تاریخ کا سفر

حساس انسانوں نے اپنی نسلوں کی اس تاریخ کو اپنی تحریروں میں جمع کر لیا ہے۔

Abdulqhasan@hotmail.com

وقت کی ایک رفتا ر ہوتی ہے جو کسی کے اشارے اور کسی کی مرضی کی پابند نہیں ہوتی۔ ہر لمحہ اس کا اپنا اور زر خرید ہوتا ہے جو چیزیں بکا کرتی ہیں ان میں ایک وقت بھی ہے جو کسی بھی مارکیٹ میں بکتا ہے اور جس کے خریدو و فروخت سر بازار ہوتی ہے اور کسی بھی و قت وہ بازار کی عام جنس بن جاتاہے اور کسی وقت وہ کسی قیمت پر بھی دستیاب نہیں ہوتا لیکن یہ وقت ہی ہے جس کی قیمت ہر وقت برقرار رہتی ہے اور جس مارکیٹ میں وہ بکتاہے وہ دن رات کھلی رہتی ہے اور ضرورت مند اس کی اور اس میں سودا گری کرتے رہتے ہیں ۔

آپ اس وقت جس کالم کی یہ سطریں پڑھ رہے ہیں وہ بھی بکا ہوا ہے اور اس کا ایک ایک لفظ خریدا گیا ہے ۔زندگی میں کتنے ہی ایسے سوداگر مل جاتے ہیں جن کا کاروبار ہی وقت کی سودا گری ہے، وہ وقت اور اس کے موزوں خریدار کی تلاش میں رہتے ہیں اور جب یہ دونوں مل جاتے ہیں تو ایک تحریر وجود میں آتی ہے جس کا خام مال یہی وقت اور اس کا کوئی قدر دان ہوتا ہے۔

وقت کی خریدو فروخت اس مارکیٹ کا مال ومتاع اور کاروبار کا سامان اپنے وقت پر یہ مارکیٹ چلتی ہے اور یہاں تحریریں تخلیق ہوتی ہیں جو نوع انسانی کے قدم آگے بڑھاتی ہے اور انسانی زندگی کو نئے نئے منظر دکھاتی اور مد ہوش کرتی رہتی ہے ۔

انسانی فکر کا قافلہ ایسے ہی راستوں سے گزرتا ہے اور یہ قافلہ سالاروں پر منحصر ہے کہ وہ ان راتوں پر اپنی کیا نشانی چھوڑ جاتے ہیں جو دوسرے قافلہ سالاروں کے لیے رہنما بن جاتی ہے اور انسانی سفر کے کتنے ہی قافلے ان منزلوں سے گزر کر انسانی زندگی کا کوئی مرحلہ طے کرتے ہیں۔ یہ وہ قافلے ہیں جو انسانی تاریخ میں انسانی قافلوں کے رہنما بن جاتے ہیں اور یوں انسانی تاریخ کا سفر چلتا رہتا ہے رکتا نہیں ہے۔

حساس انسانوں نے اپنی نسلوں کی اس تاریخ کو اپنی تحریروں میں جمع کر لیا ہے اوریوں آنے والی نسلوں کی رہنمائی کا ایک ایسا سلسلہ ترتیب دے دیا ہے جو انسانوں کی تاریخ بناتا ہے، تاریخ کے اوراق کو مرتب کرتا ہے اور آنے والی نسلوں کے لیے تحفہ اور امانت بناکر چھوڑ جاتا ہے جس کی رہنمائی میں انسانی تاریخ کے قافلے رواں رہتے ہیںاور ساتھی ہی نئی تاریخ بھی بناتے جاتے ہیں۔ اس انسانی کوشش کا نام تاریخ ہے جس سے انسانی علوم و فنون کے کتب خانے اور لائبریریاں بھری ہوئی ہیں اور ان میں مسلسل اضافہ بھی ہوتا رہتا ہے۔ یہی اضافہ انسانی تاریخ کا وہ سفر ہے جو آج کے انسانوں کو ان کے کل کا پتہ دیتا ہے ۔


آج اور گزشتہ کل کے سفر کی یہ کہانی ہی ہماری کہا نی ہے ۔ میرا بچہ جو نئی یونیفارم میں آراستہ ہو کر اپنی تعلیمی درسگاہ میں جا رہا تھا جب مجھے ملنے آیا تو میں اس کو نظر بھر کر دیکھ نہ سکا اور وہ میرے اس رویے سے قدرے پریشان ہو کر مدرسے جانے کے لیے اپنی گاڑی میں بیٹھ ،اس میں اپنی گاڑی میں بیٹھتے ہوئے مجھے مڑ کر دیکھنے کی ہمت نہ ہوئی کہ نہ جانے میں اسے کس حال میں دکھائی دوں چنانچہ وہ اپنے روز مرہ کے تعلیمی سفر پر روانہ ہو گیا البتہ جاتے ہوئے گاڑی کے دروازے پر مجھے یہ کہہ گیا کہ میرا آج امتحان ہے، دعا کیجیئے گا ۔ مسلمان کا بیٹا دعائوں پر یقین رکھتا ہے، شایداس لیے کہ وہ نہ جانے کتنی دعائوں کے بعد پیدا ہوا تھا۔

دعا اور دوا ہم مسلمانوں کے وہ دو ہتھیار ہیں جو ہر وقت تنے رہتے ہیں اور ہماری زندگی کے بہترین لمحے ان ہتھیاروں کے تحفظ میں گزرتے ہیں ۔ یہ ہتھیار ایک خدائی تحفہ ہیں جو ہماری زندگی کے اسلحہ کو تابناک رکھتے ہیں اور اسے کند نہیں ہونے دیتے۔

یہ بھی ہم مسلمانوں کے لیے ایک خدائی تحفہ ہیں جن پر ہم بھروسہ کرتے ہیں اور ہمارا یہ بھروسہ ہمیںکبھی دھوکا نہیں دیتا کیونکہ اس میں ایک ایسی طاقت چھپی ہوتی ہے جو قدرت کا ایک عطیہ ہوتی ہے اور یہ طاقت اس بھروسے کو زندہ رکھتی ہے ۔یہ بھروسہ اﷲ پر ایمان کی طاقت ہے جو اگر کسی مسلمان کو عطا ہو جائے تو پھر وہ اس دنیا کی فرمانروائی کرتا ہے یعنی دنیا کے خوف و ہراس سے محفوظ ہو جاتا ہے ۔ اس دنیا کے پاس کسی انسان کو ڈرانے کے لیے خوف کا جو ہتھیار ہوتا ہے وہ کند ہو جاتا ہے اور انسان بے خوف ہو کر زندگی کے میدان میں سرگرم رہتا ہے۔

اﷲ تعالیٰ نے ہاتھ پیر ہر انسان کو ایک جیسے دیے ہیں، انسان کے اندر اس کی قوت ارادی اور ایمان ہے جو کسی انسان کو دوسروں سے ممتاز کرتا ہے اور اسے ایک امتیازی قوت عطا کرتا ہے۔ اس قوت کا تحفظ انسان کے اندر موجود اس کی نیکی کرتی ہے اور شکست ایسے انسان سے کنارہ کش ہی رہتی ہے ۔مسلمان جسے قوت ارادی اور ایمان کہتے ہیں اس میں شکست نہیں ہے اور ہر پسپائی اس سے دور رہتی ہے اور اس قوت ارادی سے خوفزدہ بھی جو یہ انسان کے اندر پیدا کر دیتی ہے جس کی طاقت خود بخود بڑھتی رہتی ہے ۔

یہ ایک مسلمان کے ایمان کا حصہ ہوتی ہے اور ایمان کی طرح بڑھتی رہتی ہے، اس میں اضافہ ایک مسلمان کے ایمان کی نشانی اور علامت بن کر زندہ رہتا ہے۔ مسلمان اسی علامت کا نام ہے جب تک یہ علامت باقی رہے گی ایک مسلمان زندہ رہے گا اور ایمان کی طاقت سے لطف اندوز رہے گا۔ اس کے ساتھ ہی اس کے اندر ایک ایسی طاقت پیدا ہو تی رہتی ہے جو اس کے ولولوں اور ایمانی قوتوں کو نہ صرف پیدا کرتی ہے بلکہ ان کی نشو نما بھی کرتی رہتی ہے تا کہ وہ زندہ و پایندہ رہیں۔
Load Next Story