ذیشان بٹ سوال پوچھنے پر موت 

برطانیہ میں ہر سال اوسطاََ 1000ٹاپ اسٹوریز کے ذریعے مختلف سکینڈلز کو بے نقاب کیا جاتا ہے۔


[email protected]

جس معاشرے میں سوال پوچھنے پر موت ملے، آئینہ دکھانے پر بچے قتل کرد یے جائیں، کسی مجرم کو رنگے ہاتھوں پکڑنے والے شخص کو اُس کے گھر میں گھس کا مار دیا جائے، صاحب کا ''حکم'' نہ ماننے پر نوکری سے نکال دیا جائے، میرٹ کو روند کر اپنے جرائم پیشہ افراد کو مختلف فورسز میں بھرتی کیا جائے۔

اداروں کی تباہی، میرٹ کی موت، اندھی اقربا پروری بلکہ چمچہ پروری، کرپشن کی افقی و عمودی پروموشن، رولز کو ریلیکس اورگندہ کرنے کے کلچر کی آبیاری ہو، سرکاری ملازموں کو ذاتی مالشیے بنالیا جائے وہاں ''گڈگورننس'' کے نام پر کیسے کیسے گل کھلائے جاتے ہیں اس پر تو ایک پوری کتاب لکھ دینی چاہیے۔

گزشتہ ہفتے ہمارا ہی قبیلے (صحافت) کے ایک ادنیٰ سے صحافی ذیشان بٹ کو قتل کر دیا گیا، میں اسے جانتا تک نہیں۔ بس اتنا جانتا ہوں کہ اس پر ظلم ہوا ہے۔ ظلم کے خلاف آواز اٹھانا ہر باضمیر انسان کا فرض ہے۔ ذیشان کے قتل اور خصوصاً اس کی آڈیو ریکارڈنگ سامنے آنے کے بعد دل رنجیدہ ہوگیا۔

میڈیا میں رپورٹ ہونے والی اطلاعات کے مطابق ذیشان بٹ کو 27 مارچ کی دوپہر کو اس وقت قتل کیا گیا جب وہ مقامی دکانداروں پر عائد کیے جانے والے ٹیکس کے حوالے سے معلومات لینے یونین کونسل بیگ والا کے دفتر پہنچا، وہاں چیئرمین یونین کونسل اور مبینہ ملزم عمران چیمہ سے اس کی تلخ کلامی ہوگئی ۔مقتول صحافی نے دھمکیوں کے حوالے سے 15 پر پولیس کو آگاہ کیا۔اس کے بعد ذیشان بٹ نے چیئرپرسن ضلع کونسل حنا ارشد کو فون کیا اور انھیں بتایا کہ یوسی چیئرمین نے اسے جان سے مارنے کی دھمکیاں دی ہیں۔

ابھی وہ فون پر بات کر ہی رہا تھا کہ اس پر فائرنگ کردی گئی جس سے وہ موقع پر ہی جاں بحق ہوگیا۔صحافی کی کال ریکارڈنگ منظر عام پر آئی تو میڈیا میں کیس کو ''پر ''لگ گئے، پھر سپریم کورٹ حرکت میں آئی، از خود نوٹس لیا گیااور گرفتاری ہوئی یاشاید نہیں ہوئی(واللہ علم)، مقدمہ ذیشان کے اہل خانہ کی مدعیت میں درج ہوا ، کون کون چشم دید گواہ ہے،کون کون اپنی زبان سے پھر جائے گا، اس کیس کا مستقبل کیا ہے؟

کچھ علم نہیں،ایک نااُمیدی نے ذہن کو مردہ کر رکھا ہے کیونکہ جس معاشرے میں رشوت لینے والے کی ویڈیو منظر عام پر آئے اور اسے منسٹر لگا دیا جائے۔ ماڈل ٹاؤن میں 14لوگوں کو شہید کر دیا جائے اور کیس کا کچھ نہ ہو ۔ایسا شخص جس پر درجنوں لوگوں کے قتل کا الزام ہو اس کے ہاتھوں سے حکمران سونے کے تاج پہنیں تو وہاں انصاف ڈھنڈنا دیوانے کا خواب ہے ۔ویسے بھی عالمی سطح پر ہماری صحافتی ذمے داریوں کے حوالے سے ہمارا ریکارڈ بد ترین ہے۔

پاکستان کو صحافیوں کے لیے خطرناک ترین ملک قرار دیا گیا ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق آزادی صحافت میں 180 ممالک کے مابین پاکستان کا درجہ 139 ہے۔ پاکستان میں پچھلے چند سال میں 117 صحافیوں کی خونریزی کی گئی جس میں سے محض 3کیسز کی عدالت میں سماعت ہو سکی۔ اس واقعہ کو دیکھ کر پاکستان کے 28 سالہ رپورٹر ولی خان بابر یاد آ گئے، لیاقت آباد کراچی میں دو قاتلوں نے چار گولیاں سر جب کہ ایک گردن میں اتار کے قتل کر دیا تھا۔

ولی خان بابر کو ٹارگٹ کلنگ، قبضہ مافیا اور بجلی چوری پر آواز اٹھانے پر مار دیا گیا۔ ان کے کیس کی تفتیش کرنے والے بیشتر افسران کو بھی موت کے گھاٹ اتار دیا گیا جن میں پولیس کا مخبر، دو پولیس کانسٹیبل اور تفتیشی افسرکاایک بھائی تھا۔جب کہ اس مقدمے میں شامل 6مزید گواہوں کو بھی قتل کر دیا گیا، اس کے علاوہ اغوا ہونے والے صحافی رزاق گْل کی لاش جنوبی بلوچستان سے ملی جن پر 15 گولیوں کے زخم اور تشدد کے واضح نشانات تھے۔

اس طرح کے اور واقعات بھی ہیں، جن میں اورنگزیب تونیو، ان کے بھائی رستم تونیو اور ایک دوست دیدار کے ساتھ 20 گولیوں سے مار دیا۔ تینوں آدمی اورنگزیب کے ساتھ کام کرتے تھے۔ اورنگزیب مقامی براڈ کاسٹر بیورو کے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔ سندھ کے ایک گاؤں لالو رنوک میں 535 میل کے فاصلے میں یہ واقعہ رونما ہوا۔ حملہ آوروں نے ناکام شادی پر ایک خبر پر طیش میں آ کر اورنگزیب کو قتل کیا۔

یہ پاکستان ہی کی بات نہیں بلکہ پاکستان جیسے کرپشن سے لتھڑے ہوئے ممالک میں ایسا ہی ہوتا ہے ابھی چند ماہ قبل مالٹا میں کرپشن کو بے نقاب کرنے اور وزیر اعظم کی آف شور کمپنیوں کے کیسز پر تحقیقات کرنے والی صحافی کاروانا کو بھی قتل کردیا گیا۔وہ بینکوں میں آن لائن گیمز کے ذریعے مالٹا میں منی لانڈرنگ ہونے والا پیسہ بے نقاب کر رہی تھی۔ وہ بھی سرکار کے نوکروں کا پردہ چاک کرنے کا جرم کر بیٹھی تھی۔مگر ان ممالک کے برعکس برطانیہ، امریکا ور اس یورپی ممالک میں صحافت کو عبادت سمجھا جاتا ہے۔

برطانیہ میں ہر سال اوسطاََ 1000ٹاپ اسٹوریز کے ذریعے مختلف سکینڈلز کو بے نقاب کیا جاتا ہے۔ امریکا میں یہی تناسب اس سے کہیں زیادہ ہے۔ چند سال قبل پاکستان کرکٹ ٹیم پر لگنے والے اسپاٹ فکسنگ کے الزامات بھی برطانوی اخبارات کے صحافیوں نے بے نقاب کیے تھے۔ آف شور کمپنیوں کے حوالے سے پوری دنیا میں ہلچل پیدا کرنے والے سکینڈل بھی صحافیوں نے ہی منظر عام پر لانے کے لیے کام کیا۔

حقیقت میں یہاں ایسا کلچر نہیں ہے، یہاں کسی سے سوال پوچھنا جرم بن جاتا ہے۔ کیونکہ جب حکمران کرپٹ ہوں تو اس کے نیچے کام کرنے والا عملہ بھی کرپٹ ہوتا ہے۔ بیرون ملک پراپرٹی خریدنے کی جو وبا پاکستان میں پھیلی، ہندوستان کی سیاست میں کیوں نہیں پھیلی حالانکہ چوری چکاری میں وہ بھی کم نہیں لیکن ''گھر'' کو لوٹ کر مال مسروقہ گھر میں ہی رکھتے ہیں۔ انھوں نے معاشیات میں نقب لگائی ہوتی تو شاید ہم جیسوں کے کانوں پر جوں تک نہ رینگتی لیکن انھوں نے تو اجتماعی اخلاقیات کا ہی جنازہ یوں نکالا کہ معاشرہ میں ''رول ماڈلز'' ہی تبدیل کر کے رکھ دیے۔ یہ انھی کی بدولت ہے کہ آج ہمارے معاشرے میں ایک یونین کونسل کا ''چیئرمین'' قاتل بن گیا ہے، جو سوال پوچھنے پر موت کی سزا خود سنا دیتا ہے! اے کاش یہ معاشرہ، یہ قوم اور اس کے باسی جاگ جائیں اور ظلم کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوں ورنہ کیا صحافی، کیا پولیس، کیابیوروکریٹ، کیا منشی، کیا استاد سب ہی ان کے ہتھے چڑھتے رہیں گے اور غلامانہ زندگی ان کا مقدر ٹھہرے گی!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں