عوام کی توقعات
شکست خوردہ امیدوار اور سیاسی جماعتیں کھلے قلب و ذہن اور اعتماد و یقین کے ساتھ انتخابی نتائج کو قبول کر لیں
پاکستان اپنی تاریخ کے اہم ترین دور سے گزر رہا ہے،65 سالہ سیاسی سفر کے دوران پہلی مرتبہ ایک منتخب جمہوری حکومت نے اپنی پانچ سالہ آئینی مدت پوری کی ہے جس کا کریڈٹ صدر آصف علی زرداری کی مفاہمانہ پالیسی کے سر جاتاہے، ایک آزاد و خود مختار الیکشن کمیشن کے زیر انتظام 11 مئی2013 کو منصفانہ، غیر جانبدارانہ اور شفاف انتخابات کے بعد جمہوری و آئینی طریقے سے بر سر اقتدار آنے والی منتخب حکومت کو پر امن طور پر منتقل ہو جانا بلا شبہ جمہوری نظام کے استحکام کی علامت قرار پائے گا، نگراں وزیر اعظم میر ہزار خان کھوسو کی14 رکنی کابینہ نے حلف اٹھا لیا ہے، چاروں صوبوں میں بھی نگراں حکومتیں پوری طرح فنکشنل ہو چکی ہیں۔
اگرچہ نگراں وزیر اعظم میر ہزار خان کھوسو اور سب سے بڑے صوبے پنجاب کے نگراں وزیر اعلیٰ پیپلز پارٹی کے نامزد کردہ ہیں تاہم اپوزیشن جماعتوں، مسلم لیگ ن، تحریک انصاف، جماعت اسلامی و دیگر کی جانب سے ان پر اظہار اعتماد جمہوری عمل کے تسلسل کو برقرار رکھنے اور انتخابی عمل کو یقینی بنانے کے حوالے سے خوش آیند بات ہے، جس کی سب ہی حلقوں کی جانب سے پذیرائی کی جا رہی ہے اور یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ صدر آصف علی زرداری نے سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہایت دانشمندی اور مہارت کے ساتھ اپنے نامزد امیدواروں کو نگراں وزیر اعظم اور نگراں وزیر اعلیٰ پنجاب بنوا کے انتخابات کا پہلا رائونڈ جیت لیا ہے اور دوسرے رائونڈ یعنی 11 مئی کے عام انتخابات میں صدر زرداری کوئی ''سرپرائز'' بھی دے سکتے ہیں۔
نگراں وفاقی و صوبائی حکومتوں کے لیے سب سے بڑا چیلنج ملک میں ایسے منصفانہ، شفاف، غیر جانبدارنہ عام انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنانا ہے جس پر کسی فریق کو انگشت نمائی کا موقع نہ مل سکے، نگرانوں پر دھاندلی کے الزامات نہ لگائے جا سکیں، الیکشن کمیشن کی غیر جانبداری پر کوئی حرف ملامت نہ کہہ سکے اور چیف الیکشن کمشنر کی ذات پر تنقید کے نشتر نہ چلائے جا سکیں۔
بالخصوص شکست خوردہ امیدوار اور سیاسی جماعتیں کھلے قلب و ذہن اور اعتماد و یقین کے ساتھ انتخابی نتائج کو قبول کر لیں، در اصل انتخابی شکست کو وسیع القلبی سے تسلیم کرنا ہمارے سیاسی کلچر کا حصہ نہیں بلکہ دھاندلی اور جانبداری کے مبینہ الزامات عائد کرنا ہماری سرشت میں داخل ہے اور تازہ ترین سیاسی ماحول تو اور بھی غیر یقینی ہے، ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں پی پی، مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کو آیندہ الیکشن میں اپنی اپنی کامیابی اور اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھنے کا سو فیصد یقین ہے اور ان جماعتوں کے قائدین برملا اس کا اظہار بھی کر رہے ہیں۔
عمران خان نے تو ''کلین سوئپ'' کا خواب بھی دیکھ لیا ہے وہ بڑے بڑے جلسے کر کے مخالفین کو حیران بھی کر رہے ہیں اور بلند بانگ دعوے کر کے قوم کو محیئر العقول خدمت کرنے کی یقین دہانیاں بھی کرا رہے ہیں کہ جیسے وزارت عظمیٰ کا تاج ان ہی کے سر افتخار کی زینت بنے گا۔ کچھ ایسی ہی صورتحال مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف کی ہے۔ وہ بھی پنجاب، خیبر پختونخوا میں بڑے جلسے کر کے یقین کی حد تک اپنی کامیابی کے نشے میں سرشار ہیں کہ اقتدار کا ''ہما'' بس ان کے ہی سر پر بیٹھے گا۔
پی پی پی نے بھی اپنے نوجوان اور پرجوش قائد بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں انتخابی مہم کا آغاز کر دیا ہے اور چاروں صوبوں میں صف بندی کی جا رہی ہے، بلاول بھٹو اہم جلسوں سے خطاب کریں گے، پی پی پی کو صدر آصف علی زرداری جیسے معاملہ فہم اور سیاسی حرکیات پر گہری نظر رکھنے والے دور اندیش قائد کی رہنمائی و سرپرستی بھی حاصل ہے، شہید بھٹو اور بی بی شہید کے کے سیاسی فکر و فلسفے کا ورثہ بھی بلاول بھٹو کی پشت پر ہے لہٰذا پی پی 11 مئی کے الیکشن میں ایسا ''سرپرائز'' دے سکتی ہے کہ مخالفین انگشت بدنداں رہ جائیں۔
ملک میں اس وقت میڈیا بھی آزاد ہے تمام انتخابی سرگرمیوں اور الیکشن کمیشن کے ہر اقدام پر اس کی گہری نظریں ہیں عدلیہ کی آزادی کا سورج بھی نصف النہار پر ہے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ریٹرننگ افسران کو ایک خط کے ذریعے کہا ہے کہ عدالتی افسران کسی دبائو میں آئے بغیر اپنی ذمے داریاں نبھائیں اور شفاف الیکشن کے لیے آئین پر عمل در آمد کو یقینی بنایا جائے۔
ادھر الیکشن کمیشن نے بھی نگراں حکومتوں کو بیوروکریسی میں تبدیلیوں و تبادلوں کا اختیار دیتے ہوئے اپنے حکم میں کہا ہے کہ تمام وفاقی و صوبائی سیکریٹریز اور انتخابی عمل میں اثر انداز ہونے والے تمام اداروں کے سربراہان، کمشنرز، آئی جیز، سی سی پی اوز، ڈی پی اوز، ایس ایچ اوز اور پٹواریوں کو تبدیل کر دیا جائے، گویا الیکشن کمیشن، وفاقی و صوبائی نگراں حکومتوں، عدلیہ ا ور میڈیا نے اپنے اپنے طور پر ملکی تاریخ کے سب سے زیادہ شفاف، منصفانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات کرانے کے لیے ''حفاظتی اقدامات'' اٹھا لیے ہیں۔ تاہم یہ سوالات اپنی جگہ موجود ہیں کہ کیا نگراں وزیر اعظم میر ہزار خان کھوسو اور چیف الیکشن کمشنر جسٹس فخر الدین جی ابراہیم اپنے معاونین کی مدد سے ملک میں حقیقی معنوں میں ''شفاف انتخابات'' کے انعقاد کا ''تاریخی کارنامہ'' انجام دینے میں کامیاب ہو سکیں گے؟
کیا ملک کی آزاد عدلیہ اور قدم قدم سوالات اٹھاتا اور تنقید کرتا ہوا میڈیا ملک میں آزادانہ، شفاف، منصفانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنانے میں مثبت اور تعمیری کردار ادا کر سکے گا؟ کیا انتخابی عمل میں شامل ریاستی اداروں کی غیر جانبداری پر کوئی آنچ نہیں آئے گی؟11 مئی کے انتخابات پر امریکا و برطانیہ سمیت پوری دنیا کی نظریں لگی ہوئی ہیں، انتخابی عمل کی نگرانی کے لیے غیر ملکی میڈیا کے لوگ بھی پاکستان میں موجود ہوں گے، کیا ہمارے سیاستدانوں اور انتخابی عمل سے منسلک آئینی اداروں کی کارکردگی اس قدر تسلی بخش ہو گی کہ جمہوریت کے حوالے سے بیرونی دنیا کو پاکستان کا مثبت پیغام دیا جا سکے؟
پاکستان میں اس سے قبل بھی نگراں حکومتیں قائم ہوتی رہی ہیں اور ان کے زیر انتظام انتخابات کرائے گئے ہیں اگرچہ1973 کے آئین میں نگراں یا عبوری حکومتوں کے قیام کے حوالے سے کوئی متعین رہنما اصول وضع نہیں کیے گئے تاہم گزشتہ حکومت نے اپوزیشن کی مشاورت سے عبوری حکومت کے قیام اور اس کے زیر انتظام عام انتخابات کے انعقاد کے لیے رہنما اصول متعین کیے ہیں۔
ملک میں پہلی نگراں حکومت کا عبوری وزیر اعظم مصطفی جتوئی کو بنایا گیا اس کے بعد بلخ شیر مزاری، معین قریشی، ملک معراج خالد اور میاں محمد سومرو بھی نگراں وزیر اعظم بننے کا اعزاز حاصل کر چکے ہیں، ماضی کی جتنی بھی عبوری حکومتوں کے دوران انتخابات ہوئے ان کی شفافیت ہدف تنقید بنتی رہی۔ یہ پہلا موقع ہے کہ میر ہزار خان کھوسو کی نگراں حکومت کو فوج، عدلیہ، میڈیا، الیکشن کمیشن، سماجی و سیاسی و عوامی حلقوں کی جانب سے بھرپور تعاون حاصل ہے اور تمام فریقین نگراں حکومت پر اعتماد اور یقین کا اظہار کرتے ہوئے توقع کر رہے ہیں کہ11 مئی کے انتخابات کلی طور پر منصفانہ اور غیر جانبدارانہ ہوں گے۔ کیا نگراں وزیر اعظم میر ہزار خان کھوسو عوام الناس کی توقعات پر پورا اتر سکیں گے؟