عوام اور مجلس عمل میں دوری
دنیا کی سب سے بڑی لعنت جاگیرداری اور سرمایہ داری کے خلاف اپنے کارکنوں اور عوام کو متحرک کریں۔
2002ء میں خیبر پختونخوا میں برسر اقتدار آنے والی جماعت ایم ایم اے ایک طویل عرصے تک بے عملی کا شکار رہنے کے بعد دوبارہ بحال بھی ہوگئی ہے اور 2018ء کے الیکشن میں حصہ لینے کے لیے تیاری بھی شروع کردی ہے۔
موجودہ ایم ایم اے کا صدر مولانا فضل الرحمٰن کو مقرر کیا گیا ہے۔ سیکریٹری جنرل جماعت اسلامی کے لیاقت بلوچ ہوںگے۔ چونکہ متحدہ مجلس عمل ایک پختہ کار مذہبی جماعتوں کا اتحاد ہے لہٰذا امید کی جاسکتی ہے کہ انتخابی مفاہمت اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ میں بھی متحدہ مجلس عمل کے نظریاتی پہلو کو نہ صرف پیش نظررکھا جائے گا بلکہ اولیت دی جائے گی۔
دوسری سیاسی جماعتوں کی طرح متحدہ مجلس عمل میں بھی اختلافات رہے ہیں یہ اختلافات بھی یقینا نظریاتی ہی ہوسکتے ہیں لیکن ان اختلافات کے نتیجے میں ایم ایم اے ٹوٹ پھوٹ اور بے عملی کا شکار رہی۔ اب انتخابی ضرورتوںنے مجلس کے اکابرین کو ایک بار پھر ایک دوسرے کے قریب کردیا ہے اس قربت کا اندازہ اس اعلان سے ہوسکتا ہے کہ 2018ء کے انتخابات ایک پلیٹ فارم، ایک منشور، ایک انتخابی نشان، ایک جھنڈے اور ایک دستور کے تحت لڑے جائیںگے۔
پاکستان کی انتخابی تاریخ بڑی داغدار رہی ہے۔ انتخابی دھاندلی پاکستانی انتخابات کا ناگزیر حصہ بنی رہی ہے 2013ء کے انتخابات میں دھاندلی کے چرچے برسوں تک ہوتے رہے۔ سرمایہ دارانہ جمہوریت میں بد عنوانیاں اس کا لازمی حصہ ہوتی ہیں لیکن پاکستان اس حوالے سے کچھ زیادہ ہی نیک نام ہے۔ پاکستان کو ایک نظریاتی ملک کہاجاتا ہے اس تناظر میں دھاندلیوں اور بد عنوانیوں کے الزامات پاکستان کے نظریاتی چہرے پر ایک بد نما داغ کی حیثیت رکھتے ہیں۔
کرپشن کے حوالے سے بھی پاکستان جس مقام پر کھڑا ہوا ہے اس کا مشاہدہ حکمران خاندان کے خلاف ان ریفرنسز سے لگایا جاسکتا ہے جو آج کل سپریم کورٹ اور احتسابی عدالتوں میں زیر سماعت ہیں اس ضمن میں وزیراعظم کی نا اہلی سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ہمارے ملک میں الزامی سیاست کن بلندیوں پر کھڑی ہوئی ہے۔
تازہ ایم ایم اے کی سربراہی حضرت مولانا فضل الرحمٰن کے سپرد کی گئی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مجلس میں شامل جماعتوں کے اکابرین کس قدر بالغ نظر ہیں۔ مولانا فضل الرحمٰن ایک قدیم مذہبی جماعت جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ ہیں اور نظریاتی حوالے سے پختہ کار ہیں لیکن حضرت کی خوبی یہ ہے کہ وہ بورژوا جمہوریت کے اسرار و رموز سے بھی نہ صرف بہتر طریقے سے واقف ہیں بلکہ اس کے عملی پہلوؤں سے بھی خوب واقفیت رکھتے ہیں حکومتوں سے تعلقات استوار کرنے میں جو مہارت مولانا کو حاصل ہے شاید ہی کسی رہنما کو یہ مہارت حاصل رہی ہو۔ مولانا کے والد محترم سے ہماری سلام دعا رہی ہے، مفتی صاحب کی سیاست میں اور مولانا فضل الرحمٰن کی سیاست میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
2002ء میں پاکستان اور امریکا کے تعلقات کا عالم کیا تھا اس کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ متحدہ مجلس عمل نے 2002ء کے انتخابات امریکا مخالفت کے حوالے سے لڑے اور مجلس کی اس کامیابی میں امریکا مخالفت کا بڑا ہاتھ تسلیم کیا جاتا ہے حالانکہ امریکا کی پاکستان کے حوالے سے سیاست مذہبی جماعتوں سے دوستی اور ''بہتر تعلقات'' بنیادی پتھر کی حیثیت رکھتے ہیں۔
جو طاقتیں ملک کو کرپشن سے پاک کرنے کی غیر معمولی اہم ذمے داری پوری کررہی ہیں ان کے بارے میں قیاس کیا جارہا ہے کہ وہ پاکستان کو ان ہاتھوں میں چھوڑنا پسند نہیں کریںگی، جن ہاتھوں نے پاکستان کو تباہی کی آخری منزل تک پہنچایا ہے۔ اگر یہ قیاس درست ہے تو پھر دوبارہ اسی طرح کے سیٹ اپ کو لانا یقیناً غیر منطقی ہی کہلاسکتا ہے۔
اس تناظر میں سیاسی پنڈت طرح طرح کی قیاس آرائیاں کررہے ہیں لیکن انتخابی تیاریوں کو دیکھ کر یہ کہنا مشکل ہے کہ 2018ء کے انتخابات شاید التوا کا شکار نہ ہوں، لیکن محترم برگزیدہ طاقتیں موجودہ سیٹ اپ سے جس قدر بد ظن ہیں اس کے تناظر میں مائنس پلس کے امکانات کو رد کرنا مشکل ہے۔بات چلی تھی متحدہ مجلس عمل کی بحالی سے۔ متحدہ مجلس عمل میں شامل جماعتوں کے درمیان جزوی اختلاف تو ہوسکتے ہیں لیکن نظریاتی حوالے سے ان جماعتوں میں اتحاد بہت مضبوط ہے۔
سیاسی ناقدین کا کہناہے کہ 2002ء میں مجلس عمل کو پختونخوا میں ایک مکمل بااختیار حکومت ملی تھی پھر مجلس نے اپنے نظریات کا اطلاق کیوں نہیں کیا اگر پختونخوا میں مجلس اسلامی نظام نافذ کردیتی تو باقی ملک میں اس کے لیے اسلامی نظام نافذ کرنے کی راہ ہموار ہوجاتی۔ اس امید افزا صورتحال کے باوجود مجلس نے اس سنہری موقع سے فائدہ کیوں نہیں اٹھایا۔
یہ سوال بہر حال ہوتے رہیں گے لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ 70 سال سے مذہبی جماعتیں عوامی حمایت سے کیوں محروم ہیں؟ جب کہ یہ جماعتیں ملک میں اسلامی نظام نافذ کرنا چاہتی ہیں جس کے لیے ان کے پاس نظریاتی کارکن لاکھوں کی تعداد میں موجود ہیں اور اﷲ کے فضل سے وسائل بھی وافر مقدار میں موجود ہیں۔ہمارے آقا پیغمبر اسلام کی زندگی مسلمانوں کے ایک مثالی نمونے کی حیثیت رکھتی ہے۔
پیغمبر اسلام کے پاس نہ زمین جائیداد تھی نہ سرمایہ تھا۔ آپ نہ جاگیردار تھے نہ سرمایہ دار آپ کی عملی زندگی جاگیرداری اور سرمایہ داری کی مخالف تھی، ہمارے محترم علما کی یہ نظریاتی ذمے داری ہے کہ عوام کو غربت و افلاس سے ہمکنار کرنے والے جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف نہ صرف آواز اٹھائیں بلکہ ان استحصالی نظاموں کے خلاف منظم تحریک چلائیں مذہبی جماعتیں مڈل اور لوئر مڈل کلاس پر مشتمل ہوتی ہیں اور اشرافیائی جماعتیں جاگیرداروں اور سرمایہ داروں پر مشتمل ہوتی ہیں وہ جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف آواز بھی نہیں اٹھاسکتی لہٰذا مڈل کلاس پر مشتمل پارٹیوں کی یہ نظریاتی ذمے داری ہے کہ وہ دنیا کی سب سے بڑی لعنت جاگیرداری اور سرمایہ داری کے خلاف اپنے کارکنوں اور عوام کو متحرک کریں؟