محکمہ ایکسائز میں مبینہ غیر قانونی بھرتیوں کی تحقیقات کا حکم
مبینہ طور پر غیرقانونی بھرتی ہونے والوں میں ذوالفقار مرزا ،رفیق جمالی سمیت اراکین اسمبلی کے قریبی رشتے دار شامل
محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن سندھ میں 221 ایکسائز انسپکٹرز کی مبینہ غیر قانونی بھرتیوں کی تحقیقات کیلیے احکامات جاری کردیے گئے۔
مبینہ طور پر غیرقانونی بھرتی ہونے والوں میں سابق وزیر داخلہ سندھ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا ، رکن قومی اسمبلی رفیق جمالی اور سینیٹر مولابخش چانڈیو سمیت پیپلز پارٹی کے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی و سینیٹ کے قریبی رشتہ دار شامل ہیں۔
چیف سیکریٹری سندھ کی سربراہی میں قائم اینٹی کرپشن کمیٹی نمبر ون نے مذکورہ معاملے کی اوپن انکوائری شروع کرنے کی منظوری دے دی ہے، محکمہ ایکسائز میں مبینہ غیر قانونی بھرتیوں کا معاملہ ڈاکٹر سلیم اختر نامی ایک شخص کی درخواست کے ذریعے اینٹی کرپشن حکام کے علم لایا گیا۔
مذکورہ درخواست کا جائزہ لینے کے بعد اینٹی کرپشن کمیٹی نمبر ون کو اس معاملے کی اوپن انکوائری کرنے کی سفارش کی گئی تھی، درخواست گزار کے مطابق محکمہ ایکسائز سندھ نے 2008 سے 2011 تک مختلف اوقات پر 221 ایکسائز انسپکٹرز کو بھرتی کیا، جبکہ اپنے من پسند امیدواروں کو نوازنے کے لیے بھرتیوں میں قوائد و ضوابط کی بالائے طاق رکھا گیا۔
درخواست گزار کے مطابق محکمہ ایکسائز سندھ نے 27 جولائی 2008 اور 13 جولائی 2008 کو ایکسائز انسپکٹرز کی بھرتیوں کے اشتہار دیے لیکن ان میں اسامیوں کی تعداد کا ذکر نہیں کیا، 31 اگست 2008 کو تحریری امتحان لیا گیا لیکن مذکورہ امتحان کے نتائج ظاہر کیے بغیر 201 ایکسائز انسپکٹرز بھرتی کردیے گئے جس کے بعد سب کو تربیت کے لیے پولیس ٹریننگ سینٹر سکرنڈ بھیج دیا گیا، ان میں سے 82 انسپکٹرز اگرچہ فیل ہوئے لیکن دیگر کے ساتھ ان کی بھی تقرریاں کر دی گئیں۔
محکمہ ایکسائز سندھ نے یکم جنوری 2011 کو 10 ایکسائز انسپکٹرز کو ایڈہاک پر بھرتی کیا جنھیں بعد میں مستقل کردیا گیا،بعد ازاں 5 مزید ایکسائز انسپکٹرز بھرتی کیے گئے اور ان کی بھرتی کے دوران قوائد و ضوابط پر عمل نہیں کیا گیا، نہ کوئی اشتہار دیا گیا اور نہ تحریری امتحان منعقد کیا گیا اور نہ ہی انٹرویو کیے گئے اور ان کے نتائج جاری کیے گئے۔
مبینہ طور پر غیرقانونی بھرتی ہونے والوں میں سابق وزیر داخلہ سندھ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا ، رکن قومی اسمبلی رفیق جمالی اور سینیٹر مولابخش چانڈیو سمیت پیپلز پارٹی کے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی و سینیٹ کے قریبی رشتہ دار شامل ہیں۔
چیف سیکریٹری سندھ کی سربراہی میں قائم اینٹی کرپشن کمیٹی نمبر ون نے مذکورہ معاملے کی اوپن انکوائری شروع کرنے کی منظوری دے دی ہے، محکمہ ایکسائز میں مبینہ غیر قانونی بھرتیوں کا معاملہ ڈاکٹر سلیم اختر نامی ایک شخص کی درخواست کے ذریعے اینٹی کرپشن حکام کے علم لایا گیا۔
مذکورہ درخواست کا جائزہ لینے کے بعد اینٹی کرپشن کمیٹی نمبر ون کو اس معاملے کی اوپن انکوائری کرنے کی سفارش کی گئی تھی، درخواست گزار کے مطابق محکمہ ایکسائز سندھ نے 2008 سے 2011 تک مختلف اوقات پر 221 ایکسائز انسپکٹرز کو بھرتی کیا، جبکہ اپنے من پسند امیدواروں کو نوازنے کے لیے بھرتیوں میں قوائد و ضوابط کی بالائے طاق رکھا گیا۔
درخواست گزار کے مطابق محکمہ ایکسائز سندھ نے 27 جولائی 2008 اور 13 جولائی 2008 کو ایکسائز انسپکٹرز کی بھرتیوں کے اشتہار دیے لیکن ان میں اسامیوں کی تعداد کا ذکر نہیں کیا، 31 اگست 2008 کو تحریری امتحان لیا گیا لیکن مذکورہ امتحان کے نتائج ظاہر کیے بغیر 201 ایکسائز انسپکٹرز بھرتی کردیے گئے جس کے بعد سب کو تربیت کے لیے پولیس ٹریننگ سینٹر سکرنڈ بھیج دیا گیا، ان میں سے 82 انسپکٹرز اگرچہ فیل ہوئے لیکن دیگر کے ساتھ ان کی بھی تقرریاں کر دی گئیں۔
محکمہ ایکسائز سندھ نے یکم جنوری 2011 کو 10 ایکسائز انسپکٹرز کو ایڈہاک پر بھرتی کیا جنھیں بعد میں مستقل کردیا گیا،بعد ازاں 5 مزید ایکسائز انسپکٹرز بھرتی کیے گئے اور ان کی بھرتی کے دوران قوائد و ضوابط پر عمل نہیں کیا گیا، نہ کوئی اشتہار دیا گیا اور نہ تحریری امتحان منعقد کیا گیا اور نہ ہی انٹرویو کیے گئے اور ان کے نتائج جاری کیے گئے۔