موسیقی کا معتبر نام نثار بزمی
نثار بزمی سے ایک ملاقات اداکار اظہار قاضی نے تفصیل سے کروائی وہاں ان سے تقریباً دو گھنٹے کی نشست ہوئی۔
موسیقار نثار بزمی لاکھوں شائقین موسیقی کے دلوں کی دھڑکن تھے، ان کی خوبصورت شخصیت تو حسن و جمال کا پیکر تھی، انھیں ہم سے جدا ہوئے 11 برس بیت چکے ہیں۔ ان کے خوبصورت نغموں کو سننے کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ آج بھی ہم میں موجود ہیں۔
حسن طارق کی فلم ''امراؤ جان ادا'' کا یہ خوبصورت گیت جس کے بول تھے ''جو بچا تھا وہ لٹانے کے لیے آئے ہیں'' سننے کے بعد بمبئی انڈسٹری کے باکمال موسیقار او پی نیر نے کہا تھا کہ اگر بزمی انڈیا کی بزم میں ہوتے تو میرے سب سے بڑے حریف ہوتے اور اسی گیت کو سننے کے بعد لتا نے کہا تھا کہ ''میں کتنی بد قسمت ہوں کہ دنیا بھر سے محبت حاصل کرتی رہی مگر افسوس کہ بزمی صاحب کی بزم سے محروم رہی، کاش میں ان کی موسیقی میں کوئی گیت ریکارڈ کروا کر امر ہو جاتی۔''
میری اکثر بزمی صاحب سے ان کے گھر پر ملاقاتیں ہوتی تھیں وہ کراچی میں نارتھ ناظم آباد (بلاک i)۔ امام کلینک کے پیچھے والی گلی میں رہتے تھے بہت ہی خوش مزاج انسان تھے، چھوٹوں سے پیارکرنا، ان کی نیک فطرت میں شامل تھا۔
وہ بھارت کے شہر دہلی میں پیدا ہوئے۔ والد نوکری کی وجہ سے حیدرآباد دکن اور پھر مختلف شہروں میں بستے رہے، ان سے میری پہلی ملاقات 1993ء میں معروف صحافی اسد جعفری نے کروائی تھی اور پھر بانی نگار الیاس رشیدی کے توسط سے فلمی ہفت روزہ نگار میں ملاقاتیں ہوئیں۔
ان کے والد قدرت علی نے نثار بزمی کو اپنے ایک دوست رام دیال کے پاس بمبئی بھجوادیا، وہاں انھوں نے موسیقی کی تربیت امان خان سے لی اور اس کے بعد انھوں نے ریڈیو کے ڈرامے فنکار، پروفیسر، میں اور تم، اخلاق و تہذیب، تمہاری قسم، شکریہ کی موسیقی دی۔ پھر بمبئی میں ہونے والا اسٹیج ڈرامہ ''تہذیب'' جس میں دلیپ کمار اور مدھوبالا نے بھی کام کیا تھا۔ اس کی موسیقی بھی نثار بزمی نے دی تھی۔اکتوبر 1962ء میں پاکستان آگئے، انھیں پاکستان سے بہت محبت تھی جذبہ حب الوطنی ان میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا وہ مذہبی انسان تھے اور یہ بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ وہ حافظ قرآن تھے۔ یہ بات انھوں نے بڑے فخر سے بتائی تھی۔
ان کا تعلق سید گھرانے سے تھا ان کا پورا نام سید نثار احمد تھا۔ وہ بلاشبہ کسی بھی طریقے سے فنکارگھرانے سے تعلق نہیں رکھتے تھے، انھوں نے 1942ء میں آل انڈیا ریڈیو میں ملازمت کرلی تھی اس کے بعد اپنے نام کے ساتھ بزمی کا اضافہ کیا۔ یاد رہے وہ بہت اچھے شاعر بھی تھے۔ انھوں نے تقریباً72 فلموں کی موسیقی دی جن کا احاطہ کرنا بہت مشکل ہے۔ بمبئی کے رام دیال فضل کریم احمد فضلی کے دوست تھے ان کے توسط سے انھیں فلم ''ایسا بھی ہوتا ہے'' میں بحیثیت موسیقار لیا جب کہ اس سے قبل ان کی فلم ''ہیڈ کانسٹیبل'' ریلیز ہوچکی تھی جو نذیر صوفی کی تھی۔
1996ء میں نثار بزمی سے ایک ملاقات اداکار اظہار قاضی نے تفصیل سے کروائی وہاں ان سے تقریباً دو گھنٹے کی نشست ہوئی اور ایک نشست بلاکI نارتھ ناظم آباد کے گھر میں ہوئی۔
انھوں نے دوران گفتگو بتایا ''میرے ایک بہت اچھے دوست تھے چوہدری امداد علی جن کا کوئٹہ میں امداد سینما بھی تھا وہ حسن طارق کے بہت گہرے دوست تھے میں امداد کی محبت میں کوئٹہ گیا وہاں کچھ دن قیام کیا، حسن طارق اپنے کسی عزیز کے ہاں ٹھہرے ہوئے تھے، وہاں انھوں نے مجھے اپنی آنے والی فلم ''انجمن '' کی موسیقی دینے کوکہا، میں اس زمانے میں بہت مصروف تھا پھر امداد کے کہنے پر میں نے فلم کی موسیقی دینے کا وعدہ کیا۔
رانی بہت اچھی خاتون تھیں ان کا ایک دن میرے پاس فون آیا کہ آپ سے حسن طارق ملنا چاہتے ہیں ان سے ملاقات ہوئی اور یوں میں نے فلم ''انجمن'' کی موسیقی دی{۔ اس کا ایک گیت ایسا تھا کہ حسن طارق اس گیت کو نور جہاں سے گوانا چاہتے تھے اور میں تصور خانم سے مگر رانی کی دوستی رونا لیلیٰ سے بہت تھی اور رانی کا اصرار تھا کہ آپ یہ گیت رونا لیلیٰ سے گوائیں جب کہ ان کی بڑی بہن وینا لیلیٰ تھیں جو بعد میں سندھ کی سیاسی شخصیت امین فہیم کی اہلیہ بنیں۔
بعد ازاں یہ گیت رونا لیلیٰ نے میری ترتیب دی ہوئی موسیقی میں گایا۔ گیت کے بول تھے ''آپ دل کی انجمن میں حسن بن کر آگئے'' اور کیا خوب گایا جب کہ رانی نے بہت اچھی پر فارمنس دی وہ بہت اچھی پرفارمر تھی، کبھی کبھی ہدایت کار کی توقعات سے بڑھ کر فنکار کام کر جاتا ہے جس کی مثال میں یہ دے سکتا ہوں کہ فلم ''امراؤ جان ادا'' کا یہ گیت:
جو بچا تھا وہ لٹانے کے لیے آئے ہیں
آخری گیت سنانے کے لیے آئے ہیں
رانی نے کمال کر دکھایا اس گیت کو دیکھنے کے بعد میں نے رانی کے اعزاز میں ایک عشائیے کا اہتمام کیا جس میں حسن طارق، محمد علی، ایم اے رشید ہدایت کار، سلطان راہی، طالش، آسیہ، مہدی حسن، مہ ناز، اخلاق احمد، نورجہاں قابل ذکر تھے۔'' ایک واقعہ سناتے ہوئے انھوں نے کہا کہ جب حسن طارق نے فلم ''تہذیب'' کا اعلان کیا تو میں اور مہدی حسن کراچی میں تھے۔
مہدی حسن نے مجھ سے رابطہ کیا کہ لاہور چلو حسن طارق فلم ''تہذیب'' کی تیاریوں میں مصروف ہیں، میں لاہور آیا حسن طارق سے ملا انھوں نے ایک گیت ''لگا ہے مصرکا بازار دیکھو' نئی تہذیب کے شاہکار دیکھو'' گیت تیار ہوگیا آن ایئر بھی ہوگیا اور پاکستان بھر میں سپرہٹ ہوا۔
حسن طارق کے ایک بہت گہرے دوست انجم خان جو مصر ایمبیسی میں آفیسر تھے انھوں نے بتایا کہ مصری سفیر نے سخت احتجاج کیا ہے کہ ''لگا ہے مصرکا بازار'' کے بول تبدیل کریں اور اگر اس فلم کے ہدایت کار اس کے بول تبدیل نہیں کریں گے تو ہم سخت احتجاج کریں گے۔
یوں انجم کے بقول انھوں نے حسن طارق سے کہا اس سے ہمارے سفارتی تعلقات مصر سے خراب ہونے کا اندیشہ ہے حسن طارق بہت نفیس انسان تھے وہ بات کی گہرائی میں پہنچ گئے اور یوں اس گیت کے بول تبدیل کیے گئے پھر یہ گیت دوبارہ ریکارڈ ہوا اور پھر اس کے بول تھے:''لگا ہے حسن کا بازار دیکھو' نئی تہذیب کے شاہکار دیکھو'' مہدی حسن نے اس گیت میں کمال کر دکھایا۔
کراچی سے خیبر تک بچے بچے کی زبان پر یہی گیت تھا اور اس گیت میں اداکار شاہد نے بہت خوبصورت اداکاری کی تھی۔ ایک واقعہ اور یاد آیا مجھے جب پرویز ملک نے فلم ''پہچان'' کا آغاز کیا تو کئی نام تھے ایک گیت کو فلمانے کے لیے جس کے بول تھے ''اللہ اللہ کیا کرو، دکھ نہ کسی کو دیا کرو'' اسے ناہید اختر نے بہت خوبصورت گایا اور یہی گیت ان کی وجہ شہرت بنا۔
پرویز ملک نے بحیثیت ہدایت کار مجھے دو نام دیے اس گیت کو فلمانے کے لیے مگر چونکہ میری پرویز ملک سے بہت دوستی تھی تو وہ مجھ سے پوچھ لیا کرتے تھے۔ انھوں نے کہا بہار اور نغمہ پر اس گیت کو فلماتے ہیں چونکہ یہ ایک روحانی گیت تھا اور اس میں عمر رسیدہ خاتون کی ضرورت تھی جب کہ بہار اور نغمہ ہیروئن کے طور پرکامیابی کی سیڑھی پر تھیں۔
درپن کی بیوی نیر سلطانہ مجھے بہنوں کی طرح عزیز تھیں میں نے ان سے رابطہ کیا تو سخت بیمار تھیں، آپ یقین کریں بخار میں مبتلا ہونے کے باوجود صرف 2 گھنٹے میں گیت فلمادیا اور پھر اس گیت کی فلم بندی میں پرویز ملک نے بہت محنت کی اور فلم کی ریلیز کے بعد یہ گیت تاریخ کا حصہ بن گیا۔ کون سے فنکار ایسے تھے جو بہت ہی نفیس اور نرم خو طبیعت کے حامل تھے جن سے آپ کی یاد اللہ بہت تھی؟
سوچتے ہوئے بولے بھئی! تم نے ایسا سوال کیا ہے کہ اس کے جواب پر کچھ دوست ناراض نہ ہوجائیں۔ خیر جواب ضرور دوں گا۔ محمد علی، ندیم، اظہار قاضی، سلطان راہی، وسیم (سندھی فلموں کے ہیرو تھے) اور خواتین میں آسیہ، سنگیتا، نیر سلطانہ، مہ ناز، ممتاز، اور صحافیوں میں الیاس رشیدی، اسد جعفری، طلعت رؤف اور سیاستدانوں میں ذوالفقار علی بھٹو، ضیا الحق قابل ذکر ہیں، انھوں نے جو نگار ایوارڈز لیے ان میں صاعقہ، انجمن، میری زندگی ہے نغمہ، خاک اورخون، بیوی ہو تو ایسی اور ہم ایک ہیں جب کہ حکومت پاکستان نے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی سے بھی نوازا۔
ان کی سپر ہٹ فلموں میں تاج محل، جیسے جانتے نہیں، عندلیب، انجمن، تہذیب، محبت میری زندگی، ناگ منی، انمول، آس، دشمن، نمک حرام، اک گناہ اور سہی، قابل ذکر ہیں جب کہ ان کی آخری فلم ''ویری گڈ دنیا ویری بیڈ لوگ'' تھی ۔
اللہ بزمی صاحب کی مغفرت کرے۔آمین
حسن طارق کی فلم ''امراؤ جان ادا'' کا یہ خوبصورت گیت جس کے بول تھے ''جو بچا تھا وہ لٹانے کے لیے آئے ہیں'' سننے کے بعد بمبئی انڈسٹری کے باکمال موسیقار او پی نیر نے کہا تھا کہ اگر بزمی انڈیا کی بزم میں ہوتے تو میرے سب سے بڑے حریف ہوتے اور اسی گیت کو سننے کے بعد لتا نے کہا تھا کہ ''میں کتنی بد قسمت ہوں کہ دنیا بھر سے محبت حاصل کرتی رہی مگر افسوس کہ بزمی صاحب کی بزم سے محروم رہی، کاش میں ان کی موسیقی میں کوئی گیت ریکارڈ کروا کر امر ہو جاتی۔''
میری اکثر بزمی صاحب سے ان کے گھر پر ملاقاتیں ہوتی تھیں وہ کراچی میں نارتھ ناظم آباد (بلاک i)۔ امام کلینک کے پیچھے والی گلی میں رہتے تھے بہت ہی خوش مزاج انسان تھے، چھوٹوں سے پیارکرنا، ان کی نیک فطرت میں شامل تھا۔
وہ بھارت کے شہر دہلی میں پیدا ہوئے۔ والد نوکری کی وجہ سے حیدرآباد دکن اور پھر مختلف شہروں میں بستے رہے، ان سے میری پہلی ملاقات 1993ء میں معروف صحافی اسد جعفری نے کروائی تھی اور پھر بانی نگار الیاس رشیدی کے توسط سے فلمی ہفت روزہ نگار میں ملاقاتیں ہوئیں۔
ان کے والد قدرت علی نے نثار بزمی کو اپنے ایک دوست رام دیال کے پاس بمبئی بھجوادیا، وہاں انھوں نے موسیقی کی تربیت امان خان سے لی اور اس کے بعد انھوں نے ریڈیو کے ڈرامے فنکار، پروفیسر، میں اور تم، اخلاق و تہذیب، تمہاری قسم، شکریہ کی موسیقی دی۔ پھر بمبئی میں ہونے والا اسٹیج ڈرامہ ''تہذیب'' جس میں دلیپ کمار اور مدھوبالا نے بھی کام کیا تھا۔ اس کی موسیقی بھی نثار بزمی نے دی تھی۔اکتوبر 1962ء میں پاکستان آگئے، انھیں پاکستان سے بہت محبت تھی جذبہ حب الوطنی ان میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا وہ مذہبی انسان تھے اور یہ بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ وہ حافظ قرآن تھے۔ یہ بات انھوں نے بڑے فخر سے بتائی تھی۔
ان کا تعلق سید گھرانے سے تھا ان کا پورا نام سید نثار احمد تھا۔ وہ بلاشبہ کسی بھی طریقے سے فنکارگھرانے سے تعلق نہیں رکھتے تھے، انھوں نے 1942ء میں آل انڈیا ریڈیو میں ملازمت کرلی تھی اس کے بعد اپنے نام کے ساتھ بزمی کا اضافہ کیا۔ یاد رہے وہ بہت اچھے شاعر بھی تھے۔ انھوں نے تقریباً72 فلموں کی موسیقی دی جن کا احاطہ کرنا بہت مشکل ہے۔ بمبئی کے رام دیال فضل کریم احمد فضلی کے دوست تھے ان کے توسط سے انھیں فلم ''ایسا بھی ہوتا ہے'' میں بحیثیت موسیقار لیا جب کہ اس سے قبل ان کی فلم ''ہیڈ کانسٹیبل'' ریلیز ہوچکی تھی جو نذیر صوفی کی تھی۔
1996ء میں نثار بزمی سے ایک ملاقات اداکار اظہار قاضی نے تفصیل سے کروائی وہاں ان سے تقریباً دو گھنٹے کی نشست ہوئی اور ایک نشست بلاکI نارتھ ناظم آباد کے گھر میں ہوئی۔
انھوں نے دوران گفتگو بتایا ''میرے ایک بہت اچھے دوست تھے چوہدری امداد علی جن کا کوئٹہ میں امداد سینما بھی تھا وہ حسن طارق کے بہت گہرے دوست تھے میں امداد کی محبت میں کوئٹہ گیا وہاں کچھ دن قیام کیا، حسن طارق اپنے کسی عزیز کے ہاں ٹھہرے ہوئے تھے، وہاں انھوں نے مجھے اپنی آنے والی فلم ''انجمن '' کی موسیقی دینے کوکہا، میں اس زمانے میں بہت مصروف تھا پھر امداد کے کہنے پر میں نے فلم کی موسیقی دینے کا وعدہ کیا۔
رانی بہت اچھی خاتون تھیں ان کا ایک دن میرے پاس فون آیا کہ آپ سے حسن طارق ملنا چاہتے ہیں ان سے ملاقات ہوئی اور یوں میں نے فلم ''انجمن'' کی موسیقی دی{۔ اس کا ایک گیت ایسا تھا کہ حسن طارق اس گیت کو نور جہاں سے گوانا چاہتے تھے اور میں تصور خانم سے مگر رانی کی دوستی رونا لیلیٰ سے بہت تھی اور رانی کا اصرار تھا کہ آپ یہ گیت رونا لیلیٰ سے گوائیں جب کہ ان کی بڑی بہن وینا لیلیٰ تھیں جو بعد میں سندھ کی سیاسی شخصیت امین فہیم کی اہلیہ بنیں۔
بعد ازاں یہ گیت رونا لیلیٰ نے میری ترتیب دی ہوئی موسیقی میں گایا۔ گیت کے بول تھے ''آپ دل کی انجمن میں حسن بن کر آگئے'' اور کیا خوب گایا جب کہ رانی نے بہت اچھی پر فارمنس دی وہ بہت اچھی پرفارمر تھی، کبھی کبھی ہدایت کار کی توقعات سے بڑھ کر فنکار کام کر جاتا ہے جس کی مثال میں یہ دے سکتا ہوں کہ فلم ''امراؤ جان ادا'' کا یہ گیت:
جو بچا تھا وہ لٹانے کے لیے آئے ہیں
آخری گیت سنانے کے لیے آئے ہیں
رانی نے کمال کر دکھایا اس گیت کو دیکھنے کے بعد میں نے رانی کے اعزاز میں ایک عشائیے کا اہتمام کیا جس میں حسن طارق، محمد علی، ایم اے رشید ہدایت کار، سلطان راہی، طالش، آسیہ، مہدی حسن، مہ ناز، اخلاق احمد، نورجہاں قابل ذکر تھے۔'' ایک واقعہ سناتے ہوئے انھوں نے کہا کہ جب حسن طارق نے فلم ''تہذیب'' کا اعلان کیا تو میں اور مہدی حسن کراچی میں تھے۔
مہدی حسن نے مجھ سے رابطہ کیا کہ لاہور چلو حسن طارق فلم ''تہذیب'' کی تیاریوں میں مصروف ہیں، میں لاہور آیا حسن طارق سے ملا انھوں نے ایک گیت ''لگا ہے مصرکا بازار دیکھو' نئی تہذیب کے شاہکار دیکھو'' گیت تیار ہوگیا آن ایئر بھی ہوگیا اور پاکستان بھر میں سپرہٹ ہوا۔
حسن طارق کے ایک بہت گہرے دوست انجم خان جو مصر ایمبیسی میں آفیسر تھے انھوں نے بتایا کہ مصری سفیر نے سخت احتجاج کیا ہے کہ ''لگا ہے مصرکا بازار'' کے بول تبدیل کریں اور اگر اس فلم کے ہدایت کار اس کے بول تبدیل نہیں کریں گے تو ہم سخت احتجاج کریں گے۔
یوں انجم کے بقول انھوں نے حسن طارق سے کہا اس سے ہمارے سفارتی تعلقات مصر سے خراب ہونے کا اندیشہ ہے حسن طارق بہت نفیس انسان تھے وہ بات کی گہرائی میں پہنچ گئے اور یوں اس گیت کے بول تبدیل کیے گئے پھر یہ گیت دوبارہ ریکارڈ ہوا اور پھر اس کے بول تھے:''لگا ہے حسن کا بازار دیکھو' نئی تہذیب کے شاہکار دیکھو'' مہدی حسن نے اس گیت میں کمال کر دکھایا۔
کراچی سے خیبر تک بچے بچے کی زبان پر یہی گیت تھا اور اس گیت میں اداکار شاہد نے بہت خوبصورت اداکاری کی تھی۔ ایک واقعہ اور یاد آیا مجھے جب پرویز ملک نے فلم ''پہچان'' کا آغاز کیا تو کئی نام تھے ایک گیت کو فلمانے کے لیے جس کے بول تھے ''اللہ اللہ کیا کرو، دکھ نہ کسی کو دیا کرو'' اسے ناہید اختر نے بہت خوبصورت گایا اور یہی گیت ان کی وجہ شہرت بنا۔
پرویز ملک نے بحیثیت ہدایت کار مجھے دو نام دیے اس گیت کو فلمانے کے لیے مگر چونکہ میری پرویز ملک سے بہت دوستی تھی تو وہ مجھ سے پوچھ لیا کرتے تھے۔ انھوں نے کہا بہار اور نغمہ پر اس گیت کو فلماتے ہیں چونکہ یہ ایک روحانی گیت تھا اور اس میں عمر رسیدہ خاتون کی ضرورت تھی جب کہ بہار اور نغمہ ہیروئن کے طور پرکامیابی کی سیڑھی پر تھیں۔
درپن کی بیوی نیر سلطانہ مجھے بہنوں کی طرح عزیز تھیں میں نے ان سے رابطہ کیا تو سخت بیمار تھیں، آپ یقین کریں بخار میں مبتلا ہونے کے باوجود صرف 2 گھنٹے میں گیت فلمادیا اور پھر اس گیت کی فلم بندی میں پرویز ملک نے بہت محنت کی اور فلم کی ریلیز کے بعد یہ گیت تاریخ کا حصہ بن گیا۔ کون سے فنکار ایسے تھے جو بہت ہی نفیس اور نرم خو طبیعت کے حامل تھے جن سے آپ کی یاد اللہ بہت تھی؟
سوچتے ہوئے بولے بھئی! تم نے ایسا سوال کیا ہے کہ اس کے جواب پر کچھ دوست ناراض نہ ہوجائیں۔ خیر جواب ضرور دوں گا۔ محمد علی، ندیم، اظہار قاضی، سلطان راہی، وسیم (سندھی فلموں کے ہیرو تھے) اور خواتین میں آسیہ، سنگیتا، نیر سلطانہ، مہ ناز، ممتاز، اور صحافیوں میں الیاس رشیدی، اسد جعفری، طلعت رؤف اور سیاستدانوں میں ذوالفقار علی بھٹو، ضیا الحق قابل ذکر ہیں، انھوں نے جو نگار ایوارڈز لیے ان میں صاعقہ، انجمن، میری زندگی ہے نغمہ، خاک اورخون، بیوی ہو تو ایسی اور ہم ایک ہیں جب کہ حکومت پاکستان نے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی سے بھی نوازا۔
ان کی سپر ہٹ فلموں میں تاج محل، جیسے جانتے نہیں، عندلیب، انجمن، تہذیب، محبت میری زندگی، ناگ منی، انمول، آس، دشمن، نمک حرام، اک گناہ اور سہی، قابل ذکر ہیں جب کہ ان کی آخری فلم ''ویری گڈ دنیا ویری بیڈ لوگ'' تھی ۔
اللہ بزمی صاحب کی مغفرت کرے۔آمین