طالبان کی انتخابات کے بائیکاٹ کی اپیل سے مذہبی جماعتیں پریشان
فاٹا، خیبرپختونخوا میں کم ٹرن آئوٹ سے جمعیت علمائے اسلام، جماعت اسلامی کو نقصان ہوگا
تحریک طالبان پاکستان کی طرف سے پارلیمانی جمہوریت کو غیر اسلامی قرار دیتے ہوئے انتخابات کے بائیکاٹ کی اپیل نے فاٹا اور خیبرپختونخوا سے اچھے نتائج کیلیے پرامید مذہبی سیاسی جماعتوں کو اضطراب میں مبتلا کررکھا ہے۔
ممکنہ بائیکاٹ کی صورت میں کم ٹرن آئوٹ سے جمیعت علماء اسلام اور جماعت اسلامی کو نقصان ہوسکتا ہے اور جماعتوں کے اندر جمہوریت حامی اور جمہوریت مخالفت گروپوں میں بحث بھی زور پکڑے گی۔ پیپلزپارٹی، اے این پی اور متحدہ قومی موومنٹ کو انتخابی مہم کے حوالے سے پہلے ہی مشکلات کا سامنا ہے اور طالبان کی بائیکاٹ کی اپیل اور لوگوں کو جلسوں سے دور رہنے کی انتباہ سے ان جماعتوں کو مزید نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔
جبکہ اس صورتحال کا فائدہ تحریک انصاف اور پاکستان مسلم لیگ کو ہوگا۔ گو کہ تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان احسان اللہ احسان نے وضاحت کی ہے کہ وہ لوگوں کو بزور طاقت انتخابی عمل سے دور نہیں رکھیں گے بلکہ انھیں قائل کرینگے، ایسی صورتحال میں طالبان سے مذاکرات کی حمایت کرنیوالی جے یو آئی اور جماعت اسلامی طالبان سے اپیل واپس لینے کی اپیل کرسکتے ہیں لیکن اگر طالبان نے اپیل واپس نہ لی تو دونوں جماعتوں کو مایوسی ہوگی۔
تحریک طالبان پاکستان کی اپیل سے قبل حزب التحریر، جماعتہ الدعوۃ، تحریک نفاذ شریعت محمدی سمیت درجن بھر جماعتیں انتخابی عمل کو اسلامی شریعت کیخلاف قرار دیتے ہوئے اس عمل سے الگ رہنے کا فیصلہ کرچکی ہیں۔ حزب التحریر نے فروری کے ماہنامہ نصرت میں موجودہ انتخابی عمل کے حوالے سے تفصیل سے لکھا ہے اور لوگوں سے کہا ہے کہ اس نظام کو مسترد کردیں اور قیام خلافت کیلیے کوششیں کریں۔
حافظ سعید کی سربراہی میں جماعتہ الدعوۃ نے بھی اپنے آپ کو انتخابی عمل سے الگ رکھا ہوا ہے اور مولانا صوفی محمد کی تحریک نفاذ شریعت محمدی نے پہلی بار جمہوریت کیخلاف تحریک شروع کی ہے اور اس سلسلے میں وہ تحریک طالبان پاکستان سے بھی ہاتھ ملا سکتے ہیں۔ یہ ساری صورتحال جے یو آئی، جماعت اسلامی، جے یو پی، سنی تحریک، سنی علماء کونسل سمیت انتخابات میں حصہ لینے والی جماعتوں کیلیے خطرناک ہے۔
ممکنہ بائیکاٹ کی صورت میں کم ٹرن آئوٹ سے جمیعت علماء اسلام اور جماعت اسلامی کو نقصان ہوسکتا ہے اور جماعتوں کے اندر جمہوریت حامی اور جمہوریت مخالفت گروپوں میں بحث بھی زور پکڑے گی۔ پیپلزپارٹی، اے این پی اور متحدہ قومی موومنٹ کو انتخابی مہم کے حوالے سے پہلے ہی مشکلات کا سامنا ہے اور طالبان کی بائیکاٹ کی اپیل اور لوگوں کو جلسوں سے دور رہنے کی انتباہ سے ان جماعتوں کو مزید نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔
جبکہ اس صورتحال کا فائدہ تحریک انصاف اور پاکستان مسلم لیگ کو ہوگا۔ گو کہ تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان احسان اللہ احسان نے وضاحت کی ہے کہ وہ لوگوں کو بزور طاقت انتخابی عمل سے دور نہیں رکھیں گے بلکہ انھیں قائل کرینگے، ایسی صورتحال میں طالبان سے مذاکرات کی حمایت کرنیوالی جے یو آئی اور جماعت اسلامی طالبان سے اپیل واپس لینے کی اپیل کرسکتے ہیں لیکن اگر طالبان نے اپیل واپس نہ لی تو دونوں جماعتوں کو مایوسی ہوگی۔
تحریک طالبان پاکستان کی اپیل سے قبل حزب التحریر، جماعتہ الدعوۃ، تحریک نفاذ شریعت محمدی سمیت درجن بھر جماعتیں انتخابی عمل کو اسلامی شریعت کیخلاف قرار دیتے ہوئے اس عمل سے الگ رہنے کا فیصلہ کرچکی ہیں۔ حزب التحریر نے فروری کے ماہنامہ نصرت میں موجودہ انتخابی عمل کے حوالے سے تفصیل سے لکھا ہے اور لوگوں سے کہا ہے کہ اس نظام کو مسترد کردیں اور قیام خلافت کیلیے کوششیں کریں۔
حافظ سعید کی سربراہی میں جماعتہ الدعوۃ نے بھی اپنے آپ کو انتخابی عمل سے الگ رکھا ہوا ہے اور مولانا صوفی محمد کی تحریک نفاذ شریعت محمدی نے پہلی بار جمہوریت کیخلاف تحریک شروع کی ہے اور اس سلسلے میں وہ تحریک طالبان پاکستان سے بھی ہاتھ ملا سکتے ہیں۔ یہ ساری صورتحال جے یو آئی، جماعت اسلامی، جے یو پی، سنی تحریک، سنی علماء کونسل سمیت انتخابات میں حصہ لینے والی جماعتوں کیلیے خطرناک ہے۔