پیغام ِپاکستان کا اصل پیغام
ہمارے ہاں ایک بڑا مسئلہ اعتبار کا بحران بھی ہے، بہت سے اہم افراد اور ادارے متنازعہ بن چکے ہیں۔
پچھلے دنوں ایوان ِصدر اسلام آباد میں مختلف مکاتب فکر کے اٹھارہ سوسے زائد علما ئے کرام اکٹھے ہوئے اور انھوں نے دو اہم اشوز پر اتفاق رائے کااظہار کیا۔
پہلا یہ کہ مسّلح جہاد انفرادی فعل نہیں ہے،اس کا حکم صرف ریا ست (حکومت یعنی سیاسی و عسکری قیادت) ہی دے سکتی ہے اور دوسرایہ کہ تکفیری فتوؤں کا سلسلہ بند ہوناچاہیے یعنی چَند فروعی اختلافات کی بناء پر کسی فرد یا فرقے کو کافر قرار دینے کی روایت اور رجحان ختم ہوناچایئے، تیسرا اہم نقطہ یہ بھی شامل ہونا چائیے تھا کہ طاقت (فورس)پر تصرفّ یااجارہ داری صرف ریاست کااستحقاق ہے،یعنی ہتھیار رکھنا صرف سیکیورٹی فورسزکا حق ہے کسی پارٹی یا گروہ کا عسکری ونگ بنا نا یا رکھنا غلط اور خلافِ قانون ہے۔
مختلف مسالک کے صائب الرّائے افراد کا اکٹھا ہو نا اور کچھ اہم معاملات پر متفق ہونا یقیناًخوش آیند ہے مگر ضرورت اس بات کی ہے وہ اس بیانیئے کو دل سے تسلیم کریں اور اپنی پارٹی،اپنے مقلدین اور مریدوںکو بھی اسے دل سے تسلیم کر نے پر آمادہ کریں،اگربات تقریروں تک ہی رہے تو معاشرہ ان خوش کن باتوں کے مفید اثرات سے محروم رہے گا۔
معروف اسکالر اورکالم نگار خورشید ندیم صاحب کے کسی نقطہ نظر سے اختلاف تو ہو سکتا ہے مگرمعاشرے میں اعتدال اور توازن کے فروغ کے لیے ان کی علمی اور فکری کاوشیں قابلِ قدر ہیں۔
اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز صاحب او ر برادرم خورشید ندیم''پیغامِ پاکستان'' کے نام سے ایک متفقہ ڈیکلیریشن کے اجراء کے لیے مخلصانہ کوششیں کرتے رہے ہیں،جو قابلِ تحسین ہے ،مگر مسئلہ اتنا سادہ اور سہل نہیں ہے لہٰذا یہ توّقع عبث ہے کہ اعلان ہوتے ہی متعلقہ گروہ اور تنظیمیںاسے دل سے قبول کر لیں گی۔ مختلف فرقوں کے نمایندے لَچھیّ دار تقریریں تو کرتے ہیں حکمرانوں اور افسروں کے بلائے ہوئے اجلاسوں میں اتفاق کے حق میں اور نفاق کے خلاف باتیںبھی کر تے ہیں مگر تقریروں کی روح کو نہ وہ دل سے تسلیم کرتے ہیں اور نہ ہی ان کے پیروکار اسے د ل سے مانتے ہیں۔
اس نوعیّت کے اجتماعات پہلے بھی ہوتے رہے ہیں جس میں مختلف ممالک اور مکاتبِ فکر کے جیّد افراد اکٹھے ہو کر اتفاق اور اتحاد کی باتیں کر تے ہیں،تقریریں بھی ہوتی ہیں،کھانے بھی ہوتے ہیں مگر تقریروں سے نہ ہی کبھی تشدد کے واقعات رکے ہیں اور نہ ہی انتہاپسندی میں کمی آئی ہے۔ تشّدداور دہشت گردی کی کمر ہمیشہ فورس استعمال کر کے ہی توڑی گئی ہے۔
میں صوبہ پختو نخواہ کے ڈیرہ اسمعیل خان ڈویژن میں 2005-6 میں ڈی آئی جی تھا جب دہشت گردی کا آغاز ہوا،اس کی ابتداء موسیقی کی دکانوں پر چھوٹے چھوٹے دھماکوں سے ہوئی۔ اُس وقت ان شرپسندوں کے لیے کوبرا ہیلی کاپٹر خوف کی علامت ہوتا تھا، اُوپر سے فائرنگ کرنے والے فضائی حملہ آور سے وہ بہت خوفزدہ ہوتے تھے،مگر آہستہ آہستہ جب انھیں بیرون ملک سے پیسہ ،اسلحہ اور ٹریننگ ملنی شروع ہوئی تو ان کی آپریشنل مہارت اور استعداد بہت بڑھ گئی پھر انھیں کچلنے کے لیے جیٹ ٹینک اور توپیں استعمال کر نا پڑیں۔
میں نے جب مختلف ذرایع سے معلوم کیا کہ کیا دہشت گرد ی کی کارروائیوں میں ملوث تمام لوگ دینی مدرسوں کے طلباء ہیں؟ توجواب ملا کہ ایسا نہیں ہے،دینی جذبے کے تحت (امریکا اور امریکی اتحادیوں کے خلاف جہاد کی غرض سے)ریاست پاکستان کی سیکیورٹی فورسز کے خلاف لڑنے والوں کی تعداد بیس فیصد سے زیادہ نہیں ہوگی،باقی تو عام بیروزگار لڑکے ہیں، مَنشیات میں ملوث کئی ملزم جو پولیس کو مطلوب تھے،وہ بھی اُسی گروہ میں شامل ہو گئے، جس سے انھیں روزگار، اسلحہ اور چوہدراہٹ مل گئی۔
مذہبی جذبے کے تحت خود کش حملوں یادہشت گردی کی وارداتوں میں ملوث نوجوانوں کا ذہن بدلنے کے لیے ہم نے اُس وقت صوبہء سرحدکے پچاس سے زائد علمائے کرام سے فتویٰ لے کر تقسیم کرایا جس میں علماء نے خود کش حملوں کو حرام قرار دیاتھا۔اس کے علاوہ عوام اور نوجوانوں کے شکوک وشبہات دور کرنے اور ان کی سوچ تبدیل کرنے کے لیے ہم نے صوبے کے سب سے بڑے جید،اعلیٰ کردار کے حامل اور سب سے قابلِ احترام عالمِ دین مولانا حسن جان ؒسے درخواست کی توانھوں نے بڑی جراتمندی سے تقاریرکیں اور دہشت گردوں کے جعلی جہاد کی اصل حقیقت کو بے نقاب کیا۔ بعدمیں مولانا حسن جان ؒکو بھی شہید کردیا گیا۔
علماء کے فتوؤں اور تقاریرکا عوام اور نوجوانوں پر فوری اثر تو نہ ہوا لیکن آہستہ آہستہ جب دہشت گردوں کا کردار،عزائم اور پاکستان کے دشمن ملکوں سے ان کے روابط بے نقاب ہوئے تو عوام اُن سے بدظن اور متنفرّہو تے گئے۔
بلا شبہ ا یسے مدارس ہیں جہاں بچوں کی برین واشنگ ہوتی ہے اورجہاں دوسرے فرقوں کو کافر سمجھنے کی تعلیم دی جاتی ہے۔ ان کی گرفت ہونی چایئے، اور انھیں ملکی قوانین کے تحت لانے کی ضرورت ہے مگر دہشت گردی اور انتہاپسندی کو صرف دینی مدارس اور ان کے نصاب سے منسوب کرنا لا علمی اور حقائق سے آنکھیںچرانے کے مترادف ہے۔
ہمارا لبرل طبقہ(جو ملک میں بہت کم مگر میڈیا میں بہت زیادہ ہے)اپنی محدود سوچ اورتعصّب کے باعث صرف دینی مدارس اور مولویوں کو ہی انتہا پسنداور انتہا پسندی کا ذمّے دار سمجھتا ہے،یہ وہ طبقہ ہے جو معاملات کو اپنے مربیوں یعنی مغرب کی عینک سے دیکھتاہے، اورجوا نفرادی جہاد کے ہی نہیں ،خود جہاد اور اسلام سے ہی کینہ اور کدورت رکھتاہے، ہمارے ملک کے انتہا پسند لبرل یہ جانتے ہوئے بھی کہ امریکا اور مغربی ممالک میں دہشت گردی اور انتہاپسندی کے جتنے واقعات ہوئے ہیں ان میں وہیں کے پلے بڑھے اور وہیں کی یونیورسٹیوں کے پڑھے ہوئے نوجوان ملوث تھے اُن عوامل کا ذکر نہیں کرتے جو اعلیٰ تعلیم نوجوانوں کو انتہاپسندی کی تاریک راہوں کی جانب دھکیلنے کا موجب بن رہے ہیں۔
ہمارے ملک میں دہشت گر دی کے فروغ کے لیے انڈیا جس حد تک ملوث ہے وہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں انڈیابالواسطہ بھی ملوث ہے اور براہِ راست بھی ملوث ہے،اس کا نام لیتے ہوئے بھی ہمارے لبرلزشرماتے یا گریز کرتے ہیں ۔
دنیا بھر میں امریکا اور اس کے ساتھی مسلمان ملکوں کے ساتھ جو کھلواڑ کر رہے ہیں ،جس طرح انھوں نے عراق، شام لیبیا،یمن، افغانستان جیسے ہنستے بستے ملکوں کو برباد کرکے رکھ دیاہے اور کئی دوسرے ممالک کا انجرپنجر ہلادیاہے اوربہت سوں کو غیر مستحکم کردیا ہے اور اپنے پٹھوؤں اور اتحادیو ں کے ذریعے جس طرح مسلم اقلیّت کی آبا دیوں میںبے گناہ بچوں، عورتوں ،مردوں پر ظلم وستم ڈھارہے ہیں اس سے بھی مسلمان نوجوانوں میں ردِّعمل یا انتقام کے جذبات پیداہوئے ہیں۔
لہٰذا اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ امریکا اور مغربی ممالک کی اسلام دشمن پالیسیاں، دنیا کے کئی ممالک میں مسلمان اقلیتوں پر توڑے جانے والے ظلم وستم، دنیا بھر میں مسلمانوں کے جائز حقوق دلانے سے انکار اور اسلاموفوبیا وہ عوامل ہیں جو مسلمان نوجوانوں کو تشدد اور انتہاپسندی کی طرف دھکیل رہے ہیں،ہمارے آس پاس ہزاروں مثالیں ہیں کہ جب گاؤں کا چوہدری،وڈیرہ یاسردار کسی غریب خاندان پر ظلم کی اخیر کر دیتا ہے تو تنگ آمد بجنگ آمد کے نتیجے میں اُسی خاندان میں سے کسی نوجوان کا خون کھول اٹھتا ہے اوروہ وڈیرے یا سردار پر کلہاڑی یا چاقو سے حملہ کر دیتاہے۔
انتہاپسندی آج ایک کثیر الجہتی مسئلہ بن چکا ہے،اس کے عوامل صرف مقامی نہیں،بین الاقوامی ہیں،دوسال قبل برطانیہ میں مجھے کئی باخبر حضرات نے بتایا کہ برطانیہ سے کئی سو پڑھے لکھے مسلم نوجوان داعش میں شامل ہو نے کے لیے چلے گئے ہیں،اس پر مسلم فیمیلز بہت پریشان تھیں ۔ان میں سے کوئی بھی کسی مدرسے کا پڑھا ہوا نہیں تھا۔بعد میں داعش کے اصل عزائم اور ان کی درندگی کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کر نے کے بعد بیسیوں لڑکوں اور لڑکیوں نے وہاں سے فرار ہونے کی کوشش کی کئی بے چارے مارے گئے اورچند ہی بچ نکلنے میں کامیاب ہوسکے ۔
ہمارے ہاں ایک بڑا مسئلہ اعتبار کا بحران بھی ہے، بہت سے اہم افراد اور ادارے متنازعہ بن چکے ہیں اس لیے بہت سے لو گ ان پر اعتبار نہیں کرتے،ایوانِ صدر میں بھی جن معروف شخصیات نے سامعین کوا پنے خطاب سے نوازا، وہ غیر متنازعہ نہیں تھیں، کئی بے تحاشا بڑھے ہوئے پیٹوں والے ایجنسیوں کے پرور دہ مولویوں کو تو دیکھتے ہی گھِن آتی ہے اور شرفاء کی طبیعت مکدر ہو جاتی ہے ۔لہٰذا ان کے خطاب یا فتوے کے اثرات اور عوام میں پذیرائی کے بارے میں زیادہ توقعات وابستہ نہیں کی جانی چاہیں تھیں۔
ایوان ِصدر میں ایک اہم اسٹیک ہو لڈر یعنی ریاست کی قوتّ ِ نافذہ کے نمایندوں کی کمی بھی محسوس ہوئی،صوبوں کے آئی جی اور ہوم سیکریٹری وہا ں موجود ہونے چاہئیں تھے جو علماء کی مشاورت سے ان کے عہدیا فتوے کو اپنے اپنے صوبے یا علاقے میں نافذکرنے کالائحہ عمل ترتیب دیتے تاکہ اس پر عملدرآمد شروع ہو جاتا۔
حالیہ دھرنوں نے یہ راز کھول دیا کہ ریاستی اداروں کی طرف سے کچھ انتہا پسند اور تشدد پسند تنظیموں کی سرپرستی اب بھی جاری ہے اور یہ ایک بہت بڑا بلکہ بنیادی مسئلہ بن چکا ہے۔ایوانِ صدر میں اداروں کی طرف سے یہ یقین دہانی کرائی جانی چاہیے تھی کہ وہ ریاستی ڈھانچے کومزید زخم لگانے سے پرہیز کریں گے اور آیندہ کسی تشّدد پسند یاعسکری تنظیم کی سر پرستی یا مدد نہیں کرینگے۔ ان کی یقین دہانی کو پیغامِ پاکستان کا حصہ بنایا جاتا ۔تو یہی پیغام ِ پاکستان کا اصل پیغام ہوتا۔
پہلا یہ کہ مسّلح جہاد انفرادی فعل نہیں ہے،اس کا حکم صرف ریا ست (حکومت یعنی سیاسی و عسکری قیادت) ہی دے سکتی ہے اور دوسرایہ کہ تکفیری فتوؤں کا سلسلہ بند ہوناچاہیے یعنی چَند فروعی اختلافات کی بناء پر کسی فرد یا فرقے کو کافر قرار دینے کی روایت اور رجحان ختم ہوناچایئے، تیسرا اہم نقطہ یہ بھی شامل ہونا چائیے تھا کہ طاقت (فورس)پر تصرفّ یااجارہ داری صرف ریاست کااستحقاق ہے،یعنی ہتھیار رکھنا صرف سیکیورٹی فورسزکا حق ہے کسی پارٹی یا گروہ کا عسکری ونگ بنا نا یا رکھنا غلط اور خلافِ قانون ہے۔
مختلف مسالک کے صائب الرّائے افراد کا اکٹھا ہو نا اور کچھ اہم معاملات پر متفق ہونا یقیناًخوش آیند ہے مگر ضرورت اس بات کی ہے وہ اس بیانیئے کو دل سے تسلیم کریں اور اپنی پارٹی،اپنے مقلدین اور مریدوںکو بھی اسے دل سے تسلیم کر نے پر آمادہ کریں،اگربات تقریروں تک ہی رہے تو معاشرہ ان خوش کن باتوں کے مفید اثرات سے محروم رہے گا۔
معروف اسکالر اورکالم نگار خورشید ندیم صاحب کے کسی نقطہ نظر سے اختلاف تو ہو سکتا ہے مگرمعاشرے میں اعتدال اور توازن کے فروغ کے لیے ان کی علمی اور فکری کاوشیں قابلِ قدر ہیں۔
اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز صاحب او ر برادرم خورشید ندیم''پیغامِ پاکستان'' کے نام سے ایک متفقہ ڈیکلیریشن کے اجراء کے لیے مخلصانہ کوششیں کرتے رہے ہیں،جو قابلِ تحسین ہے ،مگر مسئلہ اتنا سادہ اور سہل نہیں ہے لہٰذا یہ توّقع عبث ہے کہ اعلان ہوتے ہی متعلقہ گروہ اور تنظیمیںاسے دل سے قبول کر لیں گی۔ مختلف فرقوں کے نمایندے لَچھیّ دار تقریریں تو کرتے ہیں حکمرانوں اور افسروں کے بلائے ہوئے اجلاسوں میں اتفاق کے حق میں اور نفاق کے خلاف باتیںبھی کر تے ہیں مگر تقریروں کی روح کو نہ وہ دل سے تسلیم کرتے ہیں اور نہ ہی ان کے پیروکار اسے د ل سے مانتے ہیں۔
اس نوعیّت کے اجتماعات پہلے بھی ہوتے رہے ہیں جس میں مختلف ممالک اور مکاتبِ فکر کے جیّد افراد اکٹھے ہو کر اتفاق اور اتحاد کی باتیں کر تے ہیں،تقریریں بھی ہوتی ہیں،کھانے بھی ہوتے ہیں مگر تقریروں سے نہ ہی کبھی تشدد کے واقعات رکے ہیں اور نہ ہی انتہاپسندی میں کمی آئی ہے۔ تشّدداور دہشت گردی کی کمر ہمیشہ فورس استعمال کر کے ہی توڑی گئی ہے۔
میں صوبہ پختو نخواہ کے ڈیرہ اسمعیل خان ڈویژن میں 2005-6 میں ڈی آئی جی تھا جب دہشت گردی کا آغاز ہوا،اس کی ابتداء موسیقی کی دکانوں پر چھوٹے چھوٹے دھماکوں سے ہوئی۔ اُس وقت ان شرپسندوں کے لیے کوبرا ہیلی کاپٹر خوف کی علامت ہوتا تھا، اُوپر سے فائرنگ کرنے والے فضائی حملہ آور سے وہ بہت خوفزدہ ہوتے تھے،مگر آہستہ آہستہ جب انھیں بیرون ملک سے پیسہ ،اسلحہ اور ٹریننگ ملنی شروع ہوئی تو ان کی آپریشنل مہارت اور استعداد بہت بڑھ گئی پھر انھیں کچلنے کے لیے جیٹ ٹینک اور توپیں استعمال کر نا پڑیں۔
میں نے جب مختلف ذرایع سے معلوم کیا کہ کیا دہشت گرد ی کی کارروائیوں میں ملوث تمام لوگ دینی مدرسوں کے طلباء ہیں؟ توجواب ملا کہ ایسا نہیں ہے،دینی جذبے کے تحت (امریکا اور امریکی اتحادیوں کے خلاف جہاد کی غرض سے)ریاست پاکستان کی سیکیورٹی فورسز کے خلاف لڑنے والوں کی تعداد بیس فیصد سے زیادہ نہیں ہوگی،باقی تو عام بیروزگار لڑکے ہیں، مَنشیات میں ملوث کئی ملزم جو پولیس کو مطلوب تھے،وہ بھی اُسی گروہ میں شامل ہو گئے، جس سے انھیں روزگار، اسلحہ اور چوہدراہٹ مل گئی۔
مذہبی جذبے کے تحت خود کش حملوں یادہشت گردی کی وارداتوں میں ملوث نوجوانوں کا ذہن بدلنے کے لیے ہم نے اُس وقت صوبہء سرحدکے پچاس سے زائد علمائے کرام سے فتویٰ لے کر تقسیم کرایا جس میں علماء نے خود کش حملوں کو حرام قرار دیاتھا۔اس کے علاوہ عوام اور نوجوانوں کے شکوک وشبہات دور کرنے اور ان کی سوچ تبدیل کرنے کے لیے ہم نے صوبے کے سب سے بڑے جید،اعلیٰ کردار کے حامل اور سب سے قابلِ احترام عالمِ دین مولانا حسن جان ؒسے درخواست کی توانھوں نے بڑی جراتمندی سے تقاریرکیں اور دہشت گردوں کے جعلی جہاد کی اصل حقیقت کو بے نقاب کیا۔ بعدمیں مولانا حسن جان ؒکو بھی شہید کردیا گیا۔
علماء کے فتوؤں اور تقاریرکا عوام اور نوجوانوں پر فوری اثر تو نہ ہوا لیکن آہستہ آہستہ جب دہشت گردوں کا کردار،عزائم اور پاکستان کے دشمن ملکوں سے ان کے روابط بے نقاب ہوئے تو عوام اُن سے بدظن اور متنفرّہو تے گئے۔
بلا شبہ ا یسے مدارس ہیں جہاں بچوں کی برین واشنگ ہوتی ہے اورجہاں دوسرے فرقوں کو کافر سمجھنے کی تعلیم دی جاتی ہے۔ ان کی گرفت ہونی چایئے، اور انھیں ملکی قوانین کے تحت لانے کی ضرورت ہے مگر دہشت گردی اور انتہاپسندی کو صرف دینی مدارس اور ان کے نصاب سے منسوب کرنا لا علمی اور حقائق سے آنکھیںچرانے کے مترادف ہے۔
ہمارا لبرل طبقہ(جو ملک میں بہت کم مگر میڈیا میں بہت زیادہ ہے)اپنی محدود سوچ اورتعصّب کے باعث صرف دینی مدارس اور مولویوں کو ہی انتہا پسنداور انتہا پسندی کا ذمّے دار سمجھتا ہے،یہ وہ طبقہ ہے جو معاملات کو اپنے مربیوں یعنی مغرب کی عینک سے دیکھتاہے، اورجوا نفرادی جہاد کے ہی نہیں ،خود جہاد اور اسلام سے ہی کینہ اور کدورت رکھتاہے، ہمارے ملک کے انتہا پسند لبرل یہ جانتے ہوئے بھی کہ امریکا اور مغربی ممالک میں دہشت گردی اور انتہاپسندی کے جتنے واقعات ہوئے ہیں ان میں وہیں کے پلے بڑھے اور وہیں کی یونیورسٹیوں کے پڑھے ہوئے نوجوان ملوث تھے اُن عوامل کا ذکر نہیں کرتے جو اعلیٰ تعلیم نوجوانوں کو انتہاپسندی کی تاریک راہوں کی جانب دھکیلنے کا موجب بن رہے ہیں۔
ہمارے ملک میں دہشت گر دی کے فروغ کے لیے انڈیا جس حد تک ملوث ہے وہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں انڈیابالواسطہ بھی ملوث ہے اور براہِ راست بھی ملوث ہے،اس کا نام لیتے ہوئے بھی ہمارے لبرلزشرماتے یا گریز کرتے ہیں ۔
دنیا بھر میں امریکا اور اس کے ساتھی مسلمان ملکوں کے ساتھ جو کھلواڑ کر رہے ہیں ،جس طرح انھوں نے عراق، شام لیبیا،یمن، افغانستان جیسے ہنستے بستے ملکوں کو برباد کرکے رکھ دیاہے اور کئی دوسرے ممالک کا انجرپنجر ہلادیاہے اوربہت سوں کو غیر مستحکم کردیا ہے اور اپنے پٹھوؤں اور اتحادیو ں کے ذریعے جس طرح مسلم اقلیّت کی آبا دیوں میںبے گناہ بچوں، عورتوں ،مردوں پر ظلم وستم ڈھارہے ہیں اس سے بھی مسلمان نوجوانوں میں ردِّعمل یا انتقام کے جذبات پیداہوئے ہیں۔
لہٰذا اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ امریکا اور مغربی ممالک کی اسلام دشمن پالیسیاں، دنیا کے کئی ممالک میں مسلمان اقلیتوں پر توڑے جانے والے ظلم وستم، دنیا بھر میں مسلمانوں کے جائز حقوق دلانے سے انکار اور اسلاموفوبیا وہ عوامل ہیں جو مسلمان نوجوانوں کو تشدد اور انتہاپسندی کی طرف دھکیل رہے ہیں،ہمارے آس پاس ہزاروں مثالیں ہیں کہ جب گاؤں کا چوہدری،وڈیرہ یاسردار کسی غریب خاندان پر ظلم کی اخیر کر دیتا ہے تو تنگ آمد بجنگ آمد کے نتیجے میں اُسی خاندان میں سے کسی نوجوان کا خون کھول اٹھتا ہے اوروہ وڈیرے یا سردار پر کلہاڑی یا چاقو سے حملہ کر دیتاہے۔
انتہاپسندی آج ایک کثیر الجہتی مسئلہ بن چکا ہے،اس کے عوامل صرف مقامی نہیں،بین الاقوامی ہیں،دوسال قبل برطانیہ میں مجھے کئی باخبر حضرات نے بتایا کہ برطانیہ سے کئی سو پڑھے لکھے مسلم نوجوان داعش میں شامل ہو نے کے لیے چلے گئے ہیں،اس پر مسلم فیمیلز بہت پریشان تھیں ۔ان میں سے کوئی بھی کسی مدرسے کا پڑھا ہوا نہیں تھا۔بعد میں داعش کے اصل عزائم اور ان کی درندگی کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کر نے کے بعد بیسیوں لڑکوں اور لڑکیوں نے وہاں سے فرار ہونے کی کوشش کی کئی بے چارے مارے گئے اورچند ہی بچ نکلنے میں کامیاب ہوسکے ۔
ہمارے ہاں ایک بڑا مسئلہ اعتبار کا بحران بھی ہے، بہت سے اہم افراد اور ادارے متنازعہ بن چکے ہیں اس لیے بہت سے لو گ ان پر اعتبار نہیں کرتے،ایوانِ صدر میں بھی جن معروف شخصیات نے سامعین کوا پنے خطاب سے نوازا، وہ غیر متنازعہ نہیں تھیں، کئی بے تحاشا بڑھے ہوئے پیٹوں والے ایجنسیوں کے پرور دہ مولویوں کو تو دیکھتے ہی گھِن آتی ہے اور شرفاء کی طبیعت مکدر ہو جاتی ہے ۔لہٰذا ان کے خطاب یا فتوے کے اثرات اور عوام میں پذیرائی کے بارے میں زیادہ توقعات وابستہ نہیں کی جانی چاہیں تھیں۔
ایوان ِصدر میں ایک اہم اسٹیک ہو لڈر یعنی ریاست کی قوتّ ِ نافذہ کے نمایندوں کی کمی بھی محسوس ہوئی،صوبوں کے آئی جی اور ہوم سیکریٹری وہا ں موجود ہونے چاہئیں تھے جو علماء کی مشاورت سے ان کے عہدیا فتوے کو اپنے اپنے صوبے یا علاقے میں نافذکرنے کالائحہ عمل ترتیب دیتے تاکہ اس پر عملدرآمد شروع ہو جاتا۔
حالیہ دھرنوں نے یہ راز کھول دیا کہ ریاستی اداروں کی طرف سے کچھ انتہا پسند اور تشدد پسند تنظیموں کی سرپرستی اب بھی جاری ہے اور یہ ایک بہت بڑا بلکہ بنیادی مسئلہ بن چکا ہے۔ایوانِ صدر میں اداروں کی طرف سے یہ یقین دہانی کرائی جانی چاہیے تھی کہ وہ ریاستی ڈھانچے کومزید زخم لگانے سے پرہیز کریں گے اور آیندہ کسی تشّدد پسند یاعسکری تنظیم کی سر پرستی یا مدد نہیں کرینگے۔ ان کی یقین دہانی کو پیغامِ پاکستان کا حصہ بنایا جاتا ۔تو یہی پیغام ِ پاکستان کا اصل پیغام ہوتا۔