امریکا بھر میں ہتھیاروں کے خلاف مظاہرے

دنیا میں قومی اور بین الاقوامی سطح تک قتل وغارت گری کا جو بازار گرم ہے اس میں بنیادی کردار ہتھیار کا ہے۔


Zaheer Akhter Bedari April 05, 2018
[email protected]

27 مارچ کو امریکا بھر میں ہتھیاروں کے خلاف مظاہرے ہوئے جن میں لاکھوں انسانوں نے بلا تخصیص مذہب و ملت حصہ لیا۔ یہ ایسا واقعہ ایسی خبر تھی کہ دنیا بھر کے میڈیا میں اس کو ہائی لائٹ کیا جانا چاہیے تھا چونکہ دنیا بھرکے میڈیا تک ہماری رسائی نہیں ، لہٰذا ہم وثوق کے ساتھ یہ نہیں کہہ سکتے کہ دنیا کی اس سب سے زیادہ اہم خبر کو کتنی کوریج ملی لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پاکستانی میڈیا نے اس دنیا کی اہم ترین خبرکوکوریج نہیں دی۔

دنیا میں انفرادی سطح سے لے کر قومی اور بین الاقوامی سطح تک قتل وغارت گری کا جو بازار گرم ہے اس میں بنیادی کردار ہتھیار کا ہے جو لوگ ہتھیاروں کی تباہ کاری کا ادراک رکھتے ہیں وہ اس کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں۔ پندرہ سال پہلے جب میں نے روزنامہ ایکسپریس میں کالم لکھنا شروع کیا تو میرا پہلا کالم ہتھیاروں کی تیاری اور تجارت کے خلاف تھا۔ اس کالم کا عنوان ہی ''ہتھیاروں کی تیاری اور تجارت'' تھا۔

میں ذاتی طور پر برسوں سے ہتھیاروں کی تیاری اور تجارت کے خطرناک نتائج سے واقف ہوں اور دنیامیں ہونے والی قتل و غارت گری کی اصل اور بنیادی ذمے داری ہتھیاروں کی سمجھتاہوں۔

دنیا میں جتنی جنگیں لڑی گئیں جن میں پہلی اور دوسری عالمی جنگ بھی شامل ہے ان جنگوں کا فیصلہ اگرچہ حکمرانوں نے کیا لیکن ایک عام جنگ سے لے کر دوسری عالمی جنگ کے دوران 1945 میں ناگاساکی اور ہیرو شیما میں بھی وہ خطرناک ترین ہتھیار استعمال کیے گئے جسے ہم ایٹم بم کے نام سے جانتے ہیں۔ ان ایٹم بموں نے پلک جھپکتے میں لاکھوں انسانوں اور عمارتوں کو جلاکر رکھ دیا۔

ہتھیاروں کی تباہی و بربادی کے تناظر میں ایک افسانہ لکھا گیا تھا جس کا عنوان ''پڑتال'' تھا یہ ایک ایسے جوڑے کی کہانی ہے جس میں فوجی میاں ملک کی فوج کے ٹینک یونٹ میں کام کرتا تھا اور بیوی ہتھیار بنانے والی ایک ہیوی کمپلیکس میں ریسیپشنسٹ کا کام کرتی تھی، دونوں ایک خوشگوار زندگی گزار رہے تھے کہ میاں کو عراق کی جنگ میں جانے کا حکم ملا دونوں ابھی اپنی شادی کا ہنی مون منارہے تھے کہ شوہر کو فوری عراق جانے کا حکم ملا'' حکمِ حاکم مرگِ مفاجات'' ہیری کو عراق جانا پڑا یہ بڑی خطرناک اور جان لیوا جدائی تھی۔

ہیری اس کہانی کا ہیرو بیوی کو روتا چھوڑ کر عراق چلا گیا۔ روزی ہیری کی بیوی ٹی وی کے سامنے بیٹھی عراقی جنگ کی خبریں دیکھتی رہتی تھیں۔ دوران جنگ ٹی وی پر روزی کی نگاہیں ٹینکوں کی نقل و حرکت پر جمی رہتی تھیں جب کوئی ٹینک ہٹ ہوجاتا تھا تو روزی کی چیخ نکل جاتی تھی، ہیری کی ممکنہ موت کے احساس نے اسے نفسیاتی مریض بنا دیا تھا۔

آخر چند دن بعد اسے یہ روح فرسا خبر ملی کہ ہیری کا ٹینک ہٹ ہوگیا اور ہیری ٹینک میں جل کر مرگیا۔ اس خبر نے روزی کو نیم پاگل بنادیا ، وہ کچھ دن ہیری کے غم میں مبتلا رہی اس کے بعد اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے ہتھیاروں کے ہیوی کمپلیکس کے خلاف مزدوروں کو منظم کرے گی۔ کارخانے کے مزدور روزی کی بہت عزت کرتے تھے ۔

ہیری کی موت کے بعد روزی کی دلجوئی میں لگے رہتے ۔ ایک دن روزی نے مزدوروں کی ایک میٹنگ بلائی اور انھیں ہتھیاروں کی تیاری کے خلاف ہموار کرکے ہڑتال پر آمادہ کرلیا ۔ ہڑتالیوں کا مطالبہ تھا کہ کارخانے میں ہتھیاروں کی تیاری بند کرکے انسانی ضرورتوں کی اشیا تیار کی جائیں۔

