دھندلا دھندلا
نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق طالبان نے کراچی کو شکنجے میں لینا شروع کر دیا ہے.
افغانستان کے صدر کرزئی نے طالبان سے کہا ہے کہ وہ دہشت گردی کی راہ ترک کر کے قطر میں اپنا آفس کھول لیں۔ گلوں میں رنگ بھریں تا کہ افغانستان میں باد نو بہار چلے۔ اس سے پہلے وہ قطر کا دورہ کر چکے تھے اور اس دورے میں انھوں نے قطر میں طالبان کے لیے اس قسم کی پیشکش کی بات چیت کی تھی۔ ان کے اس قسم کے بیان سے ایک بات تو واضح ہو گئی کہ اب امریکا افغانستان میں مزید قیام کرنے کے موڈ میں نظر نہیں آ رہا اور ہاتھی کے دانت دکھانے کی حد تک ہی بات رہ گئی ہے۔
قرضوں میں الجھتا امریکا اب شاید سمجھ چکا ہے کہ جسے مٹھی بھر سمجھ کر وہ پورا نگلنے کے موڈ میں تھے اب چیونٹی بن کر ان کی سونڈ میں اٹک چکے ہیں۔ صدر کرزئی نے بھی بخوبی سمجھ لیا ہے کہ بغل میں خنجر رکھ کر بات کرنے سے کھیر نہیں پک سکتی، لہٰذا امریکا کے بدلتے مزاج کو دیکھ کر انھوں نے عقلمندی سے خنجر بھی نکال کر ایک جانب رکھ دیا۔
روس اور امریکا کے بیچ میں مرحوم صدر ضیاء الحق نے جب قدم رکھا تھا تو شاید ان کے خواب میں بھی نہ ہو کہ امریکا اتنی جلدی اپنا پینترا بدل لے گا، اس کا کام تو چالاک لومڑی کی طرح صرف اور صرف روس کی شکست تھی، جسے پاکستان اور طالبان کے زور بازو سے چت کیا، اپنے دانت صاف کیے اور بلند و بالا عمارتوں والے امریکا کا رخ کیا۔ بہت سا پیسہ بہت سی ٹیکنالوجی، بہت سے وسائل رکھنے والے امریکا کا دل اتنا وسیع نہیں تھا اور اگر واقعی اس کے دل میں غریب افغانیوں کے لیے نرم گوشہ ہوتا تو شاید آج افغانستان کے ساتھ ساتھ پاکستان کی بھی یہ حالت نہ ہوتی۔
نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق طالبان نے کراچی کو شکنجے میں لینا شروع کر دیا ہے، اخبار کا کہنا ہے کہ کراچی میں اپنی طاقت اور اثر و رسوخ بڑھا کر انھوں نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ پورے پاکستان میں بھی رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔ اس سے ان کی بڑھتی ہوئی طاقت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
یہ ابھی کل کی بات نہیں ہے کراچی کی آبادی سے ذرا دور کم آبادی والے علاقے میں اچانک عمارتیں بننا شروع ہو گئی تھیں، سب کے علم میں تھا کہ کیا ہو رہا ہے لیکن اس جانب توجہ نہ دی گئی، یہ عمارتیں یہ گھر کس کے تھے، خاص طور پر ایک خاص قبیلہ آکاس بیل کی طرح اپنا جال بن رہا ہے، ویسے بھی ہمارے ملک میں حب الوطنی سے زیادہ زبان کا شیرہ اثر رکھتا ہے، اب چاہے ریمنڈ ڈیوس پشتو یا پنجابی میں بات کرے، ایسے گھل مل سکتا ہے کہ جیسے ایک ہی قوم کا ہو یا کوئی اور ملک دشمن عناصر ہو، لیکن زبان آنی چاہیے۔
