سپریم کورٹ مشرف کو سیاسی سرگرمیاں جاری رکھنے کی اجازت
اندرون ملک نقل و حرکت پر پابندی نہیں، وقت آگیا ہے انصاف کیاجائے چاہے پنڈوراباکس کیوں نہ کھلے، عدالت
سپریم کورٹ نے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے کیلیے دائر متفرق درخواستوں کو سماعت کے دوران پرویز مشرف کو گرفتار کرنے کی استدعا ایک بار پھر مسترد کر دی اور قرار دیا ہے کہ ملک کے اندر ان کی نقل و حرکت پر کوئی پابندی نہیں۔
منگل کو جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں ڈویژن بنچ نے پرویز مشرف کے وکیل احمد رضا قصوری کی درخواست پر مزید سماعت ملتوی کرد ی اور حکمنامے میں کہا کہ کیس کی سماعت کے دوران پرویز مشرف کی ذاتی موجودگی ضروری نہیں، وہ 24مارچ کو ملک پہنچے ہیں اور انتخابی مہم چلا رہے ہیں، انصاف کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ وہ آزادانہ طور پر سیاسی سرگرمیاں جاری رکھیں۔ عدالت نے ان کی سیاسی سرگرمیوں اور ملک کے اندر آمد رفت کے خلاف کوئی حکم امتناعی جاری نہیں کیا۔ عدالت نے قرار دیا کہ زیر نظر مقدمہ انتہائی آسان اور سادہ ہے لیکن انصاف کا تقاضہ یہ ہے کہ سابق صدر کو اپنا کیس پیش کرنے کے لیے مناسب وقت دیا جائے ۔
سماعت کے دوران عدالت کو بتایا گیا کہ سابق صدر سمیت تمام فریقین کو نوٹس کی تعمیل کراد ی گئی ہے۔وفاقی حکومت، سیکریٹری داخلہ اور سندھ حکومت نے نوٹس کا جواب نہیں دیاجبکہ سابق صدر پرویز مشرف کی طرف سے احمد رضا قصوری، شریف الدین پیرزادہ کی طرف سے ابراہیم ستی ایڈوکیٹ اور ملک قیوم کی طرف سے ان کے صاحبزادے پیش ہوئے۔احمد رضا قصوری نے عدالت سے جواب دائر کرنے کے لیے20 مئی تک کی مہلت دینے کی استدعا کی اور کہا کہ ان کے موکل عدلیہ کی بہت عزت کرتے ہیں، انھیں رات 12بجے نوٹس موصول ہوا اور اس کی تعمیل کی۔ قصوری نے بتایا کہ عدالت عظمٰی کے کچھ ججوں پر انھیں تحفظات ہیں، مناسب مرحلے پر وہ اس پر بات کریں گے۔
جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا جن ججوں پر تحفظات ہیں ان کے بارے میں بتا دیا جائے تاکہ اگر ٹھوس وجہ موجود ہو تو وہ سماعت سے الگ ہو جائے۔ فاضل وکیل نے ارد گرد موجود درخواست گزاروں اور ان کے وکلا پر بھی اعتراض کیا اور کہا کہ انھیں بٹھا دیا جائے تاکہ وہ آزادی کے ساتھ اپنا کیس پیش کر سکیں۔ جسٹس جواد نے کہا ہر فریق کو تحمل سے سننا عدالت کی روایت ہے آپ کو کیس پیشن کرنے کے لیے تمام مواقع دیے جائیں گے،عدالت نے روسٹر پر موجود افراد کو بیٹھنے کی ہدایت کی ۔ جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا اس کیس میں ہم عدالت کی ہر روایت کا خیال رکھیں گے۔پرویز مشرف کے وکیل نے کہا کہ ان کے موکل رضا کارانہ طور پر ملک آئے ہیں ورنہ انٹر پول نے بھی ان کی ڈی پورٹیشن کی درخواست مسترد کر دی تھی۔
اس وقت ملک جس بحران سے دو چار ہے اس سے نکالنے کے لیے وہ ملک واپس آئے ہیں،ان کے موکل عوام سے رابطے میں ہے اورانھیں عوام سے دور رکھنے کے لیے ان ہتھکنڈوں کا سہارا لیا جا رہا ہے حالانکہ وفاقی وزیر اطلاعات عارف نظامی نے بھی کہہ دیا ہے کہ اس کیس سے نگران حکومت کا کوئی لینا دینا نہیں۔ جسٹس جواد نے کہا وزیر اطلاعات کا بیان ہمارے سامنے نہیں، جب آئے گا تو تب دیکھیں گے۔عدالت نے درخواست گزاروں کے تمام اعتراضات مسترد کر دیے۔ قصوری نے کہا کہ جواب کے لیے مناسب وقت دیا جائے، میرے موکل ایک سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں اور اس وقت انتخابی مہم چلا رہے ہیں، الیکشن کے بعد اس مقدمے کوسنا جائے۔ جسٹس جواد نے کہا ملک میں ایک آئینی نظام موجود ہے اور رسپانڈنٹ پر کوئی قدغن بھی نہیں وہ وکیل کے ذریعے ہی مقدمہ لڑرہے ہیں، 6 ہفتے کا التوا مناسب نہیں۔
فاضل وکیل نے سوال اٹھایا کہآ خر عدالت کو اتنی جلدی کیوں ہے؟ جسٹس جواد نے کہا کوئی غیر ضروری جلد بازی نہیں، یہ معاملہ تو 2009سے چل رہا ہے۔پرویز مشرف کے وکیل نے کہا سندھ ہائی کورٹ بار کیس میں ان کے موکل کی عدم موجودگی میں ان کے خلاف فیصلہ دیا گیا۔جسٹس جواد نے کہا زیر نظر مقدمہ کی حثیت عام نوعیت کے سول مقدمے سے زیادہ نہیں، اس کی حیثیت ڈھائی مرلے کے حق شفع سے زیادہ نہیں۔فاضل وکیل نے کہا کہ پرویز مشرف اکیلے نہیں تھے، اور بھی لوگ ان کے ساتھ تھے، بات نکلے گی تو دور تک جائے گی۔ فاضل وکیل نے جنرل اشفاق پرویز کیانی کو نوٹس جاری کرنے کی استدعا کی۔
جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ بات کہاں تک جاتی ہے اس سے ہمیں کوئی غرض نہیں لیکن زیر نظر مقدمے میں وہ فریق نہیں۔ فاضل جج نے کہا عوام کے ساتھ اب تک جو ہوتا رہا اسے بھی دیکھنا پڑے گا۔قصوری کا کہنا تھا پردہ نشینوں کے بھی نام آئیں گے جس پر جسٹس جواد نے کہا جس کانام آنا ہے آئے۔جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ کیس کا فیصلہ آئین و قانون کے مطابق ہو گا، ناموں سے غرض نہیں، اگر فریق مخالف ثابت کردیں کہ انھوں نے جو کچھ کیا آئین و قانون کے اندر رہ کر کیا تو کیس ختم۔ احمد رضا قصوری نے کہا ملک کی عزت اور وقار کو بھی دیکھنا پڑے گا، وہ اکیلے نہیں۔جسٹس جواد نے کہا ہم یقینی بنائیں گے کہ انصاف ہو اور انصاف نظر آئے، کوئی پنڈورا باکس کھولنے کی اجازت نہیں دیں گے۔مزید سماعت15 اپریل کو ہوگی۔ آئی این پی کے مطابق احمد رضا قصوری نے موقف اختیار کیا کہ پی سی او جاری کرتے وقت تمام گورنر، کابینہ اور کورکمانڈر کی رائے بھی شامل تھی لہٰذا جنرل کیانی کو بھی نوٹس ایشو کیا جائے۔
منگل کو جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں ڈویژن بنچ نے پرویز مشرف کے وکیل احمد رضا قصوری کی درخواست پر مزید سماعت ملتوی کرد ی اور حکمنامے میں کہا کہ کیس کی سماعت کے دوران پرویز مشرف کی ذاتی موجودگی ضروری نہیں، وہ 24مارچ کو ملک پہنچے ہیں اور انتخابی مہم چلا رہے ہیں، انصاف کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ وہ آزادانہ طور پر سیاسی سرگرمیاں جاری رکھیں۔ عدالت نے ان کی سیاسی سرگرمیوں اور ملک کے اندر آمد رفت کے خلاف کوئی حکم امتناعی جاری نہیں کیا۔ عدالت نے قرار دیا کہ زیر نظر مقدمہ انتہائی آسان اور سادہ ہے لیکن انصاف کا تقاضہ یہ ہے کہ سابق صدر کو اپنا کیس پیش کرنے کے لیے مناسب وقت دیا جائے ۔
سماعت کے دوران عدالت کو بتایا گیا کہ سابق صدر سمیت تمام فریقین کو نوٹس کی تعمیل کراد ی گئی ہے۔وفاقی حکومت، سیکریٹری داخلہ اور سندھ حکومت نے نوٹس کا جواب نہیں دیاجبکہ سابق صدر پرویز مشرف کی طرف سے احمد رضا قصوری، شریف الدین پیرزادہ کی طرف سے ابراہیم ستی ایڈوکیٹ اور ملک قیوم کی طرف سے ان کے صاحبزادے پیش ہوئے۔احمد رضا قصوری نے عدالت سے جواب دائر کرنے کے لیے20 مئی تک کی مہلت دینے کی استدعا کی اور کہا کہ ان کے موکل عدلیہ کی بہت عزت کرتے ہیں، انھیں رات 12بجے نوٹس موصول ہوا اور اس کی تعمیل کی۔ قصوری نے بتایا کہ عدالت عظمٰی کے کچھ ججوں پر انھیں تحفظات ہیں، مناسب مرحلے پر وہ اس پر بات کریں گے۔
جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا جن ججوں پر تحفظات ہیں ان کے بارے میں بتا دیا جائے تاکہ اگر ٹھوس وجہ موجود ہو تو وہ سماعت سے الگ ہو جائے۔ فاضل وکیل نے ارد گرد موجود درخواست گزاروں اور ان کے وکلا پر بھی اعتراض کیا اور کہا کہ انھیں بٹھا دیا جائے تاکہ وہ آزادی کے ساتھ اپنا کیس پیش کر سکیں۔ جسٹس جواد نے کہا ہر فریق کو تحمل سے سننا عدالت کی روایت ہے آپ کو کیس پیشن کرنے کے لیے تمام مواقع دیے جائیں گے،عدالت نے روسٹر پر موجود افراد کو بیٹھنے کی ہدایت کی ۔ جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا اس کیس میں ہم عدالت کی ہر روایت کا خیال رکھیں گے۔پرویز مشرف کے وکیل نے کہا کہ ان کے موکل رضا کارانہ طور پر ملک آئے ہیں ورنہ انٹر پول نے بھی ان کی ڈی پورٹیشن کی درخواست مسترد کر دی تھی۔
اس وقت ملک جس بحران سے دو چار ہے اس سے نکالنے کے لیے وہ ملک واپس آئے ہیں،ان کے موکل عوام سے رابطے میں ہے اورانھیں عوام سے دور رکھنے کے لیے ان ہتھکنڈوں کا سہارا لیا جا رہا ہے حالانکہ وفاقی وزیر اطلاعات عارف نظامی نے بھی کہہ دیا ہے کہ اس کیس سے نگران حکومت کا کوئی لینا دینا نہیں۔ جسٹس جواد نے کہا وزیر اطلاعات کا بیان ہمارے سامنے نہیں، جب آئے گا تو تب دیکھیں گے۔عدالت نے درخواست گزاروں کے تمام اعتراضات مسترد کر دیے۔ قصوری نے کہا کہ جواب کے لیے مناسب وقت دیا جائے، میرے موکل ایک سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں اور اس وقت انتخابی مہم چلا رہے ہیں، الیکشن کے بعد اس مقدمے کوسنا جائے۔ جسٹس جواد نے کہا ملک میں ایک آئینی نظام موجود ہے اور رسپانڈنٹ پر کوئی قدغن بھی نہیں وہ وکیل کے ذریعے ہی مقدمہ لڑرہے ہیں، 6 ہفتے کا التوا مناسب نہیں۔
فاضل وکیل نے سوال اٹھایا کہآ خر عدالت کو اتنی جلدی کیوں ہے؟ جسٹس جواد نے کہا کوئی غیر ضروری جلد بازی نہیں، یہ معاملہ تو 2009سے چل رہا ہے۔پرویز مشرف کے وکیل نے کہا سندھ ہائی کورٹ بار کیس میں ان کے موکل کی عدم موجودگی میں ان کے خلاف فیصلہ دیا گیا۔جسٹس جواد نے کہا زیر نظر مقدمہ کی حثیت عام نوعیت کے سول مقدمے سے زیادہ نہیں، اس کی حیثیت ڈھائی مرلے کے حق شفع سے زیادہ نہیں۔فاضل وکیل نے کہا کہ پرویز مشرف اکیلے نہیں تھے، اور بھی لوگ ان کے ساتھ تھے، بات نکلے گی تو دور تک جائے گی۔ فاضل وکیل نے جنرل اشفاق پرویز کیانی کو نوٹس جاری کرنے کی استدعا کی۔
جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ بات کہاں تک جاتی ہے اس سے ہمیں کوئی غرض نہیں لیکن زیر نظر مقدمے میں وہ فریق نہیں۔ فاضل جج نے کہا عوام کے ساتھ اب تک جو ہوتا رہا اسے بھی دیکھنا پڑے گا۔قصوری کا کہنا تھا پردہ نشینوں کے بھی نام آئیں گے جس پر جسٹس جواد نے کہا جس کانام آنا ہے آئے۔جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ کیس کا فیصلہ آئین و قانون کے مطابق ہو گا، ناموں سے غرض نہیں، اگر فریق مخالف ثابت کردیں کہ انھوں نے جو کچھ کیا آئین و قانون کے اندر رہ کر کیا تو کیس ختم۔ احمد رضا قصوری نے کہا ملک کی عزت اور وقار کو بھی دیکھنا پڑے گا، وہ اکیلے نہیں۔جسٹس جواد نے کہا ہم یقینی بنائیں گے کہ انصاف ہو اور انصاف نظر آئے، کوئی پنڈورا باکس کھولنے کی اجازت نہیں دیں گے۔مزید سماعت15 اپریل کو ہوگی۔ آئی این پی کے مطابق احمد رضا قصوری نے موقف اختیار کیا کہ پی سی او جاری کرتے وقت تمام گورنر، کابینہ اور کورکمانڈر کی رائے بھی شامل تھی لہٰذا جنرل کیانی کو بھی نوٹس ایشو کیا جائے۔