ہم ایسے کیوں ہیں
طالبعلم کی دانست میں موجودہ عدم تحفظ ہماری صلاحیتوں کو دیمک کی طرح چاٹ چکاہے۔
ہمارے ذاتی اورقومی رویے، دنیا سے اس قدرمختلف ہیں کہ ہم اندازہ ہی نہیں لگا سکتے۔مختلف کے بجائے متضاد کا لفظ زیادہ مناسب ہوگا۔میری دانست میں اردولغت میں کوئی ایسامحاورہ،لفظ یاجملہ موجودنہیں ہے جو پوری دنیا سے مختلف ہمارے عمل اور ردِعمل کی ترجمانی کرسکے۔
اس حقیقت کاشعورملک کے سنجیدہ طبقے کو تو ہے مگرعوام کی اکثریت غیرممالک کے ہمارے متعلق رجحان کوایک سازش سمجھتی ہے۔ان کے خیال میں ہم مکمل طورپردرست ہیں، پوری دنیاغلط ہے۔جہاں بھی سازش کاذکرہوگا،وہاں یہود و ہنود کاذکرکرنالازم ہے۔یعنی پوری دنیاکے غیرمسلم صبح اُٹھ کر صرف ایک کام کرتے ہیں، ہمارے عظیم ملک کے خلاف کوئی منفی سازش اوریہ سب کچھ دن رات مسلسل ہوتا ہے۔
طالبعلم کی رائے میں ایساکچھ بھی نہیں ہے۔پانچ چھ دہائیوں سے مسلسل برین واشنگ سے ہمیں جس ذہنی پستی کی طرف لیجایا گیا ہے،اس کاکوئی حل یاعلاج فی الحال ممکن نہیں ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اس موضوع پرلکھنے کے لیے بھی بہت کم لوگ تیارہوتے ہیں۔خصوصاًاردومیں اکثرلکھاری اس سچائی سے راہ فرار اختیارکرتے ہیں۔
خرابیاں یا مسائل توبے شمارہیں۔چند لکھے جاسکتے ہیں اورکچھ پربات کرناجان لیوا ثابت ہوسکتا ہے۔ ان معاملات کوکسی ترتیب سے بھی پیش کرناناممکن ہے کیونکہ ہر لکھاری کی ترتیب بھی ذاتی نوعیت کی ہوتی ہے۔پہلی بات تو یہ کہ ایک طے شدہ منصوبے کے تحت ہمیں شدید عدم تحفظ کا شکار بنادیاگیا ہے۔یہ منفی احساس اتناتوانا ہے کہ ریاست تو کیا، ہرشخص اپنے آپ کوغیرمحفوظ سمجھتا ہے۔عدم تحفظ کے احساس کی بے شماروجوہات ہیں۔
یہ احساس صرف ایک حکمت عملی کی تحت نہیں ہوا بلکہ جس روز ملک وجود میں آیا، اس دن سے ہمیں بتایاگیاکہ ہندوستان ہمیں ختم کرنا چاہتا ہے۔ صرف مہینوں یادنوں کی بات ہے۔یہاں کوئی بڑا لکھاری یادانشورجرات نہیں کرسکتاکہ تحریرکرے کہ گاندھی نے بھوک ہڑتال کی تھی کہ ہندوستان کی مرکزی حکومت، پاکستان کو معاہدے کے برعکس مالیاتی وسائل دینے سے اجتناب کررہی تھی۔
گاندھی نے مرن برت رکھا تھاکہ ہمارے ملک کواس کے جائزمالی حقوق دیے جاسکیں۔ کیا یہ پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لیے تھا؟آج تک کسی نے اس سچ کولوگوں کے سامنے نہیں رکھا۔ہمیں کوئی یہ بھی نہیں بتاتا کہ قائداعظم نے پاکستان اورہندوستان کے درمیان تعلقات کوامریکہ اورکینیڈاکی طرزپراستوارکرنے پر زوردیا تھا۔ قائداعظم کے اس فرمان یا ہدایت یا نظریے کوکبھی مباحثوں میں سامنے لاتے ہوئے نہیں دیکھیں گے۔
