کمیونزم سے صوفی ازم تک
کمیونزم کا راستہ ہموارکرنے والے جام ساقی جب حکومتی ایوانوں سے مایوس ہوکرگھر لوٹے تو انھوں نے صوفی ازم میں پناہ ضرورلی۔
سرد جنگ کے دوران افغانستان سے اُس پار جھانکنا بھی گناہ تھا کہ وہاں کمیونسٹ آباد تھے۔ نوجوانوں کو خاص طور پر یہ سبق ازبر کروایا جاتا کہ کمیونسٹ شیطان سے بھی بری مخلوق کا نام ہے۔ اس سوچ کو پروان چڑھانے کے لیے امریکا نے اپنی تجوریاں کھول دیں اور اس کی تشہیر کرنے والی آوازیں ڈالرکی بڑھتی ہوئی قیمت کی طرح ہوا میں پرواز کرنے لگیں۔
چند دن قبل ایک غیر ملکی خبر رساں ادارے کو دیا جانے والا سعودی عرب کے ولی عہد کا انٹرویو اس بات کا اہم ثبوت ہے جو آج کل موضوع بحث بھی بنا ہوا ہے۔ اس انٹرویومیں انھوں نے انکشاف کیا تھا کہ سرد جنگ کے زمانے میں مغربی ممالک کے کہنے پر سرمایہ لگاکر مسلمان ممالک کو روس سے دور رکھنے کی بھر پورکوشش کی گئی۔
اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ ماضی میں بائیں بازوکے کچھ ناسمجھ کارکنوں نے مذہب کے خلاف بہت سخت رویہ اپنائے رکھا جسے قطعا درست عمل نہیں کہا جا سکتا۔ ان کے اس عمل سے مذہب کو تو کوئی نقصان نہ پہنچا، مگروہ خود معاصر سیاسی تحریکوں سے دور ہوتے چلے گئے، لیکن اتنی خراب صورتحال بھی نہیں تھی کہ چند افراد کی وجہ سے تمام کمیونسٹوں کو ایسی مخلوق قرار دیا جاتا جن سے بات کرنا بھی چھوت چھات کے زمرے میں آتا ہو۔
طالب علمی کے زمانے سے کمیونزم کا پرخار راستہ اختیارکرنے اور زندگی بھر قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے والے ہمارے ملک کے ایک محب وطن کمیونسٹ نے یہ سوچ کر پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیارکی کہ وہ ہاریوں، مزدوروں اور بانڈڈ لیبر کی زندگی بدلنے کی مقدور بھرکوشش کر ے گا، مگر حکومتی مشیر ہونے کے باوجود اس کی سوچ اور منصوبے اس لیے کامیاب نہ ہو سکے کہ حکومت کے ایوانوں میں بھی وہی لوگ بیٹھے ہوئے تھے، جن کے محلات کی تعمیر مزدوروں اور ہاریوں کے خون پسینے کی مرہون منت تھی۔
آخرکار وہ مایوس ہوکر دوبارہ خدمت خلق کے عملی میدان میں کود پڑا اور ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے پلیٹ فارم سے اقلیتوں اور بانڈڈ لیبر کے لیے کام کرنے لگا لیکن بڑھاپے کی وجہ سے ہاتھ پیر جواب دینے لگے تو اس نے صوفی ازم کی گود میں پناہ لینے کا فیصلہ کیا اور اپنے گھر تک محدود ہو کر رہ گیا۔ایک دن حیدر آبادکے ایک بوسیدہ مکان میں جب ہم اُس درویش صفت انسان سے ملنے کے لیے داخل ہوئے تو وہ پلنگ پر تکیے سے ٹیک لگائے نیم دراز تھا۔
ملک بھر کے سیاسی کارکن اور سوشلسٹ تحریک سے جڑی بین الاقوامی تنظیمیں اس شخص کو جام ساقی کے نام سے جانتی تھیں اور یہ کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کا سابق سیکریٹری جنرل تھا، مگر ماضی کی طرح اب خفیہ ایجنسی والے اس کا پیچھا کر رہے تھے اور نہ ہی اس پر پولیس کا پہرہ تھا، ہاںمفلوک الحالی نے گھر کے درو دیوار کو اپنے پنجوں میں ضرور جکڑ رکھا تھا۔
جام ساقی سے باتوں کا سلسلہ چلا تو گھنٹوں بیت گئے۔ وہ بتا رہے تھے کہ ان کے آبا و اجداد کا تعلق جیلسمیر سے تھا جن میں سے کچھ راجا اور کچھ ڈکیت تھے۔ ان کے خیال میں راجا اور ڈکیت میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ ان کی کہی یہ بات یوں سچ نکلی کہ آج کل ہمارے آس پاس یہی کچھ تو ہو رہا ہے۔
جام ساقی بتا رہے تھے کہ ان کے سگھڑ دادا کسی شخص کو قتل کرنے کے بعد اس کی بیوی کو بھگا لائے تھے اور اس ڈر سے مسلمان ہو گئے تھے کہ کوئی انھیں بھی قتل نہ کر دے۔ اس ملاقات کے بعد جام ساقی سے ہماری کئی ملاقاتیں ہوئیں، مگر ان کی صحت مسلسل گرتی چلی گئی اور ایک دن ان کے انتقال کی خبر بھی آ گئی۔
پچھلے دنوں جام ساقی کو یاد کرنے کے لیے دوسرے شہروں کی طرح کراچی کے سماجی کارکن، انسانی حقوق کے نمایندے، مزدور اور بائیں بازو کی پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے سیاسی کارکن بھی ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوئے۔ جس ہال میں یہ پروگرام جاری تھا اس کے دروازے پر ایک بک اسٹال بھی لگا ہوا تھا جہاں ''جام ساقی'' کے نام سے ایک کتاب بک رہی تھی۔ ہم نے کتاب خریدنے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو اس پر لکھی ہوئی قیمت نے سانپ کی طرح ہمارے ہاتھ پر ڈنک مار دیا۔
مصنفین میں احمد سلیم اور نزہت عباس کا نام پڑھا تو تھوڑا سا شک ہوا کہ شاید یہ کوئی نیا احمد سلیم ہے اس لیے کہ جس معروف ادیب و مصنف اور سیاسی کارکن احمد سلیم سے ہم واقف ہیں اس نے تو آج تک کوئی بھی تخلیقی اور تحقیقی کام ا دھورا نہیں چھوڑا لیکن یہ کتاب جام ساقی کی ادھوری کہانی تھی۔ تحقیقی لحاظ سے انتہائی اہم کتاب ہونے کے باوجود اس میں جام ساقی کی زندگی کے صرف ایک ہی پہلو کو مد نظر رکھا گیا اور ان کی زندگی کے بہت سارے اہم گوشے فراموش کر دیے گئے۔
کچھ لوگوں کا یہ خیال ہے کہ کمیونسٹ تحریک سے تعلق رکھنے والے کارکن نہ فلمیں دیکھتے ہیں نہ ڈرامے اور نہ ادب و شعر یا فنون لطیفہ سے انھیں کوئی خاص رغبت ہوتی ہے جو درست نہیں۔ اگر جام ساقی کی شخصیت کو سامنے رکھ کر یہ بات کہی جائے تو قطعاً درست نہیں ہوگی۔وہ صرف بائیں بازو کے سیاسی کارکن نہیں تھے بلکہ سات کتابوں کے مصنف تھے بھی تھے جن میں 1973ء کے زمانے میں چھپنے والا سندھی زبان کا ناول''کھاھوڑی کھجن'' بھی شامل تھا۔ یہ ناول بعد میں ''دھرتی مانگے دان'' کے نام سے اردو میں بھی چھاپا گیا تھا۔
جام ساقی انتہائی تنقیدی انداز سے فلم اور ڈرامے کا بھی جائزہ لیتے اور ہر نئی آنے والی کتاب کا مطالعہ کرنے کے ساتھ ایک اخبار میں باقاعدگی سے کالم بھی لکھتے تھے۔ نہ صرف ماضی کی فلموں بلکہ درمیانی دور میں بننے والی آرٹ فلموں سے بھی انھیں گہرا شغف تھا اور وہ ترقی پسند شاعروں اور ادیبوں کے علاوہ پنجابی زبان کے انقلابی شاعر استاد دامن کو بھی بہت پسند کرتے تھے۔ وہ اٹھتے بیٹھتے صوفی شعرا کو بھی دہراتے تھے اور جوانی میں باقاعدگی کے ساتھ کرکٹ بھی کھیلتے رہے۔
کمیونزم کا راستہ ہمورا کرنے والے جام ساقی جب حکومتی ایوانوں سے مایوس ہوکرگھر لوٹے تو انھوں نے صوفی ازم میں پناہ ضرور لی مگر اُس نظریے کو فراموش نہ کرسکے جس کی ترویج کے لیے وہ بنجاروں کی طرح عمر بھر بستی بستی اورگاؤں گاؤں جا کر مزدوروں، ہاریوں، محنت کشوں اور اقلیتوں کے حقوق کا درس دیتے رہے ۔
چند دن قبل ایک غیر ملکی خبر رساں ادارے کو دیا جانے والا سعودی عرب کے ولی عہد کا انٹرویو اس بات کا اہم ثبوت ہے جو آج کل موضوع بحث بھی بنا ہوا ہے۔ اس انٹرویومیں انھوں نے انکشاف کیا تھا کہ سرد جنگ کے زمانے میں مغربی ممالک کے کہنے پر سرمایہ لگاکر مسلمان ممالک کو روس سے دور رکھنے کی بھر پورکوشش کی گئی۔
اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ ماضی میں بائیں بازوکے کچھ ناسمجھ کارکنوں نے مذہب کے خلاف بہت سخت رویہ اپنائے رکھا جسے قطعا درست عمل نہیں کہا جا سکتا۔ ان کے اس عمل سے مذہب کو تو کوئی نقصان نہ پہنچا، مگروہ خود معاصر سیاسی تحریکوں سے دور ہوتے چلے گئے، لیکن اتنی خراب صورتحال بھی نہیں تھی کہ چند افراد کی وجہ سے تمام کمیونسٹوں کو ایسی مخلوق قرار دیا جاتا جن سے بات کرنا بھی چھوت چھات کے زمرے میں آتا ہو۔
طالب علمی کے زمانے سے کمیونزم کا پرخار راستہ اختیارکرنے اور زندگی بھر قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے والے ہمارے ملک کے ایک محب وطن کمیونسٹ نے یہ سوچ کر پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیارکی کہ وہ ہاریوں، مزدوروں اور بانڈڈ لیبر کی زندگی بدلنے کی مقدور بھرکوشش کر ے گا، مگر حکومتی مشیر ہونے کے باوجود اس کی سوچ اور منصوبے اس لیے کامیاب نہ ہو سکے کہ حکومت کے ایوانوں میں بھی وہی لوگ بیٹھے ہوئے تھے، جن کے محلات کی تعمیر مزدوروں اور ہاریوں کے خون پسینے کی مرہون منت تھی۔
آخرکار وہ مایوس ہوکر دوبارہ خدمت خلق کے عملی میدان میں کود پڑا اور ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے پلیٹ فارم سے اقلیتوں اور بانڈڈ لیبر کے لیے کام کرنے لگا لیکن بڑھاپے کی وجہ سے ہاتھ پیر جواب دینے لگے تو اس نے صوفی ازم کی گود میں پناہ لینے کا فیصلہ کیا اور اپنے گھر تک محدود ہو کر رہ گیا۔ایک دن حیدر آبادکے ایک بوسیدہ مکان میں جب ہم اُس درویش صفت انسان سے ملنے کے لیے داخل ہوئے تو وہ پلنگ پر تکیے سے ٹیک لگائے نیم دراز تھا۔
ملک بھر کے سیاسی کارکن اور سوشلسٹ تحریک سے جڑی بین الاقوامی تنظیمیں اس شخص کو جام ساقی کے نام سے جانتی تھیں اور یہ کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کا سابق سیکریٹری جنرل تھا، مگر ماضی کی طرح اب خفیہ ایجنسی والے اس کا پیچھا کر رہے تھے اور نہ ہی اس پر پولیس کا پہرہ تھا، ہاںمفلوک الحالی نے گھر کے درو دیوار کو اپنے پنجوں میں ضرور جکڑ رکھا تھا۔
جام ساقی سے باتوں کا سلسلہ چلا تو گھنٹوں بیت گئے۔ وہ بتا رہے تھے کہ ان کے آبا و اجداد کا تعلق جیلسمیر سے تھا جن میں سے کچھ راجا اور کچھ ڈکیت تھے۔ ان کے خیال میں راجا اور ڈکیت میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ ان کی کہی یہ بات یوں سچ نکلی کہ آج کل ہمارے آس پاس یہی کچھ تو ہو رہا ہے۔
جام ساقی بتا رہے تھے کہ ان کے سگھڑ دادا کسی شخص کو قتل کرنے کے بعد اس کی بیوی کو بھگا لائے تھے اور اس ڈر سے مسلمان ہو گئے تھے کہ کوئی انھیں بھی قتل نہ کر دے۔ اس ملاقات کے بعد جام ساقی سے ہماری کئی ملاقاتیں ہوئیں، مگر ان کی صحت مسلسل گرتی چلی گئی اور ایک دن ان کے انتقال کی خبر بھی آ گئی۔
پچھلے دنوں جام ساقی کو یاد کرنے کے لیے دوسرے شہروں کی طرح کراچی کے سماجی کارکن، انسانی حقوق کے نمایندے، مزدور اور بائیں بازو کی پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے سیاسی کارکن بھی ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوئے۔ جس ہال میں یہ پروگرام جاری تھا اس کے دروازے پر ایک بک اسٹال بھی لگا ہوا تھا جہاں ''جام ساقی'' کے نام سے ایک کتاب بک رہی تھی۔ ہم نے کتاب خریدنے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو اس پر لکھی ہوئی قیمت نے سانپ کی طرح ہمارے ہاتھ پر ڈنک مار دیا۔
مصنفین میں احمد سلیم اور نزہت عباس کا نام پڑھا تو تھوڑا سا شک ہوا کہ شاید یہ کوئی نیا احمد سلیم ہے اس لیے کہ جس معروف ادیب و مصنف اور سیاسی کارکن احمد سلیم سے ہم واقف ہیں اس نے تو آج تک کوئی بھی تخلیقی اور تحقیقی کام ا دھورا نہیں چھوڑا لیکن یہ کتاب جام ساقی کی ادھوری کہانی تھی۔ تحقیقی لحاظ سے انتہائی اہم کتاب ہونے کے باوجود اس میں جام ساقی کی زندگی کے صرف ایک ہی پہلو کو مد نظر رکھا گیا اور ان کی زندگی کے بہت سارے اہم گوشے فراموش کر دیے گئے۔
کچھ لوگوں کا یہ خیال ہے کہ کمیونسٹ تحریک سے تعلق رکھنے والے کارکن نہ فلمیں دیکھتے ہیں نہ ڈرامے اور نہ ادب و شعر یا فنون لطیفہ سے انھیں کوئی خاص رغبت ہوتی ہے جو درست نہیں۔ اگر جام ساقی کی شخصیت کو سامنے رکھ کر یہ بات کہی جائے تو قطعاً درست نہیں ہوگی۔وہ صرف بائیں بازو کے سیاسی کارکن نہیں تھے بلکہ سات کتابوں کے مصنف تھے بھی تھے جن میں 1973ء کے زمانے میں چھپنے والا سندھی زبان کا ناول''کھاھوڑی کھجن'' بھی شامل تھا۔ یہ ناول بعد میں ''دھرتی مانگے دان'' کے نام سے اردو میں بھی چھاپا گیا تھا۔
جام ساقی انتہائی تنقیدی انداز سے فلم اور ڈرامے کا بھی جائزہ لیتے اور ہر نئی آنے والی کتاب کا مطالعہ کرنے کے ساتھ ایک اخبار میں باقاعدگی سے کالم بھی لکھتے تھے۔ نہ صرف ماضی کی فلموں بلکہ درمیانی دور میں بننے والی آرٹ فلموں سے بھی انھیں گہرا شغف تھا اور وہ ترقی پسند شاعروں اور ادیبوں کے علاوہ پنجابی زبان کے انقلابی شاعر استاد دامن کو بھی بہت پسند کرتے تھے۔ وہ اٹھتے بیٹھتے صوفی شعرا کو بھی دہراتے تھے اور جوانی میں باقاعدگی کے ساتھ کرکٹ بھی کھیلتے رہے۔
کمیونزم کا راستہ ہمورا کرنے والے جام ساقی جب حکومتی ایوانوں سے مایوس ہوکرگھر لوٹے تو انھوں نے صوفی ازم میں پناہ ضرور لی مگر اُس نظریے کو فراموش نہ کرسکے جس کی ترویج کے لیے وہ بنجاروں کی طرح عمر بھر بستی بستی اورگاؤں گاؤں جا کر مزدوروں، ہاریوں، محنت کشوں اور اقلیتوں کے حقوق کا درس دیتے رہے ۔