ڈی ایم جی افسران خوف کے سائے میں
آج پاکستان کے یہ اصل حاکم خوف کا شکارہیں۔ ان کو محسوس ہو رہا ہے کہ ہاتھ ان کے گلے تک پہنچ گیا ہے۔
ملک میں احتساب کا شور ہے۔ ایک طرف جوڈیشل ایکٹوزم ہے دوسرے طرف متحرک نیب ہے۔ ایک ایسا ماحول ہے کہ ہر چیز چیک ہو رہی ہے۔ ہر معاملہ کو دیکھا جارہا ہے۔ یہ درست ہے کہ نیب نے اپنے اعلامیوں میں اب انکوائری کے بجائے جانچ پڑتال کا لفظ لکھنا شروع کر دیا ہے۔ جس کا مطلب صاف ہے کہ ابتدائی طور پر معاملہ کو دیکھا جا رہا ہے۔ ہر چیز کی انکوائری نہیں ہو رہی۔ ادھر چیف جسٹس کے سوموٹو کا بھی ایک شور ہے۔
یہ سب پاکستان کے لیے اچھا ہے۔ حکومتوں اور بیوروکریسی پر احتساب کا خوف ہونا چاہیے۔بہر حال ملک میں اس وقت نیب اور سپریم کورٹ نے مل کر کرپشن کے خلاف ایک ماحول بنا دیا ہے۔ خوف پیدا ہو رہا ہے۔ احد چیمہ کی گرفتاری کے بعد پنجاب اور مرکز کی بیوروکریسی بھی ایک انجانے خوف کا شکار ہو گئی ہے۔ گو اب ایسا نہیں ہے کہ کوئی احد چیمہ کو بے گناہ سمجھ رہا ہے۔ لیکن پھر بھی ایک خوف پیدا ہو گیا ہے۔
اس کی شاید یہ وجہ تھی کہ احد چیمہ کو پنجاب کا مضبوط ترین بیوروکر یٹ سمجھا جاتا تھا۔بلاشبہ وہ چیف سیکریٹری پنجاب سے بھی زیادہ طاقتور تھے۔ خوف یہ پیدا ہو گیا ہے کہ اگر احد چیمہ پکڑا جا سکتا ہے۔ تو پھر کوئی بھی پکڑا جا سکتا ہے۔ کسی کو معافی نہیں ہے۔ ہر بیوروکریٹ خود کو غیر محفوظ سمجھنے لگ گیا ہے۔ سب ہی خود کو خطرہ میں محسوس کر رہے ہیں۔
صرف پنجاب میں ہی نہیں بلکہ مرکز میں بھی ایسی ہی صورتحال ہے۔ عرف عام میں ہر سیکریٹری کسی نہ کسی سو موٹو یا نیب کی جانچ پڑتال میں پھنسا ہو ا ہے۔ کوئی نیب کے چکر لگا رہا ہے اور کوئی سپریم کورٹ میں پیشیاں بھگت رہا ہے۔ مجھے یہ سارا منظر نامہ دلچسپ اور خوبصورت بھی لگ رہا ہے۔ یہ بیوروکریسی تو پاکستان میں حقیقی حکمران تھی۔ فوج اور سیاستدان تو ایسے ہی بدنام ہیں۔ اختیار طاقت تو ان کے پاس تھا۔ بلاشبہ ان کی مرضی کے بغیر کچھ بھی ممکن نہیں لیکن یہ کبھی پکڑے نہیں گئے تھے۔
حکومتیں بدلتی رہی ہیں۔ نظام حکومت بدلتا رہا ہے۔ سول حکومت آجائے یا مارشل لا آجائے۔ بیوروکریسی کی حاکمیت اپنی جگہ قائم رہتی ہے۔ بیوروکریٹ ہر دور میں اپنے لیے راستہ بنا لیتے ہیں۔ ان کے لیے اقتدار کے دروزے کبھی بند نہیں ہو تے۔ بیوروکریسی ہی اصل حکمران تھی اور رہی ہے۔یہاں میں یہ واضح کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ میں ڈی ایم جی افسران کی بالخصوص بات کر رہا ہوں۔
لیکن آج پاکستان کے یہ اصل حاکم خوف کا شکارہیں۔ ان کو محسوس ہو رہا ہے کہ ہاتھ ان کے گلے تک پہنچ گیا ہے۔ یہ بھی پکڑے جا سکتے ہیں۔ یہ کوئی مقدس گائے نہیں ہیں۔ مصیبت تو یہ ہے کہ یہ پاکستان کے ذہین ترین لوگ ہیں۔ یہ مقابلے کا امتحان پاس کر کے آئے ہوئے ہیں۔ ان میں کوئی بھی سفارش یا پرچی سے نہیں آیا۔ ان میں سے اکثریت کا تعلق متوسط گھرانوں سے ہے۔ میرٹ پر آنے والے یہ ڈی ایم جی افسران پاکستان کی تباہی و بربادی میں برابر کے شریک ہیں۔ تا ہم یہ بابو آج تک محفوظ تھے۔
اس ساری صورتحال کا ایک منفی پہلو بھی سامنے آرہا ہے۔ خوف اور بے یقینی کی اس صورتحال میں بیوروکریسی نے کام کرنا بند کر دیا ہے۔ آپ مانیں پاکستان اس وقت عملی طور پر مفلوج ہو گیا ہے۔ کہیں کوئی کام نہیں ہو رہا۔ کوئی بھی افسر کوئی کام کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اگر کسی کو کوئی جائز کرنے کا بھی کہیں تو وہ کہتا ہے کہ نہیں بھئی ابھی کام کرنے کاکوئی ماحول نہیں۔ کوئی پتہ نہیں سو موٹو ہو جائے۔
