کراچی سرکلر ریلوے دیوانے کا خواب
30 اپریل 1975 کراچی کی تاریخ کا ایک بدترین دن ثابت ہوا، جب آخری ٹرام نے اپنا سفر بندرروڈ سے بولٹن مارکیٹ تک مکمل کیا۔
کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ کے حوالے سے شہرِ قائد کے باسیوں کو ہر نئے سال میں جہاں ڈھیر ساری پریشانیاں نصیب ہوتی ہیں وہیں ایک خوشی کی خبر بھی دی جاتی ہے، جسے کراچی سرکلر ریلوے کہتے ہیں۔ یہ خوش خبری ہر سال یا پھر کبھی کبھی دو سال بعد ضرور سنائی جاتی ہے تاکہ جن مُردہ بسوں میں عوام سفر کررہے ہیں اسے مزید تقویت دی جا سکے۔ کراچی کے عوام کے نصیب میں آج بھی ٹرانسپورٹ کے نام پر 1960ء کی بسیں ہی لکھی ہیں، جنہیں ہر سال رنگ و روغن کرکے اسی سال کا مونو گرام لگادیا جاتا ہے، تاکہ ٹرانسپورٹ مافیا اور حکومتِ سندھ سے بیزار عوام کو کچھ دلی تسکین حاصل ہوسکے۔
پبلک ٹرانسپورٹ کا مسئلہ حل کرنے اور شہر کے اہم مقامات کو ملانے کےلیے اندرون شہر ریل سروس کا منصوبہ جسے''کراچی سرکلر ریلوے'' کا نام دیا گیا، سب سے پہلے 1976ء میں تجویز کیا گیا تھا۔
مگر اس پر بات کرنے سے پہلے ماضی پر ایک نظر ڈالی جائے تو ہمیں ٹرام، ڈبل ڈیکر اورکراچی میں چلنے والی بڑی بسیں نظر آئیں گی۔ ٹرام شہرِ قائد کےلیے سب سے پہلا ٹرانسپورٹ منصوبہ تھا جسے انگریز سرکار نے انتہائی قلیل عرصے میں عملی جامہ پہنا کر عوام کے سامنے پیش کیا۔ یہ منصوبہ 1881ء میں کراچی میونسپلٹی کے انجینئر مسٹر جیمز اسٹریچن نے پیش کیا اور اسے منظوری کےلیے لندن بھیجا۔ 1883ء میں بمبئی حکومت کی جانب سے اسے منظور کر لیا گیا اور اسی سال ٹرام وی ایکٹ بھی منظور کیا گیا۔ ہمارے افسران کی دیانت داری دیکھیے کہ ٹرام وی ایکٹ آج بھی برقرار ہے۔
20 اکتوبر 1884ء کو شہر کراچی میں ٹرام کےلیے پٹڑیاں بچھانے کے کام کا آغاز ہوا۔ 20 اپریل 1885ء کو سندھ کے کمشنر مسٹر ہینری ارسکن نے قلیل عرصے میں مکمل ہونے والے اس منصوبے ٹرام وی نظام کا افتتاح کیا۔ ابتدا میں اسے کوئلے کے انجن سے چلایاجاتا رہا، جس کے شور سے لوگوں کا سکون برباد ہونے لگا، تاہم بعد میں انجن ہٹاکر ٹرام کو گھوڑوں کے ذریعے کھینچا جانے لگا۔ کچھ عرصے بعد 1909ء میں گھوڑا سروس بند کرکے پیٹرول انجن لندن سے منگوائے گئے۔ تیزرفتاری کی وجہ سے ایک مرتبہ پھر پٹڑیاں تبدیل کی گئیں۔ پہلے سال ہی ٹرام نے اپنی مقبولیت کے جھنڈے گاڑ دیے اور ایک سال میں 5 ملین کے قریب لوگوں نے اس پر سفر کیا۔
1913ء میں ٹراموں کی تعداد 37 ہوگئی۔ ہر ٹرام میں 46 مسافروں کے بیٹھنے کی گنجائش تھی۔ ٹرام کی کامیابی کو دیکھتے ہوئے انگریز سرکار نے ڈبل ڈیکر بس سروس بھی شروع کی۔ جہاں ٹرام سروس نہیں تھی وہاں بسیں چلائی جانے لگیں۔
تقسیم ہند کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی نے ٹرام کمپنی کی فروخت کےلیے ٹینڈر طلب کیے جس میں سب سے کامیاب بولی محمد علی نامی شخص نے لگائی۔ انہوں نے یہ نظام محض 32 لاکھ روپے میں خرید کر کمپنی کا نام محمد علی ٹرام وی کمپنی رکھ دیا۔ فروری 1948ء میں 65 ٹرام اور 65 بسیں محمد علی کمپنی کی ملکیت تھیں، جنہیں چلانے کےلیے 1100 ملازمین تھے۔ 1960ء میں محمد علی کمپنی نے بس سروس بند کردی۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد ٹرام کے انجن پیٹرول سے ہٹاکر ڈیزل پر کردیے گئے اور اس میں مسافروں کی گنجائش بھی بڑھاکر 65 کردی گئی، جب کہ ڈرائیوروں اور کنڈیکٹروں کی تربیت کےلیے ایک اسکول بھی بنایا گیا تھا۔
30 اپریل 1975ء کا دن کراچی کی تاریخ کا ایک بدترین دن ثابت ہوا، جب آخری ٹرام نے اپنا سفر بندرروڈ سے بولٹن مارکیٹ تک مکمل کیا۔ 1974ء میں حکومت نے ٹرام ختم کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ حکومت کا مؤقف تھا کہ بندر روڈ پر ٹریفک بڑھنے کے باعث ٹرام سے شدید مشکلات پیش آرہی ہیں۔ جس پر کمپنی نے نظام کو مکمل لپیٹ لیا اور ٹرام کے ساتھ پٹڑیاں بھی اسکریپ کردیں۔ کہتے ہیں آپ کا ماضی آپ کے مستقبل سے جڑا ہے۔ زندہ قومیں ہمیشہ اپنے ماضی کو زندہ رکھتی ہیں، تاہم یہاں ایسا کچھ نہیں ہوا۔ 1975ء میں ٹرانسپورٹ کی تاریخ کا اہم باب بند ہوگیا۔ اس کے بعد کسی نے بھی ٹرام کی شکل نہیں دیکھی۔
1964ء میں کراچی میں ''کراچی سرکلر ریلوے'' کا منصوبہ بنایا گیا جسے دو حصوں میں مکمل کیا گیا۔ پہلے مرحلے میں ڈرگ روڈ کو لیاری اسٹیشن سے ملایا گیا، اور پھر دوسرے مرحلے میں اسی ٹریک کو لیاری سے کراچی سٹی اسٹیشن تک جوڑ دیاگیا۔ 1969ء میں اس روٹ پر 24 مسافر ریل گاڑیاں چلا کرتی تھیں۔ پھر وہی ہوا جو ٹرام کے ساتھ ہوا تھا، سازش کے تحت اس نظام کو ناکام بنانے کےلیے پہلے ریل گاڑیوں کو لیٹ کرنا شروع کیا گیا، اور بعد ازاں بس مالکان نے اس کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی اندھی کمائی میں اضافہ کیا۔ 1980ء کی کامیاب سواری 1990ء میں مسافروں کی عدم دلچسپی اور بس مالکان کی سازشوں کے باعث تباہ ہونا شروع ہوگئی۔ 1994ء میں کئی ریل گاڑیاں یہ کہہ کر بند کردی گئیں کہ خسارہ بڑھ رہا ہے۔ اور 1999ء تک لوپ لائن پر چلنے والی واحد ریل گاڑی کو بھی مکمل طور پر بند کردیا گیا۔
یہ ٹرام اور کراچی سرکلر ریلوے کا شاندار ماضی تھا۔ اب حال دیکھیں تو حکومت کی ٹرانسپورٹ پالیسیاں دیکھ کر افسوس ہی کیا جاسکتا ہے، جس نے پرائیویٹ سیکٹر کو فائدہ پہنچانے کےلیے شہرِ قائد کے باسیوں سے بہترین اور جدید ٹرانسپورٹ نظام چھین کر انہیں مافیا کے سامنے بے بس کردیا۔ اب لکیر پیٹنے سے کیا فائدہ جب چڑیاں چُگ گئیں کھیت والا معاملہ ہے۔ 19 برسوں سے عوام کو کراچی سرکلر ریلوے کا خواب دکھایا جارہا ہے... کبھی منصوبے کی فزیبلٹی اسٹڈی کرکے، تو کبھی مختلف فورمز پر اس کی منظوری لے کر... لیکن نتیجہ آج بھی وہی ہے، یعنی ڈھاک کے تین پات۔
ٹرام وے سسٹم کے خاتمے کے بعد کراچی سرکلر ریلوے کے ساتھ کراچی ٹرانسپورٹ کارپوریشن کا قیام عمل میں لایاگیا۔ KTC نے کراچی میں درآمد شدہ بسوں سے ایک سسٹم قائم کیا اور ایک عرصے تک یہ سسٹم کراچی کے شہریوں کی ٹرانسپورٹ کی ضرورت پوری کرتا رہا۔ ہزار ہا افراد ان بسوں سے بہ سہولت سفر کیا کرتے تھے۔ لیکن 1997 میں کے ٹی سی اور 1999ء میں سرکلر ریلوے کو ختم کرکے شہر کو ٹرانسپورٹ مافیا کے سپرد کر دیا گیا جس نے کراچی میں منی بسیں متعارف کرائیں، یہ منی بسیں پبلک ٹرانسپورٹ کے معیار پر بالکل بھی پورا نہیں اترتی تھیں، جو منی ٹرک کے چیسز پر باڈی بنا کر بس کی صور ت میں ڈھالی گئی تھیں۔ شہری ان دڑبہ نما بسوں میں بھیڑ بکریوں کی طرح سفر کرنے پر مجبور ہو گئے۔
وقت کے ساتھ یہ بسیں بھی خستہ حال ہو گئیں، لیکن کراچی کے بد نصیب شہریوں کے نصیب میں یہ ہی بسیں رہ گئیں، ان بسوں میں سفر کی اذیت کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ نجی شعبے نے بسوں سے ٹکٹ کا نظام ختم کیا اور زیادہ سے زیادہ منافعے کو اپنا شعار بنایا۔ غوث علی شاہ کے دور میں ٹریفک انجینئرنگ بیورو قائم ہوا، بے نظیر بھٹو کے پہلے دور میں ماس ٹرانزٹ پروگرام پر عملدرآمد کا ذکر ہوا مگر معاملہ اخبارات کے صفحات تک محدود رہا۔ میاں نواز شریف نے اپنے پہلے دور میں یلو کیب اسکیم شروع کی۔ اس اسکیم کے تحت قومی بینکوں نے ٹیکسیوں کی خریداری کےلیے اربوں روپے قرضے دیے'جس کی وجہ سے 3 قومی بینک دیوالیہ کے قریب بھی پہنچ چکے تھے۔
کراچی ٹرانسپورٹ کارپوریشن کے خاتمے کے بعد 2008 میں کراچی اربن ٹرانسپورٹ کارپوریشن کے نام سے ایک نیا ادارہ تشکیل دیا گیا جس میں 60 فیصد شیئر پاکستان ریلوے اور 25 فیصد حصہ سندھ حکومت کا رکھا گیا اور 15 فیصد کے ایم سی کو ملنے تھے۔ جب کہ کے یو پی سی نے کے سی آر کے منصوبے پر عملدرآمد کرناتھا۔ تاہم یہ منصوبہ بھی کاغذوں تک محدود رہا اور اس پر بھی کوئی عمل نہیں کیاگیا۔
عوام کو بہلانے کےلیے سندھ گورنمنٹ نے وزیراعلیٰ ہاؤس میں بس ریپڈ ٹرانزٹ سسٹم، گرین لائن اور اورنج لائن جیسے منصوبوں کو تو جنم دیا لیکن یہ منصوبے کچھ ہی دن میں وزیراعلیٰ ہاؤس میں ہی دم توڑ گئے۔ اور کراچی کے عوام کسی بھی کلر کی لائن والے ریپڈ ٹرانزٹ سسٹم کے منصوبے پر عملدرآمد کا انتظار ہی کرتے رہ گئے۔تاہم مصطفیٰ کمال کے دور میں گرین لائن بس سروس شروع کی گئی تھی لیکن بعد ازاں وہ بھی سازشوں کی نذر ہوکر ختم ہوگئیں۔
