مجھے میرا مکان دو
وفاقی اورسندھ حکومت گرین بس پراجیکٹ کا معاملہ طے نہیں کرپارہی ہے توکیا15سال سے جومتاثرین ہیں اُن کے آنسوپونچھ سکے گی۔
وہ بار بار اپنے دوپٹے سے اپنے آنسو صاف کر رہی تھی۔ اُنکی عمر میری امی سے زیادہ تھی۔ اس عمر میں سرکاری دفاترکے چکر لگانا اُن کا معمول تھا۔ جس گھر میں آمدنی کا ذریعہ ہی بہت کم ہو وہاں وہ روزانہ 100 روپے خرچ کرکے اپنے مکان کی تلاش میں تھی۔
یہ دو خواتین رو رو کر یہ کہہ رہی تھی کہ لیاری ایکسپریس وے بن چکا، لیکن ہم متاثرین کو ابھی تک ہماری جگہ نہیں مل پائی ہے۔ نئے آئے ہوئے پراجیکٹ ڈائریکٹر نے انھیں اپنے کمرے میں بلایا۔ مسئلہ سُنا اور فوری کارروائی کا حکم دے دیا، لیکن میری نم آنکھوں میں ابھرے سوال بہت گہرے ہوتے جا رہے تھے۔
ہمارے یہاں لوگوں کو حکومت پراعتبارکیوں نہیں ہوتا؟ بڑے بڑے پراجیکٹ شروع کیے جاتے ہیں ۔ان پر تخمینہ ہمیشہ بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے، جو پراجیکٹ ایک سال میں مکمل ہونا ہوتا ہے اُس پر پانچ سال لگ جاتے ہیں اور پھر اپنے مکمل ہونے کے قریب پہنچ کر وہ پراجیکٹ بے جان ہوجاتا ہے۔
کراچی کی گرین بس ہو یا ماضی کا ایکسپریس وے۔آخر یہ عوامی امنگوں اور ضروریات پرکیوں پورا نہیں اتر پاتے۔ بہت شور سُن رہے ہیں ہم کراچی میں گرین بس کا لیکن کیا یہ عوام کی ضروریات کو مدنظر رکھ کر بنایا گیا ہے۔کیا لاہور میں چلنے والی بس اپنی ''شو۔ شا'' کے علاوہ واقعی لاہورکے غریب آدمی کی ضرورت کو پورا کرنے میں کامیاب ہوسکی ہے۔
کراچی میں گزشتہ 15 سال میں تین بار بس کے پراجیکٹ شروع کیے گئے۔ نعمت اللہ خان کی گرین بس ہو یا پھر مصطفیٰ کمال کا دور۔ آخر اربوں روپے خرچ کرنے کے بعد یہ منصوبے کس ٹوکری میں چلے جاتے ہیں؟ ان سوالات کے جوابات کی تلاش میں میں نے دفتروں کے چکر لگانا شروع کیے تو بڑے عجیب وغریب واقعات سامنے آئے۔
اصل منصوبہ کاغذوں میں کیا تھا؟ تعمیرکیا ہوا۔ خرچ کی گئی لاگت کیا رہی اورکیا یہ واقعی میں عوامی ضروریات کو پورا کرنے میں کامیاب رہی۔ 17 سال پہلے کاغذوں میں شروع کیا گیا منصوبہ زمین پر اپنی بنیاد کے 15 سال بعد مکمل ہوا۔اس میں ایک جانب پل کی تعمیر تھی تو دوسری جانب ان متاثرین کے لیے بہتر رہائش کا منصوبہ تھا جو اس کی زد میں آ رہے تھے۔ اس بحث میں پڑے بغیرکے کون سی جائزعمارتیں تھی اورکون سی ناجائز۔