نیب کے ایکشن لینے کا خوف بھی ہے۔ اس لیے بہترین حکمت عملی یہی ہے کہ کوئی کام نہ کیا جائے۔کسی فائل پر دستخط نہ کیے جائیں۔ فنانشل سمری کو تو ہاتھ ہی نہیں لگایا جا رہا ہے۔ ہر سمری پر اعتراض لگایا جا رہا ہے۔ ٹیکنیکل اعتراض لگائے جا رہے ہیں تا کہ معاملہ التوا کا شکا ر ہو جائے۔ ہر افسر کی کوشش ہے کہ اسے کسی چیز کی منظور ی نہ دینی پڑے۔ بس یہی ہو کہ میں نے تو اعتراض لگا دیا تھا۔ جو چیز جہاں ہے اسے وہاں ہی رہنے دیا جائے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ جمود آگیا ہے۔ سب کچھ رک سا گیا ہے۔
ایک تو حکومت کی مدت ختم ہو رہی ہے۔ میری بہت سے بیوروکریٹس سے بات ہوئی ہے۔ سب ہی یہ سمجھ رہے ہیں کہ اسٹیبشلمنٹ نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ دوبارہ ن لیگ کو حکومت نہیں دینی ہے۔ ڈی ایم جی افسران کو بھی اسٹیبلشمنٹ کا حصہ ہی سمجھا جاتا ہے لیکن اس بار وہ خود کو اسٹیبشلمنٹ سے الگ سمجھ رہے ہیں۔ شاید اسٹیبلشمنٹ کا یہ بازو اس وقت حصہ نہیں ہے۔ بہر حال یہ پڑھے لکھے ذہین بابو سمجھ رہے ہیں کہ اب دوبارہ ن لیگ نہیں آئے گی۔ بلکہ آیندہ وزیر اعظم سنجرانی کی طرح کوئی انجان نام ہی ہوگا۔
گزشتہ ایک ہفتہ میں اسلام آباد میں قیام کے دوران میری کئی سنیئر ترین ا فسران سے بات ہوئی ہے۔سب یقین کر بیٹھے ہیں کہ نواز شریف اور اداروں کے درمیان لڑائی جس نہج پر پہنچ گئی ہے ایسے میں ن لیگ کو دوبارہ اقتدار نہیں ملے گا۔ افسران اپنے ماضی کے تجربات کی روشنی میں یہ یقین بھی کر بیٹھے ہیں کہ ن لیگ کے برے دن آرہے ہیں۔ اس لیے ن لیگ سے دور رہنے کی ضرورت ہے۔
اس حکومت کا اب کوئی کام کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ان کے جانے کا وقت آگیا ہے۔ اس گرتی ہوئی دیوار کو دھکا لگ گیا ہے۔ ہر افسر کی کوشش ہے کہ کسی نہ کسی طرح وہ او ایس ڈی بن جائے۔ اس کو کھڈے لائن لگا دیا جائے۔ بس ایسی جگہ پوسٹنگ ہو جائے کہ کوئی کام نہ کرنا پڑے۔
لیکن جہاں یہ اچھی بات ہے کہ ملک میں غلط کام کرنے کے خلاف خوف پیدا ہو گیا ہے۔ وہاں ملک کے لیے نقصان دہ بھی ہے کہ سب کام رک گئے ہیں۔ صحیح کام بھی رک گئے ہیں۔ پاکستان رک سا گیا ہے۔ سب افسران وقت گزار رہے ہیں۔ کہ جیسے ہی اس حکومت کی مدت ختم ہو گی۔ نگران دور آئے گا۔ تو اس کی بھی ٹرانسفر ہو جائے گی۔
سب دعا کر رہے ہیں کہ بس اللہ خیر سے یہ وقت گزار دے۔ میں نے ایک افسر سے کہا کہ جب غلط نہیں کیا تو ڈرنا کیا۔ تو وہ مسکرایا۔ اور کہنے لگا جب آپ کسی سیٹ پر ہوتے ہیں۔ سو کام کرتے ہیں۔ جن میں سے نوے ٹھیک ہوتے ہیں۔ دس غلط ہو جاتے ہیں۔ کوئی نوے ٹھیک نہیں دیکھے گا۔ اس کا کوئی کریڈٹ نہیں دے گا۔ بس اگر ایک بھی غلط ہوگا تواس کی پکڑ ہو گی۔ اس لیے بچنے کے کم امکانات ہیں۔ ایسا لگ رہاہے کہ ہمارا دس سال کا مکمل آڈٹ شروع ہو گیا ہے۔
اس ساری صورتحال کو بھی ختم کرنے کی ضرورت ہے۔نئی حکومت آنے میں بھی ابھی بہت وقت ہے، چیئرمین نیب اور چیف جسٹس کی بھی بہت مدت باقی ہے۔ آخر ہم پورا سال پاکستان مفلوج رکھ کر کیسے چلا سکتے ہیں۔ یہ بابو تو پہلے ہی کام کرنے کے چور تھے۔ اب تو جو کام ہو رہا تھا وہ بھی بند ہو گیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ کرپشن کے خلاف خوف بھی قائم رکھنا ہے۔ لیکن ان بابوؤں سے کام بھی لینا ہے۔ کیسے یہ تو اسٹیبلشمنٹ کو سوچنا ہے۔ ورنہ کرپشن ختم کرنے کا فائدہ کم اور مفلوج پاکستان سے نقصان زیادہ ہو جائے گا۔