ایک وقت تھا جب پاکستان کا بڑا شہر کراچی ٹرانسپورٹ کی سہولتوں سے مالا مال تھا۔ ہر روٹ پر بڑی بسیں چلا کرتی تھیں۔ آہستہ آہستہ مزدا، فورڈ کو چز اور دوسری چھوٹی گاڑیاں بھی بڑھتی ہوئی آبادی کو ٹرانسپورٹ کی سہولتیں فراہم کرنے لگیں۔ مگر حکومتیں کراچی میں ٹرانسپورٹ کی فراہمی سے ہمیشہ بے نیاز ہی رہیں۔ سندھ ٹرانسپورٹ، اومنی بس سروس 'کراچی ٹرانسپورٹ کارپوریشن اور اربن ٹرانسپورٹ UTS نے مختلف ادوار میں کراچی کی سڑکوں پر بسیں چلائیں مگر ان اداروں کو جلد مافیا نے ٹھکانے لگا دیا۔
کراچی سرکلر ریلوے منصوبے کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے میں آج بھی دو اہم چیزیں رکاوٹ بن رہی ہیں: (1) تجاوزات اور قبضہ مافیا، اور (2) پرائیوٹ پبلک ٹرانسپورٹ نظام۔ کینیڈا اور جاپان کی کمپنیوں نے اس پر کام کرنے سے پہلے ہی راہِ فرار اختیار کرنے میں اپنی عافیت جانی۔ شاید انہیں بھی علم ہوگیا تھا کہ کراچی میں یہ دوگروپ انتہائی طاقتور ہیں اور حکومت ان کے سامنے بے بس ہی رہے گی۔ اور شاید حقیقت بھی یہی ہے جس کی وجہ سے آج تک اس منصوبے کو کبھی عملی جامہ پہنانے کی کوشش تک نہیں کی گئی۔
ماضی میں جب بھی کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کے خواب کو حکومت نے تعبیر دینے کی کوشش کی تو ناظم آباد' غریب آباد' گلشن اقبال' لیاری سمیت کراچی سرکلرے ریلوے کے روٹ پر آنے والے دیگر علاقوں میں متعلقہ اداروں کو وہاں کے رہائشیوں کی جانب سے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ تاہم حکومت سندھ نے اس پر کوئی مذاکرات کرنے یا باسیوں کو متبادل جگہ دینے کے بجائے اب کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی مشن کو ہی دفن کرنا شروع کردیا جس کی تازہ مثال یہ ہے کہ ناظم آباد پل گراکر وہاں میٹروبس کےلیے سڑک ہموار کردی، اور کراچی سرکلر ریلوے کےلیے بچھائی گئی لائن کواس میں ہمیشہ ہمیشہ کےلیے دفن کردیا۔ اس سے اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ حکومت کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کےلیے کتنی سنجیدہ ہے۔
2003ء، 2005ء، 2013ء، 2014ء اور اگست 2017ء میں اس منصوبے کی بازگشت سنائی دی۔ تاہم 2017ء میں عوام کو جدید طریقے سے بے وقوف بنانے کےلیے سی پیک کا راستہ اختیار کیا گیا اور منصوبہ یہ کہہ کر ایک چینی کمپنی کے حوالے کردیا گیا کہ وہ اسے مکمل کرکے سی پیک کا حصہ بنائے گی۔ لیکن آج چینی کمپنی کو بھی تجاوزات کا سامنا ہے اور حکومت اب بھی اس مسئلے پر سنجیدہ دکھائی نہیں دے رہی۔
ستمبر 2017ء میں اس منصوبے پر کام کا آغاز کیا جانا تھا، اور اس کی تکمیل 2020ء تک ہونی ہے، مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ نہ اس منصوبے پر کوئی پیش رفت ہوئی اور نہ ہی اس پر کوئی کام ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ اب کراچی سرکلر ریلوے کراچی کے باسیوں کےلیے کسی دیوانے کے خواب کی طرح ہے، جو کبھی تعبیر نہیں پاتا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
پبلک ٹرانسپورٹ کا مسئلہ حل کرنے اور شہر کے اہم مقامات کو ملانے کےلیے اندرون شہر ریل سروس کا منصوبہ جسے''کراچی سرکلر ریلوے'' کا نام دیا گیا، سب سے پہلے 1976ء میں تجویز کیا گیا تھا۔
مگر اس پر بات کرنے سے پہلے ماضی پر ایک نظر ڈالی جائے تو ہمیں ٹرام، ڈبل ڈیکر اورکراچی میں چلنے والی بڑی بسیں نظر آئیں گی۔ ٹرام شہرِ قائد کےلیے سب سے پہلا ٹرانسپورٹ منصوبہ تھا جسے انگریز سرکار نے انتہائی قلیل عرصے میں عملی جامہ پہنا کر عوام کے سامنے پیش کیا۔ یہ منصوبہ 1881ء میں کراچی میونسپلٹی کے انجینئر مسٹر جیمز اسٹریچن نے پیش کیا اور اسے منظوری کےلیے لندن بھیجا۔ 1883ء میں بمبئی حکومت کی جانب سے اسے منظور کر لیا گیا اور اسی سال ٹرام وی ایکٹ بھی منظور کیا گیا۔ ہمارے افسران کی دیانت داری دیکھیے کہ ٹرام وی ایکٹ آج بھی برقرار ہے۔
20 اکتوبر 1884ء کو شہر کراچی میں ٹرام کےلیے پٹڑیاں بچھانے کے کام کا آغاز ہوا۔ 20 اپریل 1885ء کو سندھ کے کمشنر مسٹر ہینری ارسکن نے قلیل عرصے میں مکمل ہونے والے اس منصوبے ٹرام وی نظام کا افتتاح کیا۔ ابتدا میں اسے کوئلے کے انجن سے چلایاجاتا رہا، جس کے شور سے لوگوں کا سکون برباد ہونے لگا، تاہم بعد میں انجن ہٹاکر ٹرام کو گھوڑوں کے ذریعے کھینچا جانے لگا۔ کچھ عرصے بعد 1909ء میں گھوڑا سروس بند کرکے پیٹرول انجن لندن سے منگوائے گئے۔ تیزرفتاری کی وجہ سے ایک مرتبہ پھر پٹڑیاں تبدیل کی گئیں۔ پہلے سال ہی ٹرام نے اپنی مقبولیت کے جھنڈے گاڑ دیے اور ایک سال میں 5 ملین کے قریب لوگوں نے اس پر سفر کیا۔
1913ء میں ٹراموں کی تعداد 37 ہوگئی۔ ہر ٹرام میں 46 مسافروں کے بیٹھنے کی گنجائش تھی۔ ٹرام کی کامیابی کو دیکھتے ہوئے انگریز سرکار نے ڈبل ڈیکر بس سروس بھی شروع کی۔ جہاں ٹرام سروس نہیں تھی وہاں بسیں چلائی جانے لگیں۔
تقسیم ہند کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی نے ٹرام کمپنی کی فروخت کےلیے ٹینڈر طلب کیے جس میں سب سے کامیاب بولی محمد علی نامی شخص نے لگائی۔ انہوں نے یہ نظام محض 32 لاکھ روپے میں خرید کر کمپنی کا نام محمد علی ٹرام وی کمپنی رکھ دیا۔ فروری 1948ء میں 65 ٹرام اور 65 بسیں محمد علی کمپنی کی ملکیت تھیں، جنہیں چلانے کےلیے 1100 ملازمین تھے۔ 1960ء میں محمد علی کمپنی نے بس سروس بند کردی۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد ٹرام کے انجن پیٹرول سے ہٹاکر ڈیزل پر کردیے گئے اور اس میں مسافروں کی گنجائش بھی بڑھاکر 65 کردی گئی، جب کہ ڈرائیوروں اور کنڈیکٹروں کی تربیت کےلیے ایک اسکول بھی بنایا گیا تھا۔
30 اپریل 1975ء کا دن کراچی کی تاریخ کا ایک بدترین دن ثابت ہوا، جب آخری ٹرام نے اپنا سفر بندرروڈ سے بولٹن مارکیٹ تک مکمل کیا۔ 1974ء میں حکومت نے ٹرام ختم کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ حکومت کا مؤقف تھا کہ بندر روڈ پر ٹریفک بڑھنے کے باعث ٹرام سے شدید مشکلات پیش آرہی ہیں۔ جس پر کمپنی نے نظام کو مکمل لپیٹ لیا اور ٹرام کے ساتھ پٹڑیاں بھی اسکریپ کردیں۔ کہتے ہیں آپ کا ماضی آپ کے مستقبل سے جڑا ہے۔ زندہ قومیں ہمیشہ اپنے ماضی کو زندہ رکھتی ہیں، تاہم یہاں ایسا کچھ نہیں ہوا۔ 1975ء میں ٹرانسپورٹ کی تاریخ کا اہم باب بند ہوگیا۔ اس کے بعد کسی نے بھی ٹرام کی شکل نہیں دیکھی۔
1964ء میں کراچی میں ''کراچی سرکلر ریلوے'' کا منصوبہ بنایا گیا جسے دو حصوں میں مکمل کیا گیا۔ پہلے مرحلے میں ڈرگ روڈ کو لیاری اسٹیشن سے ملایا گیا، اور پھر دوسرے مرحلے میں اسی ٹریک کو لیاری سے کراچی سٹی اسٹیشن تک جوڑ دیاگیا۔ 1969ء میں اس روٹ پر 24 مسافر ریل گاڑیاں چلا کرتی تھیں۔ پھر وہی ہوا جو ٹرام کے ساتھ ہوا تھا، سازش کے تحت اس نظام کو ناکام بنانے کےلیے پہلے ریل گاڑیوں کو لیٹ کرنا شروع کیا گیا، اور بعد ازاں بس مالکان نے اس کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی اندھی کمائی میں اضافہ کیا۔ 1980ء کی کامیاب سواری 1990ء میں مسافروں کی عدم دلچسپی اور بس مالکان کی سازشوں کے باعث تباہ ہونا شروع ہوگئی۔ 1994ء میں کئی ریل گاڑیاں یہ کہہ کر بند کردی گئیں کہ خسارہ بڑھ رہا ہے۔ اور 1999ء تک لوپ لائن پر چلنے والی واحد ریل گاڑی کو بھی مکمل طور پر بند کردیا گیا۔
یہ ٹرام اور کراچی سرکلر ریلوے کا شاندار ماضی تھا۔ اب حال دیکھیں تو حکومت کی ٹرانسپورٹ پالیسیاں دیکھ کر افسوس ہی کیا جاسکتا ہے، جس نے پرائیویٹ سیکٹر کو فائدہ پہنچانے کےلیے شہرِ قائد کے باسیوں سے بہترین اور جدید ٹرانسپورٹ نظام چھین کر انہیں مافیا کے سامنے بے بس کردیا۔ اب لکیر پیٹنے سے کیا فائدہ جب چڑیاں چُگ گئیں کھیت والا معاملہ ہے۔ 19 برسوں سے عوام کو کراچی سرکلر ریلوے کا خواب دکھایا جارہا ہے... کبھی منصوبے کی فزیبلٹی اسٹڈی کرکے، تو کبھی مختلف فورمز پر اس کی منظوری لے کر... لیکن نتیجہ آج بھی وہی ہے، یعنی ڈھاک کے تین پات۔
