آگے بڑھے چلو آگے اور آگے
سترہ سال تک کولمبس نے کوشش کی کہ کوئی اس مہم پر روپیہ لگانے کو تیار ہو جائے۔
لاہور:
لڑکپن میں کولمبس نے اسکول میں فیثا غورث کی ایک کتاب پڑھی تھی جس میں لکھا تھا کہ دنیا گول ہے۔ اس طرح کولمبس کو ایک خیال ہاتھ آ گیا، اس نے سوچا کہ اگر دنیا گول ہے تو ہندوستان پہنچنے کا شارٹ کٹ ڈھونڈا جا سکتا ہے اگر وہ کامیاب ہو گیا تو وارے نیارے ہیں۔ لیکن یونیورسٹیوں کے عالم، پروفیسروں اور فلسفیوں نے اس کا مذاق اڑایا ''دیکھو یہ احمق سیدھا مغرب میں جہاز چلا کر ہندوستان جانا چاہتا ہے جب کہ ہندوستان مشرق میں ہے، یہ شخص ضرور دیوانہ ہے'' انھوں نے اسے سمجھایا کہ دنیا گول نہیں، ایسا سفر کر نا خودکشی کے مترادف ہے۔ مغرب میں چلتے چلتے ایک دن ایسا آئے گا کہ تمہارا جہاز دنیا کے سرے سے لڑھک کر لامتناہی خلائوں میں گر جائے گا۔
سترہ سال تک کولمبس نے کوشش کی کہ کوئی اس مہم پر روپیہ لگانے کو تیار ہو جائے۔ لیکن سوائے ناکامی کے کچھ ہاتھ نہ آیا۔ آخرکار مایوس ہو کر وہ اپنا ارا دہ ترک کر نے پر آمادہ ہو گیا اور اسپین کی ایک خانقاہ میں جا کر رہنے لگا۔ اس وقت اس کی عمر پچاس برس بھی نہ ہوئی تھی، مگر اتنی مصیبتیں اٹھانے اور دل شکستہ ہو نے کی وجہ سے اس کے سرخ بال برف کی طرح سفید ہو گئے تھے۔ آخر روم سے پوپ نے ہسپانیہ کی ملکہ ایزابیل پر زور دیا کہ وہ کولمبس کی مدد کرے۔ چنانچہ ملکہ نے اسے تیرہ پونڈ بھیجے۔ کولمبس کے پاس پھٹے پرانے کپڑے رہ گئے تھے۔
اس رقم سے اس نے نئے کپڑے اور ایک گدھا خریدا اور ملکہ سے ملنے روانہ ہو گیا۔ وہ اتنا غریب تھا کہ راستے میں اسے بھیک مانگنی پڑی۔ ملکہ نے اسے حسب ضرورت جہاز فراہم کر دیے لیکن اب ملاح بھرتی کر نے کا کام نا ممکن نظر آیا، ہر شخص اس سفر پر جانے سے ڈرتا تھا۔ چنانچہ کولمبس گودی پر پہنچا اور اس نے چند ملاحوں کو بڑی دلیری سے پکڑ کر جانے پر مجبور کر دیا۔ اسی طرح اس نے کچھ کی منت سماجت کی، کچھ کو دھمکایا، کچھ کو رشوت دی۔ اس نے جیل سے مجرم تک نکلوائے اور کہا کہ اگر وہ ساتھ چلے تو انھیں آزاد کر دیا جائے گا۔ آخر کار سب کچھ تیار ہو گیا اور جمعے کے دن 3 اگست 1492 کو سورج نکلنے سے آدھ گھنٹہ پہلے کولمبس اپنے تین جہازوں اور اٹھاسی آدمیوں کے عملے سمیت اس سفر پر روانہ ہوا جس کا شمار تاریخ عالم کے اہم ترین اور عصر آفرین سفروں میں ہوتا ہے۔
جو نوآبادیاں کولمبس نے نئی دنیا میں قائم کی تھیں، ان کے مقدر میں ناکامی اور تباہی کے سوا کچھ نہ تھا۔ پہلی نو آبادی کے تما م افراد کو انڈینوں نے قتل کر ڈالا۔ دوسری نو آبادی کا گورنر کولمبس سے اتنا حسد کر تا تھا کہ اس نے کولمبس پر طرح طرح کے الزامات لگائے اور گرفتار کر کے پابہ زنجیر اسپین بھیج دیا۔ بیشک اسپین پہنچتے ہی اسے رہا کر دیا گیا مگر ان تمام باتوں سے پیدا ہو نے والی جھنجھلاہٹ اور مایوسی نے اس کا دل توڑ دیا۔ کولمبس نے ساٹھ سال کی عمر میں وفات پائی۔ جب وہ مرا تو کسی نے اس کی خبر نہ لی، تعظیم نہ کی، تعریفیں نہ کیں۔ وہ ایک میلے کچلے بند اور تنگ کمرے میں مرا اور اس کے کمرے کی دیواروں پر وہ زنجیریں لٹکی ہوئی تھیں جنھیں بحالت قید اس نے پہنا تھا۔
اس نے ان زنجیروں کو وہاں اس لیے لٹکا رکھا تھا کہ وہ اسے سنگین انداز میں اس دنیا کی احسان فراموشی اور ہیچ ہو نے کی یاد دلاتی رہیں۔ کولمبس نے تاریخ کا ایک انتہائی حیرت انگیز اور جرات مندانہ کارنامہ انجام دیا تھا لیکن اس سے اسے حاصل کیا ہوا؟ اسے یہ توقع تھی کہ وہ بے حد دولت مند ہو جائے گا۔ لیکن کنگال مرا۔ اس سے وعدہ کیا گیا تھا کہ ''امیر البحر اور ہندوستان کا وائسرائے کا خطاب اسے دیا جائے گا'' لیکن اس کے باوجود اسے کوئی خطاب نہ ملا۔ حد تو یہ ہے کہ جو براعظم اس نے دریافت کیا تھا اسے بھی اس کے نام سے نہ پکارا گیا۔ اسے امیریگوو یسپوچی نامی نقشہ نویس کے نام سے پکارا گیا۔ سچ تو یہ ہے کہ ایک نئی دنیا دریافت کر نے کا صلہ اسے دل شکستگی اور رسوائی کی شکل میں ملا۔
اسے یہ اطمینان بھی نصیب نہ ہوا کہ وہ یہ جان لیتا کہ اس نے ایک نیا براعظم ڈھونڈ نکالا ہے۔ وہ یہ سمجھتا رہا کہ اس نے صرف ہندوستان جانے کا نیا راستہ ڈھونڈا ہے۔ اسی مغالطے میں اس نے امریکا کے سرخ فام باسیوں کو ریڈ انڈین کا نام دیا۔ بہر حال کولمبس کے حصے میں ایک بزرگی ضرور آئی، اسے امریکا کو دریافت کر نے والا پہلا آدمی قرار دیا گیا۔ تاریخ میں کولمبس کی ہمیشہ عزت کی جائے گی۔ کیونکہ وہ بے حد اولو العز م شخص تھا، جس کا حوصلہ لمحہ بھر کو بھی پست نہ ہوتا تھا۔ جب ہر شخص سفر جاری رکھنے کا مخالف تھا تو کولمبس اپنی بات پر اڑا رہا۔ جب اس کے ملاحوں پر دہشت غالب آ گئی اور انھوں نے دھمکی دی کہ اگر جہازوں کو یورپ کی طرف موڑا نہ گیا تو وہ بغاوت کر کے اسے مار ڈالیں گے تو کولمبس کے پاس ان باتوں کا صرف ایک جواب تھا ''آگے بڑھے چلو ! آگے اور آگے۔''
پاکستان آ ج اپنی تاریخ کے مشکل ترین دور سے گزر رہا ہے ایک طرف تو اسے مذہبی انتہا پسندی، دہشت گردی کا سامنا ہے تو دوسری طرف ملک کے اٹھارہ کروڑ عوام مہنگائی، غربت، جہالت، بے روزگار جیسے مسائل سے دو چار ہیں لیکن تیسری طرف ملک کی تمام سیاسی جماعتیں اپنی اپنی جدوجہد کے ذریعے جمہوریت کے پودے کو پروان چڑھانے کے لیے تگ و دو میں مصروف عمل ہیں آج جن مسائل کا ہم سامنا کر رہے ہیں دنیا میں کسی بھی اور ملک کو ان مسائل کا سامنا نہیں ہے۔ ہم آج انھی تمام مسائل سے دوچار ہیں جن سے دنیا کی دیگر قومیں صدیوں پہلے اپنے اتحاد و جدوجہد اور جمہوریت کے ذریعے شکست دے چکی ہیں۔ ہم بحیثیت قوم زندگی کی جنگ میں ہارے ضرور ہیں لیکن ہمیں فخر ہے کہ کسی محاذ پر پسپا نہیں ہوئے ہمیں آگے بڑھنا ہے آگے اور آگے۔
یہی ہمارا اولین مقصد ہو نا چاہیے۔ اور ساتھ ساتھ ہمیں قائد اعظم کے فلسفے، سوچ، ان کی جدوجہد اور مقصد کو سامنے رکھنا ہو گا۔ ٹھیوڈور روز ویلٹ کا کہنا ہے کہ جب وہ صدر تھا اور اسے کوئی مشکل مرحلہ پیش آ جاتا تو وہ اپنی آرام کر سی پر تکیہ لگا کر بیٹھ جاتا اور لنکن کی قد آدم تصویر کی طرف دیکھا کر تا تھا جو اس کی میز کے اوپر وائٹ ہائوس میں آوایزاں تھی اور اپنے دل سے یہ سوال کیا کر تا تھا اگر اس وقت میری جگہ لنکن ہو تا تو اس موقعے پر کیا کرتا؟ امریکی فلاسفر ایمرسن کے الفاظ ہیں ایک انسان وہی کچھ ہے جو وہ تمام دن سوچتا ہے۔ عظیم فلسفی مارکس اردی نے اسے آٹھ الفاظ میں سمو دیا ہے۔
''ہماری زندگی ہمارے خیالات سے بنتی ہے'' نارمن ونسنٹ پیل کے الفاظ میں ''آپ وہ نہیں جو آپ سمجھتے ہیں بلکہ وہ ہیں جو آپ سوچتے ہیں'' پروفیسر ولیم جیمز کا قول سنیے۔ وہ کہتے ہیں ''ہم اپنے جسمانی اور دماغی قویٰ کے ایک ادنیٰ حصے سے کام لے رہے ہیں۔ اس مطلب کو پھیلا کر بیان کیا جائے تو یوں کہا جا سکتا ہے کہ انسانی فرد نہایت ہی محدود دائرے میں زندگی بسر کر تا ہے۔ وہ مختلف قسم کی قوتیں اپنے اندر موجود رکھتا ہے لیکن ان کے استعمال کر نے سے وہ عادتا ً قاصر رہتا ہے۔'' پاکستانی قوم کو بدلنا کوئی بڑی بات نہیں اگر ہم اپنی قوم میں یہ احساس پیدا کر دیں کہ ان کے اندر عظیم کارنامے کر نے کی صلاحیتیں دفن ہیں تو ہم انھیں نہ صرف بد ل سکتے ہیں بلکہ ہم ان کی کایہ پلٹ سکتے ہیں۔ ہمیں آج اس مشکل گھڑی میں صرف اور صرف روز ویلٹ کی طرح قائد اعظم کی تصویر کی طرف دیکھنا چاہیے اور ان کی جدوجہد کو سامنے رکھنا چاہیے اور یہ عزم کر نا چاہیے کہ ہمیں صرف اور صرف آگے بڑھنا ہے، آگے اور آگے۔ کولمبس جیسے غیر متزلزل عزم کے ساتھ!
لڑکپن میں کولمبس نے اسکول میں فیثا غورث کی ایک کتاب پڑھی تھی جس میں لکھا تھا کہ دنیا گول ہے۔ اس طرح کولمبس کو ایک خیال ہاتھ آ گیا، اس نے سوچا کہ اگر دنیا گول ہے تو ہندوستان پہنچنے کا شارٹ کٹ ڈھونڈا جا سکتا ہے اگر وہ کامیاب ہو گیا تو وارے نیارے ہیں۔ لیکن یونیورسٹیوں کے عالم، پروفیسروں اور فلسفیوں نے اس کا مذاق اڑایا ''دیکھو یہ احمق سیدھا مغرب میں جہاز چلا کر ہندوستان جانا چاہتا ہے جب کہ ہندوستان مشرق میں ہے، یہ شخص ضرور دیوانہ ہے'' انھوں نے اسے سمجھایا کہ دنیا گول نہیں، ایسا سفر کر نا خودکشی کے مترادف ہے۔ مغرب میں چلتے چلتے ایک دن ایسا آئے گا کہ تمہارا جہاز دنیا کے سرے سے لڑھک کر لامتناہی خلائوں میں گر جائے گا۔
سترہ سال تک کولمبس نے کوشش کی کہ کوئی اس مہم پر روپیہ لگانے کو تیار ہو جائے۔ لیکن سوائے ناکامی کے کچھ ہاتھ نہ آیا۔ آخرکار مایوس ہو کر وہ اپنا ارا دہ ترک کر نے پر آمادہ ہو گیا اور اسپین کی ایک خانقاہ میں جا کر رہنے لگا۔ اس وقت اس کی عمر پچاس برس بھی نہ ہوئی تھی، مگر اتنی مصیبتیں اٹھانے اور دل شکستہ ہو نے کی وجہ سے اس کے سرخ بال برف کی طرح سفید ہو گئے تھے۔ آخر روم سے پوپ نے ہسپانیہ کی ملکہ ایزابیل پر زور دیا کہ وہ کولمبس کی مدد کرے۔ چنانچہ ملکہ نے اسے تیرہ پونڈ بھیجے۔ کولمبس کے پاس پھٹے پرانے کپڑے رہ گئے تھے۔
اس رقم سے اس نے نئے کپڑے اور ایک گدھا خریدا اور ملکہ سے ملنے روانہ ہو گیا۔ وہ اتنا غریب تھا کہ راستے میں اسے بھیک مانگنی پڑی۔ ملکہ نے اسے حسب ضرورت جہاز فراہم کر دیے لیکن اب ملاح بھرتی کر نے کا کام نا ممکن نظر آیا، ہر شخص اس سفر پر جانے سے ڈرتا تھا۔ چنانچہ کولمبس گودی پر پہنچا اور اس نے چند ملاحوں کو بڑی دلیری سے پکڑ کر جانے پر مجبور کر دیا۔ اسی طرح اس نے کچھ کی منت سماجت کی، کچھ کو دھمکایا، کچھ کو رشوت دی۔ اس نے جیل سے مجرم تک نکلوائے اور کہا کہ اگر وہ ساتھ چلے تو انھیں آزاد کر دیا جائے گا۔ آخر کار سب کچھ تیار ہو گیا اور جمعے کے دن 3 اگست 1492 کو سورج نکلنے سے آدھ گھنٹہ پہلے کولمبس اپنے تین جہازوں اور اٹھاسی آدمیوں کے عملے سمیت اس سفر پر روانہ ہوا جس کا شمار تاریخ عالم کے اہم ترین اور عصر آفرین سفروں میں ہوتا ہے۔
جو نوآبادیاں کولمبس نے نئی دنیا میں قائم کی تھیں، ان کے مقدر میں ناکامی اور تباہی کے سوا کچھ نہ تھا۔ پہلی نو آبادی کے تما م افراد کو انڈینوں نے قتل کر ڈالا۔ دوسری نو آبادی کا گورنر کولمبس سے اتنا حسد کر تا تھا کہ اس نے کولمبس پر طرح طرح کے الزامات لگائے اور گرفتار کر کے پابہ زنجیر اسپین بھیج دیا۔ بیشک اسپین پہنچتے ہی اسے رہا کر دیا گیا مگر ان تمام باتوں سے پیدا ہو نے والی جھنجھلاہٹ اور مایوسی نے اس کا دل توڑ دیا۔ کولمبس نے ساٹھ سال کی عمر میں وفات پائی۔ جب وہ مرا تو کسی نے اس کی خبر نہ لی، تعظیم نہ کی، تعریفیں نہ کیں۔ وہ ایک میلے کچلے بند اور تنگ کمرے میں مرا اور اس کے کمرے کی دیواروں پر وہ زنجیریں لٹکی ہوئی تھیں جنھیں بحالت قید اس نے پہنا تھا۔
اس نے ان زنجیروں کو وہاں اس لیے لٹکا رکھا تھا کہ وہ اسے سنگین انداز میں اس دنیا کی احسان فراموشی اور ہیچ ہو نے کی یاد دلاتی رہیں۔ کولمبس نے تاریخ کا ایک انتہائی حیرت انگیز اور جرات مندانہ کارنامہ انجام دیا تھا لیکن اس سے اسے حاصل کیا ہوا؟ اسے یہ توقع تھی کہ وہ بے حد دولت مند ہو جائے گا۔ لیکن کنگال مرا۔ اس سے وعدہ کیا گیا تھا کہ ''امیر البحر اور ہندوستان کا وائسرائے کا خطاب اسے دیا جائے گا'' لیکن اس کے باوجود اسے کوئی خطاب نہ ملا۔ حد تو یہ ہے کہ جو براعظم اس نے دریافت کیا تھا اسے بھی اس کے نام سے نہ پکارا گیا۔ اسے امیریگوو یسپوچی نامی نقشہ نویس کے نام سے پکارا گیا۔ سچ تو یہ ہے کہ ایک نئی دنیا دریافت کر نے کا صلہ اسے دل شکستگی اور رسوائی کی شکل میں ملا۔
اسے یہ اطمینان بھی نصیب نہ ہوا کہ وہ یہ جان لیتا کہ اس نے ایک نیا براعظم ڈھونڈ نکالا ہے۔ وہ یہ سمجھتا رہا کہ اس نے صرف ہندوستان جانے کا نیا راستہ ڈھونڈا ہے۔ اسی مغالطے میں اس نے امریکا کے سرخ فام باسیوں کو ریڈ انڈین کا نام دیا۔ بہر حال کولمبس کے حصے میں ایک بزرگی ضرور آئی، اسے امریکا کو دریافت کر نے والا پہلا آدمی قرار دیا گیا۔ تاریخ میں کولمبس کی ہمیشہ عزت کی جائے گی۔ کیونکہ وہ بے حد اولو العز م شخص تھا، جس کا حوصلہ لمحہ بھر کو بھی پست نہ ہوتا تھا۔ جب ہر شخص سفر جاری رکھنے کا مخالف تھا تو کولمبس اپنی بات پر اڑا رہا۔ جب اس کے ملاحوں پر دہشت غالب آ گئی اور انھوں نے دھمکی دی کہ اگر جہازوں کو یورپ کی طرف موڑا نہ گیا تو وہ بغاوت کر کے اسے مار ڈالیں گے تو کولمبس کے پاس ان باتوں کا صرف ایک جواب تھا ''آگے بڑھے چلو ! آگے اور آگے۔''
پاکستان آ ج اپنی تاریخ کے مشکل ترین دور سے گزر رہا ہے ایک طرف تو اسے مذہبی انتہا پسندی، دہشت گردی کا سامنا ہے تو دوسری طرف ملک کے اٹھارہ کروڑ عوام مہنگائی، غربت، جہالت، بے روزگار جیسے مسائل سے دو چار ہیں لیکن تیسری طرف ملک کی تمام سیاسی جماعتیں اپنی اپنی جدوجہد کے ذریعے جمہوریت کے پودے کو پروان چڑھانے کے لیے تگ و دو میں مصروف عمل ہیں آج جن مسائل کا ہم سامنا کر رہے ہیں دنیا میں کسی بھی اور ملک کو ان مسائل کا سامنا نہیں ہے۔ ہم آج انھی تمام مسائل سے دوچار ہیں جن سے دنیا کی دیگر قومیں صدیوں پہلے اپنے اتحاد و جدوجہد اور جمہوریت کے ذریعے شکست دے چکی ہیں۔ ہم بحیثیت قوم زندگی کی جنگ میں ہارے ضرور ہیں لیکن ہمیں فخر ہے کہ کسی محاذ پر پسپا نہیں ہوئے ہمیں آگے بڑھنا ہے آگے اور آگے۔
یہی ہمارا اولین مقصد ہو نا چاہیے۔ اور ساتھ ساتھ ہمیں قائد اعظم کے فلسفے، سوچ، ان کی جدوجہد اور مقصد کو سامنے رکھنا ہو گا۔ ٹھیوڈور روز ویلٹ کا کہنا ہے کہ جب وہ صدر تھا اور اسے کوئی مشکل مرحلہ پیش آ جاتا تو وہ اپنی آرام کر سی پر تکیہ لگا کر بیٹھ جاتا اور لنکن کی قد آدم تصویر کی طرف دیکھا کر تا تھا جو اس کی میز کے اوپر وائٹ ہائوس میں آوایزاں تھی اور اپنے دل سے یہ سوال کیا کر تا تھا اگر اس وقت میری جگہ لنکن ہو تا تو اس موقعے پر کیا کرتا؟ امریکی فلاسفر ایمرسن کے الفاظ ہیں ایک انسان وہی کچھ ہے جو وہ تمام دن سوچتا ہے۔ عظیم فلسفی مارکس اردی نے اسے آٹھ الفاظ میں سمو دیا ہے۔
''ہماری زندگی ہمارے خیالات سے بنتی ہے'' نارمن ونسنٹ پیل کے الفاظ میں ''آپ وہ نہیں جو آپ سمجھتے ہیں بلکہ وہ ہیں جو آپ سوچتے ہیں'' پروفیسر ولیم جیمز کا قول سنیے۔ وہ کہتے ہیں ''ہم اپنے جسمانی اور دماغی قویٰ کے ایک ادنیٰ حصے سے کام لے رہے ہیں۔ اس مطلب کو پھیلا کر بیان کیا جائے تو یوں کہا جا سکتا ہے کہ انسانی فرد نہایت ہی محدود دائرے میں زندگی بسر کر تا ہے۔ وہ مختلف قسم کی قوتیں اپنے اندر موجود رکھتا ہے لیکن ان کے استعمال کر نے سے وہ عادتا ً قاصر رہتا ہے۔'' پاکستانی قوم کو بدلنا کوئی بڑی بات نہیں اگر ہم اپنی قوم میں یہ احساس پیدا کر دیں کہ ان کے اندر عظیم کارنامے کر نے کی صلاحیتیں دفن ہیں تو ہم انھیں نہ صرف بد ل سکتے ہیں بلکہ ہم ان کی کایہ پلٹ سکتے ہیں۔ ہمیں آج اس مشکل گھڑی میں صرف اور صرف روز ویلٹ کی طرح قائد اعظم کی تصویر کی طرف دیکھنا چاہیے اور ان کی جدوجہد کو سامنے رکھنا چاہیے اور یہ عزم کر نا چاہیے کہ ہمیں صرف اور صرف آگے بڑھنا ہے، آگے اور آگے۔ کولمبس جیسے غیر متزلزل عزم کے ساتھ!