پاکستان کا آئین اس بات کو واضح کرتا ہے کہ بنیادی ضروریات پوری کرنا ریاست کی ذمے داری ہے، جب کہ قانون میں یہ بات درج ہے کہ کسی بھی شہری سے رہائش لینے کے بدلے اُسے دوسرا انتظام دیا جائے گا۔
اس طرح اس منصوبے کے دو مراحل تھے۔ پہلا یہ کہ ایکسپریس وے تعمیرکی جائے اور دوسرا یہ کہ رہائش کا انتظام۔
یہ منصوبہ کیونکہ وفاق اور صوبے کو مل کرکرنا تھا، جس میں ایکسپریس وے کی تعمیرکے بجٹ کا بڑا حصہ وفاق کو دینا تھا جب کہ کچھ حصہ صوبائی حکومت کے پاس تھا لیکن صوبے کے ذمے سب سے بڑا کام لیاری ایکسپریس وے کے متاثرین کو جگہ دینا تھا۔ اس حوالے سے تین جگہ بنائی گئی۔
ایک حب ریور روڈ پر، دوسری ہاکس بے کے پاس اور تیسری سرجانی میں بنائی گئی۔ دو تو مشرف کالونی ٹھہری اور تیسری نیو لیاری کے نام سے مشہور ہوئی جس میں سرجانی کے سیکٹرز رکھے گئے۔ 11 مئی 2002ء کو جب اس پراجیکٹ کی بنیاد رکھی گئی تو دعویٰ یہ کیا گیا تھا کہ یہ پراجیکٹ اگلے 30 مہینوں میں مکمل کر لیا جائے گا۔
میں اس بحث میں ہرگز نہیں پڑنا چاہتا کہ اس منصوبے کا خیال پہلے کسے آیاکیونکہ سیاسی طور پر سب ہی اس کا سہرا اپنے سر باندھنا چاہتے ہیں۔ تمام تر دعوؤں اور حقائق کی جانچ کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا کہ اس کی تاخیر میں ضلع، صوبائی اور وفاقی حکومت سب کی عدم دلچسپی نے اس پراجیکٹ کو لمبا کیا۔ کاغذوں کا پیٹ ہے کہ بھرتا ہی نہیں۔
پچھلے 15 سال میں یہ پراجیکٹ 3 ارب سے شروع ہوکر 24 ارب تک آچکا ہے۔اس کا قرضہ پاکستان کی عوام کو دینا ہے، لیکن اس پوری بحث میں اصل عنوان کی طرف آتے ہیں کہ کیوں ایسے پراجیکٹ عوامی حمایت کھو بیٹھتے ہیں۔
اس حوالے سے سب سے پہلے متاثرین کو دیکھتے ہیں۔ کراچی کے عوام کے لیے یہ لیاری ایکسپریس وے کا 15 سال بعدکھل جانا بھی نعمت ہے۔ پراجیکٹ کے مکمل ہوتے ہی اس کو بندکرنے کی بات کی جا رہی ہے یعنی لیاری ایکسپریس وے کے متاثرین کی بحالی کے پراجیکٹ کو بند کر دیا جائے مگرکیا یہ کام مکمل ہو چکا ہے؟کیا متاثرین مکمل طور پر بحال ہوچکے ہیں؟
ان متاثرین کو تین مختلف جگہوں پر آباد کیا گیا جس میں بلدیہ ٹاؤن کے قریب جو آبادی کی گئی اس میں بڑے پیمانے پر چائنہ کٹنگ کی گئی، یعنی سرکاری جگہ پر قبضہ کرلیا گیا۔اس حوالے سے دوسری اور اہم جگہ سرجانی ٹاون میں دی گئی۔ تیسری ٹاون کے سیکٹر 35, 36, 50,51,53,54 میں الاٹمنٹ دی گئی۔ زمینی حقائق یہ ہے کہ فنڈزکی کمی کے باعث اور کچھ غیرسنجیدگی کی وجہ سے مکمل طور پر آباد سیکٹر 51 میں اب تک نہ تو بجلی آسکی ہے اور نہ پانی اورگیس۔
آپ کو حیرت ہوگی کہ اس پورے علاقے میں ہزاروں خاندان رہتے ہیں۔ جو 'کنڈے' کی بجلی استعمال کر رہے ہیں۔ پانی خریدنا پڑتا ہے اورگیس کی جگہ لکڑیاں جلانی پڑتی ہیں۔ پراجیکٹ عوامی نظروں میں مکمل ہوچکا۔ لیاری ایکسپریس وے پرگاڑیاں دوڑ رہی ہے لیکن سیکٹر 53 میں ایک گھر بھی تعمیر نہیں ہوسکا کیونکہ نہ وہاں سڑک ہے نہ گلی، نہ بجلی نہ پانی نہ گیس اور سیکٹر 54 کے ہزاروں متاثرین کو ابھی تک قبضہ ہی نہیں دیا گیا۔کیا ان کی بحالی میں مزید 15 سال لگ جائیں گے؟
ایسے میں کسی اگلے پراجیکٹ کے لیے کیا عوام کو اپنا گھر دینے کے لیے تیار ہوگئی؟ ماضی کے تجربات مستقبل کا تعین کرتے ہیں اور ایسے میں اگر ان متاثرین سے جن کے پاس کرائے کے پیسے نہیں ہوتے اگر ہزار روپے لے لیے جائے تو وہ غریب کس کے دروازے پر دستک دیں۔
یہ ہی وہ سوالات تھے جو لے کر جب میں نئے آنے والے پراجیکٹ ڈائریکٹر دانش سعید کے پاس گیا تو ان کے دفتر میں پہلے سے دو خواتین بیٹھ کو رو رہی تھی اور جن کے آنسو میرے سوالات کو مزید پختہ کررہے تھے۔
نئے آنے والے نے اپنے بھر پور عزم کا اظہارکیا، لیکن میرے پاس پہلے سے کچھ اورکاغذ رکھے ہوئے تھے۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ کا عزم اپنی جگہ ٹھیک ہے کہ آپ مسائل کے حل پر توجہ دے رہے ہیں، لیکن میرے پاس جوکاغذ ہے، اس میں یہ لکھا ہے کہ آپ کے پاس تو ٹیکنیکل اسٹاف ہی نہیں ہے۔ آپ کے پاس بیٹھنے کی جگہ نہیں ہے۔ اتنے بڑے ادارے میں کمپیوٹرائز سسٹم موجود نہیں ہے۔ ڈیٹا انٹری کا کوئی نظام موجود نہیں ہے۔ایسے میں جب یہ پراجیکٹ بند ہونے والا ہے۔
فنڈ موجود نہیں تو پھر ان لاوارث سمجھے جانے والے متاثرین کا کیا ہوگا ؟موجودہ حکومتوں کا وقت کم رہ گیا ہے۔ وفاقی اور سندھ حکومت گرین بس پراجیکٹ کا معاملہ طے نہیں کر پا رہی ہے۔ توکیا 15 سال سے جو متاثرین ہیں اُن کے آنسو پونچھ سکے گی۔ مجھے اُس عورت کے آنسو یاد آرہے ہیں جس نے اُٹھتے ہوئے کہا تھا کہ میرا بچہ معذور ہے اور 40 سال کا ہے۔ اُس کا سارا خیال میں رکھتی ہوں۔ میری آنکھ کسی وقت بھی بند ہوسکتی ہے۔کیا میں اپنے معذور بچے کو جاتے جاتے ایک چھت بھی نہیں دے سکتی؟
کیا اس عورت کے آنسو خشک ہونے سے پہلے کسی کو رحم آجائے گا؟کیا پورے پاکستان میں جاری منصوبوں کے متاثرین اپنی حکومتوں کو دعا دے سکیں گے۔ وفاق، صوبے اور ضلع حکومتوں کی کھینچا تانی میں کہی اربوں روپے کا گرین بس پراجیکٹ بھی 15 سال لیٹ ہوگا؟کیا آیندہ حکومت کی اس نامکمل پراجیکٹ میں دلچسپی ہو گی؟ یا پھر ماضی کی روایت کو برقرار رکھا جائے گا جیسے یہ کہہ کر لیاری ایکسپریس وے کو ٹالا گیا کہ یہ مشرف کا پراجیکٹ تھا۔ کاش کوئی یہ بھی سوچے کہ یہ پاکستان کا پراجیکٹ ہے۔
یہ دو خواتین رو رو کر یہ کہہ رہی تھی کہ لیاری ایکسپریس وے بن چکا، لیکن ہم متاثرین کو ابھی تک ہماری جگہ نہیں مل پائی ہے۔ نئے آئے ہوئے پراجیکٹ ڈائریکٹر نے انھیں اپنے کمرے میں بلایا۔ مسئلہ سُنا اور فوری کارروائی کا حکم دے دیا، لیکن میری نم آنکھوں میں ابھرے سوال بہت گہرے ہوتے جا رہے تھے۔
ہمارے یہاں لوگوں کو حکومت پراعتبارکیوں نہیں ہوتا؟ بڑے بڑے پراجیکٹ شروع کیے جاتے ہیں ۔ان پر تخمینہ ہمیشہ بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے، جو پراجیکٹ ایک سال میں مکمل ہونا ہوتا ہے اُس پر پانچ سال لگ جاتے ہیں اور پھر اپنے مکمل ہونے کے قریب پہنچ کر وہ پراجیکٹ بے جان ہوجاتا ہے۔
کراچی کی گرین بس ہو یا ماضی کا ایکسپریس وے۔آخر یہ عوامی امنگوں اور ضروریات پرکیوں پورا نہیں اتر پاتے۔ بہت شور سُن رہے ہیں ہم کراچی میں گرین بس کا لیکن کیا یہ عوام کی ضروریات کو مدنظر رکھ کر بنایا گیا ہے۔کیا لاہور میں چلنے والی بس اپنی ''شو۔ شا'' کے علاوہ واقعی لاہورکے غریب آدمی کی ضرورت کو پورا کرنے میں کامیاب ہوسکی ہے۔
کراچی میں گزشتہ 15 سال میں تین بار بس کے پراجیکٹ شروع کیے گئے۔ نعمت اللہ خان کی گرین بس ہو یا پھر مصطفیٰ کمال کا دور۔ آخر اربوں روپے خرچ کرنے کے بعد یہ منصوبے کس ٹوکری میں چلے جاتے ہیں؟ ان سوالات کے جوابات کی تلاش میں میں نے دفتروں کے چکر لگانا شروع کیے تو بڑے عجیب وغریب واقعات سامنے آئے۔
اصل منصوبہ کاغذوں میں کیا تھا؟ تعمیرکیا ہوا۔ خرچ کی گئی لاگت کیا رہی اورکیا یہ واقعی میں عوامی ضروریات کو پورا کرنے میں کامیاب رہی۔ 17 سال پہلے کاغذوں میں شروع کیا گیا منصوبہ زمین پر اپنی بنیاد کے 15 سال بعد مکمل ہوا۔اس میں ایک جانب پل کی تعمیر تھی تو دوسری جانب ان متاثرین کے لیے بہتر رہائش کا منصوبہ تھا جو اس کی زد میں آ رہے تھے۔ اس بحث میں پڑے بغیرکے کون سی جائزعمارتیں تھی اورکون سی ناجائز۔
پاکستان کا آئین اس بات کو واضح کرتا ہے کہ بنیادی ضروریات پوری کرنا ریاست کی ذمے داری ہے، جب کہ قانون میں یہ بات درج ہے کہ کسی بھی شہری سے رہائش لینے کے بدلے اُسے دوسرا انتظام دیا جائے گا۔
اس طرح اس منصوبے کے دو مراحل تھے۔ پہلا یہ کہ ایکسپریس وے تعمیرکی جائے اور دوسرا یہ کہ رہائش کا انتظام۔
