مارگریٹ تھیچر انتقال کر گئیں
اپنے طویل دور حکومت میں مارگریٹ تھیچرکے کئی اقوال کو بھی اس کی شہرت کے حوالے سے خاصی اہمیت حاصل ہوئی۔
برطانیہ کی تاریخ کی پہلی خاتون وزیر اعظم مارگریٹ تھیچر پیر کی صبح انتقال کر گئیں۔ ان کی عمر 87 برس تھی۔ ڈاکٹروں نے مارگریٹ تھیچر کی وفات کو فالج کے حملے کا نتیجہ قرار دیا ہے۔ مارگریٹ تھیچر 1979 سے 1990 تک کنزرویٹو پارٹی (یعنی قدامت پسند جماعت) کی طرف سے برطانیہ کی وزیر اعظم رہیں۔ لاطینی امریکا کے ملک ارجنٹائن نے اپنے ایک قریبی جزیرے فاک لینڈ Falkland پر اپنی ملکیت کا دعویٰ کردیا جس کو برطانیہ اپنے زیر قبضہ تصور کرتا تھا۔
چنانچہ مارگریٹ تھیچر کی وزارت عظمیٰ میں برطانیہ نے فاصلے کی طوالت کے علی الرغم اپنی بحری اور ہوائی فوجیں روانہ کر دیں۔ برطانوی شاہی بحریہ کے دستوں میں ملکہ برطانیہ کا چھوٹا بیٹا بھی شامل تھا جس پر ملکہ نے مامتا کے حوالے سے اپنے قلبی اضطراب کا اظہار بھی کیا تھا۔ تاہم مارگریٹ تھیچر کو اس جنگی مہم میں کامیابی کے بعد آئرن لیڈی یعنی خاتونِ آہن کا خطاب دیدیا گیا تھا۔ اپنے طویل دور حکومت میں مارگریٹ تھیچرکے کئی اقوال کو بھی اس کی شہرت کے حوالے سے خاصی اہمیت حاصل ہوئی۔
مثلاً ان کا یہ مقولہ کہ کسی اہم تقریب میں وہی لباس پہن کر جانا چاہیئے جس میں آپ خود کو آرام دہ محسوس کرتے ہوں نا کہ بالکل نیا لباس جس کو آپ نے آزمایا نہ ہو۔وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے مارگریٹ تھیچر کو عظیم برطانوی قرار دیا، کیمرون پیرس کے دورے پر تھے جو وہ مختصر کر کے واپس لوٹ آئے ہیں۔ بی بی سی کو اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کیمرون نے کہا کہ مارگریٹ تھیچر نے نہ صرف ہمارے ملک کی رہنمائی بلکہ انھوں نے ایک لحاظ سے ملک کو بے وقعت ہونے سے بچا لیا، مجھے یقین ہے انھیں برطانیہ کی عظیم ترین وزیر اعظم کے طور پر یاد کیا جائے گا۔
برطانیہ کے شاہی محل بکنگھم پیلس کے ترجمان نے کہا کہ مارگریٹ تھیچر کی موت کی خبر سن کر ملکہ برطانیہ اداس ہوئیں اور وہ ان کے خاندان کو ذاتی پیغام بھیج رہی ہیں۔ جان میجر، جو تھیچر کے بعد وزیر اعظم بنے، نے کہا کہ ان کی اقتصادی اور مزدور تنظیموں کے قوانین میں اصلاحات اور فاک لینڈ کے جزیروں کو واپس لینے جیسے اقدامات کی وجہ سے انھیں اعلیٰ پائے کے سیاستدان کا درجہ حاصل ہوا۔ یہ ایسی کامیابیاں تھیں جو شاید کوئی اور رہنماء حاصل نہ کر سکتا۔ تھیچر کو بیسویں صدی کی اہم ترین سیاسی شخصیات میں شمار کیا جاتا ہے۔ انھوں نے 1979 ،1983 اور 1987 کے عام انتخابات جیتے تھے۔ وہ 1959 میں کنزرویٹو پارٹی کی طرف سے شمالی لندن سے پارلیمان کی لیے منتخب ہوئیں۔
اس کے بعد سیکریٹری تعلیم رہیں۔ 1975میں نے انھوں نے سابق وزیر اعظم ایڈورڈ ہیتھ کی قیادت کو کامیابی سے چیلنج کیا۔ تھیچر 1992 میں برطانوی پارلیمان کے ایوان زریں سے ریٹائرڈ ہوئیں۔ وہ 13 اکبوتر 1925 کو گرائتم، لنکا شائر میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد ٹام الفریڈ رابرٹس سبزی فروش تھے۔ وہ جزوقتی مبلغ اور مقامی کونسلر بھی تھے، ان کا تھیچر کی زندگی اور پالیسیوں پر گہرا اثر تھا۔مارگریٹ تھیچر کی موت سے ایک عہد کا خاتمہ ہوگیا۔ مسز تھیچرنے بطور وزیراعظم اورپھر ریٹائرمنٹ کے بعد پروقارزندگی گزاری ، ان کی ذات پرکرپشن یا اقرباء پروری کا کوئی داغ نہیں ہے۔ پاکستان اور دیگر ترقی یافتہ ممالک کے لیے ان کی ذات میں کئی سبق پوشیدہ ہیں۔کوئی سیاستدان معتبر اور عزت اسی وقت حاصل کرتا ہے جب وہ اختیارات کو قانون کے مطابق استعمال کرے، اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو پھر اسے کوئی یاد نہیں کرتا۔
