متاثرین لیاری ایکسپریس وے کو اب تک رہائش فراہم نہ کی جا سکی
،3 ارب روپے سے شروع ہونے والا منصوبہ 15 سال ی مدت اور24 ارب کی لاگت سے مکمل ہوا
لیاری ایکسپریس وے کا منصوبہ 15 سال بعد مکمل ہوگیا لیکن منصوبے متاثرین اب تک دفاتر کے چکر لگارہے ہیں۔
لیاری ایکسپریس وے پراجیکٹ 2002 میں 3 ارب روپے سے شروع ہوا تھا جواب دو طرفہ ٹریفک کے لیے کھول دیا گیا ہے اور اس پر اخراجات 24 ارب کے آئے ہیں اس حوالے سے متاثرین کو متبادل گھر دینے کے لیے تین مقامات کا تعین کیا گیا تھا جن میں ہاکس بے، بلدیہ ٹاؤن اور سرجانی ٹاؤن کے 5 سیکٹر شامل تھے جس میں سے سیکٹر 35،36 اور 50 میں آبادی مکمل ہوچکی ہے۔
سیکٹر 51 جہاں متاثرین حکومت کی یقین دہانی پر شفٹ ہوچکے ہیں انھیں 15 سال گزر جانے کے باوجود اب تک نہ تو پانی ملا ہے اور نہ ہی بجلی اور گیس یہاں کنڈوں سے بجلی لی جاتی ہے اس سیکٹر میں ہزاروں خاندان آباد ہیں لیکن گیس کی جگہ وہ لکڑیاں جلاتے ہیں اس کے ساتھ ہی سیکڑ53 ہے جہاں سیکڑوں متاثرین کی آبادکاری کا متبادل انتظام کیا گیا تھا اس سیکٹر میں اب تک کوئی انفراسٹرکچر نہیں بن سکا ہے کئی ایکڑ پر مشتمل اس جگہ پر اب تک ایک مکان بھی نہیں بن سکا۔
پراجیکٹ مکمل ہونے کے بعد اب ان متاثرین کا کوئی پوچھنے والا نہیں ہے وفاقی،صوبائی اور ضلعی حکومت کی عدم دلچسپی کے باعث اس سیکٹر میں کوئی بھی ترقیاتی کام نہیں ہوسکا ہے متاثرین فائلیں لے کردفتر کے چکر لگاتے رہتے ہیں اور وقفہ وقفہ سے اس بات کی تصدیق کرتے رہتے ہیں کہ کہی ان کے پلاٹ پر قبضہ تو نہیں ہوگیا یا پھر ادارے نے ان کی جگہ کسی اور کو تو منتقل نہیں کردی۔
حیرت انگیز امر یہ ہے کہ اس کے ساتھ سکیٹر 54 ہے جہاں اب تک متاثرین کو قبضہ ہی نہیں دیا گیا ہے اس حوالے سے پراجیکٹ ڈائریکٹر دانش سعید کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس عملہ نہیں ہے اور نہ ہی کوئی انجینئر موجود ہے جو اپنا کام جانتا ہو اس سوال پر کہ یہ پراجیکٹ تو اب مکمل ہو چکا وفاق اور سندھ حکومت کی متاثرین کے حوالے سے کوئی دلچسپی نظر نہیں آرہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ممکن ہے کہ اس پراجیکٹ کی مدت میں توسیع کردی جائے۔ اور آئندہ کچھ ماہ میں متاثرین اپنا گھر بنانے میں کامیاب ہو جائیں اس حوالے سے سندھ اور وفاقی حکومت سے درخواست کی گئی ہے کہ ٹیکنیکل اسٹاف فراہم کیا جائے تاکہ متاثرین کو چھت دی جاسکے۔
لیاری ایکسپریس وے پراجیکٹ 2002 میں 3 ارب روپے سے شروع ہوا تھا جواب دو طرفہ ٹریفک کے لیے کھول دیا گیا ہے اور اس پر اخراجات 24 ارب کے آئے ہیں اس حوالے سے متاثرین کو متبادل گھر دینے کے لیے تین مقامات کا تعین کیا گیا تھا جن میں ہاکس بے، بلدیہ ٹاؤن اور سرجانی ٹاؤن کے 5 سیکٹر شامل تھے جس میں سے سیکٹر 35،36 اور 50 میں آبادی مکمل ہوچکی ہے۔
سیکٹر 51 جہاں متاثرین حکومت کی یقین دہانی پر شفٹ ہوچکے ہیں انھیں 15 سال گزر جانے کے باوجود اب تک نہ تو پانی ملا ہے اور نہ ہی بجلی اور گیس یہاں کنڈوں سے بجلی لی جاتی ہے اس سیکٹر میں ہزاروں خاندان آباد ہیں لیکن گیس کی جگہ وہ لکڑیاں جلاتے ہیں اس کے ساتھ ہی سیکڑ53 ہے جہاں سیکڑوں متاثرین کی آبادکاری کا متبادل انتظام کیا گیا تھا اس سیکٹر میں اب تک کوئی انفراسٹرکچر نہیں بن سکا ہے کئی ایکڑ پر مشتمل اس جگہ پر اب تک ایک مکان بھی نہیں بن سکا۔
پراجیکٹ مکمل ہونے کے بعد اب ان متاثرین کا کوئی پوچھنے والا نہیں ہے وفاقی،صوبائی اور ضلعی حکومت کی عدم دلچسپی کے باعث اس سیکٹر میں کوئی بھی ترقیاتی کام نہیں ہوسکا ہے متاثرین فائلیں لے کردفتر کے چکر لگاتے رہتے ہیں اور وقفہ وقفہ سے اس بات کی تصدیق کرتے رہتے ہیں کہ کہی ان کے پلاٹ پر قبضہ تو نہیں ہوگیا یا پھر ادارے نے ان کی جگہ کسی اور کو تو منتقل نہیں کردی۔
حیرت انگیز امر یہ ہے کہ اس کے ساتھ سکیٹر 54 ہے جہاں اب تک متاثرین کو قبضہ ہی نہیں دیا گیا ہے اس حوالے سے پراجیکٹ ڈائریکٹر دانش سعید کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس عملہ نہیں ہے اور نہ ہی کوئی انجینئر موجود ہے جو اپنا کام جانتا ہو اس سوال پر کہ یہ پراجیکٹ تو اب مکمل ہو چکا وفاق اور سندھ حکومت کی متاثرین کے حوالے سے کوئی دلچسپی نظر نہیں آرہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ممکن ہے کہ اس پراجیکٹ کی مدت میں توسیع کردی جائے۔ اور آئندہ کچھ ماہ میں متاثرین اپنا گھر بنانے میں کامیاب ہو جائیں اس حوالے سے سندھ اور وفاقی حکومت سے درخواست کی گئی ہے کہ ٹیکنیکل اسٹاف فراہم کیا جائے تاکہ متاثرین کو چھت دی جاسکے۔