یہ منصوبہ کیونکہ وفاق اور صوبے کو مل کرکرنا تھا، جس میں ایکسپریس وے کی تعمیرکے بجٹ کا بڑا حصہ وفاق کو دینا تھا جب کہ کچھ حصہ صوبائی حکومت کے پاس تھا لیکن صوبے کے ذمے سب سے بڑا کام لیاری ایکسپریس وے کے متاثرین کو جگہ دینا تھا۔ اس حوالے سے تین جگہ بنائی گئی۔
ایک حب ریور روڈ پر، دوسری ہاکس بے کے پاس اور تیسری سرجانی میں بنائی گئی۔ دو تو مشرف کالونی ٹھہری اور تیسری نیو لیاری کے نام سے مشہور ہوئی جس میں سرجانی کے سیکٹرز رکھے گئے۔ 11 مئی 2002ء کو جب اس پراجیکٹ کی بنیاد رکھی گئی تو دعویٰ یہ کیا گیا تھا کہ یہ پراجیکٹ اگلے 30 مہینوں میں مکمل کر لیا جائے گا۔
میں اس بحث میں ہرگز نہیں پڑنا چاہتا کہ اس منصوبے کا خیال پہلے کسے آیاکیونکہ سیاسی طور پر سب ہی اس کا سہرا اپنے سر باندھنا چاہتے ہیں۔ تمام تر دعوؤں اور حقائق کی جانچ کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا کہ اس کی تاخیر میں ضلع، صوبائی اور وفاقی حکومت سب کی عدم دلچسپی نے اس پراجیکٹ کو لمبا کیا۔ کاغذوں کا پیٹ ہے کہ بھرتا ہی نہیں۔
پچھلے 15 سال میں یہ پراجیکٹ 3 ارب سے شروع ہوکر 24 ارب تک آچکا ہے۔اس کا قرضہ پاکستان کی عوام کو دینا ہے، لیکن اس پوری بحث میں اصل عنوان کی طرف آتے ہیں کہ کیوں ایسے پراجیکٹ عوامی حمایت کھو بیٹھتے ہیں۔
اس حوالے سے سب سے پہلے متاثرین کو دیکھتے ہیں۔ کراچی کے عوام کے لیے یہ لیاری ایکسپریس وے کا 15 سال بعدکھل جانا بھی نعمت ہے۔ پراجیکٹ کے مکمل ہوتے ہی اس کو بندکرنے کی بات کی جا رہی ہے یعنی لیاری ایکسپریس وے کے متاثرین کی بحالی کے پراجیکٹ کو بند کر دیا جائے مگرکیا یہ کام مکمل ہو چکا ہے؟کیا متاثرین مکمل طور پر بحال ہوچکے ہیں؟
ان متاثرین کو تین مختلف جگہوں پر آباد کیا گیا جس میں بلدیہ ٹاؤن کے قریب جو آبادی کی گئی اس میں بڑے پیمانے پر چائنہ کٹنگ کی گئی، یعنی سرکاری جگہ پر قبضہ کرلیا گیا۔اس حوالے سے دوسری اور اہم جگہ سرجانی ٹاون میں دی گئی۔ تیسری ٹاون کے سیکٹر 35, 36, 50,51,53,54 میں الاٹمنٹ دی گئی۔ زمینی حقائق یہ ہے کہ فنڈزکی کمی کے باعث اور کچھ غیرسنجیدگی کی وجہ سے مکمل طور پر آباد سیکٹر 51 میں اب تک نہ تو بجلی آسکی ہے اور نہ پانی اورگیس۔
