پیغام پاکستان اور انتہا پسندی کے خلاف بیانیہ

علمی کام پر یقینی طور پر بین الااقوامی اسلامی یونیورسٹی اوراس کے ذمے داران مبارکباد کے مستحق ہیں۔


سلمان عابد April 02, 2018
[email protected]

پاکستان کی ریاست، حکومت اور معاشرہ انتہا پسندی سے نمٹنے اوراس کے مقابلے میں ایک پرامن، منصفانہ، رواداری پر مبنی معاشرے کے لیے نئے بیانیہ کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ یقینی طور پر جو جنگیں علمی اور فکری مباحث کے نتیجے میں آگے بڑھتی ہیں وہی نئے بیانیے کی تلاش میں کوئی مثبت اور پائیدار حل تلاش کرنے میں کامیاب بھی ہوتی ہیں۔

انتہا پسندی کا مقابلہ محض انتظامی بنیادوں پر ممکن نہیں ہوتا۔ وقتی نتائج تو نکل سکتے ہیں ۔اصولی طور پر ذمے دار معاشروں میں جامعات، اہل علم، علمائے کرام اور دانشوروں کی حیثیت ایک ایسے ادارے اور تھنک ٹینک کی ہوتی ہے جو ملک و قوم کو درپیش چیلنجوں پر غور کرکے ان کے حل کی راہیں تلاش کرتے ہیں۔ علمائے کرام، خطیب، اسلامی اسکالرز، دانشور اور اسلامی مزاج والے لوگوں کا کردار انتہا پسندی سے نمٹنے اورنئے بیانیہ کی تلاش میں خصوصی اہمیت رکھتا ہے۔

بین الااقوامی اسلامی یونیورسٹی کے زیر اہتمام ''پیغام پاکستان'' کانفرنس کا انعقاد بھی ایک ایسی ہی مثبت سرگرمی تھی جس میں تمام مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے علمائے کرام اور اسکالرز نے شدت پسندی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مسائل پر غوروفکر کرکے ایک متفقہ فتوی دیا، انتہا پسندی کے خاتمے اوراسلام کے زریں اصولوں کی روشنی میں ایک معتدل اسلامی معاشرے کے استحکام کے لیے یہ فتوی ایک مثبت بنیاد فراہم کرنے میں پہلی سیڑھی بھی ہے۔اس علمی کام پر یقینی طور پر بین الااقوامی اسلامی یونیورسٹی اوراس کے ذمے داران مبارکباد کے مستحق ہیں۔

پیغام پاکستان کے نام سے یہ متفقہ دستاویز قرآن وسنت اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کی روشنی میں ریاست پاکستان کی اجتماعی سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔یہ دستاویز پاکستان کی ریاست کو درپیش مسائل کا تجزیہ کرتے ہوئے ایسی حکمت عملی اور اقدامات کی بنیاد تجویز کرتا ہے جس کی بنا پر قرداد مقاصد میں دیے گئے اہداف بھی حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ نیز اس کی مد د سے پاکستان کو قوموں کی برداری میں ایک مضبوط، متحد، مہذب اورترقی یافتہ ملک کے طور پیش کیا جاسکتا ہے۔

یہ متفقہ دستاویز پاکستان میں اسلامی تہذیب وتمدن کی برداشت، روحانیت،عدل وانصاف، برابری، حقوق و فرائض میں توازن جیسی خوبیوں سے مزین معاشرے کی تشکیل میں معاون ہوسکتی ہے۔ یہ دستاویز پاکستان کے ریاستی اداروں اور دینی مدارس کے مندرجہ ذیل وفاقوں کی کاوش کا علمی و فکری نتیجہ ہے۔ان میں وفاق المدراس العربیتہ، تنظیم المدراس اہل سنت ،وفاق المدارس السلفیہ، وفاق المدارس الشیعہ اور رابطہ المدارس پاکستان شامل ہیں۔

اس دستاویز کی تیاری میں اہم جامعات اور بڑے دینی مدارس جیسے دارالعلوم کراچی، دارالعلوم غوثیہ بھیرہ شریف، جامعہ بنوریہ کراچی، جامعہ المنتظر لاہور، جامعہ اشرفیہ لاہور، جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک، جامعہ محمدیہ اورجامعہ فریدیہ اسلام آباد شامل تھے۔یہ مسودہ ادارہ تحقیقات اسلامی، بین الااقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد نے شایع کیا ہے۔

یہ دستاویز26 مئی 2017ء کو '' میثاق مدینہ کی روشنی میں پاکستانی معاشرے کی تشکیل نو'' کے تناظر میں ہونے والی بڑی کانفرنس میں پیش کیا گیا جس کی صدارت صدر مملکت ممنون حسین نے کی تھی ۔22نکات پر مبنی اس کا مشترکہ اعلامیہ دیا گیا ہے۔ اس سے قبل ریاست نے 20 نکات پر مبنی نیشنل ایکشن پلان بھی تیار کیا ہوا ہے۔اس میں مندرجہ ذیل پہلو اہم ہیں۔

1973ء کے دستور کے تحت جمہوری معاشرے کی تشکیل اورا س کی بالادستی، اس ریاست میں تمام افراد کے بنیادی حقوق کی ضمانت، کسی کو بھی غیر مسلم قرار دینا، فتوی دینا اورلوگوں کے دین کو چیلنج کرنا یا مسلح کاروائی سمیت کسی پر جبر اور خوف یا زبردستی کی بنیاد پر اپنے نظریے، سوچ اور فکرکا نفاذ،ضرب عضب اور ردالفساد جیسے آپریشن کی حمایت، دہشتگردی کے خلاف جاری جنگ میں فوج سمیت ریاستی اداروں کے ساتھ کھڑے رہنا،خودکش حملوں کے خلاف، فتوی اور لسانی، علاقائی، مذہبی اورمسلکی شناختوں کے نام سے جو مسلح گروہ ریاست کے خلاف مصروف عمل ہیں.

یہ سب شریعت کے احکام کے منافی ہے اوران کے خلاف کاروائی، فرقہ ورانہ منافرت، مسلح فرقہ وارانہ تصادم، اورطاقت کی مدد سے نظریات کو دوسروں پر مسلط کرنے کی روش، تعلیمی اداروں میں کسی بھی نوعیت کی عسکریت، نفرت انگیزی انتہا پسندی اور تشدد پسندی پر مبنی تعلیم یا تربیت کی روک تھام، فکری جہاد اور انتظامی طور پر اٹھائے گئے اقدامات کی ترویج، ہماری سرزمین کسی بھی قسم کی دہشتگردی کے فروغ، استعمال، بھرتی اورمسلح مداخلت کو قبول نہ کرنا،اختلاف رائے کی قبولیت کی بحث ہماری تعلیمی نصاب میں شامل کرنا ،پرامن بقائے باہمی اورباہمی برداشت کا فروغ، دیگر مذاہب کے لوگوں کی عبادتوں اور عبادت گاہوں کا تحفظ،عورتوں کے حقوق کی پاسداری، مساجد کا انتہا پسندی کے خاتمہ میں کردار،میڈیا کی آزادی کو قانون کے دائرے میں لانا شامل ہے۔

مسئلہ یہ ہے کہ اس اہم مسئلہ پر سماج میں شعور کی بیداری میں جو کردارریاست، حکومت، اداروں، سیاسی جماعتوں، میڈیا اہل دانش اور علمائے کرام کی سطح پر جو کردار بنتا ہے اس سے ہم مجرمانہ غفلت کا شکار ہیں۔ پیغام پاکستان پر بننے والی یہ اہم دستاویز اس قومی بیانیہ کی بحث میں شامل ہی نہیں ہوسکی۔ اس کی وجہ ہماری ناقص حکمت عملی عدم ترجیحات، عدم دلچسپی اور ذاتی مفادات پر مبنی ایجنڈے کی وجہ سے ہم وہ نتائج حاصل نہیں کرسکے جو ہماری ضرورت بنتے ہیں۔میڈیا میں جو بحثیں چل رہی ہیں وہ غیر ضروری، شخصیت پرستی ، محاذ آرائی پر چل رہی ہیں اس میں ''پیغام پاکستان'' جیسے اہم دستاویز کہیں گم ہوکر رہ گئے ہیں۔میں لکھنے والوں، جامعات میں پڑھانے والے اساتذہ کو بھی اس دستاویز کا کوئی علم نہیں۔ اس میں واقعی جامعات اور میڈیا کے اہل دانش بڑا کردار ادا کرسکتے ہیں۔

پچھلے دنوں معروف دانشور اور تجزیہ نگار خورشید ندیم کے ادارے ''آرگنائزیشن فار ریسرچ اینڈ ایجوکیشن'' نے لاہور میں اہل دانش کے ساتھ اس ''پیغام پاکستان'' پر ایک فکری مجلس کا اہتمام کیا۔ مسئلہ یہ تھا کہ بہت سے لوگوں کو اس اہم دستاویز کا علم ہی نہیں تھا۔اگر یہ صورتحال اہل دانش کی سطح پر ہے تو باقی فریقین کا تو اللہ ہی حافظ ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم دستاویز، پالیسی یاقانون سازی تو کرلیتے ہیں، مگر عملدرآمد میں غفلت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ہم تمام فریقین کو ساتھ ملا کر آگے بڑھنے کے بجائے سیاسی تنہائی میں کام کرتے ہیں جس کا نتیجہ ہماری خواہش کے برعکس ہوتا ہے ۔اصل چیلنج ہی یہ ہے کہ ''پیغام پاکستان'' کی یہ دستاویز مدارس، علمائے کرام، خطیب، استاد، اہل دانش اور بالخصوص رائے عامہ بنانے والے افراد اور اداروں میں فوقیت حاصل کرسکے۔

اچھی بات یہ ہے کہ مدارس اورجامعات کو بنیاد بنا کر اگر ہم میڈیا کا بہتر استعمال کریں جس میں سوشل میڈیا بھی ہے تو بہتر نتائج ممکن ہیں۔ پچھلے کچھ عرصے میں پنجاب میں جامعات کی سطح پرامن، رواداری، براداشت اورایک اختلاف رائے کی آزادی سمیت سوچ اور فکری مباحث کو کلچر کو آگے بڑھایا جارہا ہے۔ اس میں پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن کے سربراہ ڈاکٹر نظام الدین کا بھی بڑا کردارہے اور اگر اس پیغام پاکستان کی دستاویز پر فکری مباحث کی بحث جامعات سے آگے بڑھائی جائیں اور نئی نسل کو اس مسئلہ پر شعور دیا جائے تو یہ بڑا کام ہوگا اوراس میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کو لیڈ لینی چاہیے، تاکہ بحث آگے بڑھے۔

ریاست، حکومت، اداروں سمیت سول سوسائٹی اور میڈیا کی ذمے داری ہے کہ وہ اپنے اندر ایک ایسا مضبوط نگرانی کا نظام بنائیں اور دیکھیں کہ چاہے وہ نیشنل ایکشن پلان ہو یا پیغام پاکستان کا دستاویز اس پر کیا کچھ ہورہا ہے اوراگر نہیں ہورہا تو اس میں کون ذمے دار ہیں۔یہ ہی عمل ہمیں ایک پرامن اور رواداری سمیت اختلاف رائے کو قبول کرنے والا معاشرہ بننے میں بڑی مدد اور طاقت فراہم کرسکتا ہے، جو ہماری قومی ضرورت ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں