اسلام میں شوریٰ کا تصور
مجلس شوریٰ کی ضرورت اور اہمیت محسوس فرمانے کے بعد اکابر صحابہ کرامؓ کو مشاورت کی ذمے داریاں عطا فرمائیں۔
اسلام حیات انسانی کے تمام پہلوؤں اور گوشوں کا احاطہ کرتا ہے خواہ اس کا تعلق سیاست سے ہو، معاشرے سے ہو یا اخلاق سے ہو، انسان دنیا میں اللہ کا نائب ہے جیساکہ قرآن حکیم میں ارشاد ہے ''انی جاعل فی الارض خلیفۃ'' اور اس منصب کے عطا کیے جانے کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے قوانین کا نفاذ نہ صرف اپنے اوپر کرے بلکہ دوسروں سے بھی کرائے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین جب تک مکہ میں قیام پذیر رہے قریش کے ہاتھوں طرح طرح کے ظلم سہتے رہے اور ان کی سیاسی و معاشرتی زندگی مفقود رہی۔ جہاں تک عبادات کا تعلق تھا انفرادی عبادت ہی سے عبودیت کا اظہار ہوتا رہا۔ ہجرت کے بعد جب اللہ کے پیارے رسول کو ایک مرکز اور پرامن ماحول میسر آگیا تو آپؐ نے اپنے مبارک ہاتھوں سے پہلی اسلامی ریاست کی بنیاد ڈال کر اس کی اساس کے اصول وضع فرمائے۔
مجلس شوریٰ کی ضرورت اور اہمیت محسوس فرمانے کے بعد اکابر صحابہ کرامؓ کو مشاورت کی ذمے داریاں عطا فرمائیں۔ مہاجرین صحابہ کرامؓ کو بالخصوص اور انصار صحابہ کرام کو بالعموم مشوروں میں شریک کیا جاتا تھا ۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ، حضرت عمر فاروقؓ، حضرت عثمان غنیؓ، حضرت علی المرتضیٰؓ، حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ، حضرت زید بن ثابتؓ، حضرت عبداللہ بن رواحہؓ، حضرت سعد بن معاذؓ، حضرت سعد بن عبادہؓ اور حضرت سلمان فارسیؓ کے نام نامی اسم گرامی خصوصی اہمیت رکھتے تھے۔ آنحضرتؐ کی ذات والاصفات کو کسی کے مشوروں یا آرا کی ضرورت و حاجت نہ تھی مگر قرآن حکیم کے مطابق ایسا کرنا ضروری تھا۔
ارشاد ربانی ہے ''وامرھم شوری بینھم'' ''وہ جن کے کام باہم مشوروں سے طے پاتے ہیں''اور ایک دوسری جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے ''وشاورھم فی الامر'' ''اور خاص خاص باتوں میں مشورہ لیتے رہا کیجیے۔''
غزوہ بدر وہ پہلا موقع تھا جب رسول اللہؐ نے اپنے اصحابؓ سے کفار قریش سے مقابلہ اور جنگ کے لیے مشورہ طلب فرمایا۔ مدینہ کے انصار مسلمانوں نے اللہ کے رسولؐ کے سامنے مسجد نبوی میں دشمن سے لڑنے اور فداکاری کے جذبے کا زبردست مظاہرہ کیا۔ رسول اللہؐ نے ان کے جذبہ جہاد پر اطمینان کا اظہار فرمایا۔ جنگ ہوئی اور اللہ تعالیٰ کی عنایت و تائید سے فتح کامل حاصل ہوئی اور قریش کے ستر افراد قتل اور ستر ہی گرفتار کرکے مدینہ لائے گئے۔ اسیران بدر کے ساتھ سلوک کے سلسلے میں رسول خداؐ نے پھر صحابہ کرامؓ کو اپنی آرا سے اظہار کا موقع عطا فرمایا۔ اسی طرح غزوہ احد و خندق اور دیگر معاملات میں حضور پرنورؐ مجلس شوریٰ سے مشورہ فرماتے تھے۔
رسول اللہؐ کی وفات کے بعد حضرت ابو بکر صدیقؓ خلیفہ منتخب کیے گئے۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ نے اپنے پہلے ہی خطبے میں مسلمانوں پر یہ بات واضح فرمادی کہ اگر میں تم لوگوں کو اللہ اور اس کے رسولؐ کے حکم کے مطابق لے چلوں تو میری اطاعت کرو، ورنہ میری اطاعت تم پر واجب نہیں اور اگر کبھی کج روی اختیار کروں تو مجھے سیدھا کردو۔
حضرت صدیق اکبرؓ نے بھی مجلس شوریٰ کی حیثیت قائم رکھی۔ آپؓ کی مجلس شوریٰ میں مہاجرین و انصار کا وہ طبقہ تھا جسے کبار صحابہ کرامؓ کہا جاتا ہے۔ یہ وہ حضرات تھے جو نہ صرف سابقون الاولون تھے بلکہ قرآن و سنت کا بھی بخوبی علم رکھتے تھے اور اجتہاد کرنے اور مسائل کو قرآن و سنت سے استناد کرنے کی پوری صلاحیت رکھتے تھے۔
حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ پورے دور خلافت میں شورائی نظام کم و بیش اسی طرح چلتا رہا۔ خلفائے راشدینؓ کے عہد تک جو تقریباً تیس سال پر محیط ہے اراکین شوریٰ قرآن و سنت سے مکمل واقفیت، تقویٰ، فہم و فراست، عقل و تدبر، راست بازی اور اخلاص کی بنا پر رائے دینے اور مشورہ کرنے کے قابل سمجھے جاتے تھے۔ وہ چاپلوسی اور تقاضائے مصلحت سے ناآشنا تھے اور خلیفہ وقت یا حاکم کی مرضی کے تابع نہ تھے کیونکہ وہ حکومت کے تنخواہ دار اور ملازم نہ تھے اور خلاف الٰہیہ قائم کرنا ہی ان کی زندگی کا نصب العین تھا۔
خلیفہ اپنی مجلس شوریٰ سے مشورہ کرنے کے بعد اگر کسی نتیجے پر نہ پہنچ پاتا تو دارالخلافہ یعنی مدینہ کے تمام شہریوں کے سامنے وہ مسئلہ رکھ کر لوگوں کو آزادانہ اپنی رائے کا اظہار کا موقع بہم پہنچاتا جیسے حضرت عمرؓ کی خلافت میں عراق کی مفتوحہ زمینوں کا معاملہ ہی لے لیجیے، افسران فوج یہ چاہتے تھے کہ مفتوحہ زمینیں انھیں بطور جاگیر دے دی جائیں مگر حضرت عمرؓ جاگیرداری اور زمینداری نظام کو پسند نہ فرماتے تھے۔
اس پر گرما گرم بحث کا آغاز ہوا اور بالآخر حضرت عمرؓ نے قرآن کی ایک آیت کے مطابق فیصلہ کیا۔ مفتوحہ زمینیں حکومت کی ملکیت قرار دے کر اسلام میں جاگیرداری اور زمینداری نظام کی نفی کردی اور بعد میں حضرت عمرؓ کی اصابت رائے کا سب کو قائل ہونا پڑا۔ اس سے یہ امر ثابت ہوا کہ خلیفہ مجلس شوریٰ سے مشورہ کا پابند تو ہے تاہم حتمی فیصلہ خود اسے قرآن و سنت کے مطابق کرنا ہے اور قانون سازی کے اختیارات بھی جہاں قرآن و سنت خاموش ہوں، وہ وقت اور مصلحت کے مطابق بروئے کار لاسکتا ہے۔
شوریٰ اور حکمران کے کسی ایک نتیجے پر پہنچنے کے بعد جب تنفیذ کا معاملہ آتا تو پھر کسی جانب سے عوام الناس کی طرف سے اس فیصلے کے خلاف لب کشائی کی اجازت نہ ہوتی۔ یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ جمہوریت کے نام نہاد علم بردار ممالک شوریٰ کے اصول کی تطبیق میں بری طرح ناکام رہے ہیں۔
اس ناکامی کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ان ممالک میں ''بحث'' سے گزر کر اکثریت کی رائے پر فیصلہ ہونے کے بعد بھی اقلیت کو اس فیصل شدہ رائے کے خلاف کہنے کا حق رہتا ہے۔ فیصلہ کو عمل میں لانے کے دوران میں بھی وہ اس کی قدر و قیمت اور صلاحیت کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرتے ہیں بلکہ عمل میں لائے جانے کے بعد بھی اسے تنقید و تمسخر کا ہدف بنایا جاتا رہتا ہے۔
خلافت راشدہؓ کے مثالی طرز حکومت کے بعد شوریٰ کی وہ حیثیت باقی نہ رہی اور مسلمان حکمرانوں کی حد سے بڑھتی ہوئی رواداری کے پیش نظر خلفا و سلاطین کی مجلس شوریٰ میں مسلمان و غیر مسلم کی تفریق ہی ختم ہوگئی اور غیر مسلموں نے بڑے بڑے اور کلیدی منصب شاہ وقت سے اپنی وفاداری اور چاپلوسی کا مظاہرہ کرکے حاصل کرلیے۔ اسلامی سلطنت و حکومت کی ہیئت ہی بدل گئی۔
اب حکمرانوں کو ایسے افراد کی تلاش رہنے لگی جو ان کی ہاں میں ہاں ملاکر عوام کو بھی مطمئن اور پرامن رکھ سکیں اور قرآن و سنت کو پس پشت ڈال کر اپنی من مانی کارروائیاں کرسکیں۔ لیجیے مذہبی رواداری کی آڑ لے کر غیروں کی بن آئی اور اسلام کے شورائی نظام کا مقصد ہی فوت ہوگیا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین جب تک مکہ میں قیام پذیر رہے قریش کے ہاتھوں طرح طرح کے ظلم سہتے رہے اور ان کی سیاسی و معاشرتی زندگی مفقود رہی۔ جہاں تک عبادات کا تعلق تھا انفرادی عبادت ہی سے عبودیت کا اظہار ہوتا رہا۔ ہجرت کے بعد جب اللہ کے پیارے رسول کو ایک مرکز اور پرامن ماحول میسر آگیا تو آپؐ نے اپنے مبارک ہاتھوں سے پہلی اسلامی ریاست کی بنیاد ڈال کر اس کی اساس کے اصول وضع فرمائے۔
مجلس شوریٰ کی ضرورت اور اہمیت محسوس فرمانے کے بعد اکابر صحابہ کرامؓ کو مشاورت کی ذمے داریاں عطا فرمائیں۔ مہاجرین صحابہ کرامؓ کو بالخصوص اور انصار صحابہ کرام کو بالعموم مشوروں میں شریک کیا جاتا تھا ۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ، حضرت عمر فاروقؓ، حضرت عثمان غنیؓ، حضرت علی المرتضیٰؓ، حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ، حضرت زید بن ثابتؓ، حضرت عبداللہ بن رواحہؓ، حضرت سعد بن معاذؓ، حضرت سعد بن عبادہؓ اور حضرت سلمان فارسیؓ کے نام نامی اسم گرامی خصوصی اہمیت رکھتے تھے۔ آنحضرتؐ کی ذات والاصفات کو کسی کے مشوروں یا آرا کی ضرورت و حاجت نہ تھی مگر قرآن حکیم کے مطابق ایسا کرنا ضروری تھا۔
ارشاد ربانی ہے ''وامرھم شوری بینھم'' ''وہ جن کے کام باہم مشوروں سے طے پاتے ہیں''اور ایک دوسری جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے ''وشاورھم فی الامر'' ''اور خاص خاص باتوں میں مشورہ لیتے رہا کیجیے۔''
غزوہ بدر وہ پہلا موقع تھا جب رسول اللہؐ نے اپنے اصحابؓ سے کفار قریش سے مقابلہ اور جنگ کے لیے مشورہ طلب فرمایا۔ مدینہ کے انصار مسلمانوں نے اللہ کے رسولؐ کے سامنے مسجد نبوی میں دشمن سے لڑنے اور فداکاری کے جذبے کا زبردست مظاہرہ کیا۔ رسول اللہؐ نے ان کے جذبہ جہاد پر اطمینان کا اظہار فرمایا۔ جنگ ہوئی اور اللہ تعالیٰ کی عنایت و تائید سے فتح کامل حاصل ہوئی اور قریش کے ستر افراد قتل اور ستر ہی گرفتار کرکے مدینہ لائے گئے۔ اسیران بدر کے ساتھ سلوک کے سلسلے میں رسول خداؐ نے پھر صحابہ کرامؓ کو اپنی آرا سے اظہار کا موقع عطا فرمایا۔ اسی طرح غزوہ احد و خندق اور دیگر معاملات میں حضور پرنورؐ مجلس شوریٰ سے مشورہ فرماتے تھے۔
رسول اللہؐ کی وفات کے بعد حضرت ابو بکر صدیقؓ خلیفہ منتخب کیے گئے۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ نے اپنے پہلے ہی خطبے میں مسلمانوں پر یہ بات واضح فرمادی کہ اگر میں تم لوگوں کو اللہ اور اس کے رسولؐ کے حکم کے مطابق لے چلوں تو میری اطاعت کرو، ورنہ میری اطاعت تم پر واجب نہیں اور اگر کبھی کج روی اختیار کروں تو مجھے سیدھا کردو۔
حضرت صدیق اکبرؓ نے بھی مجلس شوریٰ کی حیثیت قائم رکھی۔ آپؓ کی مجلس شوریٰ میں مہاجرین و انصار کا وہ طبقہ تھا جسے کبار صحابہ کرامؓ کہا جاتا ہے۔ یہ وہ حضرات تھے جو نہ صرف سابقون الاولون تھے بلکہ قرآن و سنت کا بھی بخوبی علم رکھتے تھے اور اجتہاد کرنے اور مسائل کو قرآن و سنت سے استناد کرنے کی پوری صلاحیت رکھتے تھے۔
حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ پورے دور خلافت میں شورائی نظام کم و بیش اسی طرح چلتا رہا۔ خلفائے راشدینؓ کے عہد تک جو تقریباً تیس سال پر محیط ہے اراکین شوریٰ قرآن و سنت سے مکمل واقفیت، تقویٰ، فہم و فراست، عقل و تدبر، راست بازی اور اخلاص کی بنا پر رائے دینے اور مشورہ کرنے کے قابل سمجھے جاتے تھے۔ وہ چاپلوسی اور تقاضائے مصلحت سے ناآشنا تھے اور خلیفہ وقت یا حاکم کی مرضی کے تابع نہ تھے کیونکہ وہ حکومت کے تنخواہ دار اور ملازم نہ تھے اور خلاف الٰہیہ قائم کرنا ہی ان کی زندگی کا نصب العین تھا۔
خلیفہ اپنی مجلس شوریٰ سے مشورہ کرنے کے بعد اگر کسی نتیجے پر نہ پہنچ پاتا تو دارالخلافہ یعنی مدینہ کے تمام شہریوں کے سامنے وہ مسئلہ رکھ کر لوگوں کو آزادانہ اپنی رائے کا اظہار کا موقع بہم پہنچاتا جیسے حضرت عمرؓ کی خلافت میں عراق کی مفتوحہ زمینوں کا معاملہ ہی لے لیجیے، افسران فوج یہ چاہتے تھے کہ مفتوحہ زمینیں انھیں بطور جاگیر دے دی جائیں مگر حضرت عمرؓ جاگیرداری اور زمینداری نظام کو پسند نہ فرماتے تھے۔
اس پر گرما گرم بحث کا آغاز ہوا اور بالآخر حضرت عمرؓ نے قرآن کی ایک آیت کے مطابق فیصلہ کیا۔ مفتوحہ زمینیں حکومت کی ملکیت قرار دے کر اسلام میں جاگیرداری اور زمینداری نظام کی نفی کردی اور بعد میں حضرت عمرؓ کی اصابت رائے کا سب کو قائل ہونا پڑا۔ اس سے یہ امر ثابت ہوا کہ خلیفہ مجلس شوریٰ سے مشورہ کا پابند تو ہے تاہم حتمی فیصلہ خود اسے قرآن و سنت کے مطابق کرنا ہے اور قانون سازی کے اختیارات بھی جہاں قرآن و سنت خاموش ہوں، وہ وقت اور مصلحت کے مطابق بروئے کار لاسکتا ہے۔
شوریٰ اور حکمران کے کسی ایک نتیجے پر پہنچنے کے بعد جب تنفیذ کا معاملہ آتا تو پھر کسی جانب سے عوام الناس کی طرف سے اس فیصلے کے خلاف لب کشائی کی اجازت نہ ہوتی۔ یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ جمہوریت کے نام نہاد علم بردار ممالک شوریٰ کے اصول کی تطبیق میں بری طرح ناکام رہے ہیں۔
اس ناکامی کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ان ممالک میں ''بحث'' سے گزر کر اکثریت کی رائے پر فیصلہ ہونے کے بعد بھی اقلیت کو اس فیصل شدہ رائے کے خلاف کہنے کا حق رہتا ہے۔ فیصلہ کو عمل میں لانے کے دوران میں بھی وہ اس کی قدر و قیمت اور صلاحیت کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرتے ہیں بلکہ عمل میں لائے جانے کے بعد بھی اسے تنقید و تمسخر کا ہدف بنایا جاتا رہتا ہے۔
خلافت راشدہؓ کے مثالی طرز حکومت کے بعد شوریٰ کی وہ حیثیت باقی نہ رہی اور مسلمان حکمرانوں کی حد سے بڑھتی ہوئی رواداری کے پیش نظر خلفا و سلاطین کی مجلس شوریٰ میں مسلمان و غیر مسلم کی تفریق ہی ختم ہوگئی اور غیر مسلموں نے بڑے بڑے اور کلیدی منصب شاہ وقت سے اپنی وفاداری اور چاپلوسی کا مظاہرہ کرکے حاصل کرلیے۔ اسلامی سلطنت و حکومت کی ہیئت ہی بدل گئی۔
اب حکمرانوں کو ایسے افراد کی تلاش رہنے لگی جو ان کی ہاں میں ہاں ملاکر عوام کو بھی مطمئن اور پرامن رکھ سکیں اور قرآن و سنت کو پس پشت ڈال کر اپنی من مانی کارروائیاں کرسکیں۔ لیجیے مذہبی رواداری کی آڑ لے کر غیروں کی بن آئی اور اسلام کے شورائی نظام کا مقصد ہی فوت ہوگیا۔