میک اپ کے جدید رجحانات
وہ طریقے جو حُسن کو مزید دل کش بنادیتے ہیں۔
بننا سنورنا صنف نازک کا پیدائشی حق ہے جو اس سے کوئی نہیں چھین سکتا۔ عورت اور سنگھار لازم و ملزوم ہیں۔
کہتے ہیں کہ حُسن سنگھار کا محتاج نہیں ہوتا مگر جب حسن اور سنگھار یکجا ہوجائیں تو سونے پہ سہاگہ ہوجاتا ہے۔ ہر دور میں فیشن کے نئے انداز اور تقاضے ہوتے ہیں۔ میک اپ میں بھی جدت گزرتے وقت کے ساتھ آئی ہے، کیوں کہ یہ بھی فیشن کا حصہ ہوتا ہے۔ میک اپ کے جدید رجحانات میں ماضی کے انداز بھی پوشیدہ ہوتے ہیں۔
سجنے سنورنے کا عمل آنکھوں کو دل کش بنائے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ قلوپطرہ ہو یا ملکہ الزبتھ ان تمام خواتین کا حسن ان کی گہری، مدھ بھری کاجل سے سجی آنکھوں سے ظاہر ہوا ہے۔ آنکھوں کو دل کش بنانے کے لیے کاجل، سرمہ، آئی پینسل، آئی لائنر، مسکارا اور مختلف آئی شیڈز استعمال کیے جاتے ہیں۔60ء اور 70ء کی دہائی میں آئی لائنر اور کاجل لگانے کے کئی انداز وضع کیے گئے۔ خصوصاً ہر عورت کاجل لگانا ہی پسند کرتی تھی۔ اب ایسا نہیں ہے، نئے دور میں آنکھوں کو سجانے کے نت نئے طریقے آزمائے گئے۔
ہر طریقہ اپنے اندر طلسماتی کشش رکھتا ہے۔ ایک زمانے میں محض سیاہ کاجل ہی آئی میک اپ کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا، مگر آج میک اپ مصنوعات کی دنیا میں آنکھوں کو سنوارنے کے لیے بے پناہ اشیاء دست یاب ہیں، جو نہ صرف جدید رحجان کے مطابق بنی ہیں بلکہ جدید فیشن کے مطابق بھی ہیں۔
آج سے تقریباً چار ہزار سال قبل آئی میک اپ کی بنیاد مصریوں نے رکھی۔ اس وقت مرد و عورت کی تخصیص نہیں تھی۔ اہرام مصر کے تہہ خانوں میں چھوٹے چھوٹے برتن پائے گئے جنہیں نپولین کے عہد میں ہونے والی لڑائیوں کے دوران پیرس لے جایا گیا اور انہی سے مصریوں کے حسن کا راز دریافت کیا گیا۔ ان برتنوں میں پاؤڈر بھی تھا۔
ماہرین حُسن کے مطابق چار ہزار سال قبل مصریوں کے ہاں استعمال ہونے والے سیاہ، سفید، سرمئی پاؤڈر کو پانی کے علاوہ دیگر محلول میں شامل کیا جاتا تھا۔ تقریباً ایک صدی بعد یہ طریقہ یونانیوں کے ہاں رائج ہوا۔ مصر کے اہراموں کی دیواروں پر پائے جانے والے نقوش اور مجسموں سے پتا چلتا ہے کہ قدیم مصری خود کو خوب صورت رکھنے کے لیے مختلف نسخے استعمال کیا کرتے تھے۔
مصریوں کی روایت تھی کہ مردوں کو کاسمٹیکس، شیشہ اور ہیروں کے ساتھ دفنایا جاتا تھا۔ ان کا عقیدہ تھا کہ اس طرح وہ اپنی دل کشی بڑھانے کے عمل کو جاری رکھ سکیں گے۔ مصری کاجل لگانے کے فن میں طاق تھے۔ تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ اہراموں سے دریافت ہونے والے سفید اور سیاہ مواد وہ معدنی پتھر تھے جنہیں پیس کر بطخ کی چربی، بیل کی چربی یا موم میں ملاکر کریمی بنایا جاتا تھا۔ یہی عمل آج جدید انداز میں ہمارے سامنے ہے۔
ماہرین کے مطابق لپ اسٹک کا استعمال بھی اس قدر قدیم ہے جس قدر عورت کا سنگھار اور ساتھ ہی ہونٹوں کو رنگنے کا ذوق ہر تہذیب کا خاصا رہا ہے۔ کاجل کی طرح لپ اسٹک بھی مصریوں کی ایجاد ہے۔ رومی سرخ وائن (شراب) کی باقیات کو بطور لپ اسٹک استعمال کرتے تھے۔ 19ویں صدی کے اواخر تک لپ اسٹک نے موجودہ شکل اختیار کی۔ اس کی تیاری میں رنگ کے ساتھ مکھن، موم اور جانوروں کی چربی ملائی جاتی تھی، تاکہ یہ جمی رہے۔
ماہرین کے مطابق لپ اسٹک چاہے کتنی ہی منہگی اور خوب صورت شیڈ کی ہو، اس وقت تک اچھی نہیں لگتی جب تک چند بنیادی اصولوں کا خیال نہ رکھا جائے۔ مثلاً ہمیشہ اپنے ہونٹ نم رکھیں۔ خشک ہونٹوں پر لپ اسٹک پپڑیوں کی صورت میں جم جاتی ہے۔ اپنے ہونٹوں کو نیم گرم پانی سے تر کرنے کے بعد نرم برش سے ہلکے ہلکے مساج کریں، تاکہ مردہ کھال نکل جائے اور لپ اسٹک آرام سے لگ سکے۔
جہاں تک ممکن ہو لپ اسٹک لگانے کے لیے برش استعمال کریں۔ اس سے نہ صرف رنگ خوب صورت لگتا ہے بلکہ یہ دیرپا بھی رہتا ہے۔ وہ دن گئے جب خواتین میک اپ کے عمل کو گھنٹوں تھکادینے والا مرحلہ قرار دیتی تھیں۔ ماہرین کے مطابق آپ اپنی شخصیت کو ہر رنگ میں اور ہر انداز میں ڈھال سکتی ہیں۔ صرف اپنے نقوش کو ابھارنے کے لیے ایسا میک اپ کریں جو انہیں مزید دل کش بنادے۔
نمی والی گلوس کی لپ اسٹک استعمال کریں۔ آپ چاہیں تو سادہ ہلکے رنگ کی لپ اسٹک پر گلوس کے اوپر بھی لگاسکتی ہیں جو گھنٹوں تازہ رہتی ہے۔ لپ لائنر استعمال کریں، کیوں کہ یہ لپ اسٹک کے لیے رکاوٹ کا کام کرتی ہے، مگر جدید فیشن کے مطابق لپ لائنر کو لپ اسٹک کے ساتھ مہارت سے بلینڈ کرلیں ورنہ یوں محسوس ہوگا کہ آپ کے ہونٹوں کے گرد سرحدی لائن کھنچی ہوئی ہے۔ اپنے کپڑوں کے رنگ کے بجائے لپ اسٹک کے شیڈ اپنی جلد کے مطابق منتخب کریں۔
بلش لگانے کا مطلب ہوتا ہے چہرے کی بناوٹ کو نمایاں کرنا۔ اس میں کئی خوبیاں ہوتی ہیں۔ یہ آپ کے چہرے کو رنگ بھی دیتا ہے اور گالوں کو نمایاں کرنے کے ساتھ ساتھ سرخ بھی کرتا ہے۔ چیک بون یعنی گالوں کی ہڈیوں کو بھی ابھارتا ہے۔ اگر ہڈی زیادہ نمایاں ہو تو اسے کم کرتا ہے اور جلد کو ہموار کردیتا ہے۔ اسے آپ گول چہرے کو قدرے لمبا کرنے کے لیے بھی لگاسکتی ہیں۔ اس سے آپ مختلف شیڈز تخلیق کرکے گالوں کے حسن کو شوخ یا سادہ کرسکتی ہیں۔
بلش کے تین بنیادی شیڈز ہوتے ہیں۔ آڑو پر موجود سرخی والا کلر، گلابی اور براؤن بہتر ہوگا کہ آپ قدرتی رنگوں کا استعمال کریں۔ بلش بازار میں کمپیکٹ یا کریم کی شکل کے علاوہ پاؤڈر کی شکل میں بھی دست یاب ہے اور اس شکل میں اس کا استعمال بہت آسان ہوتا ہے۔ کریم بلش خشک جلد کے لیے بہترین ہے، کیوں کہ اس میں تیل ہوتا ہے جو موئسچرائزر کا کام کرتا ہے۔
بلش لگانے کا مناسب وقت وہ ہوتا ہے جب آپ فاؤنڈیشن لگاچکی ہوں۔ اس کو لگاکر اچھی طرح بلینڈ کرلیں، تاکہ جھول نظر نہ آئے۔ رنگوں کا انتخاب سوچ سمجھ کر کریں اور اسے لگانے کے لیے ایک اچھے برش کا استعمال کریں۔ اس کو بلینڈ کرنا ہی کمال ہے اور تب ہی آپ کو نیچرل لک بھی ملے گا۔ ایک بات ہر طرح کی مصنوعات کے استعمال کے حوالے سے ذہن نشیں کرلیں کہ جو بھی چیز لگائیں، قدرتی روشنی میں لگائیں، تاکہ آپ کو پتا چلے کہ آپ کا میک اپ کیسا لگ رہا ہے۔
کہتے ہیں کہ حُسن سنگھار کا محتاج نہیں ہوتا مگر جب حسن اور سنگھار یکجا ہوجائیں تو سونے پہ سہاگہ ہوجاتا ہے۔ ہر دور میں فیشن کے نئے انداز اور تقاضے ہوتے ہیں۔ میک اپ میں بھی جدت گزرتے وقت کے ساتھ آئی ہے، کیوں کہ یہ بھی فیشن کا حصہ ہوتا ہے۔ میک اپ کے جدید رجحانات میں ماضی کے انداز بھی پوشیدہ ہوتے ہیں۔
سجنے سنورنے کا عمل آنکھوں کو دل کش بنائے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ قلوپطرہ ہو یا ملکہ الزبتھ ان تمام خواتین کا حسن ان کی گہری، مدھ بھری کاجل سے سجی آنکھوں سے ظاہر ہوا ہے۔ آنکھوں کو دل کش بنانے کے لیے کاجل، سرمہ، آئی پینسل، آئی لائنر، مسکارا اور مختلف آئی شیڈز استعمال کیے جاتے ہیں۔60ء اور 70ء کی دہائی میں آئی لائنر اور کاجل لگانے کے کئی انداز وضع کیے گئے۔ خصوصاً ہر عورت کاجل لگانا ہی پسند کرتی تھی۔ اب ایسا نہیں ہے، نئے دور میں آنکھوں کو سجانے کے نت نئے طریقے آزمائے گئے۔
ہر طریقہ اپنے اندر طلسماتی کشش رکھتا ہے۔ ایک زمانے میں محض سیاہ کاجل ہی آئی میک اپ کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا، مگر آج میک اپ مصنوعات کی دنیا میں آنکھوں کو سنوارنے کے لیے بے پناہ اشیاء دست یاب ہیں، جو نہ صرف جدید رحجان کے مطابق بنی ہیں بلکہ جدید فیشن کے مطابق بھی ہیں۔
آج سے تقریباً چار ہزار سال قبل آئی میک اپ کی بنیاد مصریوں نے رکھی۔ اس وقت مرد و عورت کی تخصیص نہیں تھی۔ اہرام مصر کے تہہ خانوں میں چھوٹے چھوٹے برتن پائے گئے جنہیں نپولین کے عہد میں ہونے والی لڑائیوں کے دوران پیرس لے جایا گیا اور انہی سے مصریوں کے حسن کا راز دریافت کیا گیا۔ ان برتنوں میں پاؤڈر بھی تھا۔
ماہرین حُسن کے مطابق چار ہزار سال قبل مصریوں کے ہاں استعمال ہونے والے سیاہ، سفید، سرمئی پاؤڈر کو پانی کے علاوہ دیگر محلول میں شامل کیا جاتا تھا۔ تقریباً ایک صدی بعد یہ طریقہ یونانیوں کے ہاں رائج ہوا۔ مصر کے اہراموں کی دیواروں پر پائے جانے والے نقوش اور مجسموں سے پتا چلتا ہے کہ قدیم مصری خود کو خوب صورت رکھنے کے لیے مختلف نسخے استعمال کیا کرتے تھے۔
مصریوں کی روایت تھی کہ مردوں کو کاسمٹیکس، شیشہ اور ہیروں کے ساتھ دفنایا جاتا تھا۔ ان کا عقیدہ تھا کہ اس طرح وہ اپنی دل کشی بڑھانے کے عمل کو جاری رکھ سکیں گے۔ مصری کاجل لگانے کے فن میں طاق تھے۔ تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ اہراموں سے دریافت ہونے والے سفید اور سیاہ مواد وہ معدنی پتھر تھے جنہیں پیس کر بطخ کی چربی، بیل کی چربی یا موم میں ملاکر کریمی بنایا جاتا تھا۔ یہی عمل آج جدید انداز میں ہمارے سامنے ہے۔
ماہرین کے مطابق لپ اسٹک کا استعمال بھی اس قدر قدیم ہے جس قدر عورت کا سنگھار اور ساتھ ہی ہونٹوں کو رنگنے کا ذوق ہر تہذیب کا خاصا رہا ہے۔ کاجل کی طرح لپ اسٹک بھی مصریوں کی ایجاد ہے۔ رومی سرخ وائن (شراب) کی باقیات کو بطور لپ اسٹک استعمال کرتے تھے۔ 19ویں صدی کے اواخر تک لپ اسٹک نے موجودہ شکل اختیار کی۔ اس کی تیاری میں رنگ کے ساتھ مکھن، موم اور جانوروں کی چربی ملائی جاتی تھی، تاکہ یہ جمی رہے۔
ماہرین کے مطابق لپ اسٹک چاہے کتنی ہی منہگی اور خوب صورت شیڈ کی ہو، اس وقت تک اچھی نہیں لگتی جب تک چند بنیادی اصولوں کا خیال نہ رکھا جائے۔ مثلاً ہمیشہ اپنے ہونٹ نم رکھیں۔ خشک ہونٹوں پر لپ اسٹک پپڑیوں کی صورت میں جم جاتی ہے۔ اپنے ہونٹوں کو نیم گرم پانی سے تر کرنے کے بعد نرم برش سے ہلکے ہلکے مساج کریں، تاکہ مردہ کھال نکل جائے اور لپ اسٹک آرام سے لگ سکے۔
جہاں تک ممکن ہو لپ اسٹک لگانے کے لیے برش استعمال کریں۔ اس سے نہ صرف رنگ خوب صورت لگتا ہے بلکہ یہ دیرپا بھی رہتا ہے۔ وہ دن گئے جب خواتین میک اپ کے عمل کو گھنٹوں تھکادینے والا مرحلہ قرار دیتی تھیں۔ ماہرین کے مطابق آپ اپنی شخصیت کو ہر رنگ میں اور ہر انداز میں ڈھال سکتی ہیں۔ صرف اپنے نقوش کو ابھارنے کے لیے ایسا میک اپ کریں جو انہیں مزید دل کش بنادے۔
نمی والی گلوس کی لپ اسٹک استعمال کریں۔ آپ چاہیں تو سادہ ہلکے رنگ کی لپ اسٹک پر گلوس کے اوپر بھی لگاسکتی ہیں جو گھنٹوں تازہ رہتی ہے۔ لپ لائنر استعمال کریں، کیوں کہ یہ لپ اسٹک کے لیے رکاوٹ کا کام کرتی ہے، مگر جدید فیشن کے مطابق لپ لائنر کو لپ اسٹک کے ساتھ مہارت سے بلینڈ کرلیں ورنہ یوں محسوس ہوگا کہ آپ کے ہونٹوں کے گرد سرحدی لائن کھنچی ہوئی ہے۔ اپنے کپڑوں کے رنگ کے بجائے لپ اسٹک کے شیڈ اپنی جلد کے مطابق منتخب کریں۔
بلش لگانے کا مطلب ہوتا ہے چہرے کی بناوٹ کو نمایاں کرنا۔ اس میں کئی خوبیاں ہوتی ہیں۔ یہ آپ کے چہرے کو رنگ بھی دیتا ہے اور گالوں کو نمایاں کرنے کے ساتھ ساتھ سرخ بھی کرتا ہے۔ چیک بون یعنی گالوں کی ہڈیوں کو بھی ابھارتا ہے۔ اگر ہڈی زیادہ نمایاں ہو تو اسے کم کرتا ہے اور جلد کو ہموار کردیتا ہے۔ اسے آپ گول چہرے کو قدرے لمبا کرنے کے لیے بھی لگاسکتی ہیں۔ اس سے آپ مختلف شیڈز تخلیق کرکے گالوں کے حسن کو شوخ یا سادہ کرسکتی ہیں۔
بلش کے تین بنیادی شیڈز ہوتے ہیں۔ آڑو پر موجود سرخی والا کلر، گلابی اور براؤن بہتر ہوگا کہ آپ قدرتی رنگوں کا استعمال کریں۔ بلش بازار میں کمپیکٹ یا کریم کی شکل کے علاوہ پاؤڈر کی شکل میں بھی دست یاب ہے اور اس شکل میں اس کا استعمال بہت آسان ہوتا ہے۔ کریم بلش خشک جلد کے لیے بہترین ہے، کیوں کہ اس میں تیل ہوتا ہے جو موئسچرائزر کا کام کرتا ہے۔
بلش لگانے کا مناسب وقت وہ ہوتا ہے جب آپ فاؤنڈیشن لگاچکی ہوں۔ اس کو لگاکر اچھی طرح بلینڈ کرلیں، تاکہ جھول نظر نہ آئے۔ رنگوں کا انتخاب سوچ سمجھ کر کریں اور اسے لگانے کے لیے ایک اچھے برش کا استعمال کریں۔ اس کو بلینڈ کرنا ہی کمال ہے اور تب ہی آپ کو نیچرل لک بھی ملے گا۔ ایک بات ہر طرح کی مصنوعات کے استعمال کے حوالے سے ذہن نشیں کرلیں کہ جو بھی چیز لگائیں، قدرتی روشنی میں لگائیں، تاکہ آپ کو پتا چلے کہ آپ کا میک اپ کیسا لگ رہا ہے۔