ٹرام وے سسٹم کے خاتمے کے بعد کراچی سرکلر ریلوے کے ساتھ کراچی ٹرانسپورٹ کارپوریشن کا قیام عمل میں لایاگیا۔ KTC نے کراچی میں درآمد شدہ بسوں سے ایک سسٹم قائم کیا اور ایک عرصے تک یہ سسٹم کراچی کے شہریوں کی ٹرانسپورٹ کی ضرورت پوری کرتا رہا۔ ہزار ہا افراد ان بسوں سے بہ سہولت سفر کیا کرتے تھے۔ لیکن 1997 میں کے ٹی سی اور 1999ء میں سرکلر ریلوے کو ختم کرکے شہر کو ٹرانسپورٹ مافیا کے سپرد کر دیا گیا جس نے کراچی میں منی بسیں متعارف کرائیں، یہ منی بسیں پبلک ٹرانسپورٹ کے معیار پر بالکل بھی پورا نہیں اترتی تھیں، جو منی ٹرک کے چیسز پر باڈی بنا کر بس کی صور ت میں ڈھالی گئی تھیں۔ شہری ان دڑبہ نما بسوں میں بھیڑ بکریوں کی طرح سفر کرنے پر مجبور ہو گئے۔
وقت کے ساتھ یہ بسیں بھی خستہ حال ہو گئیں، لیکن کراچی کے بد نصیب شہریوں کے نصیب میں یہ ہی بسیں رہ گئیں، ان بسوں میں سفر کی اذیت کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ نجی شعبے نے بسوں سے ٹکٹ کا نظام ختم کیا اور زیادہ سے زیادہ منافعے کو اپنا شعار بنایا۔ غوث علی شاہ کے دور میں ٹریفک انجینئرنگ بیورو قائم ہوا، بے نظیر بھٹو کے پہلے دور میں ماس ٹرانزٹ پروگرام پر عملدرآمد کا ذکر ہوا مگر معاملہ اخبارات کے صفحات تک محدود رہا۔ میاں نواز شریف نے اپنے پہلے دور میں یلو کیب اسکیم شروع کی۔ اس اسکیم کے تحت قومی بینکوں نے ٹیکسیوں کی خریداری کےلیے اربوں روپے قرضے دیے'جس کی وجہ سے 3 قومی بینک دیوالیہ کے قریب بھی پہنچ چکے تھے۔
کراچی ٹرانسپورٹ کارپوریشن کے خاتمے کے بعد 2008 میں کراچی اربن ٹرانسپورٹ کارپوریشن کے نام سے ایک نیا ادارہ تشکیل دیا گیا جس میں 60 فیصد شیئر پاکستان ریلوے اور 25 فیصد حصہ سندھ حکومت کا رکھا گیا اور 15 فیصد کے ایم سی کو ملنے تھے۔ جب کہ کے یو پی سی نے کے سی آر کے منصوبے پر عملدرآمد کرناتھا۔ تاہم یہ منصوبہ بھی کاغذوں تک محدود رہا اور اس پر بھی کوئی عمل نہیں کیاگیا۔
عوام کو بہلانے کےلیے سندھ گورنمنٹ نے وزیراعلیٰ ہاؤس میں بس ریپڈ ٹرانزٹ سسٹم، گرین لائن اور اورنج لائن جیسے منصوبوں کو تو جنم دیا لیکن یہ منصوبے کچھ ہی دن میں وزیراعلیٰ ہاؤس میں ہی دم توڑ گئے۔ اور کراچی کے عوام کسی بھی کلر کی لائن والے ریپڈ ٹرانزٹ سسٹم کے منصوبے پر عملدرآمد کا انتظار ہی کرتے رہ گئے۔تاہم مصطفیٰ کمال کے دور میں گرین لائن بس سروس شروع کی گئی تھی لیکن بعد ازاں وہ بھی سازشوں کی نذر ہوکر ختم ہوگئیں۔
ایک وقت تھا جب پاکستان کا بڑا شہر کراچی ٹرانسپورٹ کی سہولتوں سے مالا مال تھا۔ ہر روٹ پر بڑی بسیں چلا کرتی تھیں۔ آہستہ آہستہ مزدا، فورڈ کو چز اور دوسری چھوٹی گاڑیاں بھی بڑھتی ہوئی آبادی کو ٹرانسپورٹ کی سہولتیں فراہم کرنے لگیں۔ مگر حکومتیں کراچی میں ٹرانسپورٹ کی فراہمی سے ہمیشہ بے نیاز ہی رہیں۔ سندھ ٹرانسپورٹ، اومنی بس سروس 'کراچی ٹرانسپورٹ کارپوریشن اور اربن ٹرانسپورٹ UTS نے مختلف ادوار میں کراچی کی سڑکوں پر بسیں چلائیں مگر ان اداروں کو جلد مافیا نے ٹھکانے لگا دیا۔
کراچی سرکلر ریلوے منصوبے کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے میں آج بھی دو اہم چیزیں رکاوٹ بن رہی ہیں: (1) تجاوزات اور قبضہ مافیا، اور (2) پرائیوٹ پبلک ٹرانسپورٹ نظام۔ کینیڈا اور جاپان کی کمپنیوں نے اس پر کام کرنے سے پہلے ہی راہِ فرار اختیار کرنے میں اپنی عافیت جانی۔ شاید انہیں بھی علم ہوگیا تھا کہ کراچی میں یہ دوگروپ انتہائی طاقتور ہیں اور حکومت ان کے سامنے بے بس ہی رہے گی۔ اور شاید حقیقت بھی یہی ہے جس کی وجہ سے آج تک اس منصوبے کو کبھی عملی جامہ پہنانے کی کوشش تک نہیں کی گئی۔
ماضی میں جب بھی کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کے خواب کو حکومت نے تعبیر دینے کی کوشش کی تو ناظم آباد' غریب آباد' گلشن اقبال' لیاری سمیت کراچی سرکلرے ریلوے کے روٹ پر آنے والے دیگر علاقوں میں متعلقہ اداروں کو وہاں کے رہائشیوں کی جانب سے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ تاہم حکومت سندھ نے اس پر کوئی مذاکرات کرنے یا باسیوں کو متبادل جگہ دینے کے بجائے اب کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی مشن کو ہی دفن کرنا شروع کردیا جس کی تازہ مثال یہ ہے کہ ناظم آباد پل گراکر وہاں میٹروبس کےلیے سڑک ہموار کردی، اور کراچی سرکلر ریلوے کےلیے بچھائی گئی لائن کواس میں ہمیشہ ہمیشہ کےلیے دفن کردیا۔ اس سے اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ حکومت کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کےلیے کتنی سنجیدہ ہے۔
2003ء، 2005ء، 2013ء، 2014ء اور اگست 2017ء میں اس منصوبے کی بازگشت سنائی دی۔ تاہم 2017ء میں عوام کو جدید طریقے سے بے وقوف بنانے کےلیے سی پیک کا راستہ اختیار کیا گیا اور منصوبہ یہ کہہ کر ایک چینی کمپنی کے حوالے کردیا گیا کہ وہ اسے مکمل کرکے سی پیک کا حصہ بنائے گی۔ لیکن آج چینی کمپنی کو بھی تجاوزات کا سامنا ہے اور حکومت اب بھی اس مسئلے پر سنجیدہ دکھائی نہیں دے رہی۔
ستمبر 2017ء میں اس منصوبے پر کام کا آغاز کیا جانا تھا، اور اس کی تکمیل 2020ء تک ہونی ہے، مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ نہ اس منصوبے پر کوئی پیش رفت ہوئی اور نہ ہی اس پر کوئی کام ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ اب کراچی سرکلر ریلوے کراچی کے باسیوں کےلیے کسی دیوانے کے خواب کی طرح ہے، جو کبھی تعبیر نہیں پاتا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھblog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