مانیٹرنگ اس جانب بھی
آج کے عوام سمجھ دار ہیں وہ سمجھ رہے ہیں کہ سفید چینی کے استعمال سے زیادہ گڑ یا کچی چینی کا استعمال بہتر ہے۔
ہمارے ملک میں عجب حال ہے دوستو ۔ ابھی پچھلے برس اسی مہینے کی بات ہے جب مارچ 2017 میں ٹماٹروں کی قیمت ایک سو بیس روپے کلو اور سو روپے چل رہی تھی، لوگ پریشان تھے کہ ٹماٹروں کوکیا آگ لگ گئی کچھ اسی طرح کا حال پڑوس میں بھی تھا جہاں ٹماٹروں کی ڈکیتی بھی ہوگئی تھی ڈاکوؤں نے دن دہاڑے دکان پر ڈاکہ مارا دکان تھی سبزیوں کی جہاں سونے جیسے قیمتی ٹماٹروں کو لوٹ لیا گیا، پستول کی زد میں یہ ڈاکہ کیا خوب ڈاکہ تھا۔
کچھ اسی طرح کا حال چند برسوں پہلے خربوزوں کے ساتھ ہوا جب رمضان المبارک کے مہینے میں خربوزے اور دیگر پھل اس قدر مہنگے تھے کہ نہ پوچھیے۔ مجبوراً خریداروں نے انوکھا احتجاج شروع کیا اور اس موقعے پر سوشل میڈیا کی کمر ٹھونکنی چاہیے کہ جس کے باعث پھل سڑتے رہے پر خریدار نہ آئے یوں پھل فروشوں کو شکست کا منہ دیکھنا نصیب ہوا اور پھل ذرا اوپر سے نیچے دام اترے ۔
خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے لہٰذا چند برسوں پہلے یہی سوچ کر اچھے بھلے فارم والوں نے خربوزے اگائے کے رمضانوں میں خوب فروخت ہوگی یہ سوچ ہر دوسرے فارم کی ہوگئی کہ جس نے ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی ،خربوزے اس قدر بوئے کہ پھر ساری طرف خربوزے ہی خربوزے نظر آنے لگے، یہاں تک کہ انھیں سڑکوں پر ڈھیر لگا کر انتہائی سستے دام فروخت کرنے پڑے کئی کو خربوزے اپنے دوست احباب کو تحفتاً دینے پڑ گئے کہ انھیں سڑتا گلتا دیکھا نہ جاتا تھا۔
اب یہی حال ٹماٹروں کا ہے اس گرمی میں ٹماٹر کو کیا آگ لگی ہے کہ ہر طرف ٹماٹر ہی ٹماٹر نظر آتے ہیں۔ نور پور میں سنا تھا کہ منڈی میں مفت ٹماٹر بھی تقسیم کیے گئے اور شہروں کا یہ حال ہے کہ پندرہ کے دوکلو اور دس کے دوکلو تک فروخت کیے جا رہے ہیں۔ ان میں کچھ کانے،کچھ پچکے، کچھ دبے ہوئے گھبرائے گھبرائے سے ٹماٹروں کی قیمت شامل نہیں کی گئی۔ گویا ایک بات تو صاف نظر آتی ہے کہ مانیٹرنگ کا کوئی نظام نہیں ہے جس کی ضرورت ابھی نظر آئی جو مہنگی بھی رہی، اگلے برس کے لیے ایک دو نہیں بلکہ سب نے کمر باندھ کر تیاری کی اور پھر مفت میں ہی دینے پڑ گئے۔
کوئی سات آٹھ برس پہلے کی بات ہے کسی سے ملاقات ہوئی موصوفہ کے شوہر نامدار زراعت کے پیشے سے ہی وابستہ تھے ان کا کہنا تھا کہ ہمارے یہاں غلط سسٹم ہے ابھی اگر ایک شے مہنگی (اس زمانے میں چینی کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی تھیں) ہے تو اگلے برس تمام کسان گنے کی کاشت میں ہی لگ جائیں گے، ویسے بھی چاول کی فصل میں زیادہ پانی درکار ہوتا ہے لہٰذا کسان کو گنے کی کاشت میں فائدہ نظر آیا تو وہ اپنا منافع دیکھتے ہوئے چاول کی بوائی کی جگہ گنا کاشت کرتا ہے اس طرح مارکیٹ میں گنے کی مانگ میں کمی آجاتی ہے اور یوں بہت زیادہ گنا ہونے کے باعث اس کی قیمت فروخت گر جاتی ہے اور کسان نقصان میں رہتا ہے۔
ایسا بھی ہوتا ہے کہ مانگ میں اضافے کے باعث کسان کو فائدہ زیادہ پہنچتا ہے تو وہ پھر سے وہی اگانے کی کوشش کرتا ہے، اگر اس سلسلے میں ماہرین کی ٹیم کسانوں کی مدد کرے تو اس طرح فصل پر اٹھنے والے خرچ کے علاوہ فصل کی فروخت پر بھی کسان منافع اٹھاسکتا ہے۔
بچپن سے سنتے چلے آئے ہیں کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے ،اس کی زراعت ہی اس کی دولت ہے لیکن زرعی دولت کو اب آگ لگانے کی نامعقول کوشش کی جا رہی ہے یہ درست ہے کہ آبادی بڑھ رہی ہے اور بڑھتی ہوئی آبادی کے لحاظ سے تعمیر و ترقی کا گھیرا بھی وسیع ہو رہا ہے نئے نئے شہر اور علاقے آباد ہو رہے ہیں لیکن ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ آبادی بڑھنے کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنے ملک کی غذائی پیداوار کو بھی بڑھانے کی ضرورت ہے وہ تمام علاقے جو پیداوار کے اعتبار سے زرخیز ہیں انھیں سکیڑنے کی بجائے پھیلانے کی ضرورت ہے لیکن افسوس دیکھا یہ جا رہا ہے کہ وہ علاقے جہاں پہلے فصلیں لہلہاتی تھیں اب وہاں نئے تعمیراتی پروجیکٹس آباد ہیں یہ بھی انسانی ترقی کی ضرورت ہیں لیکن اس کے ساتھ ان زرخیز علاقوں پر بھی تجربات کرنے کی ضرورت ہے جو پانی اور لیبر کی کمی کے باعث ویران پڑے ہیں۔
پاکستان کی زرعی پیداوار آبادی کے لحاظ سے دنیا بھر میں خاصی کم ہے ذرا توجہ فرمائیے 29% - 52% کی زرعی پیداوار ایک ایسے ملک کے لیے جس کی بنیادی قوت ہی اس کی زراعت پر مبنی ہو کس قدر مضحکہ خیز صورتحال ہے اس پر ہمارے یہاں جس انداز سے کیمیائی مواد کو فصلوں کی کاشت کے سلسلے میں استعمال کیا جا رہا ہے چاہے وہ کھاد کی صورت ہو یا ''ہائی بریڈ'' بیج کی صورت میں ہو زمین کے لیے خطرناک ہے بالکل اس طرح جیسے قطرہ قطرہ زہر دے کر پورا وجود زہر آلود کر دیا جائے، زیادہ پیداوار اور بہتر فصل کے لالچ میں روایتی انداز کی کاشتکاری کو بالکل نظرانداز کیا جا رہاہے لیکن اب روایتی انداز سے بھی سبزیوں اور پھلوں کی کاشت پر کچھ سیکٹرز میں توجہ دی جا رہی ہے۔
2006 میں چکی کے آٹے کی قیمت پندرہ روپے کلو تھی آج وہی آٹا پچاس روپے کلو میں دستیاب ہے اس کی وجہ اگر ہم بڑھتی ہوئی مہنگائی کو قرار دیتے ہیں تو یہ بھول جاتے ہیں کہ آج کے زمانے میں کاشتکاری کے اخراجات میں نہ صرف اضافہ ہوگیا ہے بلکہ ان کے استعمالات بھی خاصے بڑھ چکے ہیں۔ اس کے علاوہ بیرون ملک سے ان اشیا کی امپورٹ پر آنے والے اخراجات الگ یہ سب مل کر ایک کاشت کار پر خاصا بوجھ ڈال دیتے ہیں اور وہ اشیا کی قیمت میں ان تمام اخراجات کو شامل کرکے فروخت کے لیے پیش کردیتے ہیں لیکن ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ان تمام اشیا کے استعمال سے انسانی صحت کس حد تک متاثر ہو رہی ہے۔
آج کے عوام سمجھ دار ہیں وہ سمجھ رہے ہیں کہ سفید چینی کے استعمال سے زیادہ گڑ یا کچی چینی کا استعمال بہتر ہے صرف یہی نہیں مختلف اجناس کے استعمال کے حوالے سے اور خوبصورت ترو تازہ اپنی جسامت سے خاصے بڑے نظر آنے والے پھل بھی اب انسانی صحت کے لیے مضر ہیں یا مفید ہیں۔
ہمارے پاس زرخیز زمینوں کی کمی نہیں ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ انھیں توجہ سے کارآمد بنانے پر زور دیا جائے، بیرون ملک میں بسنے والے پاکستانی اپنے ملک میں فلک بوس پلازے اور شاپنگ مالز میں سرمایہ کاری کرنے کے ساتھ ساتھ زراعت کے شعبے میں بھی سرمایہ کاری کریں۔ حکومت پوری ذمے داری سے طلب اور رسد کے توازن کو برقرار رکھنے کے لیے نہ صرف متحرک ہو بلکہ اپنا پورا فعال کردار بھی ادا کرے۔
رشوت ستانی کے بازارکو اگر ختم نہیں کیا جاسکتا تو کم ازکم اسے کنٹرول کرکے انھی اجناس کو ایکسپورٹ کیا جائے کہ جن کی تعداد ملک میں وافر مقدار میں دستیاب ہو۔ ایسا نہ ہو کہ اپنی ساکھ برقرار رکھنے کی خاطر ملک میں وہی اجناس اونچے داموں اور بیرون ملک کم داموں میں ایکسپورٹ کیا جائے رمضان المبارک قریب ہے اس کی تیاری میں منافع خور اور چور بازاری میں ملوث عناصر سے خبردار رہیے کہ ہمیں اپنے عوام اور اپنے خدا کو بھی جواب دینا ہے۔
کچھ اسی طرح کا حال چند برسوں پہلے خربوزوں کے ساتھ ہوا جب رمضان المبارک کے مہینے میں خربوزے اور دیگر پھل اس قدر مہنگے تھے کہ نہ پوچھیے۔ مجبوراً خریداروں نے انوکھا احتجاج شروع کیا اور اس موقعے پر سوشل میڈیا کی کمر ٹھونکنی چاہیے کہ جس کے باعث پھل سڑتے رہے پر خریدار نہ آئے یوں پھل فروشوں کو شکست کا منہ دیکھنا نصیب ہوا اور پھل ذرا اوپر سے نیچے دام اترے ۔
خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے لہٰذا چند برسوں پہلے یہی سوچ کر اچھے بھلے فارم والوں نے خربوزے اگائے کے رمضانوں میں خوب فروخت ہوگی یہ سوچ ہر دوسرے فارم کی ہوگئی کہ جس نے ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی ،خربوزے اس قدر بوئے کہ پھر ساری طرف خربوزے ہی خربوزے نظر آنے لگے، یہاں تک کہ انھیں سڑکوں پر ڈھیر لگا کر انتہائی سستے دام فروخت کرنے پڑے کئی کو خربوزے اپنے دوست احباب کو تحفتاً دینے پڑ گئے کہ انھیں سڑتا گلتا دیکھا نہ جاتا تھا۔
اب یہی حال ٹماٹروں کا ہے اس گرمی میں ٹماٹر کو کیا آگ لگی ہے کہ ہر طرف ٹماٹر ہی ٹماٹر نظر آتے ہیں۔ نور پور میں سنا تھا کہ منڈی میں مفت ٹماٹر بھی تقسیم کیے گئے اور شہروں کا یہ حال ہے کہ پندرہ کے دوکلو اور دس کے دوکلو تک فروخت کیے جا رہے ہیں۔ ان میں کچھ کانے،کچھ پچکے، کچھ دبے ہوئے گھبرائے گھبرائے سے ٹماٹروں کی قیمت شامل نہیں کی گئی۔ گویا ایک بات تو صاف نظر آتی ہے کہ مانیٹرنگ کا کوئی نظام نہیں ہے جس کی ضرورت ابھی نظر آئی جو مہنگی بھی رہی، اگلے برس کے لیے ایک دو نہیں بلکہ سب نے کمر باندھ کر تیاری کی اور پھر مفت میں ہی دینے پڑ گئے۔
کوئی سات آٹھ برس پہلے کی بات ہے کسی سے ملاقات ہوئی موصوفہ کے شوہر نامدار زراعت کے پیشے سے ہی وابستہ تھے ان کا کہنا تھا کہ ہمارے یہاں غلط سسٹم ہے ابھی اگر ایک شے مہنگی (اس زمانے میں چینی کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی تھیں) ہے تو اگلے برس تمام کسان گنے کی کاشت میں ہی لگ جائیں گے، ویسے بھی چاول کی فصل میں زیادہ پانی درکار ہوتا ہے لہٰذا کسان کو گنے کی کاشت میں فائدہ نظر آیا تو وہ اپنا منافع دیکھتے ہوئے چاول کی بوائی کی جگہ گنا کاشت کرتا ہے اس طرح مارکیٹ میں گنے کی مانگ میں کمی آجاتی ہے اور یوں بہت زیادہ گنا ہونے کے باعث اس کی قیمت فروخت گر جاتی ہے اور کسان نقصان میں رہتا ہے۔
ایسا بھی ہوتا ہے کہ مانگ میں اضافے کے باعث کسان کو فائدہ زیادہ پہنچتا ہے تو وہ پھر سے وہی اگانے کی کوشش کرتا ہے، اگر اس سلسلے میں ماہرین کی ٹیم کسانوں کی مدد کرے تو اس طرح فصل پر اٹھنے والے خرچ کے علاوہ فصل کی فروخت پر بھی کسان منافع اٹھاسکتا ہے۔
بچپن سے سنتے چلے آئے ہیں کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے ،اس کی زراعت ہی اس کی دولت ہے لیکن زرعی دولت کو اب آگ لگانے کی نامعقول کوشش کی جا رہی ہے یہ درست ہے کہ آبادی بڑھ رہی ہے اور بڑھتی ہوئی آبادی کے لحاظ سے تعمیر و ترقی کا گھیرا بھی وسیع ہو رہا ہے نئے نئے شہر اور علاقے آباد ہو رہے ہیں لیکن ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ آبادی بڑھنے کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنے ملک کی غذائی پیداوار کو بھی بڑھانے کی ضرورت ہے وہ تمام علاقے جو پیداوار کے اعتبار سے زرخیز ہیں انھیں سکیڑنے کی بجائے پھیلانے کی ضرورت ہے لیکن افسوس دیکھا یہ جا رہا ہے کہ وہ علاقے جہاں پہلے فصلیں لہلہاتی تھیں اب وہاں نئے تعمیراتی پروجیکٹس آباد ہیں یہ بھی انسانی ترقی کی ضرورت ہیں لیکن اس کے ساتھ ان زرخیز علاقوں پر بھی تجربات کرنے کی ضرورت ہے جو پانی اور لیبر کی کمی کے باعث ویران پڑے ہیں۔
پاکستان کی زرعی پیداوار آبادی کے لحاظ سے دنیا بھر میں خاصی کم ہے ذرا توجہ فرمائیے 29% - 52% کی زرعی پیداوار ایک ایسے ملک کے لیے جس کی بنیادی قوت ہی اس کی زراعت پر مبنی ہو کس قدر مضحکہ خیز صورتحال ہے اس پر ہمارے یہاں جس انداز سے کیمیائی مواد کو فصلوں کی کاشت کے سلسلے میں استعمال کیا جا رہا ہے چاہے وہ کھاد کی صورت ہو یا ''ہائی بریڈ'' بیج کی صورت میں ہو زمین کے لیے خطرناک ہے بالکل اس طرح جیسے قطرہ قطرہ زہر دے کر پورا وجود زہر آلود کر دیا جائے، زیادہ پیداوار اور بہتر فصل کے لالچ میں روایتی انداز کی کاشتکاری کو بالکل نظرانداز کیا جا رہاہے لیکن اب روایتی انداز سے بھی سبزیوں اور پھلوں کی کاشت پر کچھ سیکٹرز میں توجہ دی جا رہی ہے۔
2006 میں چکی کے آٹے کی قیمت پندرہ روپے کلو تھی آج وہی آٹا پچاس روپے کلو میں دستیاب ہے اس کی وجہ اگر ہم بڑھتی ہوئی مہنگائی کو قرار دیتے ہیں تو یہ بھول جاتے ہیں کہ آج کے زمانے میں کاشتکاری کے اخراجات میں نہ صرف اضافہ ہوگیا ہے بلکہ ان کے استعمالات بھی خاصے بڑھ چکے ہیں۔ اس کے علاوہ بیرون ملک سے ان اشیا کی امپورٹ پر آنے والے اخراجات الگ یہ سب مل کر ایک کاشت کار پر خاصا بوجھ ڈال دیتے ہیں اور وہ اشیا کی قیمت میں ان تمام اخراجات کو شامل کرکے فروخت کے لیے پیش کردیتے ہیں لیکن ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ان تمام اشیا کے استعمال سے انسانی صحت کس حد تک متاثر ہو رہی ہے۔
آج کے عوام سمجھ دار ہیں وہ سمجھ رہے ہیں کہ سفید چینی کے استعمال سے زیادہ گڑ یا کچی چینی کا استعمال بہتر ہے صرف یہی نہیں مختلف اجناس کے استعمال کے حوالے سے اور خوبصورت ترو تازہ اپنی جسامت سے خاصے بڑے نظر آنے والے پھل بھی اب انسانی صحت کے لیے مضر ہیں یا مفید ہیں۔
ہمارے پاس زرخیز زمینوں کی کمی نہیں ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ انھیں توجہ سے کارآمد بنانے پر زور دیا جائے، بیرون ملک میں بسنے والے پاکستانی اپنے ملک میں فلک بوس پلازے اور شاپنگ مالز میں سرمایہ کاری کرنے کے ساتھ ساتھ زراعت کے شعبے میں بھی سرمایہ کاری کریں۔ حکومت پوری ذمے داری سے طلب اور رسد کے توازن کو برقرار رکھنے کے لیے نہ صرف متحرک ہو بلکہ اپنا پورا فعال کردار بھی ادا کرے۔
رشوت ستانی کے بازارکو اگر ختم نہیں کیا جاسکتا تو کم ازکم اسے کنٹرول کرکے انھی اجناس کو ایکسپورٹ کیا جائے کہ جن کی تعداد ملک میں وافر مقدار میں دستیاب ہو۔ ایسا نہ ہو کہ اپنی ساکھ برقرار رکھنے کی خاطر ملک میں وہی اجناس اونچے داموں اور بیرون ملک کم داموں میں ایکسپورٹ کیا جائے رمضان المبارک قریب ہے اس کی تیاری میں منافع خور اور چور بازاری میں ملوث عناصر سے خبردار رہیے کہ ہمیں اپنے عوام اور اپنے خدا کو بھی جواب دینا ہے۔