بھٹو صاحب کا تختہ کس نے الٹا

اکتالیس برس قبل جنم لینے والے سنسنی خیز واقعے کا قصّہ


اکتالیس برس قبل جنم لینے والے سنسنی خیز واقعے کا قصّہ۔ فوٹو : فائل

وطن عزیز میں کل تختہ دار پہ چڑھ جانے والے وزیراعظم پاکستان، ذوالفقار علی بھٹو کی انتالیسویں برسی منائی جارہی ہے۔

بشر ہونے کے ناتے مرحوم خوبیاں اور خامیاں،دونوں رکھتے تھے۔ انہوں نے کئی کارنامے انجام دیئے،تو ان سے غلطیاں بھی سرزد ہوئیں۔ پھر اہل وطن کا مزاج ہے کہ وہ نت نئی افواہیں اور جعلی خبریں پھیلا کر کسی بھی شخصیت کو ولی یا پھر شیطان بنا ڈالتے ہیں۔مثال کے طور پر ہمارے ہاں یہ نظریہ مشہور ہے کہ 4 جولائی 1977ء کوبھٹو حکومت کا تختہ امریکا نے الٹا تھا۔

امریکی خفیہ ایجنسی، سی آئی اے جنرل ضیاالحق سے ساز باز کرنے میں کامیاب رہی۔ چنانچہ انہوں نے بھٹو حکومت ختم کرکے مارشل لاء نافذ کردیا۔ لیکن اس نظریے کے حامی جو دلائل پیش کرتے ہیں وہ ٹھوس اور وزنی نہیں۔

بھٹو صاحب ایک طاقتور لیڈر ہونے کے ناتے آزاد خارجہ پالیسی رکھتے تھے۔ اسی لیے امریکی حکمران طبقہ واقعی ان سے خوش نہیں تھا۔ پھر بھٹو صاحب نے ایٹمی منصوبہ شروع کیا تو دوریاں مزید بڑھ گئیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ 1977ء تک بھٹو صاحب کو احساس ہوگیا تھا کہ امریکا سے تعلقات خراب کرکے کچھ فائدہ نہیں ہوا۔ اس لیے انہوں نے امریکی حکومت کی طرف سے دوستی کا ہاتھ بڑھا دیا۔

یہی وجہ ہے، جب امریکا کے یوم آزادی پر 4 جولائی 1977ء کی سہ پہر امریکی سفارت خانے میں ایک تقریب منعقد ہوئی، تو پاکستانی وزیراعظم اس میں شریک تھے۔مشہور ہے کہ امریکی وزیر خارجہ، ہنری کسنجر نے بھٹو صاحب کو دھمکی دی تھی ''اگر ایٹمی منصوبہ جاری رہا تو پاکستان کو خوفناک مثال بنا دیا جائے گا۔'' بھٹو حکومت ختم کرنے میں امریکا کے ملوث ہونے کی تھیوری کے قائل عموماً درج بالا بیان کا حوالہ دیتے ہیں۔

جب دسمبر 1971ء ذوالفقار علی بھٹو وزیراعظم بنے، تو ان کے پہلے پریس سیکرٹری خالد حسن تھے۔ یہ بھٹو کے ذاتی دوست تھے۔ خالد صاحب بھٹو پر لکھے گئے اپنے انگریزی خاکے میں وہ رقم طراز ہیں: ''خوفناک مثال'' والے بیان میں ہنری کسنجر یہ کہنا چاہتا تھا کہ ڈیموکریٹک پارٹی پاکستان کو عبرتناک مثال بنادے گی۔ ان کا مطلب یہ نہیں تھا کہ بھٹو صاحب کو خوفناک مثال بنایا جائے گا۔ اور یہ حقیقت ہے کہ بعد میں ڈیموکریٹک پارٹی امریکا میں برسراقتدار آئی، تو اس نے پاکستان کا ایٹمی منصوبہ ختم کرنے کی بھرپور کوششیں کیں۔''

مزید براں 1977ء میں سعودی عرب کے شاہ خالد کوشش کررہے تھے کہ بھٹو حکومت اور حزب اختلاف میں تصفیہ ہوجائے گا۔ لہٰذا امریکا اس پوزیشن میں نہیں تھا کہ وہ بھٹو حکومت ختم کرکے سعودی حکومت کی ناراضی مول لے۔خالد حسن مزید لکھتے ہیں کہ جنرل ضیاء الحق نے چند دیگر جرنیلوں کی ملی بھگت سے بھٹو حکومت کا تختہ الٹا۔ گویا مارشل لاء لگانے کے ذمے دار چند جرنیل تھے۔

ممکن ہے کہ انہیں زعم ہو، وہ اقتدار سنبھال کر ملکی حالات ٹھیک کردیں گے۔ یا پھر بھٹو حکومت کو کمزور پاکر ان میں ہوس اقتدار جاگ اٹھی۔ بہرحال بھٹو صاحب کے قریبی ساتھی کی رو سے حکومت کے خاتمے میں امریکا کا کوئی کردار نہیں تھا۔دلچسپ بات یہ کہ 4 جولائی کی امریکی تقریب میں جنرل ضیاء الحق بھی شریک تھے۔ دوران تقریب ایک امریکی سفارتکار نے ان سے پوچھا کہ کل ان کے پاس وقت ہے؟ جنرل صاحب بولے ''نہیں' میں بہت مصروف ہوں گا۔'' انہوں نے سچ بولا کیونکہ اسی دن رات بارہ بجے جنرل صاحب نے بھٹو حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار سنبھال لیا۔

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ 4 جولائی کو تب کے امریکی سفیر نے اپنے ایک ساتھی کو فون پر کہا تھا ''پارٹی ختم ہوگئی۔'' خالد حسن کی رو سے یہ بھٹو حکومت کے خاتمے کا اشارہ نہیں تھا بلکہ امریکی آپس میں سفارت خانے میں ہوئی ایک سوشل پارٹی کے متعلق بات کررہے تھے جو حال ہی میں ختم ہوئی تھی۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں