سپریم کورٹ نے سرکاری اشتہارات میں تصاویر پر پابندی لگا دی

جنھوں نے اشتہارات چلائے پیسے ملنا ان کاحق ہے، ہوسکتاہے الیکشن سے قبل ترقیاتی فنڈزپرپابندی لگادیں، چیف جسٹس

سرکار اپنی کارکردگی سے ضرور آگاہ کرے مگر ٹیکس کے پیسہ پر اشتہاری مہم چلانے نہیں دیں گے، عدالت۔ فوٹو : فائل

WASHINGTON:
سپریم کورٹ نے حکم دیاکہ حکومتیں میڈیا اداروں کو اشتہارات کی تمام رقم فوری ادا کریں جب کہ سرکاری وسائل پر ذاتی اشتہاری مہم کے بارے میں ازخود نوٹس کیس میں عدالت نے قومی خزانے سے سیاسی افراد کی تشہیر پر پابندی عائدکردی اور پاکستان ایڈورٹائزنگ ایسوی ایشن کو نوٹس جاری کر دیے۔

عدالت نے آبزرویشن دی کہ اشتہارات کے حوالے سے کیس میں تین بنیادی ایشو ہیں۔ پہلا اشتہارات میں گائیڈلائنز، دوسرا اہم معاملہ اشتہارات کی تقسیم اور تیسرا معاملہ اشتہارات کی ایجنسیوں یا براہ راست تقسیم کا ہے۔عدالت نے کہا سندھ حکومت کی جانب سے بغیر ریٹنگ والے اخبار کو کروڑوں کے اشتہار دینا بھی اہم ہے۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے آبزرویشن دی ہوسکتا ہے کہ الیکشن سے پہلے ترقیاتی فنڈزکے استعمال پر پابندی عائد کردیں،ہم قوم کا پیسہ ووٹ مانگنے کیلئے استعمال نہیں ہونے دیںگے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نیئر رضوی نے رپورٹ پیش کی کہ وفاقی حکومت نے3 ماہ میں90کروڑ روپے کے اشتہارات جاری کیے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا سرکار اپنی کارکردگی سے ضرور آگاہ کرے لیکن اشتہارات پر اپنی تصاویر نہیں لگانی چاہیے۔ حکومت کو اشتہارات جاری کرنے سے نہیں روک رہے لیکن ٹیکس کے پیسہ پر اشتہاری مہم چلانے کی اجازت نہیں دیں گے۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ ٹینڈرز اور بھرتیوں کے اشتہارات بھی بہت ہوتے ہیں۔ اے پی این ایس کے حمید ہارون کا کہنا تھا کہ عدالت مناسب پابندیاں لگائے گی توحمایت کریںگے۔ خبریں گروپ کے مالک ضیا شاہد نے نجی ایڈورٹائزنگ ایجنسیوں کی جانب سے اخبارات کو ادائیگیاں نہ کرنے کی شکایت کرتے ہوئے کہا کہ ان کے پاس ایک سال کے 25 چیک ہیں جن کی رقم6 کروڑ روپے بنتی ہے اور یہ ادائیگی نہیں ہوئی۔

چیف جسٹس نے کہا شفاف انتخابات کرانے کیلئے ہم نے سرکاری اشتہارات میں خودنمائی پر پابندی لگائی،الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا پر سرکاری اشتہار میںکوئی تصویر نہیں چھاپی جائے گی۔ چیف جسٹس نے کہاکہ جیوکو زیادہ اشتہارات مل رہے ہیں کیونکہ وہ حکومت کو سپورٹ کررہا ہے، ہم ان چیزوں میں نہیں جانا چاہتے جیسا کہ خبروں میں آتا ہے، جیو کوزیادہ اشتہار مل رہے ہیں یا کسی کوکم مل رہے ہیں، اس جھگڑے میں نہیں پڑیںگے۔

ضیاشاہد نے کہا سی پی این ای عدالتی احکام کی مکمل حمایت کرے گی۔چیف جسٹس نے کہاکہ سرکاری پیسے پر اشتہاری مہم چلانے کا حل نکال رہے ہیں۔ اس دوران سیکریٹری اطلاعات احمد نواز سکھیرانے کہا کہ قومی دنوں پر بھی اشتہارات جاری کیے جاتے ہیں اورکئی وزارتیں اپنے جاری منصوبوںکے اشتہارات بھی جاری کرتی ہیں،گزشتہ 3 ماہ میں سیاسی تصویر والا کوئی اشتہار نہیں دیا گیا۔


جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا حکومت اشتہار دے کر ادائیگیاں بھی نہیںکر رہی ہے۔ضیا شاہد نے کہاکہ سرکاری اشتہارات پر سندھ کے صوبائی وزیر جیل میں ہیں اور5 اشتہاری ایجینسیوں کے سربراہ کرپشن پر جیل میں ہیں،حال ہی میں اس نے چھٹی کمپنی بھی خرید لی ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا کس کو کتنے اشتہار دینے ہیں یہ ہمارا کام نہیں ہے،اشتہاروں کی ادائیگی کو یقینی بنایا جائے گا۔

چیف جسٹس نے کہا اس معاملہ کو حل کرنے کیلئے فریقین مشاورت کرلیں تومزید سماعت ساڑھے6 بجے چیمبر میں ہوگی ۔ اس دوران ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب عاصمہ حامدنے رپورٹ پیش کی تو چیف جسٹس نے استفسار کیاکہ عاصمہ صاحبہ 55 لاکھ روپے کا کیا بنا؟ آپ نے شہباز شریف کا چیک تو مجھے دکھایا تھا۔چیف جسٹس نے کہا جنہوں نے اشتہارات چلائے انہیں پیسے ملنا تو انکا حق ہے، ہم حکم دے دیتے ہیں کہ حکومتیں تمام رقم فوری ادا کریں ، چیف جسٹس نے کہا سیکریٹری اطلاعات صاحب بتائیں کتنے عرصہ میں تمام رقم ادا کر سکتے ہیں۔

سیکرٹری اطلاعات نے بتایا وزارت اطلاعات کا کل بجٹ225 ملین کا ہے اور اس ادائیگی کیلیے منظوری لینا ہوگی ، سمر ی گزشتہ ماہ بھی بھیجی ہے ، چیف جسٹس نے کہا سمریاں بناتے بناتے تو یہ حکومت چلی جائے گی ،حکم دے رہے ہیں تمام حکومتیں ایک ماہ کے اندر میڈیا ہاؤسزکو اشتہارات کے پیسے کلیئرکریں ۔اس حکم کا اطلاق تمام اشتہاری ایجنسیوں پر بھی ہوگا ۔

وکیل فیصل چوہدری نے کہا ایک کمپنی کا مالک جیل میں ہے اور سال میں دو ماہ میں ادائیگیاں ہوتی ہیں چیف جسٹس نے کہاکہ اگر مسئلہ ہے تو اشتہاری ایجنسیوںکو بھی سننا ہوگا۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ کچھ تاخیر مڈل مین کی وجہ سے بھی ہے ۔ ہم تو حکم دے رہے تھے آپ کا اتفاق ہی نہیں۔

اس دوران ایس کے نیازی نے کہاکہ حکومت اگر اشتہاراتی ایجنسیوں کو نکال دے تو عوام کا پیسہ بچے گا۔چیف جسٹس نے کہاکہ رقم کی ادائیگیوںکا معاملہ اشتہاراتی ایجنیسوںکو سن کرکریںگے لیکن سرکاری افرادکے بغیر تشہیر پر اب کوئی پابندی نہیں جبکہ دیگر معاملات آئندہ سماعت پر سنیں گے۔

 
Load Next Story