میوہ کون کھاتا ہے  

بہت سارے لوگوں کو اپنے دل سے ’’دماغ تو ہے نہیں‘‘ یہ بات نکال لینی چاہیے کہ ہم جو ’’دین‘‘ کی خدمت کر رہے ہیں۔


Saad Ulllah Jaan Baraq April 04, 2018
[email protected]

پاکستان میں آجکل انتہا پسندی کو جو عروج حاصل ہوا ہے اور پورا ملک اس سے متاثر ہورہا ہے، اگر غور کریں تو یہ سلسلہ بہت پرانا ہے اور اس کی جڑیں پاکستان کی ابتدا تک پہنچی ہیں لیکن کچھ عرصے سے اسلامی ممالک میں عموماً اور پاکستان میں خصوصاً مذہبی خلفشار، ہیجان اور جذباتیت کے ذریعے جو صورتحال سامنے آرہی ہے یا پیدا کی جا رہی ہے اسے صرف چند لوگوں، پارٹیوں، ملکوں اور افراد کا جذباتی کیا دھرا ہر گز قرار نہیں دیا جا سکتا بلکہ اس کے پیچھے کسی بہت ہی زبردست طاقتور اور منظم قوت متحرکہ کا ہاتھ کار فرما ہے اور اس کا مقصد صرف اور صرف وہی پرانا اور آزمودہ نسخہ ڈیوائڈ اینڈرول ہے۔ لیکن اب یہ پالیسی یا نسخہ کسی حکومت یا اشرافیہ کے استعمال میں نہیں بلکہ ان سب سے اوپر ایک اور بالا لیکن نادیدہ قوت کے ہاتھ میں ہے۔

یہاں تک کہ آج تک حکمرانیہ اور اشرافیہ کی جو شکل بنی ہے وہ بھی اس قوت کی اسیر ہے یعنی مختلف ممالک یا عالمی قوتوں کو بھی اس نے اپنی کٹھ پتلی بنا یا ہوا ہے۔ یہ قوت جو بظاہر کہیں نہیں رہتی ہر ہر جگہ موجود اور متحرک ہے۔ حکمرانیہ اور اشرافیہ کے ساتھ ساتھ ابلاغیہ بھی اس کی گرفت میں ہے اور جانے ان جانے میں جو مذہبیہ جس بھی شکل میں جہاں کہیں بھی موجود ہے اس کے زیر اثر ہے۔

کہیں بلا واسطہ طور پر اور کہیں بالواسطہ طور پر۔ بلکہ حیران کن بات یہ ہے کہ توھمات اور مفروضات کے ساتھ ساتھ جرائم، منشیات اور فحاشیات بھی اس کے ہتھیار ہیں۔ مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ دنیا کے پچاسی فیصد عوام کوئی کام نہ کریں اور ان کی مارکیٹ اور منڈی بنے رہیں ۔یہ قوت جسے عرف عام میں عالمی مالی یا سود خور ما فیا کہتے ہیں اتنی طاقتور ہے کہ دنیا کا طاقتور ترین فرد یعنی امریکی صدر بھی اس کی مرضی کا تابع بلکہ غلام ہے۔

دنیا کا وزیر اعظم یعنی اقوام متحدہ کا سیکریٹری جنرل بھی اس کی مرضی کے بغیر نہیں چل سکتا ہے اسے کسی نے ''بنکسٹرز'' کا نام بروزن گینسگسٹرز دیا ہے تو بالکل صحیح دیا ہے اور اس میں تقریباً پینسیٹھ فیصد حصص یہودی سرمایہ داروں کے ہیں اس وقت اس نے ساری دنیا کی معیشت سیاست، مذہبیات، ابلاغیات توہمات، فحاشیات میں عنکبوت کی طرح اپنا جال پھلا یا ہوا ہے۔

ہتھیاروں سے لے کر دواؤں تک تشدد پسند قوتوں سے لے کر مخیر این جی اوز تک کوئی بھی اس کی گرفت سے آزاد نہیں کوئی بھی تجارت یا صنعت ان سے بچی ہوئی نہیں ہے۔ ایک تشدد پسند اگر ایک بندوق استعمال کرتا ہے تووہ گولی اور ہتھیار بھی ان کا ہے اور اگر کوئی ڈاکٹر کسی کا علاج معالجہ کرتا ہے تو دوا کی گولی بھی کا منافع بھی وہیں جاتا ہے جہاں بندوق اور بندوق کی گولی کا منافع جاتا ہے۔ اب وہ یہ کیسے برداشت کر سکتا ہے کہ اس کی مارکیٹ ختم یا محدود ہو جائے۔

جتنے یہ پچاس فیصد بیوقوف فضول کاموں میں الجھے رہیں گے ایک دوسرے کے ساتھ دست و گریباں رہیں گے لا حاصل جذبات میں بہتے رہیں گے جتنے زیادہ بے ایمان ہوں گے جتنے زیادہ بھکاری ہوں گے اور اپنا چاک گریباں لینے کے لیے سوئی بھی نہ بنا سکیں گے اتنی ان کی منڈی اور مارکیٹ وسیع رہے گی۔

بہت کم لوگوں کو علم ہو گا کہ اب زمین وزراعت پر بھی بیجوں، دواؤں، مشینری اور کھادوں کے ذریعے وہ اپنی گرفت مضبوط کر چکے ہیں اور یہ سوچنا تو فضول ہے کہ ایک چھوٹا سا کارکن یا کارخانہ یا تاجر تو ان سے کوئی بھی تعلق نہیں رکھتا لیکن یہ بھی ویسی ہی خام خیالی ہے جیسے کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم مذہبیات کی پیروی اور پاسداری اپنی مرضی اور جذبے سے کر رہے ہیں۔

ایک کسان تو بظاہر اپنے کھیت میں آزادانہ کا شتکاری کر رہا ہے لیکن کھاد دواؤں مشینوں ڈیزل ٹرانسپورٹ اور دیگر ضروریات تو وہ خود نہیں پیدا کر سکتا ہے بلکہ ہمارا تو یہ ماننا ہے کہ ہر کسی کو یہ بات اپنے دل سے نکال دینی چاہیے کہ ہم جو کچھ کر رہے ہیں اپنی مرضی سے اور سوچ سمجھ کر رہے ہیں۔ اگر کوئی مشال بنتا ہے توبھی ان کا فائدہ ہے اور اگر کوئی اسے قتل کرتا ہے تو بھی ان کی منشاء کے عین مطابق ہے۔'

بجائے سوچ اور فکر کے بے چینی، انتشار، غصہ جوش و خروش، لڑنا جھگڑنا ایک دوسرے کو تباہ کرنا سب کچھ ان کے لیے پھل دار درختوں کی مانند ہیں۔ بہت سارے لوگوں کو اپنے دل سے ''دماغ تو ہے نہیں'' یہ بات نکال لینی چاہیے کہ ہم جو ''دین'' کی خدمت کر رہے ہیں کیا واقعی وہ دین کی خدمت اور مسلمانوں کے لیے فائدہ ہے؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں