ترکی اور اسرائیلی معافی

بہر حال اسرائیل کے قیام کی تاریخ اور صیہونیت کے فلسطین پر غاصبانہ قبضے سے پوری دنیا آگاہ ہے۔


Sabir Karbalai April 09, 2013

CHAMAN: مضمون کے عنوان کو دیکھ کر یقیناً بہت سے ذی شعور یہ سوچ رہے ہوں گے کہ آخر ایسی کیا بات ہو گئی کہ اسرائیل کو معافی کی ضرورت پڑ گئی یا ایسا بھی سوچ سکتے ہیں کہ اسرائیل اور معافی۔ اس طرح کی کئی اور سوچیں ہمارے اذہان میں جنم لے سکتی ہیں۔

بہر حال اسرائیل کے قیام کی تاریخ اور صیہونیت کے فلسطین پر غاصبانہ قبضے سے پوری دنیا آگاہ ہے۔ 15مئی 1948 تاریخ کا وہ سیاہ اور بھیانک دن گزرا ہے کہ جس دن بوڑھے استعمار برطانیہ کی سرپرستی میں اسرائیل نے فلسطینی سر زمین پر غاصبانہ قبضہ کیا اور اس ناجائز اور غیر قانونی قبضے کو امریکا نامی عالمی دہشت گرد نے سب سے پہلے قبول کرتے ہوئے اسے اور پھلنے پھولنے کا نہ صرف موقع فراہم کیا بلکہ اس غاصب اور دہشت گرد ریاست اسرائیل کو لائسنس بھی دے دیا کہ وہ جب چاہے اور جیسے چاہے فلسطینیوںکا قتل عام کرے اور ان کو اپنی ریاستی دہشت گردی کا نشانہ بنائے۔

غرض یہ کہ اسرائیل نے اپنے قیام سے آج تک گزرنے والے 65 سالوں میں کوئی دن ایسا نہیں جانے دیا کہ جس دن فلسطینیوں کے حقوق کی پائمالی نہ کی گئی ہوں یا ان پر انسانیت سوز مظالم کے پہاڑ نہ توڑے گئے ہوں یا پھر فلسطینیوں کو جیلوں میں قید و بند نہ کیا گیا ہو۔ اسرائیلی دہشت گردی کی بد ترین مثالیں تو بہت ہیں لیکن قیام کے اگلے ہی روز جو بد ترین مثال سامنے آئی یعنی 15مئی 1948 کے روز لاکھوں فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کر دیا گیا صرف یہی نہیں بلکہ ہزاروں فلسطینیوں کا بے دردی سے قتل عام کیا گیا اور انھیں گاجر مولی کی طرح گلی کوچوں میں کاٹا گیا لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ پوری دنیا صرف انسانی حقوق کی باتیں ہی کرتی رہی لیکن عملی طور پر فلسطینیوں کے لیے کوئی کام انجام نہ دے سکی۔

خلاصہ یہ ہے کہ غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے فلسطینیوں پر ڈھائے جانیو الے مظالم کی داستان اور فہرست اتنی طویل ہے کہ شاید لکھنے والوں کے پاس صفحات ختم ہو جائیں لیکن اسرائیلی بربریت اور سفاکیت کی داستانیں اور تاریخ ختم نہ ہو گی۔ انھی داستانوں میں سے ایک داستان فلسطین کے علاقے غزہ کی ہے۔ غزہ جو کہ فلسطینی آبادی کا بڑا علاقہ ہے اور جہاں کی آبادی پندرہ لاکھ سے زیادہ ہے۔ غاصب اسرائیل نے 2006میں غزہ کے علاقے کا محاصرہ کیا اور وہاں پر پہنچنے والی امداد جس میں خوراک و ادویات شامل تھیں اسے روک دیا۔ یہ محاصرہ پانچ سال سے زائد جاری رہا اور پھر کچھ عرصے کے لیے یہ محاصرہ نرم ہوا لیکن آج کل یہ محاصرہ پھر دوبارہ سخت ہو چکا ہے اور فلسطینی عوام شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ غزہ پٹی میں خوراک کی قلت، ادویات کی عدم فراہمی، اسپتالوں میں سہولیات کی عدم موجودگی اور انرجی کرائسز جیسے مسائل شدت کی نوعیت اختیار کر چکے ہیں۔

اسی طرح کے ظلم اور سفاکیت کی ایک داستان جسے دنیا ''فریڈم فلوٹیلا'' پر اسرائیلی حملے کے نام سے جانتی ہے۔ فریڈم فلوٹیلا جس میں دنیا بھر سے درجنوں ممالک کے سیکڑوں افراد انسانی ہمدردی کے رشتے سے غزہ کے چار سالہ اسرائیلی محاصرے کے خاتمے اور اس کو توڑنے اور فلسطینیوں کی مدد کے لیے نکلے تھے ان رضا کارو ں پر اسرائیلی وحشی افواج نے کھلے سمندر میں بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے حملہ کیا اور اس میں سوار 9 ترک رضا کاروں کو شہید کر دیا جب کہ درجنوں رضا کار شدید زخمی بھی ہوئے، بعد ازاں اس آزادی قافلے کو قید کر لیا گیا اور پھر عالمی دبائو کے بعد تمام رضا کاروں کو رہا کر دیا گیا۔ یہ مختصر قصہ تھا جو بیان کیا گیا۔

غزہ کا محاصرہ توڑنے کے لیے ترکی سے چلایا جانے والا فریڈم فلوٹیلا کھلے سمندر میں اسرائیلی جارحیت کا شکار بنا، نو ترک باشندے شہید ہوئے، درجنوں زخمی اور سیکڑوں کو قید کیا گیا۔ اس کے رد عمل میں ترکی کے عوام نے احتجاجاً ترکی میں اسرائیلی سفارتخانے کے باہر شدید احتجاج کیا اور ترک حکومت نے اسرائیلی سفیر کو ملک بدر کر دیا جس کے بعد پوری دنیا میں یہ تاثر عام ہونے لگا کہ ترکی نے اپنی کھوئی ہوئی عظمت یعنی خلافت عثمانیہ کو واپس حاصل کرنے کے لیے پہلا اقدام اٹھایا ہے۔ پوری دنیا اور بالخصوص مسلم ممالک میں موجود عوام ترکی کے لیے نیک خواہشات اور جذبات کا اظہار کر رہے تھے جب کہ پاکستان سمیت دنیا کے کئی ممالک میں ترکی کی جانب سے امداد ی قافلے کی حمایت میں زبرد ست احتجاجی مظاہرے ہوئے اور عالمی دہشت گردوں امریکا اور اسرائیل کے خلاف سخت نفرت کا اظہار کیا گیا۔

فریڈم فلوٹیلا پر حملے کے کچھ عرصہ گزر جانے کے بعد ماہرین سیاسیات یہ کہتے ہوئے بھی نظر آ رہے تھے کہ ترکی کی جانب سے اٹھائے جانے والے فوری اقدامات قابل تحسین تھے لیکن ترکی اپنے موقف میں کمزور ہو گیا ہے اور غاصب اسرائیل کے خلاف اپنی مزاحمت کو جاری رکھنے سے کترا رہا ہے۔ یوں تو یہ بات کافی حیرت انگیز تھی کہ ترکی جو خود کو مسلم امہ کا حامی ملک کہلواتا ہے اور ساتھ ساتھ یورپی یونین میں نمایندگی کا بھی خواہاں ہے، عجب معاملہ ہے۔ بہر حال ماہرین اور تجزیہ نگاروں نے جو کہنا تھا وہ کہہ دیا اور پھر آنے والے حالات و واقعات نے بھی اس بات کو ثابت کر دیا کہ ترکی حکومت اپنی کھوئی ہوئی عظمت یعنی خلافت عثمانیہ کی بحالی نہیں چاہتی بلکہ کچھ ایسے مفادات ہیں جو پوری مسلم امہ کے مفادات سے بھی ترکی کو زیادہ عزیز ہیں۔

خیر یہ باتیں دو سالوں تک تجزیہ نگاروں کی تحریروں اور گفتگو میں ہوتی ہوئی نظر آتی رہیں۔ البتہ دوسری جانب ترکی اس بات کی خواہش بھی کرتا رہا کہ اسرائیل ترکی کے جہاز پر کیے جانے والے حملے کی معافی مانگے، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس معافی سے فلسطینیوں کے حقوق واپس مل سکیں گے؟ کیا فلسطینیوں کی زمین جس پر غاصب اسرائیل کا قبضہ ہے ان کو واپس مل جائے گی؟ کیا فریڈم فلوٹیلا پر بہایا جانے والا مقدس شہیدوں کا لہو معافی کا طلبگار ہے؟ اور ان تمام سوالوں سے بڑھ کر سوال ہے غزہ کا، کہ کیا غزہ کا محاصرہ اسرائیل معافی نامے کے بعد ختم ہو جائے گا؟ یقیناً ان تمام سوالوں کے جواب اسرائیل کے معافی نامے سے ربط نہیں رکھتے۔

حال ہی میں امریکی صدر اوباما نے اسرائیل کو دورہ کیا ہے اور اسرائیل کو سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ مشرق وسطیٰ میں امریکا اور اسرائیل کے مشترکہ مفادات کے لیے ضروری ہے کہ کوئی اہم شراکت دار موجود ہو اور وہ ترکی سے زیادہ اچھا کوئی اور نہیں ہو سکتا ، کیونکہ ترکی شام کے مسئلے پر امریکا اور اسرائیل کی براہ راست حمایت کر رہا ہے اور اسی طرح مشرق وسطیٰ میں امریکی مفادات کی حفاظت ایک اچھے چوکیدار کی طرح کر رہا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اسرائیل نے امریکی صدر کی بات کو سمجھتے ہوئے ترکی سے معافی مانگ لی ہے جس کے بعد ترکی اور اسرائیل کے درمیان کئی ایک اہم معاہدوں پر دستخط بھی ہو گئے ہیں۔ یہاں پھر وہی سوالات جنم لے رہے ہیں کہ کیا ترکی سے اسرائیل کا معافی مانگ لینا اور ترکی کا معاف کر دینا فلسطینیوں کو کسی بھی قسم کا فائدہ پہنچائے گا؟ کیا اسرائیل اس معافی کے ساتھ غزہ کا انسانیت شکن محاصرہ ختم کر دے گا؟ کیا اسرائیلی جیلوں میں قید ہزاروں فلسطینی مرد و خواتین کو آزاد کر دیا گیا؟ کیا فلسطینیوں کے حقوق کی پائمالی کا سلسلہ روک دیا گیا؟ کیا فلسطینیوں کی غصب شدہ زمینیں فلسطینیوں کو لوٹا دی گئیں؟ ہر گز نہیں ۔ ایسا ہر گز نہیں ہوا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں