کراچی کا منظر نامہ دھندلا ہے
ایک دور تھا کراچی میں مذہبی جماعتوں کی حکومت تھی۔ نورانی کی حکومت تھی جماعت اسلامی کی حکومت تھی۔
کراچی کی سیاست میں دلچسپی رکھنے والے ایک سوال کر رہے ہیں کہ ایم کیو ایم پاکستان کی ٹوٹ پھوٹ کا فائدہ کس کو ہو گا؟ فاروق ستار اور عامر خان کی لڑائی کا فائدہ کس کو ہو گا؟ کیا مصطفیٰ کمال کی پی ایس پی اس لڑائی سے کوئی فائدہ حاصل کر سکے گی؟ کتنے اور لوگ ایم کیو ایم پاکستان کو چھوڑ کر پی ایس پی میں شامل ہو جائیں گے؟
فاروق ستار اور عامر خان کی لڑائی میں کون کس کے اشارے پر لڑ رہا ہے؟ کس کے پاس لڑائی میں اسٹبلشمنٹ کی آشیر باد ہے اور کون لندن کے اشارے پر لڑ رہا ہے؟ پتہ نہیں کیوں لوگ یہ بات بھی کرتے ہیں کہ اگر ساری ایم کیو ایم پاکستان بھی مصطفیٰ کمال کی چھتری میں آجائے تب بھی کیا ووٹ بینک مصطفیٰ کمال کے پاس آئے گا ؟ ۔
ایک دوست کا یہ بھی تبصرہ ہے کہ مصطفیٰ کمال کراچی کی ق لیگ ثابت ہو ںگے جس میں سب شامل تو ہوجائیں گے لیکن ووٹ بینک نہیں ہو گا۔ لیکن دوسرے دوست کا تبصرہ ہے کہ اس بار کراچی میں فیصلہ ووٹ بینک پر نہیں بلکہ فرشتوں کی حمایت پر ہو گا۔ جو سب کو مصطفیٰ کمال کی چھتری میں لا رہے ہیں، وہ سب کو بے یارو مددگار نہیں چھوڑیں گے۔ اس لیے مصطفیٰ کمال کا مستقبل روشن ہے۔
فاروق ستار اور عامر خان لڑائی میں لندن کا کتنا ہاتھ ہے یہ بھی سوال ہے۔ کیونکہ لندن پھر سے متحرک ہے۔ جیسے جیسے انتخابات قریب آرہے ہیں ویسے ویسے لندن متحرک ہو رہا ہے۔ لندن کی چاکنگ بڑھ رہی ہے۔ بانی کی بیٹی کی چاکنگ بھی سامنے آچکی ہے۔ یہ درست ہے کہ لندن کی اب کراچی میں کوئی تنظیم نہیں ہے۔ وہ دہشت بھی نہیں ہے۔ اب لندن والے کراچی بند بھی نہیں کرا سکتے۔ ان کا عسکری نیٹ ورک بھی ٹوٹ گیا ہے۔ لیکن ان سب کامیابیوں کے باوجود پتہ نہیں کیوں لندن کے ووٹ بینک کے حوالے سے سوالات موجود ہیں۔
یہ بات بھی نا قابل فہم ہے کہ مصطفیٰ کمال سے غلطی کیا ہو گئی ہے۔ وہ بات بھی ٹھیک کر رہے ہیں۔ لیکن وہ عوامی پذیر ائی نظر نہیں آرہی جس کی توقع تھی۔ ابھی تک وہ کراچی میں اپنی عوامی قوت کا وہ مظاہرہ نہیں کر سکے ہیں جس کی ان سے توقع تھی۔ انھوں نے الطاف حسین کو چیلنج بھی ٹھیک کیا ہے۔ وہ ڈٹ کر سامنے آئے ہیں۔
انھوں نے یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ان میں ڈٹ کر سامنے کھڑا ہونے کی طاقت ہے۔ لیکن پھر بھی کہیں کمی ہے۔ ابھی وہ عوامی حمایت نظر نہیں آرہی جس سے یہ کہا جائے کہ مصطفیٰ کمال آیندہ انتخابات میں چھا جائے گا۔ وہ شاید چند سیٹیں تو جیت سکیں لیکن ایم کیو ایم کی طرح سارا کراچی جیتنا ممکن نظر نہیں آرہا۔ وہ کراچی کے بلا شرکت غیر لیڈر بن کر ابھی تک نہیں ابھر سکے ہیں۔
ادھر عمران خان بھی کراچی میں بہت کمزور ہیں۔ وہ شاید وہاں بھی نہیں ہیں جہاں گزشتہ انتخابات میں تھے۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ کراچی کے عوام ان سے مایوس ہو ئے ہیں۔ بلا شبہ کراچی میں ان کے ووٹ بینک میں بھی کمی ہوئی ہے۔ اسی لیے ان کی جماعت کسی بھی ضمنی انتخاب میں قابل ذکر ووٹ نہیں حاصل کر سکی ہے۔ اب تو کراچی کی یوتھ بھی ان کے ساتھ نظر نہیں آرہی ہے۔ ایسے میں اگلے انتخاب میں عمران خان سے یہ امید رکھنا کہ وہ کراچی میں کوئی دھماکا کر سکیں گے ممکن نہیں۔ عمران خان کا کراچی سے مکمل صفایا ہو چکا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ اگر عمران خان بھی نہیں ہیں۔ مصطفیٰ کمال بھی نہیں ہیں تو کیا ایم کیو ایم پاکستان دوبارہ جیت جائے گی۔ موجودہ حالات میں تو ایسا ممکن نظر نہیں آرہا۔ اس وقت تو بہاد ر آباد او ر پی ایس پی والے ایسے لڑ رہے ہیں کہ لگ رہا ہے کہ لڑتے لڑتے ہو گئی گم ایک کی چونچ ایک کی دم۔ دونوں کی لڑ ائی کبھی فلمی سین لگتا ہے۔ کبھی جھوٹ لگتی ہے، کبھی سچ لگتی ہے۔ جس طرح ایک فلم میں ہر لمحہ سین بدلتا ہے۔ اسی طرح اس لڑائی میں گھنٹوں کے اعتبار سے سین بدلتے ہیں۔