چنانچہ مارگریٹ تھیچر کی وزارت عظمیٰ میں برطانیہ نے فاصلے کی طوالت کے علی الرغم اپنی بحری اور ہوائی فوجیں روانہ کر دیں۔ برطانوی شاہی بحریہ کے دستوں میں ملکہ برطانیہ کا چھوٹا بیٹا بھی شامل تھا جس پر ملکہ نے مامتا کے حوالے سے اپنے قلبی اضطراب کا اظہار بھی کیا تھا۔ تاہم مارگریٹ تھیچر کو اس جنگی مہم میں کامیابی کے بعد آئرن لیڈی یعنی خاتونِ آہن کا خطاب دیدیا گیا تھا۔ اپنے طویل دور حکومت میں مارگریٹ تھیچرکے کئی اقوال کو بھی اس کی شہرت کے حوالے سے خاصی اہمیت حاصل ہوئی۔
مثلاً ان کا یہ مقولہ کہ کسی اہم تقریب میں وہی لباس پہن کر جانا چاہیئے جس میں آپ خود کو آرام دہ محسوس کرتے ہوں نا کہ بالکل نیا لباس جس کو آپ نے آزمایا نہ ہو۔وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے مارگریٹ تھیچر کو عظیم برطانوی قرار دیا، کیمرون پیرس کے دورے پر تھے جو وہ مختصر کر کے واپس لوٹ آئے ہیں۔ بی بی سی کو اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کیمرون نے کہا کہ مارگریٹ تھیچر نے نہ صرف ہمارے ملک کی رہنمائی بلکہ انھوں نے ایک لحاظ سے ملک کو بے وقعت ہونے سے بچا لیا، مجھے یقین ہے انھیں برطانیہ کی عظیم ترین وزیر اعظم کے طور پر یاد کیا جائے گا۔
برطانیہ کے شاہی محل بکنگھم پیلس کے ترجمان نے کہا کہ مارگریٹ تھیچر کی موت کی خبر سن کر ملکہ برطانیہ اداس ہوئیں اور وہ ان کے خاندان کو ذاتی پیغام بھیج رہی ہیں۔ جان میجر، جو تھیچر کے بعد وزیر اعظم بنے، نے کہا کہ ان کی اقتصادی اور مزدور تنظیموں کے قوانین میں اصلاحات اور فاک لینڈ کے جزیروں کو واپس لینے جیسے اقدامات کی وجہ سے انھیں اعلیٰ پائے کے سیاستدان کا درجہ حاصل ہوا۔ یہ ایسی کامیابیاں تھیں جو شاید کوئی اور رہنماء حاصل نہ کر سکتا۔ تھیچر کو بیسویں صدی کی اہم ترین سیاسی شخصیات میں شمار کیا جاتا ہے۔ انھوں نے 1979 ،1983 اور 1987 کے عام انتخابات جیتے تھے۔ وہ 1959 میں کنزرویٹو پارٹی کی طرف سے شمالی لندن سے پارلیمان کی لیے منتخب ہوئیں۔
اس کے بعد سیکریٹری تعلیم رہیں۔ 1975میں نے انھوں نے سابق وزیر اعظم ایڈورڈ ہیتھ کی قیادت کو کامیابی سے چیلنج کیا۔ تھیچر 1992 میں برطانوی پارلیمان کے ایوان زریں سے ریٹائرڈ ہوئیں۔ وہ 13 اکبوتر 1925 کو گرائتم، لنکا شائر میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد ٹام الفریڈ رابرٹس سبزی فروش تھے۔ وہ جزوقتی مبلغ اور مقامی کونسلر بھی تھے، ان کا تھیچر کی زندگی اور پالیسیوں پر گہرا اثر تھا۔مارگریٹ تھیچر کی موت سے ایک عہد کا خاتمہ ہوگیا۔ مسز تھیچرنے بطور وزیراعظم اورپھر ریٹائرمنٹ کے بعد پروقارزندگی گزاری ، ان کی ذات پرکرپشن یا اقرباء پروری کا کوئی داغ نہیں ہے۔ پاکستان اور دیگر ترقی یافتہ ممالک کے لیے ان کی ذات میں کئی سبق پوشیدہ ہیں۔کوئی سیاستدان معتبر اور عزت اسی وقت حاصل کرتا ہے جب وہ اختیارات کو قانون کے مطابق استعمال کرے، اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو پھر اسے کوئی یاد نہیں کرتا۔