کہ آرہی ہے دما دم صدائے کُن فیکون
ہمارے مذہبی رہنما ہر وقت دینی آگاہی مہیا کرنے میں پہلے سے زیادہ مصروف ہیں۔
ملک کی موجودہ سیاسی، معاشی، معاشرتی (اور تازہ اضافہ) عدالتی صورتحال بہت کچھ کہنے سننے کے باوجود ناقابل بیاں ہے۔ ملک کے ہر صوبے کے ہر ادارے کا حال اور کارکردگی پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ ہم (پاکستانی) زندگی کے ہر شعبے میں انتہائی پسماندہ اور ناقابل اصلاح ہوچکے ہیں ، مگر اس بات کو اگر دل سے تسلیم کرلیا جائے تو یہ تو ناامیدی قرار پائے گی جب کہ نا امیدی کفر کے برابر قرار دی گئی ہے کہ مالک حقیقی جو اس کائنات کا خالق اور ہر ذی روح کا پروردگار ہے اس کے حرف ''کُن'' سے کیا کچھ ممکن نہیں بقول اقبال۔
یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید
کہ آ رہی ہے دمادم صدائے کُن فیکون
انسانی تاریخ گواہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی ہدایت کے دو طریقے اختیار کیے ہیں ایک اس کی ہدایت کا سلسلہ نبوت اور جب انسان نے انبیا علیہ السلام کی ہدایت کو قبول نہ کیا تو سلسلہ عذاب ۔ تاریخ انسانی میں نہ جانے کتنی اقوام اللہ کے عذاب میں مبتلا ہوکر صفحہ ہستی سے مٹ گئیں یا پھر ان کو اشرف المخلوقات سے مسخ کرکے کسی بھی حقیر مخلوق میں تبدیل کردیا گیا کہ اپنے اشرف المخلوقات ہونے پر ناشکر گزاری نے انھیں حقیر ترین مخلوق میں تبدیل کرکے مالک حقیقی نے بتادیا کہ ہم اپنے نافرمانوں کو اچھی طرح بتاسکتے ہیں کہ ناشکر گزاری کا نتیجہ کیا ہوسکتا ہے۔
اس لیے اپنے ملک کی موجودہ صورتحال کو ہم سلسلہ ہدایت کا دوسرا طریقہ بھی قرار دے سکتے ہیں کہ اللہ رب العزت ماضی کے مقابلے میں اب بھی اپنے نافرمان بندوں کے ساتھ نرمی ہی اختیار کر رہا ہے کہ ہم جو انسانی رویوں کی ہر زاویے اور ہر انداز میں تذلیل کرنے پر آمادہ ہیں اگرچہ حکم خدا کی خلاف ورزی کے مرتکب ہیں مگر اس کے حبیبؐ کے باطناً نہ سہی ظاہراً نام لیوا تو ہیں شاید ہماری مکمل تباہی یا عذاب میں مبتلا نہ ہونے کا سبب ہو وگرنہ جہاں ماضی میں کم ناپ تول یا دروغ گوئی، وعدہ خلافی، انبیائے علیہ السلام کو جھٹلانے پر کسی کو آندھی کسی کو چمگادڑ،کسی کے سر پر پہاڑ معلق کرکے کسی کو شدید گرمی میں مبتلا کرکے ہلاکت سے دوچار کردیا گیا۔ مگر ہم میں وہ تمام خرابیاں بیک وقت موجود ہیں جو ماضی کی اقوام میں ایک ایک تھیں، اگر غور کیا جائے کہ جس معاشرتی عذاب میں ہم مبتلا ہیں وہ تو اس عذاب سے اب بھی کم ہے اور سدھر جانے کی مہلت بھی ہے۔
امید کا دامن تھام کر ہم دعا کرسکتے ہیں کہ اے مالک ہم ہی میں سے کوئی مرد حق پرست سامنے لا کہ ہم اس عذاب سے نجات حاصل کرسکیں، ہو سکتا ہے کہ معبود اپنے حبیب کی امت کو ایک موقع اور عطا فرمادے۔
جب ہم ماضی قریب پر نظر ڈالتے ہیں یعنی اپنی ابتدائی تعلیم کے دور پر تو خیال آتا ہے کہ اس وقت اسلام کی تبلیغ کا اتنا شور نہ تھا مگر عقیدہ اسلام آج سے بہت مضبوط تھا۔ آج انسانی جان کی جو ارزانی ہے وہ بھی بہت کم تھی۔ کوئی بد بخت ہی قتل کا مرتکب ہوتا تھا اور وہ بھی معمولی سی بات پر نہیں بلکہ کسی سنگین صورتحال میں مگر آج بیٹا اپنی ماں کو وضو کے لیے وقت پر پانی گرم نہ کرنے پر قتل کردیتا ہے تو خیال آتا ہے کہ جس نے اس کو پابند صلوٰۃ بنایا کیا اس نے پہلے یہ نہیں بتایا کہ ''حکم خدا کی پیروی کرو اور والدین کے احسان مند رہو۔'' تم اس وقت تک اللہ کے فرمانبردار نہیں ہوسکتے جب تک والدین کے فرمانبردار نہ ہوجاؤ۔ اے اللہ ہمارے والدین پر اسی طرح رحم فرما جس طرح وہ بچپن میں مجھ پر مہربان رہے۔
جس معاشرے میں لوگوں کے محافظ قرار دینے والے خود ہی لوگوں کی جان و مال کے در پے ہوجائیں وہ معاشرہ کیسے پرسکون اور فلاح یافتہ رہ سکتا ہے۔ کراچی سے کے پی کے تک بے گناہوں کے قتل و بے حرمتی کا ایک طوفان برپا ہے۔ سیاسی جماعتوں سے زیادہ تبلیغی جماعتیں اور ہر طرف نفاذ اسلام کا شور مگر غیر اسلامی اقدار اور رویے ہیں کہ ہر روز پہلے کے مقابلے میں فزوں تر ہیں۔ لوگوں کا دین، ایمان ہوس زر اور تمام تر معاشرتی خرابیوں کے باوجود حصول اقتدار ہی نظر آتا ہے۔ آخر اس کی کیا وجہ ہے جب کہ اسلامی تعلیم کا پہلے کی نسبت آج زیادہ اہتمام کیا جا رہا ہے ہزاروں مدارس کے علاوہ عام جامعات میں بھی خصوصاً دینی تعلیم کا الگ شعبہ ہی نہیں بلکہ دینی تحقیقات کے لیے بڑے بڑے مراکز موجود ہیں۔
ہمارے مذہبی رہنما ہر وقت دینی آگاہی مہیا کرنے میں پہلے سے زیادہ مصروف ہیں۔ پھر آخر کیا وجہ ہے کہ ہم حفظ قرآن، فقہ و شریعت کی باقاعدہ اسناد حاصل کرکے بھی اچھے رویوں اور حقوق العباد سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ جہاں تک غور و فکر کیا جائے تو ایک وجہ ہمارے فقہی اختلافات سرفہرست نظر آتے ہیں کیونکہ ہمارے مذہبی رہنما دین اسلام کے بجائے اپنے اپنے فرقے اور مسلک کی تبلیغ میں مصروف ہیں۔ کوئی بھی ان اختلافات کو کم کرکے ایک دین (دین اسلام) کی تبلیغ نہیں کر رہا۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے بچپن میں ہماری سہیلیوں میں کبھی یہ معلوم نہیں ہوتا تھا کہ کون کس فقہے سے تعلق رکھتا ہے، مگر آج معصوم بچے بھی ان فقہی اختلافات سے بخوبی واقف ہیں۔
ہماری کتاب ہدایت میں منافقین کی نشانیاں ضرور بتائی گئی ہیں اور ارشاد خداوندی ہے کہ ''اے رسول تمہاری بزم میں لوگ اگر تمہاری نبوت کا اقرار کرتے ہیں، مگر تمہارا رب بتائے گا کہ یہ ایماندار نہیں منافق ہیں باہر جاکر تمہارے احکامات کی ہنسی اڑاتے ہیں۔'' (القرآن)
اس کے باوجود نہ اللہ نے نہ اس کے رسولؐ نے ان منافقین کے نام ظاہر فرمائے، البتہ قرآن نے منافق کی واضح نشانیاں بیان کردیں اور عقل والوں سے انھیں پہچاننے کی توقع بھی کی، وجہ اس کی یہ تھی کہ دین میں تفرقہ نہ پیدا ہو۔ مگر آج تبلیغ دین کی بنیاد ہی اپنے اپنے فرقے کی تبلیغ پر رکھی گئی ہے۔ ہم یہ بھی نہیں سوچتے کہ یہ ہمارے دشمنوں کی وہ سازش ہے کہ وہ مسلمانوں کی طاقت کو پاش پاش کرکے ان پر غلبہ حاصل کرنا چاہتے ہیں، یہ صورتحال عالم اسلام کی موجودہ حالت سے بخوبی ظاہر ہے، مگر دعویٰ اسلام ہے کہ حق غالب آکر رہے گا کیونکہ حق چھا جانے کے لیے اور باطل مٹ جانے کے لیے ہے۔
بس یہی وجہ ہے کہ ہم گمراہی کی آخری سرحد پر پہنچ کر بھی دوبارہ ہدایت یافتہ ہونے کے لیے پرامید رہتے ہیں۔ جب ظلم و ناانصافی حد سے بڑھ جاتی ہے تو پھر حق و انصاف اپنا سربلند کرکے گمراہ انسان کو راہ ہدایت پر گامزن کرنے کے لیے ظاہر ہوتا ہے آج شاید ہمارا نظام عدل اسی کوشش میں ہے کہ ناانصافی کو انصاف سے اور ظلم کو رحم سے بدل دے۔ خدا کرے کہ یہ ہمارا آخری امتحان (دنیاوی) ہو اور ہم اپنے تمام اختلافات مٹا کر ایک اللہ ایک رسولؐ ایک دین و ایک شریعت پر متفق ہوجائیں ۔(آمین)
یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید
کہ آ رہی ہے دمادم صدائے کُن فیکون
انسانی تاریخ گواہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی ہدایت کے دو طریقے اختیار کیے ہیں ایک اس کی ہدایت کا سلسلہ نبوت اور جب انسان نے انبیا علیہ السلام کی ہدایت کو قبول نہ کیا تو سلسلہ عذاب ۔ تاریخ انسانی میں نہ جانے کتنی اقوام اللہ کے عذاب میں مبتلا ہوکر صفحہ ہستی سے مٹ گئیں یا پھر ان کو اشرف المخلوقات سے مسخ کرکے کسی بھی حقیر مخلوق میں تبدیل کردیا گیا کہ اپنے اشرف المخلوقات ہونے پر ناشکر گزاری نے انھیں حقیر ترین مخلوق میں تبدیل کرکے مالک حقیقی نے بتادیا کہ ہم اپنے نافرمانوں کو اچھی طرح بتاسکتے ہیں کہ ناشکر گزاری کا نتیجہ کیا ہوسکتا ہے۔
اس لیے اپنے ملک کی موجودہ صورتحال کو ہم سلسلہ ہدایت کا دوسرا طریقہ بھی قرار دے سکتے ہیں کہ اللہ رب العزت ماضی کے مقابلے میں اب بھی اپنے نافرمان بندوں کے ساتھ نرمی ہی اختیار کر رہا ہے کہ ہم جو انسانی رویوں کی ہر زاویے اور ہر انداز میں تذلیل کرنے پر آمادہ ہیں اگرچہ حکم خدا کی خلاف ورزی کے مرتکب ہیں مگر اس کے حبیبؐ کے باطناً نہ سہی ظاہراً نام لیوا تو ہیں شاید ہماری مکمل تباہی یا عذاب میں مبتلا نہ ہونے کا سبب ہو وگرنہ جہاں ماضی میں کم ناپ تول یا دروغ گوئی، وعدہ خلافی، انبیائے علیہ السلام کو جھٹلانے پر کسی کو آندھی کسی کو چمگادڑ،کسی کے سر پر پہاڑ معلق کرکے کسی کو شدید گرمی میں مبتلا کرکے ہلاکت سے دوچار کردیا گیا۔ مگر ہم میں وہ تمام خرابیاں بیک وقت موجود ہیں جو ماضی کی اقوام میں ایک ایک تھیں، اگر غور کیا جائے کہ جس معاشرتی عذاب میں ہم مبتلا ہیں وہ تو اس عذاب سے اب بھی کم ہے اور سدھر جانے کی مہلت بھی ہے۔
امید کا دامن تھام کر ہم دعا کرسکتے ہیں کہ اے مالک ہم ہی میں سے کوئی مرد حق پرست سامنے لا کہ ہم اس عذاب سے نجات حاصل کرسکیں، ہو سکتا ہے کہ معبود اپنے حبیب کی امت کو ایک موقع اور عطا فرمادے۔
جب ہم ماضی قریب پر نظر ڈالتے ہیں یعنی اپنی ابتدائی تعلیم کے دور پر تو خیال آتا ہے کہ اس وقت اسلام کی تبلیغ کا اتنا شور نہ تھا مگر عقیدہ اسلام آج سے بہت مضبوط تھا۔ آج انسانی جان کی جو ارزانی ہے وہ بھی بہت کم تھی۔ کوئی بد بخت ہی قتل کا مرتکب ہوتا تھا اور وہ بھی معمولی سی بات پر نہیں بلکہ کسی سنگین صورتحال میں مگر آج بیٹا اپنی ماں کو وضو کے لیے وقت پر پانی گرم نہ کرنے پر قتل کردیتا ہے تو خیال آتا ہے کہ جس نے اس کو پابند صلوٰۃ بنایا کیا اس نے پہلے یہ نہیں بتایا کہ ''حکم خدا کی پیروی کرو اور والدین کے احسان مند رہو۔'' تم اس وقت تک اللہ کے فرمانبردار نہیں ہوسکتے جب تک والدین کے فرمانبردار نہ ہوجاؤ۔ اے اللہ ہمارے والدین پر اسی طرح رحم فرما جس طرح وہ بچپن میں مجھ پر مہربان رہے۔
جس معاشرے میں لوگوں کے محافظ قرار دینے والے خود ہی لوگوں کی جان و مال کے در پے ہوجائیں وہ معاشرہ کیسے پرسکون اور فلاح یافتہ رہ سکتا ہے۔ کراچی سے کے پی کے تک بے گناہوں کے قتل و بے حرمتی کا ایک طوفان برپا ہے۔ سیاسی جماعتوں سے زیادہ تبلیغی جماعتیں اور ہر طرف نفاذ اسلام کا شور مگر غیر اسلامی اقدار اور رویے ہیں کہ ہر روز پہلے کے مقابلے میں فزوں تر ہیں۔ لوگوں کا دین، ایمان ہوس زر اور تمام تر معاشرتی خرابیوں کے باوجود حصول اقتدار ہی نظر آتا ہے۔ آخر اس کی کیا وجہ ہے جب کہ اسلامی تعلیم کا پہلے کی نسبت آج زیادہ اہتمام کیا جا رہا ہے ہزاروں مدارس کے علاوہ عام جامعات میں بھی خصوصاً دینی تعلیم کا الگ شعبہ ہی نہیں بلکہ دینی تحقیقات کے لیے بڑے بڑے مراکز موجود ہیں۔
ہمارے مذہبی رہنما ہر وقت دینی آگاہی مہیا کرنے میں پہلے سے زیادہ مصروف ہیں۔ پھر آخر کیا وجہ ہے کہ ہم حفظ قرآن، فقہ و شریعت کی باقاعدہ اسناد حاصل کرکے بھی اچھے رویوں اور حقوق العباد سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ جہاں تک غور و فکر کیا جائے تو ایک وجہ ہمارے فقہی اختلافات سرفہرست نظر آتے ہیں کیونکہ ہمارے مذہبی رہنما دین اسلام کے بجائے اپنے اپنے فرقے اور مسلک کی تبلیغ میں مصروف ہیں۔ کوئی بھی ان اختلافات کو کم کرکے ایک دین (دین اسلام) کی تبلیغ نہیں کر رہا۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے بچپن میں ہماری سہیلیوں میں کبھی یہ معلوم نہیں ہوتا تھا کہ کون کس فقہے سے تعلق رکھتا ہے، مگر آج معصوم بچے بھی ان فقہی اختلافات سے بخوبی واقف ہیں۔
ہماری کتاب ہدایت میں منافقین کی نشانیاں ضرور بتائی گئی ہیں اور ارشاد خداوندی ہے کہ ''اے رسول تمہاری بزم میں لوگ اگر تمہاری نبوت کا اقرار کرتے ہیں، مگر تمہارا رب بتائے گا کہ یہ ایماندار نہیں منافق ہیں باہر جاکر تمہارے احکامات کی ہنسی اڑاتے ہیں۔'' (القرآن)
اس کے باوجود نہ اللہ نے نہ اس کے رسولؐ نے ان منافقین کے نام ظاہر فرمائے، البتہ قرآن نے منافق کی واضح نشانیاں بیان کردیں اور عقل والوں سے انھیں پہچاننے کی توقع بھی کی، وجہ اس کی یہ تھی کہ دین میں تفرقہ نہ پیدا ہو۔ مگر آج تبلیغ دین کی بنیاد ہی اپنے اپنے فرقے کی تبلیغ پر رکھی گئی ہے۔ ہم یہ بھی نہیں سوچتے کہ یہ ہمارے دشمنوں کی وہ سازش ہے کہ وہ مسلمانوں کی طاقت کو پاش پاش کرکے ان پر غلبہ حاصل کرنا چاہتے ہیں، یہ صورتحال عالم اسلام کی موجودہ حالت سے بخوبی ظاہر ہے، مگر دعویٰ اسلام ہے کہ حق غالب آکر رہے گا کیونکہ حق چھا جانے کے لیے اور باطل مٹ جانے کے لیے ہے۔
بس یہی وجہ ہے کہ ہم گمراہی کی آخری سرحد پر پہنچ کر بھی دوبارہ ہدایت یافتہ ہونے کے لیے پرامید رہتے ہیں۔ جب ظلم و ناانصافی حد سے بڑھ جاتی ہے تو پھر حق و انصاف اپنا سربلند کرکے گمراہ انسان کو راہ ہدایت پر گامزن کرنے کے لیے ظاہر ہوتا ہے آج شاید ہمارا نظام عدل اسی کوشش میں ہے کہ ناانصافی کو انصاف سے اور ظلم کو رحم سے بدل دے۔ خدا کرے کہ یہ ہمارا آخری امتحان (دنیاوی) ہو اور ہم اپنے تمام اختلافات مٹا کر ایک اللہ ایک رسولؐ ایک دین و ایک شریعت پر متفق ہوجائیں ۔(آمین)