نواز مریم مقدمات کے فیصلوں کے مختلف منظر نامے 

اگر ملک میں بڑے پیمانے پر احتجاج ہوتے ہیں تو کہا جائے گا کہ مجھے کیوں نکالا کے ثمرات سامنے آرہے ہیں۔


مزمل سہروردی April 05, 2018
[email protected]

نواز شریف' مریم نواز اور کیپٹن صفدر کے خلاف مقدمات اب اپنے آخری مراحل میںداخل ہو رہے ہیں۔ مرکزی گواہ واجد ضیاء پر وکلا کی جرح جاری ہے۔ آپ سمجھ لیں بس یہ مقدمہ ٹیکنیکل طور پر اختتام پذیر ہے۔ مقدمے کا فیصلہ کیا ہو گا اس کا کسی کو کیا پتہ' جب تک احتساب عدالت خود فیصلہ نہیں سنا دیتی۔ تب تک سب قیاس آرائیاں ہیں۔ بہر حال مقدمہ کے فیصلہ کے حوالہ سے بھی دو منظر نامے سامنے ہیں پہلا یہ کہ نواز شریف مریم نواز بری ہو جائیں اور عدالت یہ قرار دے دے کہ استغاثہ اپنے الزامات ثابت کرنے میں نا کام رہا ہے۔

دوسرا منظر نامہ یہ ہے کہ ملزمان اپنی بے گناہی ثابت کرنے میں ناکام ہو گئے ہیں اور استغاثہ نے اپنے تمام الزامات ثابت کر دئے ہیں۔ اس لیے ملزمان کو گناہ گار ٹھہراتے ہوئے سزا سنا دی جائے۔ یہ دونوں منظر نامے ہی پاکستان کی سیاست کے لیے بہت دلچسپ ہیں۔

پہلے ہم اس مفروضے پر بات کر لیتے ہیں کہ اگر نواز شریف اور مریم نواز بری کر دیے جاتے ہیں۔ یہ تو سرپرائز ہی ہو جائے گا۔ بلکہ سرپرائز نہیں یہ تو اپ سیٹ ہی ہوجائے گا۔ اس کو تو مجھے کیوں نکالا کی بڑی فتح قرار دے دیا جائے گا۔نواز شریف کی بڑی سیاسی فتح قرار دیا جائے گا۔

نواز شریف کی مقبولیت میں یک دم کئی گنا اضافہ ہو جائے گا۔ گو کہ اپوزیشن اس کو این آر او ہی قرار دے گی۔ اور ملک میں یہ پراپیگنڈہ بھی ہو گا کہ جس این آر او کی باز گشت تھی وہ منظر پر آگیا ہے۔ لیکن انتخابات سے قبل نواز شریف کی بریت نواز شریف کے اگلے دور اقتدار کی نوید سمجھی جائے گی۔ ملک میں ماحول بن جائے گا کہ نوازشر یف دوبارہ آرہے ہیں۔ مریم نواز ایک بہت بڑی سیاسی ہیرو بن جائیں گی۔ اور یہ کہا جائے گا کہ یہ سب ان کی جارحانہ پالیسی کے ثمرات ہیں۔

عمران خان ڈپریشن میں چلے جائیں گے۔ تحریک انصاف کو بہت بڑا دھچکا لگے گا۔ چوہدری نثار علی خان کی سیاست کا وقتی طورپر بوریا بستر گول ہو جائے گا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق شہباز شریف کو بھی دوبارہ وزارت اعلیٰ نہیں ملے گی بلکہ ان کا سیاسی کردار کم ہو جائے گا۔ پرویز رشید یک دم بہت اہم ہوجائیں گے۔ آپ سمجھ لیں نواز شریف پاکستان کے طیب اردگان بن جائیں گے۔

اسٹبلشمنٹ کو بہت بڑا دھچکالگے گا۔ ایسا لگے گا کہ پاکستان میں سیاست میں حکومت سازی میں اسٹبلشمنٹ کا کردار ختم ہو گیا ہے۔ میں یہ اس لیے کہہ رہا ہوں کہ ایسا لگے گا کیونکہ سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد بھی ایسا ہی لگا تھا لیکن ایسا نہیں ہوا تھا۔ نواز شریف کی نا اہلی بھی بے معنی ہو جائے گی۔ عدلیہ پر دباؤ آئے گا کہ نا اہلی ختم کی جائے۔ اسٹیبلشمنٹ کے مداح کومے میں چلے جائیں گے۔

دوسرا منظر نامہ ہے کہ نواز شریف مریم نواز کیپٹن صفدر کو سزا سنا دی جاتی ہے۔ اس وقت موجودہ حالات میں یہ منظر نامہ حقیقت کے قریب تر لگ رہا ہے۔ سارا ماحول ہی یہ بن رہا ہے کہ سزا ہو جائے گی۔ آپ کہہ لیں تمام فریقین اسی بات کو سامنے رکھ کر پالیسی بنا رہے ہیں کہ سزا ہو جائے گی۔

بے شک نواز شریف اور مریم نواز روز عدالت کے باہر آکر یہی کہہ رہے ہیں کہ ان کے خلاف مقدمہ میں کوئی مواد نہیں ہے لیکن سیاسی طور پر وہ بھی یہی تیاری کر رہے ہیں کہ ان کو سزا ہو ہی جائے گی۔ مسلم لیگ (ن) کی بھی ساری سیاسی قیادت کو یہی یقین ہے کہ سزا ہو جائے گی۔ خود مسلم لیگ (ن) بھی اسی منظر نامہ کو سامنے رکھ کر پلاننگ کر رہی ہے کہ نواز شریف کو سزا ہو جائے گی۔ حتیٰ کے عمران خان اور دیگر سیاسی جماعتوں کی پلاننگ بھی اسی بنیاد پر ہو رہی ہے کہ سز ا ہو جائے گی۔

اب اگر فرض کر لیا جائے کہ سزا ہو جائے گی تو پھر کیا ہوگا۔ ایک دفعہ نواز شریف اور مریم نواز جیل جائیں گے۔ ان کے جیل جانے پر کیا ہو گا۔ کیا ملک میں بڑے پیمانے پر کوئی احتجاج ممکن ہو سکے گا ۔ میرے خیال میں یہ مجھے کیوں نکالا کی مقبولیت کا دعویٰ کرنے والوں کا سب سے بڑا امتحان ہو گا۔

اگر ملک میں بڑے پیمانے پر احتجاج ہوتے ہیں تو کہا جائے گا کہ مجھے کیوں نکالا کے ثمرات سامنے آرہے ہیں۔ لوگ نواز شریف کے بیانیہ سے جڑ گئے ہیں۔ لیکن اگر معمولی احتجاج ہوتے ہیں۔ اراکین اسمبلی اور ٹکٹ مانگنے والوں کے ذریعے مانگے تانگے کے احتجاج کروائے جاتے ہیں تو اس کا مثبت کے بجائے منفی اثر ہو گا۔ ساری مقبولیت کا پول کھل جائے گا۔

یہ اصل امتحان ہو گا ۔ جس طرح عمران خان دھرنے میں مطلوبہ تعداد میں لوگوں کو باہر لانے میں کامیاب نہیں ہو سکے تھے اسی لیے دھرنا پہلے مرحلہ میں ہی اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام ہو گیا تھا۔ اسی طرح اگر نواز شریف اور مریم نواز کے جیل جانے کے بعد ملک میں کوئی بڑی احتجاجی تحریک شروع نہیں ہوتی تو یہ نواز شریف اور مریم نواز کی سیاست کو بہت بڑا دھچکا ہو گا۔

سوال یہ بھی ہے کہ نواز شریف اور مریم نواز کے جیل جانے کے بعد اس تحریک کی قیادت کون کرے گا۔ ابھی تک نواز شریف نے کسی ایک کو اپنا ایسا نمبر ٹو قرار نہیں دیا کہ وہ بعد میں کسی احتجاجی تحریک کی قیادت کر سکے۔ مریم نواز خود جیل میں ہو نگی ایک ہی صورت ہو سکتی ہے کہ نواز شریف کو سزا ہو جائے اور مریم نواز بچ جائیں ۔ لیکن یہ تو گناہ بے لذت ہو جائے گا۔ ایسا کرنے سے نواز شریف کو دی جانیوالی سزا بھی بے معنی ہو جائے گی۔

مریم نواز نہ صرف ایک احتجاجی تحریک چلائیں گی بلکہ اس تحریک کی صورت میں مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو بھی ہائی جیک کر لیں گی۔ وہ سڑکوں پر ہو نگی اور مسلم لیگ (ن) کی غیر اعلانیہ سربراہ بھی بن جائیں گی۔ مریم نواز کے لیے اس سے بہترین کوئی صورتحال نہیں ہو سکتی کہ ابا جی جیل میں ہوں اور وہ ابا جی کی رہائی کے لیے تحریک چلائیں۔ وہ چچا سمیت سب کو گھر بٹھا دیں گی اور ساری سیاست پر قبضہ کر لیں گی۔

لیکن اگر مریم نوازکو بھی ساتھ سزا ہو جاتی ہے۔ پھر کیا ہو گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ پھر مجھے کیوں نکالا کی بھی سیاسی موت ہو جائے گی۔ یہ وہ صورتحال ہو گی جہاں سے مجھے کیوں نکالا کی نئی شکل سامنے آئے گی جو ہو گی کہ ہمیں بچاؤ۔ ہمیں نکالو۔ یہاں سے مسلم لیگ (ن) کے اندر اس گروپ کی بات اہم ہو گی جو کہہ رہا تھا کہ اداروں سے لڑائی کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ اس کا نقصان ہی نقصان ہو گا۔

اس موقع پر شہباز شریف شدید دباؤ میں ہونگے۔ ایک طرف مسلم لیگ کی قیادت ان کے پاس ہو گی دوسری طرف بھائی بھتیجی اور داماد جیل میں ہو نگے۔ یہ شہباز شریف کی سیاست کا سب سے بڑا امتحان ہو گا۔ دوست انھیں مشورہ دیں گے کہ وہ تحمل کا مظاہرہ کریں دوسری طرف سے دباؤ ہو گا کہ سڑکوں پر آجائیں۔ تباہی مچا دیں۔

ایک طرف مجھے کیوں نکالا والوں کا دباؤ ہو گا۔ دوسری طرف جوش نہیں ہوش کے مشورے ہو نگے۔ اندر والے کہیں گے ہمیں باہر نکالو۔ بات مجھے کیوں نکالا سے ہمیں باہر نکالو پر پہنچ جائے گی۔ شہباز شریف کیا کریں گے۔ میں سمجھتا ہوں کہ انھیں جوش نہیں ہوش سے کام لینا ہو گا۔

نواز شریف اور مریم نواز کے جیل جانے کو پوائنٹ آف نو ریٹرن نہیں بنانا ہو گا۔ انھیں نواز شریف اور مریم نواز کو ملنے جیل بھی جانا ہو گا اور انھیں باہر نکالنے کا بھی انتظام کرنا ہو گا۔ ایسا بھی ماحول انھیں بنانا ہو گا کہ لگے کے بس گیم مسلم لیگ (ن) کے ہاتھ سے نکل گئی۔ انھیں ایسے ماحول سے بھی بچنا ہو گا کہ یہ رائے بن جائے کہ نواز شریف گیا تو سب گیا۔

یہی وہ موقع ہو گا جب شہباز شریف کو مسلم لیگ (ن) کی کشتی کو طوفان سے نکالنا ہے۔ یہ طوفان جان لیوا بھی ہو سکتا ہے لیکن اگر وہ اس کشتی کو اس میں سے نکال کر لے گئے تو وہ وزارت عظمیٰ تک بھی پہنچ جائیں گے۔ ورنہ شہباز شریف کی سیاست کا بھی بوریا بستر گول ہو جائے گا۔ شہباز شریف کی اس وقت کی خاموشی کوئی بے معنی نہیں ہے۔شاید انھیں علم ہے کہ ان کی اصل اننگ ابھی شروع نہیں ہو ئی۔ لیکن اس کی تیاری شروع ہو گئی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں