دودھ کی قیمتوں کا مسئلہ
حکومت نے عوام کے مسائل پر توجہ نہ دی تو دودھ کا مسئلہ بھی سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کو دیکھنا پڑا۔
سندھ ہائی کورٹ نے کمشنر کراچی کو دس روز میں دودھ کے نرخ طے کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایسا میکنزم ہو کہ لوگوں کو مناسب قیمت پر دودھ ملے ۔ دکانداروں بھی مناسب نفع لیں اور لوگوں کو تکلیف نہ پہنچائیں ۔ اس موقعے پر کمشنر نے عدالت کو بتایا کہ ہم نے 95 روپے نرخ طے کیے ہیں ۔ اسٹیک ہولڈرز میں بہت اختلافات تھے جو طے نہ ہوسکے تو یہ نرخ مقررکیے گئے ہیں۔
قبل ازیں بیورو آف سپلائی اینڈ پرائسز نے دودھ کے نرخ مقررکرنے کے لیے پیش کی گئی اپنی سفارشات میں کہا ہے کہ پیداواری نرخ میں ڈیری فارمرز کا تین روپے، ہول سیلرز کا بھی تین روپے اور ریٹیلرز کا ساڑھے چار روپے منافع شامل کرکے دودھ کی قیمت ساڑھے ستاسی روپے ہوسکتی ہے اس لیے نرخ مقرر کرتے ہوئے کمشنر کو صارفین کا مفاد بھی مدنظر رکھنا چاہیے۔
سفارشات میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ دودھ کی پیداواری قیمت 76.94 روپے بنتی ہے اور ڈیری فارمرز دودھ کی پیداوار بڑھانے کے لیے غیر قانونی طور پر مصنوعی ہارمون کے ٹیکے استعمال کرتے ہیں جو سپریم کورٹ نے ممنوع قرار دے دیے ہیں۔ ان انجکشنوں کے ذریعے دس سے پندرہ فیصد تک زائد دودھ حاصل کیا جاتا ہے ۔ سندھ میں کسی بھی اتھارٹی نے یہ انجکشن استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مصنوعی ہارمونزکے عادی جانور چھ ماہ کا دورانیہ پورا ہونے کے بعد معمول پر آجائیں گے اس لیے دودھ کی قیمت مقرر کرتے وقت یہ بات بھی مدنظر رکھی جائے اور عبوری اضافہ صرف چھ ماہ کے لیے ہی کیا جائے۔ رپورٹ میں دودھ کی قلت کا ذمے دار خود ڈیری فارمرز کو قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ وہ بچھڑوں کو قصابوں کو فروخت کردیتے ہیں ان کم عمر بچھڑوں کی نگہداشت کرکے دودھ کی پیداوار میں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔
ڈیری فارمرز اپنے منافعے کا اثر لاگت میں ظاہر نہیں کرتے جس کا بوجھ صارفین کو اٹھانا پڑ رہا ہے ۔ سرکاری محکمے بیورو آف سپلائی اینڈ پرائسز نے شہری حکام پر زور دیا ہے کہ کم عمر جانوروں کی قصابوں کو فروخت پر پابندی عائد کی جائے تو یہ مسئلہ حل ہوسکتا ہے ۔ ادارے نے دودھ کے معیار پر بھی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ دودھ میں چھ فیصد چکنائی کی موجودگی یقینی بنانا ضروری ہے، اس لیے ڈیری فارموں سے ریٹیلرز تک ملاوٹ کی روک تھام اور معیارکی نگرانی کے لیے سخت اقدامات ضروری ہیں ۔
رپورٹ میں ممنوعہ مصنوعی ہارمون کے استعمال پر پابندی کے ساتھ بھینس کے دودھ میں گائے کا دودھ ملانے کے ساتھ کسی اور جانور کے دودھ کی ملاوٹ پر بھی پابندی ضروری ہے۔ سندھ حکومت کے محکمہ لائیو اسٹاک نے بھی دودھ کی پیداواری لاگت 80 روپے آٹھ پیسے ظاہرکی ہے جو 6.5 فیصد چکنائی کے حامل دودھ کی ہے۔ رپورٹ میں بھینس کے کم عمر بچوں کی فروخت کو ڈیری فارمرز کی اضافی کمائی قرار دیا گیا ہے۔
سرکاری اداروں کی رپورٹ کے بعد کمشنر کراچی کی طرف سے دودھ کا من مانا نرخ مقرر کرنا غیر منصفانہ اور کراچی انتظامیہ کی نااہلی اور ملی بھگت کو ظاہر کرتا ہے ۔ روزنامہ ایکسپریس کے مطابق مذاکرات کرنے والے افسران دودھ کے کاروبار کے تمام اسٹیک ہولڈروں کے آگے ڈھیر اور ان کی بلیک میلنگ میں آجاتے ہیں جس کا نتیجہ لوگ دودھ کی بند دکانوں اور خفیہ طور پر ایک سو روپے لیٹر فروخت کی صورت میں دیکھ چکے ہیں۔
انتظامیہ کے احکام دکھاوا بنے رہے، نہ منافع خور گرفتار ہوئے نہ دودھ کی دکانوں پر چھاپے پڑے نہ جرمانے ہوئے۔ راقم کے ایک واقف کار ڈیری فارمر کے مطابق کمشنر کراچی کے اجلاس میں تمام اسٹیک ہولڈروں نے کمشنر کا 95 روپے لیٹر کا نرخ منظور کرلیا تھا مگر ریٹیلرز کے ایک نام نہاد عہدیدار نے جس کی اپنی کوئی دودھ کی دکان ہے نہ کاروبار اور تجربہ، وہ قانون دان کہلاتے ہیں، نے نئے نرخنامے کو قبول کرنے سے انکار کیا اور فیصلے پر دستخط نہیں کیے تھے۔
اس میں اب کوئی شک نہیں کہ شہر میں ایک اور کمائی مافیا بڑھ چکا ہے جو عوام کی مجبوری ہے کیونکہ دودھ زندگی کا اہم جز بن چکا ہے اور عوام کو دھوکا دینے اور لوٹنے والے ادارے دودھ کے نام پر کیمیکل کی شکل میں لوگوں کو نہ جانے کیا کچھ پلاتے رہے ہیں جس پر سپریم کورٹ کو ایکشن لینا پڑا تو عوام کو پتا چلا کہ سفید رنگ کی یہ چیز دودھ نہیں کیمیکل ہے جو چائے میں استعمال کی جاتی رہی ۔ حکومت کو تو صرف ٹیکس سے دلچسپی رہی ہے عوام کی صحت سے نہیں۔ کوئی ادارہ دودھ کے نام پر مضر صحت کیمیکل فروخت کرتا رہے جب تک بڑا جانی نقصان نہیں ہوجاتا حکومتی آنکھیں نہیں کھلتیں۔
دودھ کی پیداوار بڑھانے کے انجکشن پر پابندی حکومت نے لگانا تھی جو سپریم کورٹ نے لگائی جس کی بنیاد پر دودھ کی قیمت میں پندرہ روپے لیٹر اضافہ کردیا گیا ہے۔ مصنوعی ہارمون انجکشن سے اضافی دودھ حاصل کیا جا رہا تھا یہ سلسلہ عشروں سے چل رہا ہے۔
عدالت کو ڈیری فارمرز کی طرف سے بتایا گیا ہے کہ اس سے کینسر نہیں ہوتا، البتہ یہ اعتراف کیا گیا ہے کہ اس اضافی دودھ کے باعث لڑکیاں جلد جوان ہو رہی ہیں ۔ دودھ مافیا ہمیشہ نقصان کا رونا روتی ہے جب کہ تینوں کی کمائی مسلسل بڑھ رہی ہے۔ بھینسوں کے باڑے اور دودھ کی دکانیں بے دریغ اندھی کمائی کی وجہ سے مسلسل بڑھ رہی ہیں اور جائیدادوں میں ہونے والا اضافہ اس کا کھلا ثبوت ہے۔
دودھ کا کاروبار منافع بخش صنعت بن چکا ہے اور اعلیٰ پولیس افسران نے بھی باڑے قائم کرا رکھے ہیں جن کی وہ سرپرستی کرکے دولت کما رہے ہیں اور عوام کو صرف اور صرف لٹنے کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے۔ حکومت نے عوام کے مسائل پر توجہ نہ دی تو دودھ کا مسئلہ بھی سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کو دیکھنا پڑا توکیا انتظامیہ کا کام بھی اب اعلیٰ عدلیہ کو دیکھ کر دودھ کا نرخ مقرر کرنا پڑے گا اور حکومتی بے حسی اور انتظامی نا اہلی کی سزا عوام کا ہی مقدر رہے گی اس کا جواب کس کے پاس ہے؟