’’ہیرو‘‘ بننے کے لیے قربانی درکار ہوتی ہے

ہیرو بننے کے لیے قربانی دینا پڑتی ہے، جذبے سے کام کرنا پڑتا ہے جس کا یہاں فقدان نظر آتا ہے۔


[email protected]

جس وقت پورا ملک ''چہ مگوئیوں '' میں مصروف تھا کہ چیف جسٹس اور وزیر اعظم کی ملاقات میں آخر کیا بات ہوئی ہوگی، عین اُس وقت فرانس کی ایک سپر مارکیٹ میں مسلح شخص گھسااور اس نے ہال میں موجود افراد پر فائرنگ کردی جس سے نصف درجن کے قریب افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے۔

حملے کے وقت اس ایریا میں جس پولیس آفیسر اور اس کی ٹیم کی ڈیوٹی تھی اُس کا نام لیفٹیننٹ کرنل آرنو بیلترام تھا، یہ اُس کرنل کے لیے سبکی کی بات تھی کہ کسی بھی شاپنگ مال میں ایک مسلح شخص داخل کیسے ہوگیا۔ حالانکہ فرانس میں موجود تمام شاپنگ مالز کی سیکیورٹی کی ذمے داری مالز انتظامیہ کی ہوتی ہے مگر پولیس ہی تمام پرائیویٹ سیکیورٹی اداروں کی تربیت کی مجاز بھی ہوتی ہے اور اس پر چیک اینڈ بیلنس رکھنا بھی پولیس ہی کا کام ہوتا ہے۔

مسلح شخص گولیاں برسا رہا تھا جب کہ پولیس اس کا محاصرہ کرنے کے لیے تگ و دو کر رہی تھی، جب پولیس محاصرہ کرنے میں کامیاب ہوگئی تو حملہ آور نے ایک خاتون کو یرغمال بنا لیا ۔کرنل آرنو بیلترام کے لیے یہ بات باعث شرم تھی کہ قاتل بچ نکلے، اس نے فیصلہ کیا وہ اس خاتون کو ضرور بچائے گا،خواہ اس کے لیے اُن کی جان ہی کیوں نہ چلی جائے۔

اس نے اپنا موبائل آن کیا اور اپنے ڈیپارٹمنٹ میں کال ملا کر قریب ہی پڑی میز پر موبائل رکھ دیا،تاکہ پولیس کو شاپنگ مال کے اندر کا حال معلوم ہوتا رہے اور ہاتھ اوپر کرکے حملہ آور کی طرف چل دیا۔ کرنل نے حملہ آور سے کہا کہ اس خاتون کو چھوڑ دو، اس کی جگہ تم مجھے یرغمال بنا لو، میں اس کے لیے تیار ہوں۔

حملہ آور خاتون کو چھوڑنے پر رضا مند ہوگیا۔کرنل حملہ آور کے پاس پہنچ چکا تھا جب کہ خاتون شاپنگ مال سے باہر نکل گئی۔کرنل اور حملہ آور کے درمیان ہونے والی تمام باتیں موبائل فون کے ذریعے پولیس کنٹرول روم میں سنی جا سکتی تھیں ۔کچھ ہی لمحے بعد مال کے اندر سے فائرنگ کی آوازیں آنا شروع ہوئیں، کرنل نے حملہ آور پر قابو پا لیا تھا، آپریشن ہوا اور حملہ آور مارا گیا، جب کہ فرانسیسی پولیس کے لیے بری خبر یہ تھی کہ لیفٹیننٹ کرنل آرنو بیلترام بھی زخمی ہوا اور اسپتال میں جاکر دم توڑ دیا۔ وہ فرانس کا ہیرو قرار پایا ۔

چند ہی لمحوں بعد پولیس نے مسلح شخص کا پورا بائیو ڈیٹا حاصل کرلیا، اور اس طرح کے واقعات سے بچنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کام کرنے شروع کردیے۔ یہ خبر عالمی میڈیا میں سیکیورٹی اداروں کے لیے باعث فخر تھی،جس پولیس آفیسر نے عوام کی خاطر جان دے دی اُس کی پورے اعزاز کے ساتھ تدفین ہوئی جسے پوری دنیا میں براہ راست نشر کیا گیا۔

یہ ہے فرض شناسی، یہ ہے وہ جذبہ جو اپنے وطن اور عوام پر مرمٹنے کا دوسرا نام ہے۔ ہمارے ہاں کہاں کی ڈیوٹی، کہاں کے فرائض، کہاں کا جذبہ اور کہاں کا عزم، بس یہ سوچو مال کہاں سے اور کیسے بنایا ہے، اس بے ضمیری کے باوجود ہمارے ہاں بھی ایسی مثالیں موجود ہیں۔ مجھے دو لوگ ضرور یاد ہیں ایک وہ پولیس سب انسپکٹر عبدالمجیدجس نے لاہور میں زمبابوے کرکٹ ٹیم پر قذافی اسٹیڈیم کے قریب خود کش حملہ آور کو پکڑا اور شہید ہوگیا، پی سی بی اور تمام سیکیورٹی ادارے آج یہ ماننے کو تیار نہیں ہیں کہ وہاں خود کش حملہ ہوا بھی تھا یا نہیں؟

اور اگر نہ ہی کوئی ایک عبدالمجید کی کاوش کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہے، اسے آج تک قومی ہیرو نہیں مانا گیا ، پی سی بی اگر اس کے نام پر ایک گیٹ ہی منسوب کردے تو شاید اس کی دھکے کھاتی ہوئی فیملی کو لوگ سہارا دے دیں۔ اور دوسرا فرض شناس کسٹم انسپکٹر اعجاز چوہدری جس نے ڈالر گرل ایان علی کو بیرون ملک ڈالر اسمگل کرنے پر پکڑا اور پھر چند ماہ بعد قتل ہوگیا، اس طرح کی اور بھی مثالیں ہیں مگر ان کی قربانی ماننے کے لیے آج کوئی تیار نہیں۔ ان مذکورہ ہیروز کی فیملی کو آج تک کسی نے نہیں پوچھا ۔

ہمارا تو بیچارہ وزیراعظم خود کو فریادی کہلاتا ہے۔ موصوف کے اپنے کہنے کے مطابق وہ پاکستان کی فریاد لے کر زنجیرِ عدل ہلا رہا ہے۔ فریادی سے ایک معصوم سا سوال تو بنتا ہے کہ کیا آپ سینے پر ہاتھ رکھ کر اللہ تعالیٰ کو حاضرناظر جان کر قوم کو بتائیں گے کہ آپ کی فریاد کیا تھی ؟

پورا ملک، ایک گھنٹہ اور پچپن منٹ جاری رہنے والی اس فریاد کا ایک ایک لفظ سننا چاہے گا۔ مجھے یقین ہے کہ اس دوران چائے پانی سے تواضع بھی ہوئی ہوگی چلیں پانچ دس منٹ اس کے نکال دیں لیکن عوام یہ ضرور جاننا چاہتی ہے کہ آخر کیا باتیں ہوتی رہی ہیں ۔ ویسے بھی آپ کے پاس ڈپلومیٹک پاسپورٹ ہے، جس پر پاسپورٹ ہولڈر کا عہدہ پہلے لکھا جاتا ہے نام اُس کے بعد۔

بادی النظر میں اگر فریاد کرنا ہی تھی تو اس عوام کی کی جاتی کہ جنھیں غلام بنا کر رکھا ہوا ہے۔ عام متوسط طبقے کے لیے قائم کیے گئے پاکستان کو ایک مخصوص بااثر طبقے نے اپنی چراہ گاہ بنا رکھا ہے اور عام آدمی کے لیے نہ تعلیم، نہ صحت، نہ روزگار، نہ امن و امان بلکہ گندا پانی، جعلی ادویات ، دہشت گردی اور جرائم! کیا یہاں کوئی کرنل آرنو بیلترام پیدا نہیں ہوسکتا جو اس قوم پر مر مٹے اور ان قوم کو استحصالی نظام سے نجات دلا سکے جو کسی طرح بھی اس قوم کے حال پر رحم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ ہیرو بننے کے لیے قربانی دینا پڑتی ہے، جذبے سے کام کرنا پڑتا ہے جس کا یہاں فقدان نظر آتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں