اعلیٰ تعلیمی کمیشن آف پاکستان کے تحت جاری ''وزیراعظم لیپ ٹاپ اسکیم'' کے دوران ایک بڑے میگااسکینڈل کامعاملہ سامنے آیاہے۔
لیپ ٹاپ اسکیم کے دوسرے مرحلے میں متعلقہ نجی کمپنی سے کیے گئے معاہدے کے برعکس درآمد شدہ غیرملکی لیپ ٹاپ کے بجائے لوکل انڈسٹری میں تیارکیے گئے لیپ ٹاپ طلبہ کے حوالے کردیے گئے ہیں اس مد میں درآمدی ڈیوٹی بچاکرقومی خزانے کوکروڑوں ڈالرکانقصان پہنچایاگیاہے ان لیپ ٹاپ کی تعداد2لاکھ اورقیمت 9کروڑڈالرسے زائدہے لیپ ٹاپ فیزٹوکی خریداری میں ''پیپرا''قوانین کی خلاف ورزی کی بھی اطلاع ہے۔
یہ معاملہ سامنے آنے کے بعد مبینہ طورپرقومی احتساب بیورو(نیب)کی جانب سے اس اسکینڈل پر ابتدائی تحقیقات بھی کی گئی ہیں معاملے کوباقاعدہ ''اوپن انکوائری''کے سلسلے میںریفرنس کی منظوری کے لیے نیب حکام کوبھجوانے پرغورہورہاہے۔
دریں اثنا ایچ ای سی نے موقف اختیارکیاہے کہ تمام درآمدات معاہدے کے تحت اورقانونی دائرہ کار میں رہتے ہوئے کی گئی ہیں جبکہ چیئرمین ایچ ای سی ڈاکٹرمختاراحمد کاکہناہے کہ ایچ ای سی کے آئندہ چیئرمین کے سلیکشن کے لیے میری ذات کومتنازع بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
علاوہ ازیں ''ایکسپریس''کومعلوم ہواہے کہ نیب کی ابتدائی انکوائری میں اس کیس کو''نان ڈیوٹی پیڈ2لاکھ لیپ ٹاپ''کاٹائیٹل دیاگیاہے جس کے لیے اعلیٰ تعلیمی کمیشن آف پاکستان کے خلاف تحقیقات کی سفارش کی گئی ہے مبینہ طورپر کیس میں اعلیٰ تعلیمی کمیشن پرالزام لگاتے ہوئے کہاگیاہے کہ ''وزیراعظم لیپ ٹاپ اسکیم فیزٹو''میں 2لاکھ لیپ ٹاپ کی خریداری کاکنٹریکٹ دیتے وقت پیپراقوانین کی سنگین خلاف ورزیاں کی گئی ہیں الزامات کی۔
مزیدانکشاف کیاگیاہے کہ لیپ ٹاپ کی خریداری یافراہمی کے معاہدے کے تحت متعلقہ نجی کمپنی کو2لاکھ لیپ ٹاپ مشینوں میں سے مجموعی تعدادمیں سے ایک مخصوص تناسب درآمدشدہ لیپ ٹاپ کی شامل کرنی تھی اس معاہدے کے مطابق ایک تہائی 1/3لیپ ٹاپ مکمل طورپردرآمد شدہ جبکہ دوتہائی 2/3لیپ ٹاپ کے مختلف حصے(پارٹس)درآمد شدہ ہونے ضروری تھے ان دوتہائی لیپ ٹاپس کودرآمدی پارٹس کی مددسے ملک میں ہی تیارکیاجاناتھاجسے(ایس کے ڈی) ''Semi knocked down''اور(سی کے ڈی) ''Complete knocked down''کانام دیاگیاتھا۔
الزامات میں مزیدکہاگیاہے کہ کوئی سنگل لیپ ٹاپ بھی (سی کے ڈی)یا(سی بی یو)کی صورت میں کسی ملک سے درآمدنہیں کیاگیااوراربوں روپے کے ٹیکس بچائے گئے مبینہ طورپرریفرنس کی منظوری کے لیے نیب کی اتھارٹیز کوبھجوائی گئی سمری میں مزیدانکشاف ہواہے کہ ابتدائی رپورٹ کے مطابق معاہدے کے مطابق متعلقہ نجی کمپنی کو''سی بی یو؍ سی کے ڈی اورایس کے ڈی{{''کی صورت میں یہ لیپ ٹاپ درآمد کرنے تھے تاہم درآمدی تفصیلات یاڈیٹاکے مطابق اس سلسلے میں کوئی درآمد کی ہی نہیں گئی جس کے نتیجے میں ایچ ای سی کو2لاکھ لیپ ٹاپ کی فراہمی میں ٹیکسز اوردیگرڈیوٹیزبچائیں گی۔
مزیدبرآں یہ بھی بتایاگیاہے کہ لیپ ٹاپ کی درآمدکے معاہدے کے مطابق ایچ ای سی قبل از اوربعدازشپمنٹ کی انسپیکشن کی ذمے دارتھی اسی شپمنٹ انسپیکشن کی بنیادپرمتعلقہ نجی کمپنی کوادائیگیاں کی جانی تھی تاہم PRALڈیٹایہ ظاہرکرتاہے کہ اس سلسلے میں کسی قسم کی درآمد تونہیں ہوئی تاہم ایچ ای سی نے ادائیگیاں کرڈالیں جوایچ ای سی کی غفلت یالاپرواہی کی ایک بدترین مثال ہے۔
ریفرنس کے لیے بھجوائی گئی سمری کے مطابق ایچ ای سی کی جانب سے متعلقہ نجی کمپنی سے لیپ ٹاپ کی خریداری کے لیے جوکنٹریکٹ کیاگیااس میں بھی پیپراقوانین 2004 کے رول 2(f )اوررول 10کی سنگین خلاف ورزیاں سامنے آئی ہے معاہدے میں پہلے ہی سال چارسال تک کے لیے لیپ ٹاپ کی فراہمی کی تفصیلات طے کرلی گئیں اورتمام چاروں سال میں ''کنٹریکٹ پرائس''یالیپ ٹاپ کی قیمت ایک ہی رکھی گئی۔
واضح رہے کہ ان چاربرسوں میں لیپ ٹاپ کی قمیتوں میں بتدریج کمی واقع ہوتی رہی تاہم مبینہ طورپرنیب کی ابتدائی تحقیقات میں معلوم ہواہے کہ ایچ ای سی نے چاروں سال کے نرخ پہلے سال ہی طے کردیے جوایک ہی تھے۔
حتمی تحقیقات کے لیے بنائی گئی سفارشات میں کہاگیاہے کہ بادی النظرمیں دستیاب ڈیٹاسے ظاہرہوتاہے کہ لیپ ٹاپ کمپیوٹرناتوکبھی درآمد کیے گئے اورنہ ہی ان پر کبھی ڈیوٹیزاداکی گئی جسے قومی خزانے کواربوں روپے کانقصان پہنچایا گیاجبکہ خود کنٹریکٹ معاہدے کے مطابق ان کمپیوٹر کی کل قیمت بشمول ٹیکسز98580436ڈالرتھی جبکہ ٹیکسز کے بغیر کل قیمت 77585960ڈالرتھی ان دونوں رقوم میں 20994476کافرق موجودہے لہذااس معاملے کی مزید تفتیش کے لیے باقاعدہ تحقیقات شروع کی جائیں۔
یادرہے کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان اپنے ایک خط کے ذریعے فیز ٹومیں لیپ ٹاپ کی خریداری پرپہلے ہی اعتراض کرچکی ہے ادارے کی جانب سے یہ خط چیئرمین ایچ ای سی ڈاکٹر مختار احمد کو لکھا گیا تھا۔
ادھرچیئرمین ایچ ای سی کااس سلسلے میں کہناہے کہ ہم پاکستان اس کمپنی کولے کرآئے جوملک میں لیپ ٹاپ تیارکرے تاکہ ملک کافائدہ ہوہم نے کچھ کھویانہیں بلکہ''اچیف'' کیاہے معاہدے میں ایسی کوئی چیز نہیں ہے جس سے ظاہرہوکہ لیپ ٹاپ درآمدکرناضروری تھے اس سلسلے میں مانیٹرنگ کی آزاداورخودمختار کمیٹی ہے جوچیزوں کودیکھتی ہے۔
ایک سوال پران کاکہناتھاکہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان نے اعتراضات کیے تھے کہ لیپ ٹاپ مہنگاکیوں لے رہے ہیں تاہم ہم نے ان کوبتایاکہ معیار ضروری ہے ان کوبھی سمجھایاکہ موبائل فون سستاآرہاہے توآپ مہنگاکیوں رکھتے ہیں نیب کی جانب سے تحقیقات کے حوالے سے ان کاکہناتھاکہ اس حوالے سے کوئی بات ان کے علم میں نہیں تاہم انھوں نے تصدیق کی کہ نیب نے لیپ ٹاپ سے متعلق معلومات لی ہیں تاہم ان کاکہناتھاکہ یہ معمول کی معلومات ہیں ایک خاص حدتک خریداری کی جائے تونیب معلومات لیتی ہے۔
ڈاکٹرمختارنے کہاکہ کچھ لوگوں نے میرے تقرری کے خلاف بھی بات کی گئی ہے جس کی تحقیقات نیب کررہاہے جولوگ میرے خلاف ہیں اس میں لاہورسمیت دیگرشہروں کے کچھ لوگ کام کررہے ہیں اصل مسئلہ یہ ہے کہ ایچ ای سی کے آئندہ چیئرمین کے سلیکشن کے لیے میری ذات کومتنازع بنانے کی کوشش کی جارہی ہے جولوگ جامعات میں بے ایمانی سے پروگرامات چلارہے تھے ان کے پروگرامز بند کرائے جس کامجھ سے انتقام لیاجارہاہے۔
ادھراعلیٰ تعلیمی کمیشن نے سرکاری سطح پراپناموقف جاری کرتے ہوئے کہاہے کہ پرائم منسٹرلیپ ٹاپ اسکیم ایک انقلابی پروگرام ہے جووزیراعظم کی ہدایت پرشروع کیاگیاتھاجس کامقصدقوم کے نوجوانوں کوٹیکنالوجی سے روشناس کراناہے فیزٹومیں مجموعی طورپر4لاکھ لیپ ٹاپ کی تقسیم کی گئی جس کے لیے دوعلیحدہ علیحدہ کنٹریکٹ دیے گئے۔
پہلاکنٹریکٹ 2015میں دیاگیاجس میں وینڈرکی جانب سے 150000لیپ ٹاپ مقامی طورپرتیارکرائے گئے اور50ہزارلیپ ٹاپ درآمد کیے گئے اورکمٹمنٹ پر مکمل طورپرعملدرآمد کیاگیاجبکہ اسی فیز کے مزید2لاکھ لیپ ٹاپ 2017میں مقامی سطح پر''میڈان پاکستان''کے ٹیگ کے ساتھ تیارکرائے گئے۔
ایچ ای سی کاکہناہے کہ تمام درآمدات قانونی دائرہ کارمیں رہتے ہوئے کی گئی ہیں مزیدوضاحت کی گئی ہے کہ بیک وقت چارسال کی خریداری کی قیمت متعین نہیں کی گئی اوردومختلف مرحلوں میں اس کی خریداری کی گئی۔
واضح رہے کہ تحقیقات میں بھی 2لاکھ لیپ ٹاپ کی درآمد کے بجائے مقامی سطح پر تیاری کامعاملہ سامنے آیاتھا ایچ ای سی کے ایک افسرنے بھی تصدیق کی کہ متعلقہ معلومات نیب کی جانب سے کچھ عرصے قبل مانگے گئی تھی تاہم افسرکاکہناتھاکہ ایچ ای سی کی جانب سے تمام دستاویزات فراہم کرنے کے بعد نیب نے تحقیقات کوآگے نہیں بڑھایا۔