداب طلب اور رسد میں فرق ختم ہو گیا ہے، لیکن اس کا یقین لوگ تب کریں گے جب بجلی معمول کے مطابق انھیں ملے گی۔ پیرکوبجلی کی پیداوار 9200میگاواٹ رہی۔ حکمراں بجلی کی پیداوار ،تقسیم اور سسٹم میں بجلی کے ضیاع کے مسائل کا ڈھنڈورا ہی پیٹتے رہے جب کہ عوام تاریکیوں میںگم رہے۔ ملک میں جاری لوڈ شیڈنگ کے عذاب بھی کم نہیں پنجاب سب سے زیادہ ستم رسیدہ ہے جب کہ سندھ،بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے عوام بھی لوڈ شیڈنگ سے بری طرح متاثر ہیں۔حکومت ٹیکسٹائل انڈسٹری کو 24گھنٹے بجلی فراہم کرے، روزانہ چھ گھنٹے کی لوڈشیڈنگ سے انڈسٹری بند،بیروزگاری میں اضافہ اوربرآمدات میں کمی ہوجائیگی۔
ہفتے میں چاردن ایندھن غائب ۔ انڈسڑی پہلے ہی شدید بحران کا شکار ہے ۔ آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن کے چیئرمین احسن بشیر نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آپٹما ڈیڑھ کروڑ افراد کو براہ راست روزگار فراہم کررہاہے۔روزانہ شام 6 سے رات 12بجے تک بجلی کی بندش سے ٹیکسٹائل انڈسٹری کے بیشتر یونٹس نے اپنی ایک شفٹ بند کردی ہے اس طرح ٹیکسٹائل انڈسڑی سے وابستہ ایک تہائی افراد کاروزگار خطرے میں پڑ گیا ہے اور برآمدات بھی شدید متاثر ہو نگی ۔ادھر ستم بالائے ستم ڈسٹری بیوشن کمپنیوں نے چیئرمین واپڈا کی طرف سے غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے احکامات ہوا میں اڑا دیے.
دورانیہ کم ہونے کے بجائے مزید بڑھ گیا۔ بجلی کی پیداور کی شرح نیچے گرتے گرتے سات ہزار میگاواٹ تک جاپہنچی، واپڈا کی طرف سے طلب او ررسد میں جو فرق ظاہر کیا جارہا ہے حقائق کے مطابق وہ کہیں زیادہ ہے۔گزشتہ روز بھی بجی کی غیراعلانیہ لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ شہری علاقوں میں 14سے 16جب کہ دیہی علاقوںمیں یہ دورانیہ 18سے 20گھنٹے ریکارڈ کیا گیا ۔مزاید برآں ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کی طرف سے چیئرمین واپڈا کی واضح ہدایات کے باوجود غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کے لیے عملی اقدامات نہیں اٹھائے جاسکے جب کہ لوڈمینجمنٹ شیڈول بھی مرتب نہیں کیا جا سکا۔
طلب و رسد میں 60فیصد تک کا فرق آچکا ہے جب کہ واپڈا کے جاری کردہاعداد و شمار کے مطابق بجلی کی پیداوار 9ہزار100 میگاواٹ،طلب 12 ہزار6 سو میگاواٹ ، جب کہ شارٹ فال 3 ہزار500 میگاواٹ رہا۔وزیراعظم کو بجلی کے مسئلہ کو اولین ترجیح دینا ہوگی۔دوسرا اہم مسئلہ قرضوں کا ہے ۔وزیراعظم نے اندرونی و بیرونی قرضوں پر انحصار کے خاتمہ کی جو بات کی اسے بنیادی اقتصادی پیرا ڈائم شفٹ ہونا چاہیے، حکومت خود کفالت کا کلچر متعارف کرائے ، شاہ خرچیاں ختم کی جائیں۔ سادگی اختیار کی جائے۔ جاتے جاتے خانہ بر انداز چمن نے سابق اراکین قومی و صوبائی اسمبلی پر مراعات کے جو گل اور برگ وثمر پھینکے ہیں میڈیا نے اس کی اچھی تصویر کشی ہے۔ اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کے لیے غیر ملکی قرضوں اور دھڑادھڑ نوٹ چھاپ کر معاشی گاڑی کو دھکا دینے سے اب کام نہیں چلے گا۔
یہی وجہ ہے کہ ملک قرضوں کے جال میں جکڑا ہوا ہے اور ہر پاکستانی محاورتاً نہیں عملاً مقروض ہے۔ اگرچہ عالمی مالیاتی فنڈ سے پاکستان تین سال کے لیے 5 ارب ڈالر کا قرض لے سکتا ہے، جس سے بیرونی سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوگا۔امکان یہ ہے کہ نئی حکومت ستمبر تک نئے قرض کے حصول کا فیصلہ کرسکتی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق امن و امان کی خراب صورتحال کے باعث الیکشن موخر ہونے سے معاشی مسائل بڑھ سکتے ہیں۔ سیاسی بے یقینی کے باعث ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر کم ہوئی ہے۔ رواں جون میں ایک ڈالر 101 روپے اور دسمبر تک 105 روپے تک ہونے کا خدشہ ہے۔
آئی ایم ایف کے نمایندے نے کہا کہ نگراں حکومت کونیاقرضہ دینے کے لیے تیار ہیں، تاہم اس کے لیے حکومت کے پاس بہتر اقتصادی ایجنڈا اور کچھ اقدامات کرناہوں گے۔ پاکستان کی طرف سے التواء ہوا تونئے قرضے پر بات چیت آیندہ حکومت تک چلی جائے گی۔ توانائی، ٹیکس، اخراجات، سرمایہ کاری، سرکاری اداروں اور سماجی شعبے پر مر بوط اقتصادی اصلاحات ضروری ہیں۔ 21اپریل تک سالانہ اسپرنگ اجلاس واشنگٹن میں ہو گا۔ اس کے فوری بعد وفد آ سکے گا ، تاہم یہ امر خوش آیند ہے کہ آئی ایم ایف کے مطابق اس وقت معاشی صورتحال میں کچھ مثبت نکات بھی ہیں، بیرونی ادائیگیاں بہتر ،افراط زر کم ہوئی اور روپیہ مستحکم ہے ،اس وقت سب سے بڑا مسئلہ زرمبادلہ کے ذخائر میں بہتری اور بیرونی ادائیگیوں میں توازن لانا ہے تا ہم جمہوری عمل مسلسل چل رہا ہے جو مثبت عمل ہے۔
عملی طور پر حکومت کو کثیر جہتی اقتصادی پالیسیوں میں عوام کی فلاح و بہبود کو مد نظر رکھنا چاہیے۔ واضح رہے عالمی معیشت کو 2012کے دوران صومالی قزاقوں کی کارروائیوں کی بھاری قیمت چکانا پڑی، قزاقی کے خطرے کے پیش نظر خطرناک بحری راستوں پر اضافی سیکیورٹی اخراجات ، انشورنس اور تاوان کی ادائیگی سمیت جہازوں کو تیز رفتاری کے ساتھ قزاقوں کے نرغے سے نکالنے اور دیگر اخراجات پر مجموعی طور پر 6ارب ڈالر خرچ کرنا پڑے۔
پاکستانی بحری جہازوں کو بھی گزشتہ چند سالوں میں متعدد بار تاوان دے کر یا اذیتیں اٹھاکر اپنے اور دیگر ملکوں کے کپتان ، ملاحوں اور شہریوں کو بازیاب کرنے میں عالمی اور ملکی مدد لینا پڑی۔ اس وقت ضرورت اقتصادی نظام کو عوام دوست بنیادوں پر تعمیر کرنے کی ہے تاکہ عدم مساوات ،دولت کاچند ہاتھوں میں ارتکاز، مہنگائی، بیروزگاری اور جرائم کا خاتمہ ہو، غربت کو جڑ سے اکھاڑنے کا عزم کیا جائے۔میرٹ پر عمل جب کہ کرپش کا ہر راستہ بند ہونا چاہیے۔اسی طرح قومی و معاشی خود کفالت کی منزل مل سکتی ہے۔
ٹیکس کے نظام کو وسعت دی جائے، اندرونی و بیرونی قرضوں پر انحصار بتدریج ختم کیا جائے۔ نیب کی طرف سے دی گئی بریفنگ میں میر ہزار کھوسو نے کہا نیب کا ملک میں بدعنوانی کے خاتمے میں اہم کردار ہے۔ نگراں وزیراعظم نے ملک میں بڑھتے ہوئے بجلی بحران کا نوٹس لیتے ہوئے وزارت پانی وبجلی سے اس سلسلے میں رپورٹ طلب کر لی ہے۔ ملکی معیشت اور اقتصادیات کے استحکام کے بغیر کوئی سیاسی اور جمہوری نظام عوامی خوشحالی اور قومی وقار کی سربلندی کا ذریعہ نہیں بن سکتا، ملک انتخابی عمل کے مرحلے سے گزر رہا ہے اور اس عبوری دورانیے میں ملکی معیشت کی تنظیم بے حد ضروری ہے۔
اس اعتبار سے وزیراعظم نے بند ہونے والے بجلی گھروں کو فوری طور پر چالوکرنے کی ہدایت بروقت دی ہے ، جن کی بندش کے باعث ملک کے بعض حصوں میں لوڈشیڈنگ کادورانیہ 20گھنٹے تک پہنچ گیا ہے۔ لوڈشیڈنگ کی وجہ سے گزشتہ پانچ برس میں عوام زندگی کے اذیت ناک تجربات سے دوچار ہوئے۔ ایک ایٹمی ملک میں پٹرول ،ڈیزل، خام تیل ،بجلی،گیس،سی این جی حتیٰ کہ مٹی کے تیل تک کی قیمتوں کا شہریوں کی پہنچ سے دور ہونا تعجب انگیز ہی نہیں افسوس ناک ہی ہے۔ اس سے اقتصادی نظام میں مضمر خرابیوں کی نشادہی ہوتی ہے۔ دوسری جانب وفاقی وز یر پانی وبجلی ڈاکٹرمصدق ملک نے اپنے ایک بیان میں دعویٰ کیاکہ بجلی کے شارٹ فال پر قابو پا لیا گیا ہے۔
سسٹم میں 15سومیگاواٹ بجلی شامل کرنے کے بعداب طلب اور رسد میں فرق ختم ہو گیا ہے، لیکن اس کا یقین لوگ تب کریں گے جب بجلی معمول کے مطابق انھیں ملے گی۔ پیرکوبجلی کی پیداوار 9200میگاواٹ رہی۔ حکمراں بجلی کی پیداوار ،تقسیم اور سسٹم میں بجلی کے ضیاع کے مسائل کا ڈھنڈورا ہی پیٹتے رہے جب کہ عوام تاریکیوں میںگم رہے۔ ملک میں جاری لوڈ شیڈنگ کے عذاب بھی کم نہیں پنجاب سب سے زیادہ ستم رسیدہ ہے جب کہ سندھ،بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے عوام بھی لوڈ شیڈنگ سے بری طرح متاثر ہیں۔حکومت ٹیکسٹائل انڈسٹری کو 24گھنٹے بجلی فراہم کرے، روزانہ چھ گھنٹے کی لوڈشیڈنگ سے انڈسٹری بند،بیروزگاری میں اضافہ اوربرآمدات میں کمی ہوجائیگی۔
ہفتے میں چاردن ایندھن غائب ۔ انڈسڑی پہلے ہی شدید بحران کا شکار ہے ۔ آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن کے چیئرمین احسن بشیر نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آپٹما ڈیڑھ کروڑ افراد کو براہ راست روزگار فراہم کررہاہے۔روزانہ شام 6 سے رات 12بجے تک بجلی کی بندش سے ٹیکسٹائل انڈسٹری کے بیشتر یونٹس نے اپنی ایک شفٹ بند کردی ہے اس طرح ٹیکسٹائل انڈسڑی سے وابستہ ایک تہائی افراد کاروزگار خطرے میں پڑ گیا ہے اور برآمدات بھی شدید متاثر ہو نگی ۔ادھر ستم بالائے ستم ڈسٹری بیوشن کمپنیوں نے چیئرمین واپڈا کی طرف سے غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے احکامات ہوا میں اڑا دیے.
دورانیہ کم ہونے کے بجائے مزید بڑھ گیا۔ بجلی کی پیداور کی شرح نیچے گرتے گرتے سات ہزار میگاواٹ تک جاپہنچی، واپڈا کی طرف سے طلب او ررسد میں جو فرق ظاہر کیا جارہا ہے حقائق کے مطابق وہ کہیں زیادہ ہے۔گزشتہ روز بھی بجی کی غیراعلانیہ لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ شہری علاقوں میں 14سے 16جب کہ دیہی علاقوںمیں یہ دورانیہ 18سے 20گھنٹے ریکارڈ کیا گیا ۔مزاید برآں ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کی طرف سے چیئرمین واپڈا کی واضح ہدایات کے باوجود غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کے لیے عملی اقدامات نہیں اٹھائے جاسکے جب کہ لوڈمینجمنٹ شیڈول بھی مرتب نہیں کیا جا سکا۔
طلب و رسد میں 60فیصد تک کا فرق آچکا ہے جب کہ واپڈا کے جاری کردہاعداد و شمار کے مطابق بجلی کی پیداوار 9ہزار100 میگاواٹ،طلب 12 ہزار6 سو میگاواٹ ، جب کہ شارٹ فال 3 ہزار500 میگاواٹ رہا۔وزیراعظم کو بجلی کے مسئلہ کو اولین ترجیح دینا ہوگی۔دوسرا اہم مسئلہ قرضوں کا ہے ۔وزیراعظم نے اندرونی و بیرونی قرضوں پر انحصار کے خاتمہ کی جو بات کی اسے بنیادی اقتصادی پیرا ڈائم شفٹ ہونا چاہیے، حکومت خود کفالت کا کلچر متعارف کرائے ، شاہ خرچیاں ختم کی جائیں۔ سادگی اختیار کی جائے۔ جاتے جاتے خانہ بر انداز چمن نے سابق اراکین قومی و صوبائی اسمبلی پر مراعات کے جو گل اور برگ وثمر پھینکے ہیں میڈیا نے اس کی اچھی تصویر کشی ہے۔ اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کے لیے غیر ملکی قرضوں اور دھڑادھڑ نوٹ چھاپ کر معاشی گاڑی کو دھکا دینے سے اب کام نہیں چلے گا۔
یہی وجہ ہے کہ ملک قرضوں کے جال میں جکڑا ہوا ہے اور ہر پاکستانی محاورتاً نہیں عملاً مقروض ہے۔ اگرچہ عالمی مالیاتی فنڈ سے پاکستان تین سال کے لیے 5 ارب ڈالر کا قرض لے سکتا ہے، جس سے بیرونی سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوگا۔امکان یہ ہے کہ نئی حکومت ستمبر تک نئے قرض کے حصول کا فیصلہ کرسکتی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق امن و امان کی خراب صورتحال کے باعث الیکشن موخر ہونے سے معاشی مسائل بڑھ سکتے ہیں۔ سیاسی بے یقینی کے باعث ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر کم ہوئی ہے۔ رواں جون میں ایک ڈالر 101 روپے اور دسمبر تک 105 روپے تک ہونے کا خدشہ ہے۔
آئی ایم ایف کے نمایندے نے کہا کہ نگراں حکومت کونیاقرضہ دینے کے لیے تیار ہیں، تاہم اس کے لیے حکومت کے پاس بہتر اقتصادی ایجنڈا اور کچھ اقدامات کرناہوں گے۔ پاکستان کی طرف سے التواء ہوا تونئے قرضے پر بات چیت آیندہ حکومت تک چلی جائے گی۔ توانائی، ٹیکس، اخراجات، سرمایہ کاری، سرکاری اداروں اور سماجی شعبے پر مر بوط اقتصادی اصلاحات ضروری ہیں۔ 21اپریل تک سالانہ اسپرنگ اجلاس واشنگٹن میں ہو گا۔ اس کے فوری بعد وفد آ سکے گا ، تاہم یہ امر خوش آیند ہے کہ آئی ایم ایف کے مطابق اس وقت معاشی صورتحال میں کچھ مثبت نکات بھی ہیں، بیرونی ادائیگیاں بہتر ،افراط زر کم ہوئی اور روپیہ مستحکم ہے ،اس وقت سب سے بڑا مسئلہ زرمبادلہ کے ذخائر میں بہتری اور بیرونی ادائیگیوں میں توازن لانا ہے تا ہم جمہوری عمل مسلسل چل رہا ہے جو مثبت عمل ہے۔
عملی طور پر حکومت کو کثیر جہتی اقتصادی پالیسیوں میں عوام کی فلاح و بہبود کو مد نظر رکھنا چاہیے۔ واضح رہے عالمی معیشت کو 2012کے دوران صومالی قزاقوں کی کارروائیوں کی بھاری قیمت چکانا پڑی، قزاقی کے خطرے کے پیش نظر خطرناک بحری راستوں پر اضافی سیکیورٹی اخراجات ، انشورنس اور تاوان کی ادائیگی سمیت جہازوں کو تیز رفتاری کے ساتھ قزاقوں کے نرغے سے نکالنے اور دیگر اخراجات پر مجموعی طور پر 6ارب ڈالر خرچ کرنا پڑے۔
پاکستانی بحری جہازوں کو بھی گزشتہ چند سالوں میں متعدد بار تاوان دے کر یا اذیتیں اٹھاکر اپنے اور دیگر ملکوں کے کپتان ، ملاحوں اور شہریوں کو بازیاب کرنے میں عالمی اور ملکی مدد لینا پڑی۔ اس وقت ضرورت اقتصادی نظام کو عوام دوست بنیادوں پر تعمیر کرنے کی ہے تاکہ عدم مساوات ،دولت کاچند ہاتھوں میں ارتکاز، مہنگائی، بیروزگاری اور جرائم کا خاتمہ ہو، غربت کو جڑ سے اکھاڑنے کا عزم کیا جائے۔میرٹ پر عمل جب کہ کرپش کا ہر راستہ بند ہونا چاہیے۔اسی طرح قومی و معاشی خود کفالت کی منزل مل سکتی ہے۔