مغفرت سے پہلے عقلِ سلیم مانگئے

یہ سب کلی یا جزوی سدھر سکتا ہے اگر عدلیہ سے پہلے علما کا قبلہ درست ہو جائے۔


Wasat Ullah Khan April 03, 2018

پاکستان کی سیاست، بیورو کریسی، فوج، عدلیہ اور مذہبی اسٹیبلشمنٹ میں ایسے بیسیوں خواتین و حضرات ہیں جن کے پاس غیراعلان شدہ دوہری شہریت، بے نامی املاک، دوہرے بینک اکاؤنٹس اور جو جو سہولت بھی دہری ہو سکتی ہے سب موجود ہے۔

ہر طاقتور حلقے میں ایسے کئی حاضر و ریٹائرڈ ہیں جو غیر ملکی مالیاتی اداروں، اسلحہ کمپنیوں، آئی ٹی، پٹرولیم، شپنگ،کنٹینرز اور سروس سیکٹر کی ملٹی نیشنل کمپنیوں، تعمیراتی اداروں، انفرااسٹرکچر کے ٹھیکے داروں، انٹیلی جینس ایجنسیوں، سروس سیکٹر اور غلے و کھاد و بیج کی عالمی تقسیم کار نجی و غیر نجی کمپنیوں اور مذہبی تقسیم کاروں سمیت غرض ہر اس ادارے کے ایڈوائزر یا کمیشن ایجنٹ بننے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے جہاں سے چار پیسے، معمولی و غیر معمولی سہولت یا اعلیٰ علاقائی و عالمی حلقوں تک ملکی سیاسی، سماجی و اقتصادی مفاد کی قیمت پر رسائی کا ذرا سا بھی امکان ہو۔

ہم جیسے ممالک کا سٹرٹیجک، اقتصادی، سماجی اور ذاتی مفاد مغربی مفادات سے مسلسل جڑا رہتا ہے۔کیونکہ یہی وہ مدلل دلالی ہے جو اشرافیہ کے اختیار و خوشحالی کی انشورنس ہے۔کبھی کبھی ریاستی کڑھی میں قوم پرستی و حب الوطنی کا ابال بھی اٹھتا ہے پھر فوراً ہی بیٹھ بھی جاتا ہے۔

مغرب میں لاکھوں محنت کش اور قانون پسند پاکستانی تارکینِ وطن کے بیچ ہزاروں مفتے بھی چھپے ہوئے ہیں جو مغربی فلاحی، امیگریشن اور تعلیمی نظام کو نئے نئے حربوں سے نچوڑنے اور اپنا الو سیدھا کرنے کے ماہر ہیں مگر پاکستان کا کیا بنے گا؟ اس غم میں بھی برابر گھلے جاتے ہیں۔

ایسے لاکھوں لوگ ہیں جو تلاشِ معاش کے لیے مختلف مجبوریوں اور محرومیوں کے ہاتھوں غیر قانونی طور پر مغربی ممالک تک پہنچنے کے لیے اپنا مال، عزت، مذہبی و خاندانی شناخت اور جان تک داؤ پر لگا دیتے ہیں یا بخوشی آمادہ ہیں۔انھی خواب زدگان کے خون، پسینے اور مستقبل کے بل پر سیکڑوں ریکروٹنگ ایجنٹس اور ان کے ہزاروں کارندے بھی پھلتے پھولتے ہیں۔

یوں اوپر سے نیچے تک انسانی لالچ کی یہ زنجیر ہیومن اسمگلنگ کا طاقتور مقامی و بین الاقوامی نیٹ ورک بن جاتی ہے۔انسانی بھیڑ بکریوں کی خرید و فروخت کے نتیجے میں جس کارندے یا باس کے ہاتھ جتنا مال آتا ہے لے اڑتا ہے۔یہ ہیومن اسمگلرز اپنے سرپرستوں کو فنانس کرتے ہیں اور بدلے میں پشت پر مضبوط ہاتھ پاتے ہیں۔وہ ہاتھ جو خود قانون بھی ہیں اور لاقانونیت بھی۔

اس استحصالی چھلنی سے نکل کر جو لوگ مغربی ساحلوں کو چھونے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ان میں سے کئی زیرک خود ریکروٹنگ کے دھندے میں شراکت دار یا کارندے بن جاتے ہیں اور یوں یہ ریکٹ گناہِ جاریہ کی طرح پھلتا پھولتا رہتا ہے۔ایف آئی اے کی ریڈ بک میں انسانی اسمگلروں کے نام بدلتے رہتے ہیں مگر تعداد کبھی کم نہیں ہوتی۔

اگلے ماہ رمضان آنے والا ہے۔کروڑوں لوگوں میں خدا ترسی جاگے گی اور وہ ہر ممکن اخلاص کے ساتھ پہلے اوپر دیکھیں گے اور پھر اپنے سے نیچے والوں کی کچھ نہ کچھ خاموش خوردنی و مالی دست گیری کر دیں گے۔مگر کاروباری اپنے لیے یہ موقع بھی کھلا کرانے سے ہرگز نہ چوکیں گے۔ایک ہاتھ سے کمائیں گے اور دوسرے ہاتھ سے اس اندھی کمائی میں سے چونی انھی کو واپس صدقہ و خیرات میں دے دیں گے جن کی جیب پر ڈاکہ پڑ چکا۔اگر دل پھر بھی مطمئن نہ ہو گا تو آخری دس روزے اعتکاف و عمرے میں گذار کے یہ فرض کر لیں گے کہ آسمان پر اب تک کا کھاتہ تو کلئیر ہو گیا۔اگلے برس پھر دیکھیں گے۔

خدا کے نام کی تکریم کرنے والے یہ لوگ

خدا کے گھر سے بھی اونچے مکان رکھتے ہیں

( جمال احسانی )

اور پھر حج اور بڑی عید کا سیزن آ جائے گا۔فائیو اسٹار حج پیکیج، حج پلس کی صنعت چمک اٹھے گی۔یہ خوشحال و مقتدر حاجیوں کی اس گیٹڈ کیٹگری کے لیے ہیں جو بزعمِ خود زمینی خدا ہیں۔ ان کے نزدیک حج کی اہمیت یہ نہیں کہ کس آسمانی معیار تک پہنچنے کے لیے کیے بلکہ یہ ہے کہ کتنے درجن کیے۔کربلا کے ٹور پیکیج لینے والے ہوں یا حج و عمرے کے اسٹار پیکیج یافتہ۔ان کو اپنے شانہ بشانہ مجبور و پائی پائی جوڑ کر سعادت کمانے والے نہ وطن میں دکھائی دیتے ہیں نہ ہی مقاماتِ مقدسہ میں ٹپائی دیتے ہیں۔ان کی آنکھوں کی چربی صرف قبر کی گرمی ہی پگھلا سکتی ہے۔

یہ سب کلی یا جزوی سدھر سکتا ہے اگر عدلیہ سے پہلے علما کا قبلہ درست ہو جائے۔مگر ایسے کتنے علما ہیں جو اجتماعی خیر و فلاح پر ذاتی فلاح قربان کرنے اور پوشاکِ کبر تہہ کر کے جھوٹ کے لشکر کے آگے سینہ سپر ہونے پر تیار ہوں۔ایسے علما جو بیک وقت شیر و شکاری کے ہمسفر نہ ہوں، جو ایک انگلی میری جانب ضرور اٹھائیں مگر اپنے ہی ہاتھ کی اپنے ہی جانب مڑنے والی تین انگلیوں کا بھی دھیان رکھیں۔جو سیاست اور دین کے پانی کو فلاح انسانیت کے پائپوں میں مکس نہ ہونے دیں اور جو اس خوف سے نفس کی تربیت کریں کہ ایک نادیدہ عدالت بھی ہے جو تین سو پینسٹھ دن، بارہ مہینے، باون ہفتے ساتوں دن کام کر رہی ہے اور وہ ایسی عدالت ہے جہاں روزنامچہ مرتب ہونے کا کام تاقیامت جاری رہے گا۔کروڑوں نفوس کی تربیت اپنے نفس کو لگام دیے بغیر، کسی دنیاوی طاقت کا بھونپو بنے بغیر اور عبادت و رعونت میں تمیز کیے بغیر کیسے ممکن ہے ؟

اور جب یہ سب نامحرم کہ جن کا ذکر اوپر سے نیچے تک ہوا نفسِ امارہ اور اپنی بہو بیٹیاں بھول کر دشنام کا چشمہ پہن کسی اور کی بیٹی کا ذاتی، سماجی، سیاسی، بین الاقوامی ایکسرے کرتے ہوئے حتمی و فتاوی انداز کی رائے قائم کرتے اور پھیلاتے ہیں تو بس لطف ہی آ جاتا ہے۔یہ وہ دور ِ غربت ہے جس میں دعا کرتے ہوئے مغفرت کے بجائے عقل ِسلیم مانگنے کی ضرورت ہے۔ اگر یہ دعا قبول ہو گئی تو مغفرت خود بخود ہو جائے گی۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں