786 حقیقت یا فسانہ

ایک منفی رواج کی اصلیت عیاں کرتی چشم کشا تحقیق


محمد منیر قمر April 03, 2018
ایک منفی رواج کی اصلیت عیاں کرتی چشم کشا تحقیق۔ فوٹو: سوشل میڈیا

بِسمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیمِ کی جگہ786کا عدد لکھنے کا رواج برصغیر میں عرصے سے چلا آ رہا ہے۔ نوبت یہاں تک پہنچ چکی کہ بعض دینی و علمی مضامین اور کتابوں میں بھی بِسمِ اللّٰہِ کے بجائے786 لکھا جاتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ بِسمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیم کے اعداد کو اس کا بدل یا قائم مقام سمجھ کر لکھنا قرآن و سنت کی تعلیمات کے سراسر منافی ہے۔

اس کی بنیاد عبرانی صحائف کے 22 حروفِ تہجی اور ان کے مترادف اعداد پر ہے۔ ان کے ذریعے صحائف ِیہود کے رموز و معانی دریافت ہوتے ہیں جس کی عملی صورت یہ ہے کہ الفاظ کو اعداد میں تبدیل کیا جائے۔ یہ بڑی سہل ترکیب ہے کیونکہ الفاظ جن حروف پر مشتمل ہیں، اْن کی عددی قیمتوں کو جمع کر لیا جائے تو ہمیں ان مقدس عبارتوں کا عددی بدل حاصل ہو جاتا ہے جو اس علم کے حامیوں کے نزدیک ویسے ہی تقدس کا حامل ہے۔

یہ علم مسلمان نْدرت پسندوں نے بھی حاصل کیا جسے عرف عام میں ابجد کہتے ہیں۔ ایک مغربی محقق ،تھامسن پیٹرک ہیولز اپنی تالیف ''ڈکشنری آف اسلام'' میں ابجد کی توضیح ان الفاظ میں کرتا ہے:''یہ حروف تہجی کی ریاضیاتی طور پر ترتیب کا نام ہے جس میں حروف کی عددی قیمت متعین ہوتی ہے جو 1سے لے کر 1000 تک مقرر ہے۔ ''

حروف ابجد کا خاکہ درج ہے:

٭حروف:ا ب ج د،عددی قیمت: 1، 2، 3، 4،، عربی الفاظ:ابجد۔

٭حروف:ھ و ز،عددی قیمت:7,6,5،عربی الفاظ:ھوّز۔

٭حروف:ح ط ی، عددی قیمت:10,9,8،عربی الفاظ:حْطّی۔

٭حروف:ک ل م ن،عددی قیمت: 20، 30، 40، 50 ، عربی الفاظ:کلمن۔

٭حروف:س ع ف ص،عددی قیمت: 60، 70، 80، 90 عربی الفاظ:سعفص۔

٭حروف :ق ر ش ت،عددی قیمت: 100، 200، 300، 400 عربی الفاظ: قرشت۔

*حروف:ث خ ذ، عددی قیمت: 500، 600، 700 عربی الفاظ:ثخذ۔

٭حروف: ض ظ غ،عددی قیمت: 800، 900، 1000 عربی الفاظ:ضظغ۔

جب مسلمانوں نے یہود کے علمِ قبالا سے استفادہ کر کے جی میٹریا کا علم حاصل کیا تو پھر اس کا قرآنِ مجید کی آیاتِ مبارکہ بلکہ سورتوں پر بھی اطلاق ایسا عمل تھا جو ہمارے جسارت کوش نْدرت پسندوں کے لیے مشکل نہ تھا ۔انہوں نے اس کا مصحف پاک پر بے دھڑک استعمال کیا۔مگر بِسمِ اللّٰہ کے لیے 786 کا استعمال ہر قسم کی تحریروں مثلاً کتابوں' مجلّوں اور مقالوں میں بہ شدتِ تمام نظر آتا ہے۔ اور یہ یقین دلایا جاتا ہے کہ786 واقعی بِسمِ اللّٰہ کا بدل ہے۔

درحقیقت یہ ہر گز بدل یا مترادف نہیں۔ یہ تو محض عدد ہے کیونکہ اس کا اطلاق کسی چیز پر بھی کیا جا سکتا ہے، مثلاً786ظروفِ شراب' جڑی بوٹیاں وغیرہ وغیرہ چاہے وہ وہ اچھی ہوں یا بری' حرام ہوں یا حلال۔ لہٰذا یہ اعداد کسی صورت بِسمِ اللّٰہ شریف کا بدل ہر گز نہیں۔

اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید کو عربی زبان میں نازل کیا تا کہ لوگ اس کو سمجھ سکیں اور ہدایت یاب ہوں۔ اگر اعداد ہی سے مقصد حاصل ہو سکتا تو یہ آسان طریقہ کیوں اختیار نہیں کیا گیا؟ کیا نعوذ باللہ ذاتِ باری تعالیٰ سے غلطی سرزد ہوئی جسے ہمارے علما درست کرنے کی کوشش فرما رہے ہیں؟

اگر اعداد کی شکل میں وحی نازل کی جاتی تو اس سے بنی نوعِ انسان کو کیا حاصل ہوتا؟ ہمیں اوّل تا آخر اعداد ہی کا لا متناہی سلسلہ دکھائی دیتا۔ ہمیں تو یہ ہدایت کی گئی ہے کہ ہم قرآنِ مجید کی تلاوت کریں''اور یہ قرآنِ مجید ہے جس کو ہم نے (پاروں اور رکوعوں) میں تقسیم کیا ہے تا کہ تم وقفوں وقفوں سے اس کی تلاوت کرو اور ہم نے اسے (یکے بعد دیگرے) تنزیلات میں نازل کیا ہے۔''

جن اصحاب نے یہ طریقہ اختیار کیا انہوں نے ہر گز دین کی خدمت نہیں کی بلکہ وہ ایک بدعت کو رواج دینے کے مجرم ہیں۔ لہٰذا قارئین کرام سے پْر زور التماس ہے کہ وہ اس روش کو ترک کر دیں۔ یہ مستحسن کام نہیں بلکہ میں تو کہوں گا کہ یہ قرآن مجید کے خلاف سازش ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں