مثبت رویوں کی توانائی بانٹئے

خدا کے دل میں جگہ بنانے سے پہلے انسان کے دل میں بسنے کا ہنر سیکھنا پڑتا ہے۔


Shabnam Gul April 05, 2018
[email protected]

سورج طلوع ہے اور بے تحاشا روشنی بانٹتا ہے۔ یہ روشنی پوری کائنات کی اشد ضرورت ہے۔ آسمان کا رنگ کبھی میلا نہیں ہوتا، جتنا دیکھو اور نکھرتا اور ٹھنڈک دیتا ہے۔ درخت چھاؤں نچھاورکرتے نہیں تھکتے اور بادل زمین کو ہریالی کا تحفہ دیتے ہیں۔ فطرت کا اصول ہے بلاتفریق بانٹنا۔

انسانیت کو زندگی عطا کرنا، مگر انسان کا کام دیکھیے! ماں جیسی زمین کو دھوکا دینا، اسے آلودہ کرنا، اپنے جیسے انسانوں کو خوشی وخوشحالی سے ترسانا۔ جسے اچھا سمجھتے ہیں اسے عطا کرتے ہیں۔ جنھیں برا کہتے ہیں، ان سے ہاتھ روک لیتے ہیں۔ آج کل صوفی ازم اور صوفی سوچ کا تذکرہ ہے ہر طرف ۔ صوفیوں اور ولیوں کی خصوصیات میں زندگی بخش خوبیاں پوشیدہ ہیں۔ جیسے عیب پوشی، رحم دلی، شفقت، صداقت اورکھانا کھلانے کا احسن عمل بھی شامل ہے۔

یہی وجہ ہے کہ مزاروں یا عبادت گاہوں میں لنگرکا اہتمام کیا جاتا ہے۔ ہر مذہب کی تعلیمات میں حسن اخلاق کو اولیت دی جاتی ہے۔ انسان دوستی، رواداری، تعاون، فیاضی، خوش مزاجی اور ربط باہمی کا درس دیا جاتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ جہاں سماج نے چند اچھے اصول اپنائے، وہاں اخلاقی برتری پائی گئی۔ مشرق و مغرب کے ان ممالک نے جلد ترقی کی، جہاں انسان کے انفرادی حقوق کو تحفظ فراہم کیا گیا اور اسے تفریق کے خانوں میں قید کرنے کے بجائے اسے انسانیت کے تناظر میں سمجھا اور محسوس کیا گیا۔ بقول شیخ سعدی کے

بنی آدم اعضائے یک دیگراند

کہ در آفرینش زیک جوہر آند

(تمام انسان ایک ہی جسم کے مختلف اعضا کی طرح ہیں۔ کیونکہ سب ایک ہی جوہر سے پیدا کیے گئے ہیں)

یہی وجہ ہے کہ جہاں انسان افضل ترین ہے، اس معاشرے میں انتشار بھی تھم جاتا ہے۔

جدید معاشرے مادیت پرستی کے ناپسندیدہ رجحان میں جکڑے جاچکے ہیں۔ ایک طرف دولت کی فراوانی ہے تو دوسری جانب اکثریت میں ایسے لوگ ہیں جو بنیادی ضروریات تک رسائی نہیں رکھتے۔ ایک رپورٹ کے مطابق سو بچوں میں تئیس بچے غذائی قلت کا شکار ہیں۔ ان بچوں کے جسم کا مدافعتی نظام کمزور ہونے کی وجہ سے جلد بیماریاں ان پر حملہ آور ہوتی ہیں۔

2011ء میں نیشنل نیوٹریشن سروے کے مطابق پورے ملک میں اٹھاون فیصد گھر غذائی قلت کا شکار تھے، جب کہ سندھ کو بدحال اور غذا کی کمیابی والا خطہ قرار دیا گیا۔ جس کے باعث بچے اور حاملہ خواتین کی صحت کو کئی خطرات درپیش رہتے ہیں۔ دنیا بھر میں ایک ملین بچے پیدا ہوتے ہی لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ جب کہ 1.6 ملین فقط ایک مہینہ زندہ رہ پاتے ہیں (یونیسیف)

صحرائے تھر کے بچے اور مائیں مشکل حالات سے نبرد آزما ہیں۔ غذائی کمی کی وجہ سے یہ بچے زیادہ دن زندہ نہیں رہ پاتے۔ تھر میں سات فیصد خاندان غذا خریدنے کی سکت رکھتے ہیں جب کہ اسی فیصد لوگ، قرضہ اٹھا کر غذائی ضروریات پوری کرتے ہیں۔ آج کل ثقافتی و ادبی میلوں کا دور دورہ ہے۔ ہر میلہ لاکھوں کی امداد سے سجایا جاتا ہے۔ ادبی پروگرامز تک فائیو اسٹارز ہوٹلز میں منعقد کیے جاتے ہیں۔ جس میں حکومت سے لے کر نجی کمپنیز و ادارے تک رقم فراہم کرتے ہیں۔

دکھاوے اور دوسرے پر سبقت لے جانے کی نئی روایتیں قائم ہوچکی ہیں۔ کاش! یہ جذبہ فلاحی کاموں کے لیے بھی ہوتا۔ تھر میں اچھے اسپتال اور موبائل اسپتال کی اشد ضرورت ہے۔ چھوٹی عمر میں شادیاں، ماؤں میں وٹامن ڈی کی کمی و غذائی قلت بچوں کی پے درپے اموات کا سبب بن رہی ہے۔ یہ بات سننے میں آئی تھی کہ سندھ حکومت حاملہ ماؤں کو رقم فراہم کرے گی۔ اگر یہ بات سچ ہے تو یہ رقم ماؤں کے بجائے کسی اور کام میں صرف کی جائے گی۔

پچھلے دس بارہ سال میں یہ دیکھا گیا کہ لوگوں میں خود انحصاری کا رجحان کم ہوا ہے۔ جس کی وجہ وہ عوامی عطیات ہیں جو ہر کسی کے حصے میں نہیں آتے۔ مثال بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے بعد لوگوں کی احساس محرومی میں اضافہ ہوا۔ کچھ ہی لوگ یہ معاشی سہولت حاصل کر پائے۔ لوگوں کو ایسی امداد کے بجائے مفت طبی سہولیات کی زیادہ ضرورت ہے۔

آپ یہ فیصلہ کریں کہ پندرہ ہزار ماہانہ (یا اس سے کم) آمدنی والے لوگوں کو مفت طبی سہولتیں مہیا کی جائیں گی۔ جس میں بیواؤں کو بھی شامل کیا جانا چاہیے۔ علاوہ ازیں ان کے بچوں کو مفت تعلیم فراہم کی جانی چاہیے۔ آپ دیکھیے گا کہ فقط اس فیصلے کے بعد سماجی زندگی میں کتنی بڑی تبدیلیاں آئیں گی (خوش فہمی پر مبنی خواب)

دوسری جانب خوشحال طبقہ ہے جو غذائی زیادتی کی وجہ سے بیماریوں و بے خوابی کا شکار ہے۔ خوشحال لوگوں کی دعوتوں و ضیافتوں میں حالت دیکھیے کہ کس طرح کھانے پر ٹوٹ پڑتے ہیں کہ کھانا پیش ہوتے ہی منٹوں میں برتن خالی ہوجاتے ہیں۔ لوگ پلیٹوں کو اس قدر بھر لیتے ہیں کہ کھانا ضایع ہوجاتا ہے جب کہ کافی مہمان کھانا کھائے بغیر رخصت ہوجاتے ہیں۔

ایک اندازے کے مطابق ملک بھر میں چالیس فیصد غذا ضایع ہوجاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ 1.3 بلین غذا ہر سال دنیا بھر کے حق داروں تک نہیں پہنچ پاتی۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ شادی و دیگر خوشی کے مواقعے پر غریب لوگوں کو بھی شامل کرلینا چاہیے۔ انھیں پہلے سے ہی بچا ہوا کھانا غریب بستیوں یا اسپتالوں میں بھیجنے کا انتظام کرلینا چاہیے۔

یہ دیکھا گیا ہے کہ نئی نسل فلاحی کاموں کی طرح مائل ہو رہی ہے۔ جیسے وسائل نہ ہوتے ہوئے بھی غریب بچوں کو مفت تعلیم فراہم کرنا، ضرورت مندوں کی مدد کرنا وغیرہ۔

جیسے کراچی میں چند نوجوانوں نے غریب مزدوروں کے لیے چائے لالا کے نام سے مفت ناشتے کا اسٹال لگایا ہے جو ایک بوائل انڈا اور چائے کا کپ فراہم کرتے ہیں۔ اکثر لوگ گھروں سے ناشتہ کیے بغیر نکل جاتے ہیں اور دن بھر بھوکے رہتے ہیں۔

بہت سال پہلے میں نے اپنی رحمدل دوست کو دیکھا کہ وہ کام پر آنے والی عورتوں کو اپنے ہاتھوں سے ناشتہ (وہ کھانا خود بناتی تھی) تیار کرکے کھلاتی۔ اس کا موقف تھا معلوم نہیں ان کے گھروں کی کیا معاشی حالت ہو۔ ان کے جسموں میں توانائی ہوگی تو کام بھی کر پائیں گی۔ مجھے اس کے ان جملوں سے بڑی رہنمائی ملی۔

یہ حقیقت ہے کہ ہم اگر بڑے پیمانے پر فلاحی کاموں میں حصہ نہیں لے سکتے مگر گھر میں کام کرنے والے ملازموں کے مناسب کھانے پینے کا بندوبست کرسکتے ہیں۔ کھانا تو درکار ان لوگوں سے غیر انسانی رویہ روا رکھا جاتا ہے۔ چھوٹے لوگ جو ٹھہرے۔

یہ حقیقت ہے کہ حق دار کو اس کا حق نہیں دیا جاتا تو دوسری طرف کام پر آنے والے ملازمین کو کھانے کا نہیں پوچھا جاتا۔ اکثر ہمارے گھروں میں مہمان آتے ہیں۔ ان کی خاطر تواضح کی جاتی ہے۔ مگر باہر کھڑے ڈرائیور کو کھانے کی اشیا، چائے پانی نہیں بھیجا جاتا۔ جب کہ اس کا حق پہلے بنتا ہے۔

کسی اخبار میں پڑھا تھا کہ انڈیا میں کھانے کا ایک ایسا بینک ہے جس میں ایک وقت کا کھانا جمع کرکے اپنا اکاؤنٹ کھولا جاسکتا ہے۔ ہمارے ملک میں ایک وقت کا کھانا عطیے کے طور پر دیا جاسکتا ہے مگر جتنی خوشحالی آئی ہے ذہنوں کی تنگی بڑھی ہے۔کسی سیانے کا قول ہے کہ ''ذہن میں غربت ہو تو خوشحالی دستک نہیں دیتی۔'' دل میں فیاضی ہو تو بے دریغ وسائل جنم لیتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ خوشحالی کا تعلق ذہن کی مثبت سوچ اور فراخ دلی سے ہے۔

آج کل اس قدر شدید گرمی پڑ رہی ہے۔ آپ کچھ اور نہیں کرسکتے تو دو تین ٹھنڈی پانی کی بوتلیں ساتھ لے جائیے۔ ٹھنڈے پانی کا انتظام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ پہلے انتظار گاہیں ہوا کرتی تھیں۔ جن کا اب نام و نشان مٹ چکا ہے۔ ہم لوگوں سے فطری سائبان بھی چھین رہے ہیں۔ نئی عمارتوں کی وجہ سے درخت کاٹ دیے جاتے ہیں۔

ماحولیات کے ماہرین نے بہت پہلے گرمی کی شدت میں اضافے کا اعلان کردیا تھا۔ اگر چند سال پہلے درخت لگائے جاتے تو گرمی کی شدت سے کسی حد تک لڑا جاسکتا تھا۔ صورتحال یہ ہے کہ سبزے یا درختوں کا کہیں نام و نشان نہیں ہے۔ ان گرمیوں میں پرندوں اور جانوروں کے لیے پانی کا انتظام کرنا نہ بھولیے گا۔ ذات کے لیے جینے والوں کو کچھ نہیں ملتا سوائے ذہنی امراض کے۔ اپنی ذات میں بہتری چاہتے ہیں تو تکلیف میں مبتلا انسانوں کے دکھوں کا مداوا کیجیے۔

خدا کے دل میں جگہ بنانے سے پہلے انسان کے دل میں بسنے کا ہنر سیکھنا پڑتا ہے۔ مثبت رویوں کی جتنی توانائی بانٹی جائے گی، وہ دو گنی ہوکر آپ کی طرف لوٹ آئے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں