بے حسی امہ کی اصل دشمن

مسلم امہ کے لیے باعث تشویش بات یہ بھی ہے کہ او آئی سی ایک مفلوج، بے حس اور لاتعلق ادارہ بن کر رہ گیا ہے۔

tahirnajmi@express.com.pk

خون مسلم کی ارزانی کوئی نئی بات نہیں، ایک طویل عرصے سے فلسطین، کشمیر ، افغانستان، عراق 'شام اور برما میں مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی جارہی ہے۔

چند دن قبل ایک جانب فلسطین میں مسلمانوں پر اذیت ناک تشدد کی نئی لہر شروع ہوئی تو دوسری جانب مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج نے دہشت گردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے درجنوں نوجوانوں کو شہید اورسیکڑو ں کو زخمی کردیا جس کے خلاف کوئی مضبوط اور توانا آواز نہیں اٹھی۔یہ ہے مسلم امہ کا اصل المیہ۔ہر کوئی اپنے اپنے خول میں بند ہو کر رہ گیا ہے اور اپنے خول کو ہی محفوظ پناہ گاہ تصورکر رہا ہے۔ پاکستان نے کشمیریوں کے لیے آواز تو بلند کی ہے مگر اس کی آواز سے آواز ملانے والا کوئی قابل ذکر ملک سامنے نہیں آ رہا۔

اس سال 15 مئی کو فلسطینی سرزمین پر اسرائیل کے غاصبانہ قبضے کے 70سال پورے ہونیوالے ہیں۔ اس کے خلاف احتجاج ریکارڈ کرانے کے لیے فلسطینی عوام چھ ہفتوں پر مشتمل احتجاجی مارچ ''گھروں کو واپسی'' کا نعرہ لگاتے ہوئے اسرائیلی سرحد کی جانب گامزن تھے کہ اسرائیلی ٹینکوں نے نہتے مظاہرین پر براہ راست فائر کھول کے انھیں بھون کررکھ دیا، اب تک 17فلسطینی جاں بحق اور 1400 سے زائد زخمی ہوچکے ہیں، حالانکہ پرامن احتجاج تمام بین الاقوامی اصولوں اور قوانین کی رو سے ان کا حق تھا۔

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل اینٹونیو گوٹیریس نے اس بربریت کی مذمت کی اور سلامتی کونسل کا اجلاس طلب کیا۔ کویت کی درخواست پر بلائے گئے سلامتی کونسل کے اجلاس میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے ترجمان نے کہا کہ ان واقعات کی خود مختار اور شفاف تحقیقات کروا رہے ہیں، تا ہم اجلاس میں کسی مشترکہ اعلامیہ پر مصالحت نہ ہو سکی۔ عرب لیگ، قطر، کویت اور مصر نے اسرائیلی جارحیت کی شدید مذمت توکی ہے مگر مسئلے کے حل کے لیے کوئی لائحہ عمل پیش نہیں کیا ۔

ترک صدر طیب اردگان نے عالمی قوتوں کو معاملے کا سخت نوٹس لیتے ہوئے اسرائیلی فوج کو ظلم و بربریت سے روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔ فلسطینی صدر محمود عباس نے ''واپسی کے لیے عظیم مارچ، ٹرمپ کے لیے پیغام''کے نام سے شروع کی جانیوالی احتجاجی تحریک کو 15مئی تک جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ جس کے جواب میں اسرائیلی فوج کے بریگیڈیئر جنرل رونن منیلس نے یہ دھمکی دیدی کہ وہ غزہ کی پٹی کے اندر بھی کارروائی کرسکتے ہیں۔

کشمیر و فلسطین میں بھارت و اسرائیل کی بربریت کوئی نئی بات نہیں، جب جب کشمیر و فلسطینیوں پر مظالم کا سلسلہ تیز ہوتا ہے تب تب عالمی برادری اور مسلم ممالک کی جانب سے مذمتی بیانات جاری کرکے اپنی موجودگی کا احساس دلایا جاتا ہے لیکن آج تک عالمی برادری اور مسلم ممالک نے اقوام متحدہ کے چارٹر پر موجود کشمیر و فلسطین کے مسئلہ کو حل کرنے کے لیے کسی بھی قسم کے عملی اقدامات نہیں۔

مقبوضہ کشمیر اور فلسطین کے مظلوم مسلمان سراپا سوال بنے ہوئے ہیں کہ اسلامی ممالک کا امن اتحاد، عرب لیگ، خلیج تعاون کونسل اور اسلامی تعاون تنظیم آخر کس مرض کی دوا ہے؟ ان سوالوں کا ایک ہی جواب ہے کہ مسلمان ملک باہم متحد نہیں، اسلامی ممالک انتشار و نفاق کا شکار ہیں، اغیار کے مقابل اپنی قوت کو مجتمع کرنے کے بجائے نفاق کا شکار ہوکر اپنی قوت کو بے وقعت بنا رہے ہیں۔

دنیا میں عالم اسلام کی آبادی 1.62 ارب کے لگ بھگ ہے، جو پوری دنیا کی کل آبادی کا تقریبا 23 فیصد ہے اور اس کے ساتھ دنیا کے کل رقبے میں 21.7 فیصد رقبہ عالم اسلام کے پاس ہے۔ عالم اسلام کے ممالک کی تعداد 5درجن کے قریب ہے، جن میں ترکی، سعودی عرب،ایران، انڈونیشیا، قطر، عمان، ملائیشیا، پاکستان، برونائی دارالسلام اور کویت جیسے بے بہا وسائل سے مالامال ممالک شامل ہیں۔

مسلمانوں کے 57 ممالک ہیں مگر اقوام متحدہ کی پانچ بڑی طاقتوں میں چھٹی طاقت نہ بن سکے۔ عالم اسلام کی نمایندہ تنظیم او آئی سی اقوام متحدہ کے بعد دنیا کی سب سے بڑی اور نمایندہ تنظیم ہے، او آئی سی کا قیام 25 ستمبر 1969کو عمل میں لایا گیا، او آئی سی کا فریضہ ہے کہ وہ مسلمانوں کو درپیش مسائل کے لیے لائحہ عمل اختیار کرے۔ لیکن کشمیر، فلسطین، برما، شام سمیت دیگر مسلم ممالک میں جاری مسائل پر تمام وسائل، افواج اور قوت و طاقت کے باوجود اس کی مجرمانہ خاموشی اور بے حسی قابل افسوس ہے۔


مسلم امہ کے لیے باعث تشویش بات یہ بھی ہے کہ او آئی سی ایک مفلوج، بے حس اور لاتعلق ادارہ بن کر رہ گیا ہے، مسلمانوں پر کوئی قیامت بیت جائے یہ ادارہ کوئی کردار ادا کرنے کو تیار نہیں ہوتا۔

عالمی برادری نے بھی مسئلہ کشمیر و فلسطین کو حل کرانے کے لیے کبھی کوئی سنجیدہ اقدامات نہیں کیے ، اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق بھارت 'کشمیر میں آزادانہ رائے شماری کرانے اور اسرائیل' فلسطین کو تسلیم کرنے کا پابند ہے۔ اوسلو معاہدے کے تحت اسرائیل نے دو ریاستی منصوبہ تسلیم کیا ہے تو معاہدہ تاشقند اور شملہ معاہدہ کے مطابق بھارت کشمیر کا پرامن حل نکالنے کا پابند ہے۔ لیکن اسرائیل اور بھارت عالمی معاہدوں کی سراسر خلاف ورزی کرنے کے مرتکب ہورہے ہیں مگر انھیں پوچھنے، روکنے اور ٹوکنے والا کوئی نہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ فلسطین اورکشمیر جدید دنیا میں انسا نی حقوق کی بدترین حق تلفیوں کے دو ایسے مظاہرہیں جو آج کی عالمی طاقتوں خصوصاً مغربی دنیا کی جانب سے انسانیت، عدل و انصاف اور تہذیب و شائستگی کے دعووں کے کھوکھلے پن کو پوری طرح کھول کر رکھ دیتے ہیں۔ ان دونوں مسائل میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی قیادت میں امریکا کا کردار پہلے سے کہیں زیادہ متعصبانہ اور جانبدارانہ ہے۔

ماضی میں امریکی حکمراں دنیا کو دکھاوے ہی کے لیے سہی بہرصورت اپنی غیرجانبداری کے اظہار کا کچھ نہ کچھ اہتمام کرتے تھے لیکن صدر ٹرمپ نے کسی پردہ داری کی ضرورت محسوس کیے بغیر اسرائیل اور بھارت کی اس طرح پشت پناہی کی روش اختیار کی ہوئی ہے کہ عملاً آج کا امریکا ان ملکوں کا آلہ کار بنا نظر آتا ہے۔ یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے امریکی اقدام کی اقوام متحدہ کے ارکان کی اکثریت کی مخالفت کے باوجود ٹرمپ انتظامیہ اپنے فیصلے پر عملدرآمد پر مصر ہے۔

اقوام متحدہ و دیگر عالمی اداروں کی مجبوریاں اپنی جگہ لیکن اس سے کہیں بڑھ کر قابل شرم کردار او آئی سی کا ہے جو اس وقت جاگتی ہے جب پانی سر سے اونچا ہوجاتا ہے۔ مسلمانوں کے قتل عام پر اسلامی ممالک کی کانفرنس بلاکر ، نشتند، گفتند و برخاستندکی رسم ادا کرتی ہے مگر ابھی تک اس نے یہ رسم ادا کرنے کی بھی زحمت گوارہ نہیں کی۔

مغربی ممالک جانتے ہیں کہ اسلامی ممالک منتشر ہیں، ان میں اتفاق نہیں، سوائے عارضی شور و غل کے کچھ کرنے کے قابل نہیں، مسلمانوں کے قبلہ اول القدس کو یہودیوں کے قبضے میں دینے کے اعلان پر بھی صرف قراردادیں، بیانات دینے تک محدود رہے ، چاہیے تو یہ تھا کہ اسلامی ممالک کے حکمران متحد ہوکر فلسطین و کشمیر و دیگر علاقوں میں مسلمانوں پر ہونیوالے مظالم کی روک تھام کے لیے ایک جامع لائحہ عمل ترتیب دیکر اقوام عالم کو یہ پیغام دیتے کہ مسلمان واقعی جسد واحد ہیں، کسی بھی عضو کو پہنچنے والی گزند پورے جسم کے لیے باعث تکلیف ہے مگر ایسا کچھ نہیں ہو رہا۔

سعودی عرب عرب و عجم کی منافرت کو لے کر امریکی کیمپ کا حصہ بنا ہوا ہے، اس کی ساری تگ و دو یہی ہے کہ خطے میں کسی طرح ایران کا اثر و رسوخ بڑھنے نہ دیا جائے اور دوسری طرف ایران بھی اپنے مسلک کے دائرے میں گھوم رہا ہے۔

اجتماعی مسائل سے مسلم ممالک کے حکمرانوں کی یہی بے حسی ہماری اصل دشمن ہے، جس دن مسلم ممالک اپنے فروعی مفادات سے بالا تر ہوکر مسلم امہ کے اجتماعی مفادات کی خاطر ایک پرچم تلے متحد ہوجائینگے اسی دن سے مسلم امہ کے مسائل بھی حل ہونا شروع ہوجائینگے، کیونکہ عالمی برادری جب یہ دیکھتی ہے کہ اسلامی ممالک اپنے مسائل کے حل کے لیے سنجیدہ نہیں تو پھر وہ بھی خاموش ہوجاتی ہے ۔

آج کی دنیا میں فی الحقیقت '' جس کی لاٹھی اسی کی بھینس ''کا قانون رائج ہے، اس کا نشانہ بالعموم مسلمان ممالک بنے ہوئے ہیں۔ مسلم ممالک کی بے حسی کو دیکھ کر ہی اسرائیل بھی طاقت کے بل بوتے پر من مانے اقدامات کر رہا ہے ، وقت کا تقاضا ہے کہ مسلم ممالک اپنے مسائل خود حل کرنیکی صلاحیت پیدا کریں' جس کا بے حد فقدان ہے۔ اسلامی ممالک متحد ہوں یا پھر ایک امت ہونے کے واہمے سے باہر نکلیں اس سے کم از کم یہ فائدہ تو ہو گا کہ مسلم ممالک خود فریبی کی دلدل سے باہر نکل آئیں گے جس میں وہ ایک مدت سے دھنسے ہوئے ہیں۔
Load Next Story