کبھی فیصل سبزواری روتے نظر آتے ہیں ،کبھی للکارتے نظر آتے ہیں۔کبھی لگتا ہے کہ دو حصہ ہو گئے۔ پھر اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ کبھی لگتا ہے کہ اب ملاقات نہیں ہو گی پھر فاروق ستار بہادر آباد پہنچ جاتے ہیں۔کبھی لگتا ہے کہ فاروق ستار بانی کی طرح مائنس ہو گئے۔ لیکن پھر حکم امتناعی مل جاتا ہے۔ فاروق ستار بھی لگتا ہے کہ بوکھلا گئے ہیں۔ ایک دن کہتے ہیں کہ ادارے میرے خلاف ہیں، دوسرے دن انھیں حکم امتناعی مل جاتا ہے۔
ادارے جن کے خلاف ہوں انھیں حکم امتناعی نہیں ملتا۔ مجھے لگتا ہے کہ آیندہ انتخابات تک یہ لڑائی ایسے ہی چلتی رہے گی۔ کہیں اسکرپٹ ایسا تو نہیں کہ ابہام رکھنا ہے۔ تقسیم رکھنی ہے۔ ان دونوں کو نہ مرنے دینا ہے نہ جینے دینا ہے۔ بس صورتحال اگلے انتخاب تک ایسے ہی رہے گی۔ سیاست بھی عجیب کھیل ہے۔ عامر خان اور فارو ق ستار دونوں کو پتہ ہے کہ اس لڑائی میں ان کا نقصان ہی نقصان ہے۔
دونوں کو علم ہے کہ وہ سیاسی طور پر تباہ ہو جائیں گے لیکن دونوں ہی ہٹ دھرمی پر قائم ہیں۔ ایسے میں ایم کیو ایم پاکستان پورا کراچی نہیں جیت سکتی ،کچھ لوگ جیت جائیں گے۔ ان میں فاروق ستار بھی شامل ہوںگے۔کچھ ہار جائیں گے۔ ان میں عامر خان شاید نہ ہوں۔
کراچی کا منظر نامہ دھندلا ہے۔ ایک دور تھا کراچی میں مذہبی جماعتوں کی حکومت تھی۔ نورانی کی حکومت تھی جماعت اسلامی کی حکومت تھی۔ لیکن آج جب ایم کیو ایم ٹکڑوں میں تقسیم ہو رہی ہے۔ اس جماعت کے حصہ بخرے ہو گئے ہیں تب بھی دینی جماعتوں کی کھوئی ہوئی حکومت کراچی میںواپس آنے کا کئی امکان نہیں ہے۔ پیپلزپارٹی بھی چند سیٹوں تک محد ود نظر آتی ہے۔ سندھ میں دس سال کی حکومت میں کراچی نہ کبھی پیپلزپارٹی کا ٹارگٹ تھا اور نہ ہی آج ہے۔ وہ کل بھی لیاری تک تھے آج بھی وہیں ہیں۔
کراچی کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ اسٹبلشمنٹ مخالف شہر ہے۔ مصطفیٰ کمال پر اسٹبلشمنٹ کی چھاپ ان کی عوامی مقبولیت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ لیکن دوسری طرف اس وقت پاکستان میں اسٹبلشمنٹ کے خلاف سب سے بڑی آواز تو نواز شریف ہیں لیکن کراچی میں ان کانام و نشان بھی نہیں ہے۔ میرا سیاسی تجزیہ نگاروں سے یہ بھی سوال ہے کہ مجھے کیوں نکالا کو کراچی میں پذیر ائی کیوں نہیں مل سکی ہے۔
آیندہ انتخابات کا بگل بج چکا ہے۔گھوڑے دوڑ رہے ہیں۔ تجزیوں کا بازار بھی گرم ہو رہا ہے۔ کون کہاں کھڑا ہے کچھ سمجھ بھی آرہا ہے۔ سینیٹ میں جو ہوا ہے لوگ اس سے بھی اندازے لگا رہے ہیں کہ آیندہ کیا ہو گا۔ لیکن کراچی کا منظر نامہ پورے ملک سے الگ ہی نظر آرہا ہے۔ کسی کو کچھ سمجھ نہیں آرہا۔ کراچی کس کا ہو گا۔ جیتنے و الے بھی ڈرے ہوئے ہیں اور جن کے جیتنے کا خد شہ ہے وہ بھی ڈرے ہوئے ہیں ۔ ان دیکھے خوف میں کراچی اپنی ہی کہانی بیان کر رہا ہے۔
افسوس کی بات تو یہ ہے کہ بڑی سیاسی جماعتیں کراچی کے منظر نامہ سے غائب ہیں۔ اس لیے کراچی سیاسی طور پر تنہائی کا شکار بھی نظر آرہا ہے۔ وہاں فرشتوں کی گیم نظر آرہی ہے۔ لگتا ہے یہ میچ فرشتوں کے کھلاڑیوں کے درمیان ہی ہو گا۔