پہلے دن سے ہمارے ذہن میں یہ خیال پیوست کردیاگیاکہ دنیا، بالخصوص اسرائیل اورہندوستان،ہمارے وجود کے درپے ہیں۔ اس عدم تحفظ کواس طرزپربڑھاوادیاگیاکہ اب ہر پاکستانی اسے حقیقت سمجھتاہے۔بدقسمتی سے ہندوستان میں بی جے پی کی حکومت نے وہی ذہنی انجینئرنگ کرنی شروع کر دی ہے جوبرسوں سے ہمارے معاشرے میں جاری تھی۔ اب نفرت کی دیواراس قدرمضبوط ہے کہ کوئی اسے عبور نہیں کر سکتا۔ کرے گا تو اسے زندہ درگور کر دیا جائیگا۔
طالبعلم کی دانست میں موجودہ عدم تحفظ ہماری صلاحیتوں کو دیمک کی طرح چاٹ چکاہے۔جوبھی انڈیاسے صلح کی بات کریگا، غدارکہلائے گا۔اداروں اور رہنماؤں کی ایک طویل فہرست ہے جو عدم تحفظ کے جذبے کوبڑھاکرحیران کن مالی فوائدحاصل کررہے ہیں۔آنے والے دنوں میں یہ عدم تحفظ بڑھے گااورملک کومزیدگھمبیرحالات سے دوچارکردیگا۔
دوسرااہم نکتہ یہ ہے کہ ہم نے دین پرعمل کرنے کے بجائے اسے سیاسی ہتھیارکے طورپراستعمال کرناشروع کر دیا۔ بیشمارمثالیں ہیں۔اسلام جیسے انقلابی مذہب کواپنی زندگی پرلاگو نہیں کیا۔سچ بولنا،انصاف کرنا،کمزورکے مالی وسائل کی حفاظت کرنا،اعتدال پسندی کواختیارکرنااوراس طرح کے اَنگنت سنہری اصولوں کوبالائے طاق رکھ کردین کو صرف بحث کرنے کے لیے استعمال کرناشروع کردیا۔جس ملک میں پچانوے فیصدمسلمان ہوں،وہاں دینی سیاسی جماعتوں کے وجودکی کیاضرورت ہے؟
وہاں الیکشن کے دوران ''کتاب''کے انتخابی نشان کومذہبی حوالے سے کیوں استعمال کیاجاتاہے؟کیایہاں یہ بحث ہوسکتی ہے کہ ہمارے ہی ملک کے سابقہ حصے یعنی بنگلہ دیش میں مذہبی سیاسی جماعتوں پرپابندی سے ان کوفائدہ ہواہے یا نہیں؟آپ یہ بات ذراکرکے تودیکھئے،فوراًبے رحمانہ تنقیدکانشانہ بنایا جائیگا جب یہ بات ہمارے مقتدرطبقے کوسمجھ آئی،تواس نے مذہب کے سیاسی استعمال کواوج ثریاپرپہنچادیا۔
ملک کی دولت لوٹ کرمذہبی رسومات پراس طرح عمل کیاگیاکہ عام لوگ انھیں بیحد نیک اورایماندارسمجھنے لگے۔ہمارے ملک میں فائیوسٹار عمرے اورحج کوبھی تجارتی سرپرستی ملی۔یعنی امیرآدمی کے لیے مذہبی احکامات کی بجاآوری بڑے آرام بلکہ عیش سے ہو۔وہ چارٹرڈطیارے پرسعودی عرب جائیں۔ فائیوسٹار ہوٹلوں میں قیام کریں۔انواع واقسام کے کھانے ان کے لیے موجود ہوں۔ صحرا میں بھی ان کے خیمے ائیرکنڈیشنر سے ٹھنڈے ہوں۔ان کے ساتھ اَٹیچ باتھ ہو۔مگرہمارے ہی ملک کے عام آدمی کے لیے حجِ مقدس میں معمولی سی سہولتیں بھی مہیا نہیں کی جاتیں۔
موضوع سے ہٹ کرعرض کروں گا کہ ہرحج پر سرکاری ملازم جاتے ہیں۔ان کے ذمے یہ کام ہوتا ہے کہ حاجیوں کے لیے عمارتوں میں ممکنہ سہولیات دیں۔ کھانا بھی مہیاکرنے کی ذمے داری ہوتی ہے۔ایک جونیئر اہلکار نے بتایاکہ انھیں اوپرسے حکم ملاہے کہ بچا ہوا کھانا پھینکنا نہیں بلکہ اگلے دن نئے کھانے میں ملاکردوبارہ پیش کر دینا ہے۔ اس سے جوپیسے بچیں گے، ان کو اوپرسے لے کرنیچے تک تقسیم کردیاجائیگا۔
اس اہلکارنے یہ کام کرنے سے انکار کر دیا مگر دوسرے اہلکار ویسے ہی کرتے رہے جوحکم دیا گیا تھا۔ کوئی دس بارہ سال کی بات نہیں کر رہا۔سب کچھ حالیہ برسوں میں ہوتارہاہے۔جولوگ حج میں بھی عام آدمی کی جیب کاٹنے میں مصروف رہتے ہیں،ان سے خیرکی کیا توقع کی جا سکتی ہے بلکہ بیوقوفی ہے۔ مجھے کسی اورملک میں رَتی بھربھی دلچسپی نہیں۔مگرکیایہ حیرت انگیزبات نہیں کہ سعودی عرب کا ولی عہد بیان دے کہ اس کے ملک نے ایک خاص مسلک کو مغربی حکومتوں کی تجاویزپرعمل کرتے ہوئے پھیلایا۔
کیایہ انتہائی تکلیف دہ بات نہیں ۔سعودی عرب کا طرزِعمل اپنی جگہ مگر ہمارے ملک کوہوش کب آئیگا۔کب تک ہم اس اَمرکی اجازت دینگے کہ ہمارامقتدرطبقہ دین کانام استعمال کر کے ہمیں ہرطریقے سے لوٹتا رہے بلکہ ہمیں بیوقوف بناتا رہے۔
تیسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ ہم اپنی کمزوریوں اورکوتاہیوں کی ذمے داری خودنہیں لیتے بلکہ دوسروں پرڈال دیتے ہیں۔ ہر شخص،جس بھی مرتبہ اورعہدہ پرہو،وہ کسی قسم کی کوئی ذمے داری لینے کوتیارنہیں۔کیاآپ یقین فرمائینگے کہ سب سے کامیاب بیوروکریٹ کون ہیں۔وہ لوگ جوپوری عمرکوئی فیصلہ نہیں کرتے۔ہرچیزکوٹالتے رہتے ہیں۔فائلوں پر اعتراضات دراعتراضات لگاتے رہتے ہیں۔سائل ان کے دفتروں کے چکرلگالگاکرمایوس ہوجاتے ہیں۔ آنا چھوڑ دیتے ہیں مگران کے کانوں پرجوں نہیں رینگتی۔
یہ افسران یا اہلکار، اپناکام کرنے کے بجائے دوسروں پرنکتہ چینی کرتے ہیں۔ ہروہ افسر،جوعام آدمیوں سے خوش اخلاقی سے ملے، ان کے جائزکام مستعدی سے کرے،ان کلاکاروں کے نزدیک کرپٹ ہے۔اس حکمتِ عملی پرکام کرنیوالے سرکاری ملازم ہروقت اپنی ایمانداری اوربڑے پن کاڈھول پیٹتے ہیں۔ ان کے نزدیک،دوسرے تمام لوگ بے ایمان اور چور ہیں۔ فیصلہ نہ کرنے کی کمزوری کوجونیئرعملے کی کوتاہی بتا کر اس طرح بری الذمہ ہوجاتے ہیں کہ انسان حیران رہ جاتا ہے۔
یہ مرض سرکاری شعبوں میں توموجودہے ہی، مگر نجی شعبہ بھی اس سے بری الذمہ نہیں۔مگروہاں سیٹھ کی کوتاہی کا ذکر کرنابھی گناہ سمجھاجاتاہے۔ہمارے مک میں کامیابی کا نسخہ بالکل سادہ ساہے۔کوئی ذمے داری نہ لو،کوئی فیصلہ نہ کرو، بس ہرچیزدوسروں پرڈال دو۔اگرکوئی فیصلہ کرنے کاوقت آئے توفوراًسینئرلوگوں کے پاس جاکرپوچھناشروع کردو کہ بتائیے حضور،اس فائل پرکیالکھناہے۔شخصی اعتبارکے اس رویہ کواب آپ ملکی سطح پرلے جائیے۔
حکومت بلکہ کوئی بھی حکومت،اپنی پالیسی کے ردِعمل کواپنانے سے گریزکرتی ہے۔ ہم اس ڈھٹائی سے قرضے لیتے ہیںکہ قرضے دینے والے ادارے ڈرجاتے ہیں۔ورلڈبینک اوردیگراداروں سے بھیک مانگ کرقومی خزانہ بھرتے ہیں اورپھر ہرطرح کا کریڈٹ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔حالیہ مثال ڈالرکی خوفناک اُڑان اور روپے کی قدرمیں گراوٹ ہے مگرہمارے وزیر خزانہ نے یہ زوال اپنے ذمے نہیں لیا۔
یہ نہیں کہاکہ ملکی قرضے تومیں خودلیتارہاہوں۔بلکہ اس کے بالکل برعکس تمام ذمے داری چندہفتے پہلے بننے والی مالیاتی ٹیم پرڈال دی۔المیہ یہ ہے کہ تمام مالیاتی اداروں میں وزیرخزانہ کے تعینات بندے آج بھی کام کررہے ہیں۔مگرجہاں ذمے داری لینے کی بات آئی،فوراًاعلان ہواکہ کوتاہی تومیری نہیں بلکہ نئی ٹیم کی ہے۔ یہ صرف ایک مثال ہے، اس طرح کی ہزاروں مثالیں ہمارے اردگردبکھری ہوئی ہیں۔
بیشمارنکات ہیں جن پرطویل بحث ہوسکتی ہے۔ ہر نکتہ کو محض ایک کالم میں لکھناناممکن ہے۔کئی اہم عناصرلکھ ہی نہیں پایامگرسوچنے کی بات ہے کہ کیا ہم اپنے عدم تحفظ کو تحفظ میں بدلنے کے عملی اقدامات کرنے کی جرات کرسکتے ہیں۔ کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ دین کوسیاسی طور پر ہرگز ہرگز استعمال نہیں ہوناچاہیے۔
کیایہاں کوئی نالائق ترین مگر کامیاب سرکاری افسر، کاروباری شخص یا ادارہ،کبھی اپنی غلطی تسلیم کرنے کی ہمت کر سکتا ہے۔ قطعاً نہیں ۔ ہرگز نہیں۔ ہم دنیا کے کامیاب ملکوں کے ساتھ کندھاملاکرچلنے کی استطاعت ہی نہیں رکھتے۔ وہ بدقسمت قوم ہیں جس نے اپنے ہاتھوں سے اپنے آپ کو بربادکیاہے مگرمجھے سمجھ نہیں آتاکہ ہم ایسے کیوں ہیں!
اس حقیقت کاشعورملک کے سنجیدہ طبقے کو تو ہے مگرعوام کی اکثریت غیرممالک کے ہمارے متعلق رجحان کوایک سازش سمجھتی ہے۔ان کے خیال میں ہم مکمل طورپردرست ہیں، پوری دنیاغلط ہے۔جہاں بھی سازش کاذکرہوگا،وہاں یہود و ہنود کاذکرکرنالازم ہے۔یعنی پوری دنیاکے غیرمسلم صبح اُٹھ کر صرف ایک کام کرتے ہیں، ہمارے عظیم ملک کے خلاف کوئی منفی سازش اوریہ سب کچھ دن رات مسلسل ہوتا ہے۔
طالبعلم کی رائے میں ایساکچھ بھی نہیں ہے۔پانچ چھ دہائیوں سے مسلسل برین واشنگ سے ہمیں جس ذہنی پستی کی طرف لیجایا گیا ہے،اس کاکوئی حل یاعلاج فی الحال ممکن نہیں ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اس موضوع پرلکھنے کے لیے بھی بہت کم لوگ تیارہوتے ہیں۔خصوصاًاردومیں اکثرلکھاری اس سچائی سے راہ فرار اختیارکرتے ہیں۔
خرابیاں یا مسائل توبے شمارہیں۔چند لکھے جاسکتے ہیں اورکچھ پربات کرناجان لیوا ثابت ہوسکتا ہے۔ ان معاملات کوکسی ترتیب سے بھی پیش کرناناممکن ہے کیونکہ ہر لکھاری کی ترتیب بھی ذاتی نوعیت کی ہوتی ہے۔پہلی بات تو یہ کہ ایک طے شدہ منصوبے کے تحت ہمیں شدید عدم تحفظ کا شکار بنادیاگیا ہے۔یہ منفی احساس اتناتوانا ہے کہ ریاست تو کیا، ہرشخص اپنے آپ کوغیرمحفوظ سمجھتا ہے۔عدم تحفظ کے احساس کی بے شماروجوہات ہیں۔
یہ احساس صرف ایک حکمت عملی کی تحت نہیں ہوا بلکہ جس روز ملک وجود میں آیا، اس دن سے ہمیں بتایاگیاکہ ہندوستان ہمیں ختم کرنا چاہتا ہے۔ صرف مہینوں یادنوں کی بات ہے۔یہاں کوئی بڑا لکھاری یادانشورجرات نہیں کرسکتاکہ تحریرکرے کہ گاندھی نے بھوک ہڑتال کی تھی کہ ہندوستان کی مرکزی حکومت، پاکستان کو معاہدے کے برعکس مالیاتی وسائل دینے سے اجتناب کررہی تھی۔
گاندھی نے مرن برت رکھا تھاکہ ہمارے ملک کواس کے جائزمالی حقوق دیے جاسکیں۔ کیا یہ پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لیے تھا؟آج تک کسی نے اس سچ کولوگوں کے سامنے نہیں رکھا۔ہمیں کوئی یہ بھی نہیں بتاتا کہ قائداعظم نے پاکستان اورہندوستان کے درمیان تعلقات کوامریکہ اورکینیڈاکی طرزپراستوارکرنے پر زوردیا تھا۔ قائداعظم کے اس فرمان یا ہدایت یا نظریے کوکبھی مباحثوں میں سامنے لاتے ہوئے نہیں دیکھیں گے۔
پہلے دن سے ہمارے ذہن میں یہ خیال پیوست کردیاگیاکہ دنیا، بالخصوص اسرائیل اورہندوستان،ہمارے وجود کے درپے ہیں۔ اس عدم تحفظ کواس طرزپربڑھاوادیاگیاکہ اب ہر پاکستانی اسے حقیقت سمجھتاہے۔بدقسمتی سے ہندوستان میں بی جے پی کی حکومت نے وہی ذہنی انجینئرنگ کرنی شروع کر دی ہے جوبرسوں سے ہمارے معاشرے میں جاری تھی۔ اب نفرت کی دیواراس قدرمضبوط ہے کہ کوئی اسے عبور نہیں کر سکتا۔ کرے گا تو اسے زندہ درگور کر دیا جائیگا۔
طالبعلم کی دانست میں موجودہ عدم تحفظ ہماری صلاحیتوں کو دیمک کی طرح چاٹ چکاہے۔جوبھی انڈیاسے صلح کی بات کریگا، غدارکہلائے گا۔اداروں اور رہنماؤں کی ایک طویل فہرست ہے جو عدم تحفظ کے جذبے کوبڑھاکرحیران کن مالی فوائدحاصل کررہے ہیں۔آنے والے دنوں میں یہ عدم تحفظ بڑھے گااورملک کومزیدگھمبیرحالات سے دوچارکردیگا۔
دوسرااہم نکتہ یہ ہے کہ ہم نے دین پرعمل کرنے کے بجائے اسے سیاسی ہتھیارکے طورپراستعمال کرناشروع کر دیا۔ بیشمارمثالیں ہیں۔اسلام جیسے انقلابی مذہب کواپنی زندگی پرلاگو نہیں کیا۔سچ بولنا،انصاف کرنا،کمزورکے مالی وسائل کی حفاظت کرنا،اعتدال پسندی کواختیارکرنااوراس طرح کے اَنگنت سنہری اصولوں کوبالائے طاق رکھ کردین کو صرف بحث کرنے کے لیے استعمال کرناشروع کردیا۔جس ملک میں پچانوے فیصدمسلمان ہوں،وہاں دینی سیاسی جماعتوں کے وجودکی کیاضرورت ہے؟