آپ کو حیرت ہوگی کہ اس پورے علاقے میں ہزاروں خاندان رہتے ہیں۔ جو 'کنڈے' کی بجلی استعمال کر رہے ہیں۔ پانی خریدنا پڑتا ہے اورگیس کی جگہ لکڑیاں جلانی پڑتی ہیں۔ پراجیکٹ عوامی نظروں میں مکمل ہوچکا۔ لیاری ایکسپریس وے پرگاڑیاں دوڑ رہی ہے لیکن سیکٹر 53 میں ایک گھر بھی تعمیر نہیں ہوسکا کیونکہ نہ وہاں سڑک ہے نہ گلی، نہ بجلی نہ پانی نہ گیس اور سیکٹر 54 کے ہزاروں متاثرین کو ابھی تک قبضہ ہی نہیں دیا گیا۔کیا ان کی بحالی میں مزید 15 سال لگ جائیں گے؟
ایسے میں کسی اگلے پراجیکٹ کے لیے کیا عوام کو اپنا گھر دینے کے لیے تیار ہوگئی؟ ماضی کے تجربات مستقبل کا تعین کرتے ہیں اور ایسے میں اگر ان متاثرین سے جن کے پاس کرائے کے پیسے نہیں ہوتے اگر ہزار روپے لے لیے جائے تو وہ غریب کس کے دروازے پر دستک دیں۔
یہ ہی وہ سوالات تھے جو لے کر جب میں نئے آنے والے پراجیکٹ ڈائریکٹر دانش سعید کے پاس گیا تو ان کے دفتر میں پہلے سے دو خواتین بیٹھ کو رو رہی تھی اور جن کے آنسو میرے سوالات کو مزید پختہ کررہے تھے۔
نئے آنے والے نے اپنے بھر پور عزم کا اظہارکیا، لیکن میرے پاس پہلے سے کچھ اورکاغذ رکھے ہوئے تھے۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ کا عزم اپنی جگہ ٹھیک ہے کہ آپ مسائل کے حل پر توجہ دے رہے ہیں، لیکن میرے پاس جوکاغذ ہے، اس میں یہ لکھا ہے کہ آپ کے پاس تو ٹیکنیکل اسٹاف ہی نہیں ہے۔ آپ کے پاس بیٹھنے کی جگہ نہیں ہے۔ اتنے بڑے ادارے میں کمپیوٹرائز سسٹم موجود نہیں ہے۔ ڈیٹا انٹری کا کوئی نظام موجود نہیں ہے۔ایسے میں جب یہ پراجیکٹ بند ہونے والا ہے۔
فنڈ موجود نہیں تو پھر ان لاوارث سمجھے جانے والے متاثرین کا کیا ہوگا ؟موجودہ حکومتوں کا وقت کم رہ گیا ہے۔ وفاقی اور سندھ حکومت گرین بس پراجیکٹ کا معاملہ طے نہیں کر پا رہی ہے۔ توکیا 15 سال سے جو متاثرین ہیں اُن کے آنسو پونچھ سکے گی۔ مجھے اُس عورت کے آنسو یاد آرہے ہیں جس نے اُٹھتے ہوئے کہا تھا کہ میرا بچہ معذور ہے اور 40 سال کا ہے۔ اُس کا سارا خیال میں رکھتی ہوں۔ میری آنکھ کسی وقت بھی بند ہوسکتی ہے۔کیا میں اپنے معذور بچے کو جاتے جاتے ایک چھت بھی نہیں دے سکتی؟
کیا اس عورت کے آنسو خشک ہونے سے پہلے کسی کو رحم آجائے گا؟کیا پورے پاکستان میں جاری منصوبوں کے متاثرین اپنی حکومتوں کو دعا دے سکیں گے۔ وفاق، صوبے اور ضلع حکومتوں کی کھینچا تانی میں کہی اربوں روپے کا گرین بس پراجیکٹ بھی 15 سال لیٹ ہوگا؟کیا آیندہ حکومت کی اس نامکمل پراجیکٹ میں دلچسپی ہو گی؟ یا پھر ماضی کی روایت کو برقرار رکھا جائے گا جیسے یہ کہہ کر لیاری ایکسپریس وے کو ٹالا گیا کہ یہ مشرف کا پراجیکٹ تھا۔ کاش کوئی یہ بھی سوچے کہ یہ پاکستان کا پراجیکٹ ہے۔