سیاسی قتل اور مکافات عمل
اپریل کے سیاہ دن کے بعد پاکستانیوں اور کشمیریوں کا احتجاجی جلوس ہزاروں میں تھا۔
18مارچ 1978ء کو لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس مولوی مشتاق حسین نے وزیراعظم پاکستان جناب ذوالفقار علی بھٹو کو جھوٹے مقدمہ قتل میں سزائے موت کا فیصلہ سنایا۔ خلاف توقع نہیں بلکہ ڈکٹیٹر ضیاء کی خواہش کے عین مطابق تھا۔ اور اس کا واحد مقصد جناب بھٹو کو سیاسی منظر سے ہٹانا تھا۔
تصنیف از مشرق لندن سے 7 اکتوبر1977ء میں اپنے اداریہ میں لکھا تھا۔
لندن میں پی این اے کے متعلق بعض حلقے یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ مسٹر بھٹو کو پھانسی دے دی جائے گی۔ ان حلقوں کے دعویٰ کو تسلیم کر لیا جائے تو اس سے یہی نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ جناب بھٹو کو پھانسی دینے کا فیصلہ پہلے ہی کیا جا چکا ہے۔ انھی دنوں بیگم نصرت بھٹو نے برطانیہ کے موقر اخبار گارڈین کو انٹرویو میں کہا تھا کہ فوج والے اس بات کا عزم کیے ہوئے ہیں کہ مسٹر بھٹو کو منظرعام سے ہٹا دیا جائے۔
ہمارے خاندان کو اس امر پر تشویش ہے کہ جنرل ضیاء ہمارے خاندان کے ساتھ نہ جانے کیا سلوک کریں۔ بیگم بھٹو کے وکیل جناب یحییٰ بختیار نے پاکستان کی سپریم کورٹ میں کہا کہ اب یہ اندیشہ بڑھتا جا رہا ہے کہ فوجی حکمران جناب بھٹو پر مقدمہ چلانا چاہتے ہیں اور اس کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکی جائے۔
مقدمہ بڑی تیزی سے ختم کرایا جائے اور مسٹر بھٹو کو سزا سنا کر گولی مار دی جائے۔واضح رہے اکتوبر1977ء میں یہ مقدمہ شروع نہیں ہوا تھا۔ مشرق ویکلی نے اپنے اداریہ میں جو انکشاف کیا تھا۔ مولوی مشتاق حسین نے18مارچ 1978ء کو سزائے موت کا فیصلہ سنا کر اسکی تصدیق کر دی تھی۔
جناب بھٹو کی پھانسی کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔
پاکستان اور کشمیریوں میں کہرام مچ گیا۔ لندن کے شام کے اخبار میں برطانوی وزیراعظم ایڈورڈ ہا اسمتھ کے بیان کو نمایاں طور پر شایع کیا گیا۔ برطانوی وزیراعظم نے اس فیصلہ پر ردعمل میں افسوس کا اظہار کیا اور جناب بھٹو کے سیاسی تدبر و فراست کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ اس مسئلہ کے پاکستان پر دور رس نتائج ہوں گے۔
دیگر برطانوی راہنماؤں نے بھی اسے تشویشناک قرار دیا۔ پاکستانیوں نے اگلے روز احتجاجی مظاہرہ کیا اور سخت ترین نعرہ بازی کرتے ہوئے ضیا آمریت مردہ باد۔ قائد عوام زندہ باد کے نعرے لگائے اور مطالبہ کیا کہ مسٹر بھٹو کو رہا کیا جائے۔
معروف برطانوی قانون دان سر متھیو جان پاکستان سے واپس آگئے تو حالت کے زیراہتمام عزیز مرحوم اور میں نے ان کے دفتر میں ملاقات کی۔ سر متھیو نے کہا کہ اگر یہ مقدمہ برطانوی عدالت میں پیش کیا جاتا۔ تو اسے عدالت اٹھا کر باہر پھینک دیتی۔
جان متھیوز نے یہ بیان دیا تھا کہ جس انداز میں یہ کارروائی ہو رہی ہے اس سے انصاف کی توقع نہیں۔ اور چیف جسٹس کا معاندانہ رویہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ مسٹر بھٹو کو سزا ضرور دیں گے۔ پاکستانیوں نے اپنے شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے روزانہ احتجاجی مظاہرے شروع کر دیے ان مظاہروں میں کیا بچے کیا بوڑھے کیا نوجوان اور خواتین باقاعدگی سے شریک ہوتے۔
میر مرتضی بھٹو آکسفورڈ سے لندن منتقل ہو گئے۔ برطانوی رائے عامہ کو ہموار کرنے کا آغاز کردیا اس سلسلے میں فوری طور پر برمنگھم میں ایک بڑا احتجاجی مظاہرہ کیا گیا جس کی قیادت میر مرتضی بھٹو نے کی۔ اس میں دو ہزار سے اوپر مظاہرین نے برمنگھم کی سڑکوں پر فلک شگاف نعرے لگائے۔ بھٹو بے گناہ ہے۔جنرل ضیاء مردہ باد جمہوریت بحال کرو۔ بھٹو کو رہا کرو''۔
میر مرتضی بھٹو نے پہلے خطاب میں کہا۔
جنرل ضیاء نے ایک سازش کے تحت قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کو قتل کرنے کا پروگرام بنایا ہے ہم پاکستانیوں کے تعاون سے عوام کے محبوب لیڈر بھٹو کی زندگی بچانے کے لیے عالمی مہم شروع کریں گے۔ اور ہم اس وقت تک یہ جنگ جاری رکھیں گے جب تک عوام کو ان کے حقوق نہیں مل جاتے۔
برمنگھم کے مقامی پریس میں مظاہرہ نمایاں طور پر شایع کیا۔ یہ مظاہرہ اس عالمگیر مہم کا آغاز تھا۔ برطانیہ بھر کے پاکستانی اور کشمیری اتحاد کی بے مثال زنجیر بن گئے۔ ان کا غم و غصہ انتہائی شدید تھا اور پاکستانی ہائی کمیشن کے سامنے مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ الاہائیڈ پارک جناب بھٹو کی رہائی اور پاکستان میں جمہوریت کی بحالی کی علامت بن گیا۔
اپریل کے سیاہ دن کے بعد پاکستانیوں اور کشمیریوں کا احتجاجی جلوس ہزاروں میں تھا۔ اور اس میں شدت جذبات کا جس طرح اظہار ہوا۔ یہ مناظر دیکھ کر مقامی لوگوں کی آنکھوں میں بھی آنسو آ گئے۔
پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینے کے اس فیصلہ پر دنیا بھر کے عالمی اخبارات نے تبصرہ کرتے ہوئے اسے سیاسی قتل سے تعبیر کیا اور لکھا کہ ''مسٹر بھٹو کے ساتھ انصاف نہیں کیا گیا متعدد مقتدر اخبارات نے مولوی مشتاق حسین کا نام لے کر کہا کہ عدالتی کارروائی کے دوران چیف جسٹس کا جانبدارانہ رویہ اور مسٹر بھٹو سے ذاتی عداوت کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں تھی''۔
جناب بھٹو کو ہم سے جدا ہوئے39 برس ہو رہے ہیں جو لوگ ان کے قتل کے منصوبہ اور سازش میں ملوث تھے۔ ان کے حصہ میں نفرت اور بغض و حسد کی عبرتناک مثال دہ تاریخ لکھی وہ رات میں گم ہو گئے ہیں۔ اس سے برعکس جس بھٹو کو انتظامیہ نے اپنے اقتدار کو دوام دینے کے لیے قتل کیا تھا بھٹو آج بھی زندہ ہے اور جئے بھٹو کے نعرے پاکستان کے علاوہ دنیا بھر میں گونجتے ہیں۔ اور گونجتے رہیں گے۔ زندہ ہے بھٹو زندہ ہے' یہی نعرہ ہے۔ اپریل کو اس عہد کی تجدید کرتا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو عوام کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ یہی قدرت کا انصاف ہے۔
......
آخر میں شہید محترمہ بینظیر بھٹو کے بی بی سی ٹیلی ویژن کو انٹرویو میں یہ جواب دیا تھا۔کہ میں انتقام پر یقین نہیں رکھتی۔ میں نے یہ معاملہ خدا تعالیٰ پر چھوڑ دیا ہے اور پھر دنیا نے دیکھا۔ ان کے اس یقین کا مظاہرہ مکافات عمل کی صورت میں نمودار ہوا اور مکافات عمل کا یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ ان کے خلاف جاری ہے جو اس سیاسی قتل میں ملوث تھے۔
درد دل کہوں کب تک جاؤں کس'' کو سناؤں
انگلیاں فگار اپنی خامہ خونچکاں اپنا