اس ہڑتال کی خبر صنعتی علاقوں میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور دوسرے کارخانوں کے مزدوروں کے علاوہ شہری بھی بڑی تعداد میں ہڑتالی کیمپ آنے لگے ۔ آہستہ آہستہ یہ ہڑتال پھیلنے لگی روزی حاملہ تھی جب ڈلیوری کا وقت آیا تو روزی نے کہاکہ وہ اسپتال نہیں جائے گی، اسی ہڑتالی کیمپ میں اپنے بچے کو جنم دے گی ۔ مزدوروں نے ہڑتالی کیمپ ہی میں پردے تان دیے اور ایک نرس کو لے آئے۔ یوں ہڑتالی کیمپ میں مرحوم ہیری کا بیٹا پیدا ہوا جب اس کی خبریں صنعتی علاقوں میں پہنچی تو کئی فیکٹریوں میں ہڑتال ہوگئی۔

روزی کو پولیس گرفتارکرکے لے گئی اور نومولود ہیری جونیئر جھولے میں لیٹا ہڑتال کی قیادت کرنے لگا۔ ہڑتالیوں کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ کارخانوں میں ہتھیاروں کی تیاری کا سلسلہ بند کرکے انسان کی ضرورتوں کی اشیاء تیارکی جائیں اس مطالبے نے ہتھیاروں کی صنعتوں کے مالکان کی نیندیں اڑا دیں۔

27 مارچ کو سارے امریکا میں ہونے والے مظاہروں کے شرکا کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ ہتھیاروں کی تیاری بند کرو اورکارخانوں میں انسانی ضرورت کی اشیا تیارکرو۔ یہ سلسلہ صرف امریکی عوام کا نہیں ساری دنیا کے عوام کا ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ دنیا کے اس اہم ترین اور دنیا کو ہتھیاروں کی صنعت سے چھٹکارا دلانے کی اس تحریک کو ساری دنیا کا میڈیا ہائی لائٹ کرے۔

ہتھیاروں کی صنعت میں کھربوں ڈالر لگے ہوئے ہیں اور اس صنعت کے مالکان اربوں ڈالر کا منافع کما رہے ہیں۔ ہتھیاروں کی ڈیمانڈ پیدا کرنے کے لیے سامراجی ملک اور ہتھیاروں کی صنعت کے مالکان نے بھاری رقوم کے معاوضے پر ایسے ماہرین رکھے ہیں جو دنیا میں علاقائی جنگوں کا ماحول بناتے ہیں ان کو یہ احساس نہیں ہوتا کہ دنیا میں انفرادی سطح تک ہونے والے قتل سے لے کر قومی اور بین الاقوامی سطح تک ہونے والی جنگوں میں ہتھیار ہی مرکزی کردار ادا کرتا ہے۔

پہلی اور دوسری عالمی جنگوں میں جو کروڑوں انسان مارے گئے ان کے اصل قاتل ہتھیار ہی تھے آج بھی انفرادی سطح سے لے کر قومی سطح تک لڑی جانے والی جنگوں میں ہتھیار ہی بنیادی کردار ادا کررہے ہیں ۔ ہتھیاروں کی تیاری کو روکنا آسان نہیں کیونکہ اس خوفناک صنعت میں کھربوں کا سرمایہ لگا ہوا ہے اور اس صنعت کے مالکان اربوں ڈالر کما رہے ہیں۔

دنیا کے 7 ارب انسان امن چاہتے ہیں انھیں پتا ہے کہ ان کی غربت اور بد حالی کی ایک وجہ یہ ہے کہ قومی دولت کا بہت بڑا حصہ دفاع پر خرچ ہو رہا ہے، اگر دفاع پر خرچ ہونے والے کھربوں ڈالر غریب انسانوں کے معیار زندگی کو بلند کرنے کے لیے استعمال کیے جائیں تو دنیا سے غربت کا نام و نشان مٹ جائے گا اور انسان جنگوں کی تباہ کاریوں سے بچ جائے گا۔ جنگوں کی بنیادی وجہ ''قومی مفادات کا تحفظ ہے'' دنیا میں ایسے عالم، ایسے دانشور، ایسے مفکر موجود ہیں جو قومی مفاد کو عالمی مفادات کے تابع کرکے جنگوں کی اصل وجہ کو ختم کرسکتے ہیں۔

ایٹمی ہتھیار دنیا کے 7ارب انسانوں کے سر پر تلوار کی طرح لٹک رہے ہیں۔ساری دنیا کے حکمران طبقات اس حقیقت سے اچھی طرح واقف ہیں کہ ایٹمی ہتھیار استعمال ہو ہی نہیں سکتے کیونکہ ایٹمی ہتھیار کے استعمال کا مطلب ساری دنیا کی تباہی ہے ۔ بے اثر بے فیض اقوام متحدہ کو ختم کرکے دنیا کے مفکروں، دانشوروں، فلسفیوں، صحافیوں، ادیبوں، شاعروں، فنکاروں پر مشتمل اقوام متحدہ بنائی جاتی ہے تو وہ نہ صرف ہتھیاروں کی تیاری اور تجارت پر پابندیاں لگاسکتی ہے بلکہ قومی مفاد کو عالمی مفادات کے تابع کرکے جنگوں کا خاتمہ کرسکتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں