ہم کتنے ہیں

موجودہ حکومت نے مردم شماری کا بنیادی کام ہمت و جرات سے کر کے جو کارنامہ سرانجام دیا ہے وہ اس کو داغ نہ لگائیں۔

Abdulqhasan@hotmail.com

موجودہ حکومت نے اپنے دور اقتدار میں ایک تو یہ کارنامہ انجام دیا کہ ملک کے لوگ گنے گئے یعنی مردم شماری ہو گئی لیکن میں اس بات پر حیرت زدہ رہا کہ اس قومی فریضہ کی ادائیگی میں کیا خرابی تھی کہ اس کی مخالفت کی گئی۔ بڑی سیدھی سی بات ہے کہ جب تک سروں کی گنتی نہیں ہو گی تو ان کی ضروریات کا اندازہ کس علم غیب کے ساتھ لگایا جائے گا۔

موجودہ حکومت کو یہ اعزاز ملا اور اس نے بڑی ہوشمندی کے ساتھ یہ کام سرانجام دیا ۔میں نے بھی مردم شماری کے عملے کی جانب سے فراہم کیا جانے والا فارم احتیاط کے ساتھ پر کیا اور اس کے مندرجات سے یہ اندازہ ہوا کہ جب تک ملکی آبادی کے متعلق مکمل معلومات دستیاب نہ ہوں کوئی منصوبہ بندی نہیں کی جا سکتی لیکن ہمارے سیاستدانوں جنہوں نے کل حکمران بن کر ملک کی ترقی کے لیے منصوبہ بندیاں کرنی ہیں اکثریت نے اس مردم شماری کی مخالفت کی اور بلاوجہ خود کو بھی طرح طرح کے اندیشوں میں مبتلا رکھا اور ساتھ ہی قوم کو بھی مبتلا کرتے رہے۔

مردم شماری کے نتائج کے بعد اس کے اعداد و شمار کے مطابق اسمبلیوں کی نشستوں کی تعداد کا فیصلہ ہونا چاہیے تھا اور یہ ایک آئینی تقاضہ ہے لیکن بعض موروثی قسم کے سیاستدانوں کو ڈر تھا کہ کہیں ان کے محفوظ حلقے بدل نہ جائیں یا پھر اراکین کی تعداد میں اضافے سے ان کی اجارہ داری میں فرق نہ پڑ جائے۔

مردم شماری بلاشبہ ایک کارنامہ ہے جو کہ کئی سالوں کے بعد انجام دیا گیا حالانکہ اس کو آئین کے مطابق ایک مقررہ مدت کے بعد انجام دینا چاہیے تھا جو کہ بوجوہ نہ ہو سکا اور اب نواز شریف کی حکومت نے یہ سہرا اپنے سر سجایا ہے۔

انصاف کی بات تو یہ ہے کہ یہ قومی خدمت ہے جس سے ہر کوئی مستفید ہو گا اس لیے دل کھول کر اس کارنامے کی تعریف کرنی چاہیے لیکن اس مردم شماری کی وجہ سے حکومت کے لیے ایک نئی مشکل کھڑی کر دی گئی ہے کہ ملک کی آبادی توقعات سے کہیں زیادہ بڑھ چکی ہے اور اس حساب سے اس کے مطابق وسائل سے دستیاب نہیں ہیں۔

مردم شماری کا قصہ جب شروع ہوا تو اسے بیان بازی کے ذریعے مشکوک کرنے کی کوشش کی گئی اس سے اندازہ ہوا کہ ایک ناممکن کام کو مکمل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ باوجود بہت ساری خرابیوں اور اندیشوں کے بالآخر یہ عمل پایہ تکمیل کو پہنچ ہی گیا۔


مردم شماری کے نتائج کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ آبادی کے تناسب سے اسمبلیوں کی نشستوں میں بھی اضافہ ہوتا لیکن ہماری حکومت نے کسی ضلع میں نشستوں میں کمی کر دی اور کہیں اضافہ اور اس کے ساتھ ساتھ قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کی سیٹ پر بھی ووٹروں کی تعداد کو بڑھا دیا گیا یعنی عوام زیادہ اور نمایندے کم جس کا نتیجہ ہم آیندہ الیکشن میں دیکھیں گے۔

عوام کے مسائل پہلے ہی اتنے زیادہ ہوچکے ہیں کہ ان کے حل کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی اور اب قومی اسمبلی کی ایک سیٹ پرکم و بیش سات لاکھ افراد اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے جو کہ یقیناً ایک مذاق ہے یہ ممکن ہی نہیں کہ اتنی زیادہ تعداد میں لوگ الیکشن میں ووٹ ڈال سکیں یعنی عوام کی ایک بڑی تعداد کو دانستہ طور پر حق رائے دہی کے ذریعے اپنے پسند کے نمایندے منتخب کرنے سے دور رکھنے کی ایک سوچی سمجھی سازش ہے جو کہ روز روشن کی طرح ہم سب کے سامنے ہے۔

سیاستدانوں کو اس کا نقصان یہ ہوا کہ اسلام آباد میں بیٹھے بابوؤں نے نقشے اپنے سامنے میز پر پھیلا کر حلقہ بندیاں بنا دیں اور اب سیاستدان روتے پھرتے ہیں کہ ان کے محفوظ حلقے غیر محفوظ ہو گئے ہیں اور ووٹرز کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ ہو گیا ہے۔ میرے آبائی ضلع خوشاب میں بھی صوبائی اسمبلی کی ایک نشست کم کر دی گئی ہے جس کی وجہ سے میرے بہت سارے عزیز سیاستدان ان نئی حلقہ بندیوں کی وجہ سے ایک دوسرے کے مدمقابل الیکشن لڑنے پر مجبور ہیں۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ آبادی کے اضافے کے تناسب سے اسمبلیوں کی نشستوں کی تعداد بھی بڑھا دی جاتی اور عوام کو اپنی پسند کے نمایندے منتخب کرنے کا اختیار دے دیا جاتا لیکن اس ملک میں عوام کی کون سنتا ہے ۔ چند خود غرض مطلب پرست ، تنگ نظر اور خوفزدہ سیاستدانوں کی خاطر قوم کو اس کی صحیح نمایندگی سے محروم رکھنا کہاں کی انصاف پسندی ہے جب کہ آئین بھی اس کی اجازت نہیں دیتا ۔ میں جس قومی اسمبلی کے حلقے کا ووٹر ہوں وہ اتنا وسیع ہے کہ اس کے رقبے اور آبادی کے اعتبار سے کم از کم دو نمایندے ہونے چاہئیں لیکن ہوا یہ ہے کہ اس کو مزید وسیع کر دیا گیا ہے۔

اسی طرح دوسرے حلقے بھی بہت بڑے ہیں ان کے باشندوں کا صحیح نمایندگی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس لیے موجودہ حلقہ بندیوں کے خلاف ملک بھر میں سیکڑوں درخواستیں الیکشن کمیشن کے پاس جمع ہو چکی ہیں ان کا فیصلہ آیندہ الیکشن سے پہلے مجھے تو ممکن نظر نہیں آرہا کیونکہ اب وقت انتہائی کم رہ گیا ہے لیکن اگر یہ کام شروع کر دیا گیا تو پھر الیکشن میں لازماً تاخیر بھی ہو گی ۔

موجودہ حکومت نے مردم شماری کا بنیادی کام ہمت و جرات سے کر کے جو کارنامہ سرانجام دیا ہے وہ اس کو داغ نہ لگائیں۔ وہ مردم شماری کے فخر کو قائم رکھیں اور اس کی حفاظت کریں۔ عوام کو ان کا حق دیں تا کہ وہ آیندہ الیکشن میں اپنی مرضی کے نمایندے منتخب کر سکیں لیکن یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ مردم شماری پر آئین اور قانون کے مطابق عمل کیا جائے اور حالات کا درست اندازہ لگایا جائے۔
Load Next Story