وہاں الیکشن کے دوران ''کتاب''کے انتخابی نشان کومذہبی حوالے سے کیوں استعمال کیاجاتاہے؟کیایہاں یہ بحث ہوسکتی ہے کہ ہمارے ہی ملک کے سابقہ حصے یعنی بنگلہ دیش میں مذہبی سیاسی جماعتوں پرپابندی سے ان کوفائدہ ہواہے یا نہیں؟آپ یہ بات ذراکرکے تودیکھئے،فوراًبے رحمانہ تنقیدکانشانہ بنایا جائیگا جب یہ بات ہمارے مقتدرطبقے کوسمجھ آئی،تواس نے مذہب کے سیاسی استعمال کواوج ثریاپرپہنچادیا۔
ملک کی دولت لوٹ کرمذہبی رسومات پراس طرح عمل کیاگیاکہ عام لوگ انھیں بیحد نیک اورایماندارسمجھنے لگے۔ہمارے ملک میں فائیوسٹار عمرے اورحج کوبھی تجارتی سرپرستی ملی۔یعنی امیرآدمی کے لیے مذہبی احکامات کی بجاآوری بڑے آرام بلکہ عیش سے ہو۔وہ چارٹرڈطیارے پرسعودی عرب جائیں۔ فائیوسٹار ہوٹلوں میں قیام کریں۔انواع واقسام کے کھانے ان کے لیے موجود ہوں۔ صحرا میں بھی ان کے خیمے ائیرکنڈیشنر سے ٹھنڈے ہوں۔ان کے ساتھ اَٹیچ باتھ ہو۔مگرہمارے ہی ملک کے عام آدمی کے لیے حجِ مقدس میں معمولی سی سہولتیں بھی مہیا نہیں کی جاتیں۔
موضوع سے ہٹ کرعرض کروں گا کہ ہرحج پر سرکاری ملازم جاتے ہیں۔ان کے ذمے یہ کام ہوتا ہے کہ حاجیوں کے لیے عمارتوں میں ممکنہ سہولیات دیں۔ کھانا بھی مہیاکرنے کی ذمے داری ہوتی ہے۔ایک جونیئر اہلکار نے بتایاکہ انھیں اوپرسے حکم ملاہے کہ بچا ہوا کھانا پھینکنا نہیں بلکہ اگلے دن نئے کھانے میں ملاکردوبارہ پیش کر دینا ہے۔ اس سے جوپیسے بچیں گے، ان کو اوپرسے لے کرنیچے تک تقسیم کردیاجائیگا۔
اس اہلکارنے یہ کام کرنے سے انکار کر دیا مگر دوسرے اہلکار ویسے ہی کرتے رہے جوحکم دیا گیا تھا۔ کوئی دس بارہ سال کی بات نہیں کر رہا۔سب کچھ حالیہ برسوں میں ہوتارہاہے۔جولوگ حج میں بھی عام آدمی کی جیب کاٹنے میں مصروف رہتے ہیں،ان سے خیرکی کیا توقع کی جا سکتی ہے بلکہ بیوقوفی ہے۔ مجھے کسی اورملک میں رَتی بھربھی دلچسپی نہیں۔مگرکیایہ حیرت انگیزبات نہیں کہ سعودی عرب کا ولی عہد بیان دے کہ اس کے ملک نے ایک خاص مسلک کو مغربی حکومتوں کی تجاویزپرعمل کرتے ہوئے پھیلایا۔
کیایہ انتہائی تکلیف دہ بات نہیں ۔سعودی عرب کا طرزِعمل اپنی جگہ مگر ہمارے ملک کوہوش کب آئیگا۔کب تک ہم اس اَمرکی اجازت دینگے کہ ہمارامقتدرطبقہ دین کانام استعمال کر کے ہمیں ہرطریقے سے لوٹتا رہے بلکہ ہمیں بیوقوف بناتا رہے۔
تیسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ ہم اپنی کمزوریوں اورکوتاہیوں کی ذمے داری خودنہیں لیتے بلکہ دوسروں پرڈال دیتے ہیں۔ ہر شخص،جس بھی مرتبہ اورعہدہ پرہو،وہ کسی قسم کی کوئی ذمے داری لینے کوتیارنہیں۔کیاآپ یقین فرمائینگے کہ سب سے کامیاب بیوروکریٹ کون ہیں۔وہ لوگ جوپوری عمرکوئی فیصلہ نہیں کرتے۔ہرچیزکوٹالتے رہتے ہیں۔فائلوں پر اعتراضات دراعتراضات لگاتے رہتے ہیں۔سائل ان کے دفتروں کے چکرلگالگاکرمایوس ہوجاتے ہیں۔ آنا چھوڑ دیتے ہیں مگران کے کانوں پرجوں نہیں رینگتی۔
یہ افسران یا اہلکار، اپناکام کرنے کے بجائے دوسروں پرنکتہ چینی کرتے ہیں۔ ہروہ افسر،جوعام آدمیوں سے خوش اخلاقی سے ملے، ان کے جائزکام مستعدی سے کرے،ان کلاکاروں کے نزدیک کرپٹ ہے۔اس حکمتِ عملی پرکام کرنیوالے سرکاری ملازم ہروقت اپنی ایمانداری اوربڑے پن کاڈھول پیٹتے ہیں۔ ان کے نزدیک،دوسرے تمام لوگ بے ایمان اور چور ہیں۔ فیصلہ نہ کرنے کی کمزوری کوجونیئرعملے کی کوتاہی بتا کر اس طرح بری الذمہ ہوجاتے ہیں کہ انسان حیران رہ جاتا ہے۔
یہ مرض سرکاری شعبوں میں توموجودہے ہی، مگر نجی شعبہ بھی اس سے بری الذمہ نہیں۔مگروہاں سیٹھ کی کوتاہی کا ذکر کرنابھی گناہ سمجھاجاتاہے۔ہمارے مک میں کامیابی کا نسخہ بالکل سادہ ساہے۔کوئی ذمے داری نہ لو،کوئی فیصلہ نہ کرو، بس ہرچیزدوسروں پرڈال دو۔اگرکوئی فیصلہ کرنے کاوقت آئے توفوراًسینئرلوگوں کے پاس جاکرپوچھناشروع کردو کہ بتائیے حضور،اس فائل پرکیالکھناہے۔شخصی اعتبارکے اس رویہ کواب آپ ملکی سطح پرلے جائیے۔
حکومت بلکہ کوئی بھی حکومت،اپنی پالیسی کے ردِعمل کواپنانے سے گریزکرتی ہے۔ ہم اس ڈھٹائی سے قرضے لیتے ہیںکہ قرضے دینے والے ادارے ڈرجاتے ہیں۔ورلڈبینک اوردیگراداروں سے بھیک مانگ کرقومی خزانہ بھرتے ہیں اورپھر ہرطرح کا کریڈٹ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔حالیہ مثال ڈالرکی خوفناک اُڑان اور روپے کی قدرمیں گراوٹ ہے مگرہمارے وزیر خزانہ نے یہ زوال اپنے ذمے نہیں لیا۔
یہ نہیں کہاکہ ملکی قرضے تومیں خودلیتارہاہوں۔بلکہ اس کے بالکل برعکس تمام ذمے داری چندہفتے پہلے بننے والی مالیاتی ٹیم پرڈال دی۔المیہ یہ ہے کہ تمام مالیاتی اداروں میں وزیرخزانہ کے تعینات بندے آج بھی کام کررہے ہیں۔مگرجہاں ذمے داری لینے کی بات آئی،فوراًاعلان ہواکہ کوتاہی تومیری نہیں بلکہ نئی ٹیم کی ہے۔ یہ صرف ایک مثال ہے، اس طرح کی ہزاروں مثالیں ہمارے اردگردبکھری ہوئی ہیں۔
بیشمارنکات ہیں جن پرطویل بحث ہوسکتی ہے۔ ہر نکتہ کو محض ایک کالم میں لکھناناممکن ہے۔کئی اہم عناصرلکھ ہی نہیں پایامگرسوچنے کی بات ہے کہ کیا ہم اپنے عدم تحفظ کو تحفظ میں بدلنے کے عملی اقدامات کرنے کی جرات کرسکتے ہیں۔ کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ دین کوسیاسی طور پر ہرگز ہرگز استعمال نہیں ہوناچاہیے۔
کیایہاں کوئی نالائق ترین مگر کامیاب سرکاری افسر، کاروباری شخص یا ادارہ،کبھی اپنی غلطی تسلیم کرنے کی ہمت کر سکتا ہے۔ قطعاً نہیں ۔ ہرگز نہیں۔ ہم دنیا کے کامیاب ملکوں کے ساتھ کندھاملاکرچلنے کی استطاعت ہی نہیں رکھتے۔ وہ بدقسمت قوم ہیں جس نے اپنے ہاتھوں سے اپنے آپ کو بربادکیاہے مگرمجھے سمجھ نہیں آتاکہ ہم ایسے کیوں ہیں!