بالکل ایسے ہی کراچی کے اہم لیکن آبادی والے حصے میں ہوتا گیا، وہ کون ہیں، کیا کرتے ہیں، کیوں کرتے ہیں، کچھ خبر رکھنے کی کوشش نہ کی گئی، جان بوجھ کر پشت پناہی کی گئی، لیکن حالیہ بلدیہ ٹاؤن کے ایک نجی اسکول کے رزلٹ کے دن جس بے دردی سے معصوم بچوں کی موجودگی میں بم دھماکا کیا گیا جس کے نتیجے میں اسکول کے پرنسل عبدالرشید اور ایک پانچویں جماعت کی بچی شہید ہوئی اور سات طلبا زخمی ہوئے، بات چھپ نہ سکی۔ 2009 میں سوات میں سخت آپریشن کے بعد وہاں تو میدان صاف ہو گیا لیکن زہریلی بھڑیں ادھر ادھر چھپنے کے لیے اپنا راستہ دیکھ چکی تھیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ مذہب کے نام سے شروع ہونے والی یہ جماعت جو کسی زمانے میں عوام میں بے حد مقبول تھی اب دہشت گردی کی علامت بننے کے باوجود ہمارے اپنے کچھ سیاست دانوں کے دلوں میں نرم گوشہ رکھتی ہے۔ حالانکہ پاکستان میں اس نام سے کام کرنے والوں میں اب ان عناصر نے بھی شمولیت اختیار کر لی جو جرائم کی راہ میں پہلے سے ہی سرگرم تھے لیکن اب طالبان کے ٹیگ کو استعمال کر کے زیادہ آسانی سے اپنے امور انجام دیتے ہیں۔ کیا پاکستانی طالبان اور افغانستان میں طالبان ایک ہی تصویر کے دو رخ ہیں یا الگ الگ تصاویر ہیں جن کے مفاد، مقاصد اور حصول بھی مختلف نوعیت کے ہیں۔
2008میں معرف مغربی تھنک ٹینک کی ایک رپورٹ نے تہلکہ مچا دیا تھا۔ یہ وہی زمانہ تھا جب نیٹو اور اس کی اتحادی فوجوں نے اپنی توپوں کا رخ افغانستان کی جانب کر رکھا تھا۔ انٹرنیشنل آن سیکیورٹی اینڈ ڈویلپمنٹ کی رپورٹ کے مطابق بہتر فیصد افغانستان پر آج بھی طالبان کا راج ہے۔ مغربی تھنک ٹینک کا یہ ادارہ نتائج کو سائنسی طریقہ کار کی بنیاد پر اخذ کرنے میں مشہور ہے لہٰذا اس میں مبالغہ آرائی کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔ اسی طرح کی ایک اور رپورٹ لندن سے جاری ہوئی۔ آئی سی او ایس کی اس رپورٹ میں بھی کم و بیش اسی بات کا اظہار کیا گیا تھا۔
اس رپورٹ کے مطابق ایک سال پہلے یعنی 2007 میں جنوبی صوبوں پر مشتمل ملک کا 54 فیصد علاقہ طالبان کے کنٹرول میں تھا جہاں اب بیشتر شہری اور دیہی علاقوں پر وہ عملاً حکومت کر رہے ہیں جب کہ اس عرصے میں انھوں نے افغانستان کے مغربی اور شمال مغربی علاقوں کی جانب پیش قدمی کر کے 18 فیصد مزید علاقے پر کنٹرول حاصل کر لیا ہے جب کہ کابل کی جانب بھی ان کی پیش قدمی جاری ہے۔ اس رپورٹ کو تیار کرنے والی فیلڈ ٹیم کے لیڈر اور سربراہ نورائن میکڈونلڈ کا کہنا تھا کہ افغانستان میں سیاسی اور فوجی ڈائنامک کو اب طالبان کنٹرول کر رہے ہیں جب کہ اس ٹیم کے پاس ڈائریکٹر پال برٹن کا کہنا تھا ''طالبان کابل کے گرد گھیرا تنگ کر رہے ہیں اور اس بات کا حقیقی خطرہ پیدا ہو گیا ہے کہ نیٹو کی ناک کے نیچے وہ افغانستان پر قابض ہو جائیں گے۔''
یہ تو طالبان کی وہ کامیابیاں تھیں افغانستان کے حوالے سے جنھیں مغربی تھنک ٹینک نے شفاف انداز میں پیش کیا تھا جب کہ وال اسٹریٹ جرنل نے بھی ایک رپورٹ میں اسی انداز کے حقائق سامنے رکھے تھے کہ طالبان کے زیر کنٹرول علاقوں میں عدالتیں اور مقامی حکومت کے مختلف ادارے قائم کر کے امریکا کے لیے چیلنج رکھ دیا، امریکا کے حامد کرزئی جو پہلے اس زعم میں مبتلا تھے کہ امریکا طالبان کے وجود سے افغانستان کو پاک کر کے انھیں پیش کر دے گا بخوبی واقف ہو چکے تھے کہ یہ کام آسان نہیں، تب ہی انھوں نے طالبان کی قیادت سے بات چیت کر کے معاملات کو حل کرنے کی کوشش کا عندیہ ظاہر کیا تھا اور کھل کر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے وفد سے بات چیت کرتے ہوئے طالبان کو ملک کے بیٹے کہہ کر مخاطب کیا تھا، دراصل امریکا سے حالات نہ حل ہونے کی صورت میں وہ دوسرا طریقہ آزمانے پر بھرپور یقین رکھتے ہیں۔ اس وقت انتہائی جذباتی انداز میں انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ''کاش! میرے پاس اتنی طاقت ہوتی کہ میں افغان عوام پر بمباری کرنے والے امریکی جہازوں کو گرا سکتا۔''
طالبان سے بارہ سال امریکا اور یورپی افواج کی بے سود جنگ میں کس کی ہار اور کس کی جیت ہوئی تا حال کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ لیکن کرزئی نے اس صورت حال کا ایک حل نکال لیا ہے، کیا یہ اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ اب طالبان اپنی دہشت گردی کا رخ مشرق وسطیٰ کے ممالک کی جانب کر دیں یا اونٹ کی کل سیدھی کرنے کا منصوبہ کہ جہاں سے اٹھے تھے وہیں کو چلے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا افغانستان میں طالبان اپنی کارروائیوں میں اسی طرح مصروف عمل ہیں جیسا کہ پاکستان میں ظاہر کیا جاتا ہے، کیا افغانستان میں عام عوام نے طالبان کے وجود کو حکمران کی حیثیت سے تسلیم کر لیا ہے یا صرف ان کے منظم فوجی نیٹ ورک اور جاسوسی کے خوف سے وہ اپنے فیصلوں سے قاصر ہیں، کیا وہ واقعی وہی مذہبی جماعت کے طور پر اب بھی ویسی ہی ہے جیسا کہ اپنے قیام کے وقت ابھری تھی جس کے مضبوط ایمانی ارادوں نے روس جیسی بڑی طاقت کا شیرازہ بکھیر دیا تھا، جس کی ایک پکار پر پوری امت مسلمہ نے لبیک کہا تھا، اگر واقعی ایسا ہی ہے تو بھتے کی پرچیوں پر گولیاں بارود بیچنے والے، انسانی جانوں کا سودا کرنے والے وہ کون ہیں۔۔۔۔؟
قرضوں میں الجھتا امریکا اب شاید سمجھ چکا ہے کہ جسے مٹھی بھر سمجھ کر وہ پورا نگلنے کے موڈ میں تھے اب چیونٹی بن کر ان کی سونڈ میں اٹک چکے ہیں۔ صدر کرزئی نے بھی بخوبی سمجھ لیا ہے کہ بغل میں خنجر رکھ کر بات کرنے سے کھیر نہیں پک سکتی، لہٰذا امریکا کے بدلتے مزاج کو دیکھ کر انھوں نے عقلمندی سے خنجر بھی نکال کر ایک جانب رکھ دیا۔
روس اور امریکا کے بیچ میں مرحوم صدر ضیاء الحق نے جب قدم رکھا تھا تو شاید ان کے خواب میں بھی نہ ہو کہ امریکا اتنی جلدی اپنا پینترا بدل لے گا، اس کا کام تو چالاک لومڑی کی طرح صرف اور صرف روس کی شکست تھی، جسے پاکستان اور طالبان کے زور بازو سے چت کیا، اپنے دانت صاف کیے اور بلند و بالا عمارتوں والے امریکا کا رخ کیا۔ بہت سا پیسہ بہت سی ٹیکنالوجی، بہت سے وسائل رکھنے والے امریکا کا دل اتنا وسیع نہیں تھا اور اگر واقعی اس کے دل میں غریب افغانیوں کے لیے نرم گوشہ ہوتا تو شاید آج افغانستان کے ساتھ ساتھ پاکستان کی بھی یہ حالت نہ ہوتی۔
نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق طالبان نے کراچی کو شکنجے میں لینا شروع کر دیا ہے، اخبار کا کہنا ہے کہ کراچی میں اپنی طاقت اور اثر و رسوخ بڑھا کر انھوں نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ پورے پاکستان میں بھی رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔ اس سے ان کی بڑھتی ہوئی طاقت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
یہ ابھی کل کی بات نہیں ہے کراچی کی آبادی سے ذرا دور کم آبادی والے علاقے میں اچانک عمارتیں بننا شروع ہو گئی تھیں، سب کے علم میں تھا کہ کیا ہو رہا ہے لیکن اس جانب توجہ نہ دی گئی، یہ عمارتیں یہ گھر کس کے تھے، خاص طور پر ایک خاص قبیلہ آکاس بیل کی طرح اپنا جال بن رہا ہے، ویسے بھی ہمارے ملک میں حب الوطنی سے زیادہ زبان کا شیرہ اثر رکھتا ہے، اب چاہے ریمنڈ ڈیوس پشتو یا پنجابی میں بات کرے، ایسے گھل مل سکتا ہے کہ جیسے ایک ہی قوم کا ہو یا کوئی اور ملک دشمن عناصر ہو، لیکن زبان آنی چاہیے۔
بالکل ایسے ہی کراچی کے اہم لیکن آبادی والے حصے میں ہوتا گیا، وہ کون ہیں، کیا کرتے ہیں، کیوں کرتے ہیں، کچھ خبر رکھنے کی کوشش نہ کی گئی، جان بوجھ کر پشت پناہی کی گئی، لیکن حالیہ بلدیہ ٹاؤن کے ایک نجی اسکول کے رزلٹ کے دن جس بے دردی سے معصوم بچوں کی موجودگی میں بم دھماکا کیا گیا جس کے نتیجے میں اسکول کے پرنسل عبدالرشید اور ایک پانچویں جماعت کی بچی شہید ہوئی اور سات طلبا زخمی ہوئے، بات چھپ نہ سکی۔ 2009 میں سوات میں سخت آپریشن کے بعد وہاں تو میدان صاف ہو گیا لیکن زہریلی بھڑیں ادھر ادھر چھپنے کے لیے اپنا راستہ دیکھ چکی تھیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ مذہب کے نام سے شروع ہونے والی یہ جماعت جو کسی زمانے میں عوام میں بے حد مقبول تھی اب دہشت گردی کی علامت بننے کے باوجود ہمارے اپنے کچھ سیاست دانوں کے دلوں میں نرم گوشہ رکھتی ہے۔ حالانکہ پاکستان میں اس نام سے کام کرنے والوں میں اب ان عناصر نے بھی شمولیت اختیار کر لی جو جرائم کی راہ میں پہلے سے ہی سرگرم تھے لیکن اب طالبان کے ٹیگ کو استعمال کر کے زیادہ آسانی سے اپنے امور انجام دیتے ہیں۔ کیا پاکستانی طالبان اور افغانستان میں طالبان ایک ہی تصویر کے دو رخ ہیں یا الگ الگ تصاویر ہیں جن کے مفاد، مقاصد اور حصول بھی مختلف نوعیت کے ہیں۔
2008میں معرف مغربی تھنک ٹینک کی ایک رپورٹ نے تہلکہ مچا دیا تھا۔ یہ وہی زمانہ تھا جب نیٹو اور اس کی اتحادی فوجوں نے اپنی توپوں کا رخ افغانستان کی جانب کر رکھا تھا۔ انٹرنیشنل آن سیکیورٹی اینڈ ڈویلپمنٹ کی رپورٹ کے مطابق بہتر فیصد افغانستان پر آج بھی طالبان کا راج ہے۔ مغربی تھنک ٹینک کا یہ ادارہ نتائج کو سائنسی طریقہ کار کی بنیاد پر اخذ کرنے میں مشہور ہے لہٰذا اس میں مبالغہ آرائی کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔ اسی طرح کی ایک اور رپورٹ لندن سے جاری ہوئی۔ آئی سی او ایس کی اس رپورٹ میں بھی کم و بیش اسی بات کا اظہار کیا گیا تھا۔
اس رپورٹ کے مطابق ایک سال پہلے یعنی 2007 میں جنوبی صوبوں پر مشتمل ملک کا 54 فیصد علاقہ طالبان کے کنٹرول میں تھا جہاں اب بیشتر شہری اور دیہی علاقوں پر وہ عملاً حکومت کر رہے ہیں جب کہ اس عرصے میں انھوں نے افغانستان کے مغربی اور شمال مغربی علاقوں کی جانب پیش قدمی کر کے 18 فیصد مزید علاقے پر کنٹرول حاصل کر لیا ہے جب کہ کابل کی جانب بھی ان کی پیش قدمی جاری ہے۔ اس رپورٹ کو تیار کرنے والی فیلڈ ٹیم کے لیڈر اور سربراہ نورائن میکڈونلڈ کا کہنا تھا کہ افغانستان میں سیاسی اور فوجی ڈائنامک کو اب طالبان کنٹرول کر رہے ہیں جب کہ اس ٹیم کے پاس ڈائریکٹر پال برٹن کا کہنا تھا ''طالبان کابل کے گرد گھیرا تنگ کر رہے ہیں اور اس بات کا حقیقی خطرہ پیدا ہو گیا ہے کہ نیٹو کی ناک کے نیچے وہ افغانستان پر قابض ہو جائیں گے۔''
یہ تو طالبان کی وہ کامیابیاں تھیں افغانستان کے حوالے سے جنھیں مغربی تھنک ٹینک نے شفاف انداز میں پیش کیا تھا جب کہ وال اسٹریٹ جرنل نے بھی ایک رپورٹ میں اسی انداز کے حقائق سامنے رکھے تھے کہ طالبان کے زیر کنٹرول علاقوں میں عدالتیں اور مقامی حکومت کے مختلف ادارے قائم کر کے امریکا کے لیے چیلنج رکھ دیا، امریکا کے حامد کرزئی جو پہلے اس زعم میں مبتلا تھے کہ امریکا طالبان کے وجود سے افغانستان کو پاک کر کے انھیں پیش کر دے گا بخوبی واقف ہو چکے تھے کہ یہ کام آسان نہیں، تب ہی انھوں نے طالبان کی قیادت سے بات چیت کر کے معاملات کو حل کرنے کی کوشش کا عندیہ ظاہر کیا تھا اور کھل کر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے وفد سے بات چیت کرتے ہوئے طالبان کو ملک کے بیٹے کہہ کر مخاطب کیا تھا، دراصل امریکا سے حالات نہ حل ہونے کی صورت میں وہ دوسرا طریقہ آزمانے پر بھرپور یقین رکھتے ہیں۔ اس وقت انتہائی جذباتی انداز میں انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ''کاش! میرے پاس اتنی طاقت ہوتی کہ میں افغان عوام پر بمباری کرنے والے امریکی جہازوں کو گرا سکتا۔''
طالبان سے بارہ سال امریکا اور یورپی افواج کی بے سود جنگ میں کس کی ہار اور کس کی جیت ہوئی تا حال کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ لیکن کرزئی نے اس صورت حال کا ایک حل نکال لیا ہے، کیا یہ اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ اب طالبان اپنی دہشت گردی کا رخ مشرق وسطیٰ کے ممالک کی جانب کر دیں یا اونٹ کی کل سیدھی کرنے کا منصوبہ کہ جہاں سے اٹھے تھے وہیں کو چلے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا افغانستان میں طالبان اپنی کارروائیوں میں اسی طرح مصروف عمل ہیں جیسا کہ پاکستان میں ظاہر کیا جاتا ہے، کیا افغانستان میں عام عوام نے طالبان کے وجود کو حکمران کی حیثیت سے تسلیم کر لیا ہے یا صرف ان کے منظم فوجی نیٹ ورک اور جاسوسی کے خوف سے وہ اپنے فیصلوں سے قاصر ہیں، کیا وہ واقعی وہی مذہبی جماعت کے طور پر اب بھی ویسی ہی ہے جیسا کہ اپنے قیام کے وقت ابھری تھی جس کے مضبوط ایمانی ارادوں نے روس جیسی بڑی طاقت کا شیرازہ بکھیر دیا تھا، جس کی ایک پکار پر پوری امت مسلمہ نے لبیک کہا تھا، اگر واقعی ایسا ہی ہے تو بھتے کی پرچیوں پر گولیاں بارود بیچنے والے، انسانی جانوں کا سودا کرنے والے وہ کون ہیں۔۔۔۔؟