بے خبر ممبران قانون ساز اور بینکنگ
یہ تمام پرائیویٹ بینک سب کے سب منافعے میں چل رہے ہیں خواہ چھوٹے بینک ہوں یا بڑے بینک۔
الیکٹرانک انقلاب، صنعتی انقلاب سے بڑا انقلاب ہے جس نے جسمانی طاقت پر دماغی طاقت کو بالاتر ثابت کرکے رکھ دیا۔ گو اس کے اثرات پاکستان میں تاخیر سے پہنچے مگر آنے پر یہاں کی دنیا بھی بدل گئی۔ دور دراز کے علاقے موبائل فون پر دیکھے اور جانے جاسکتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب زمینی فاصلے انسانوں میں مایوسی اورکم ہمتی پیدا کردیتے تھے اور اس وقت جو فلمیں بنتی تھیں ان کے گانے بھی عہد کے عکاس ہوتے تھے ذرا بول ملاحظہ ہوں:
گھر آیا میرا پردیسی
پیاس بجھی میری اکھین کی
اب دوسرے سیاروں پر بستیاں بسانے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ مگر ہماری قانون ساز اسمبلی غفلت میں ہے۔ 20 برس سے زیادہ کا عرصہ حیات گزرا مگر خواب غفلت سے نہ جاگا یہ ادارہ۔الیکٹرانک انقلاب کے ثمرات تو یقینا ملک میں آنے لگے الیکٹرانک میڈیا، سپر مارکیٹیں دنیا بھرکے بینک اور رقوم کے ٹرانسفر، مگر عالمی پیمانے پر تو ہر مہذب ملک نے قوانین وضع کرلیے جن کی بدولت ہم بھی فیضیاب ہو رہے ہیں، لیکن جہاں تک ہمارے ملک کی صورتحال ہے یہاں بے خبری کا عالم ہے۔
خصوصاً حکمران طبقے میں جو قانون سازی کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہے اس کو علم ہی نہیں کہ بینکنگ سپر مارکیٹ اور الیکٹرانک میڈیا قانون سازی سے بالکل آزاد۔ پہلے یہ بھی کلچر تھا کہ آدھے دن بینک کھلتے تھے عام لوگوں اور کاروباری طبقے کے لیے پریشانی کا باعث تھے، پھر وقت بڑھا اور اوقات کار میں اضافہ ہوا اور اسٹیٹ بینک کے قوانین کے تحت بے شمار بینک مارکیٹ میں آگئے اور چھوٹے بڑے بینکوں سے مارکیٹ بھرگئی۔
ہر بینک کے تقریباً ایک جیسے اصول ہیں مگر شاید کسی بینک میں یہ بھی ہے کہ اگر عام کلائنٹ کی جمع کردہ رقم پانچ ہزار سے کم ہوگی تو ہر ماہ اس میں کٹوتی ہوتی رہے گی جب کہ تمام بینک عام لوگوں کی رقوم پر ہی مرد میداں بنے ہوئے ہیں۔ لہٰذا بینکوں کو یکساں قوانین کے تحت ہی چلنا چاہیے جیسے کہ منافع کی شرح کو اسٹیٹ بینک ہی طے کرتا ہے۔ البتہ ان تمام امور پر قانون ساز ادارے کا ذمے ہے۔ مگر اس کی نگاہیں اس وقت آیندہ انتخابات پر لگی ہیں۔ لہٰذا پورے دس برس کی حکومت میں عوامی طاقت کا کوئی قانون نہیں بنایا گیا۔
قومی اسمبلی کے اجلاس میں سابق وزیر اعظم نے کتنی مرتبہ حاضری دی؟ اسٹوڈنٹس یونین کی بحالی کی قرارداد جو سابق چیئرمین سینیٹ میاں رضاربانی نے داخل کی اس پر کبھی بھی کورم پورا نہ ہوا اور پانچ برس بیت گئے، سینیٹ کی کارکردگی پر سینیٹ کے ایک معروف رکن عبدالحسیب خان کیا کہتے ہیں خدا ان سے پوچھے جو خود مستعفی ہوئے، تو اب کس سے استفسار کریں کس سے منصفی چاہیں۔آپ اب ذرا بینکنگ کے دوسرے مسئلے کی طرف نگاہ کریں جو انسانی حیثیت سے بہت اہم ہے اور انصاف کا کیا تقاضا ہے؟
یہ تمام پرائیویٹ بینک سب کے سب منافعے میں چل رہے ہیں خواہ چھوٹے بینک ہوں یا بڑے بینک لہٰذا کوئی یہ نہ کہے کہ یہ خسارے میں ہیں، مگر صرف عوام کی سروسز کا مسئلہ ان بینکوں کو نظر آتا ہے مگر وہ جو ملازمین کام میں مصروف ہیں کیا وہ عوام یا انسان نہیں ہیں جو صبح آٹھ بجے گھر سے نکلتے ہیں اور رات 9 یا 10بجے گھر پہنچتے ہیں آخر یہ کیا پاکستان کے شہری نہیں؟ کیا پاکستان میں لیبر لاز نہیں؟
بینک ملازمین کو اس وقت جو سیلری ملتی ہے وہ بھی عام ملازم کو مجموعی طور پر 25000 ماہانہ اور بنیادی سیلری نصف یعنی تقریبا 12000 اس میں ان کو صاف عمدہ کپڑے زیب تن کرنا، بچوں کی تعلیم، کنونس گویا آنا جانا اور پھر ان کی پوسٹنگ اگر رہائش کسی فرد کی گلشن معمار کراچی ہو تو اس کی پوسٹنگ یعنی ملازمت کی جگہ ڈیفنس رکھی جائے گی گویا سمندر کے قریب تاکہ روزانہ اس کو کم ازکم پچاس کلومیٹر صرف سفر میں گزریں اور کوئی ایکسٹرا پٹرول الاؤنس نہیں پھر موٹرسائیکل کا سفر اور ریڑھ کی ہڈی پر بوجھ اس کے اثرات 45 برس کی عمر تک پہنچنے پر اس کا حشر برا ہوجائے گا لہٰذا ایسے تمام لوگ جو آنے جانے میں 35 کلومیٹر سے زیادہ سفر کرتے ہوں ان کو خصوصی مراعات یعنی ڈیرنس الاؤنس دیا جائے اور ایک طرف کا پٹرول ادارہ ادا کرے اور 50 کلومیٹر سے زیادہ آمد و رفت کے ملازم کو خصوصی میڈیکل الاؤنس ادارہ خود تجویز کرے۔
بینکوں میں گارڈ اور چوکیدار بینک کے ملازم نہیں ہوتے بلکہ سیکیورٹی ایجنسیوں کے سپرد حفاظتی اقدامات کردیے گئے۔ اصولی طور پر پرائیویٹ بینکوں میں کرایے کے چوکی دار رکھنے کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔ یہ ٹھیکہ داری نظام کی ایک قسم ہے جو ہر طرح سے مزدور اصولوں اور لیبر لاء کی خلاف ورزی ہے۔ اگر ایسی صورت حال فرانس میں ہوتی تو ایک روز بھی ملک نہ چلتا۔ ایک کھلاڑی نے ایک سیاسی پارٹی بنا رکھی ہے مگر اس کو بھی کسی قسم کے لیبر لا یا عوامی مسائل پر جدوجہد کا کوئی حوصلہ نہیں وہ بھی مذہبی پارٹیوں کا ماڈرن ورژن ہے۔
اسمبلی کے ارکان سے عوام کی توقعات کیوں کر پوری ہو سکتی ہیں کیونکہ تمام کا تمام حکمران طبقہ قائد اعظم کی قانون ساز اسمبلی کے خدوخال جو انھوں نے 11 اگست 1947ء کو بیان کیے تھے ان کے مخالف ہیں اور دستور قائد اعظم کے افکار کا آئینہ دار نہیں ہے اور موجودہ ارکان اسمبلی سے عوام پر ٹیکسوں کا بڑا بوجھ ڈالا جائے گا لہٰذا قرض کی راہ تلاش کرنے کی کوشش کی جائے گی مگر پاکستان کی خارجہ اور داخلہ پالیسی کی کمزوریوں کی وجہ سے قرض کی درآمد کرنے کی توقع بہت کم ہے اور اگر پاکستان کا قرض فی کس دو لاکھ تک نہ پہنچا تو ڈالر ریٹ 150 تک پہنچ سکتا ہے ایسی صورت میں حکمران ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کے سوا اور کیا کرسکتے ہیں۔ آنے والا وقت بڑا خطرناک ہے خدا خیر کرے۔
آئیے! اب دوسرے مسئلے یعنی سپر مارکیٹ کی جانب رخ کریں، اس سے بھی عوام کے ایک حصے کو خصوصاً اپر کلاس اپر مڈل اور کسی حد تک مڈل کلاس کو ریلیف ملا ہے۔ مگر کس قیمت پر؟ ہر وہ سپر مارکیٹ بہترین ہے جہاں جس قدر غیر ملکی مال ملتا ہو اس وجہ سے زر مبادلہ امرا کے خرچ کی چیز ہے۔ دوم، سپر مارکیٹوں میں یہ آسانی ضرور ہے کہ عوام کو ایک ہی چھت کے نیچے تمام من پسند اشیاء مل جاتی ہیں مگر وہاں جو شخص فروخت میں مصروف ہے مرد یا عورت وہ بھی تو عوام میں سے ہیں اور خواص کے ملازم۔ یہ لوگ زیادہ تر اورنگی، کورنگی، لیاقت آباد اور کم آمدنی کے رہائش پذیر ہیں جن کے بچے ہونہار ہونے کے باوجود کمرشل اور اعلیٰ تعلیم سے محروم رہے، زیادہ تر انٹر پاس اورکمپیوٹر کے ہونہار کھلاڑی ہیں۔
انھیں سال میں عام طورپر دو چھٹیاں نصیب ہیں۔ صبح 9 بجے سے 11 بجے رات تک اور خواتین کا قلیل آمدنی کے لیے گھنٹوں کھڑے رہ کر کام کرنا۔ اوور ٹائم کہیں کہیں۔ لیکن ان مارکیٹوں پر کوئی قانون لاگو نہیں بھلا اہل ثروت کو کیونکر احساس ہو یہ تو انسانیت اور عوام کو انصاف دلانے آئے ہیں اور جو کبھی انصاف اور اس کے نفاذ کے لیے لڑے تھے وہ آج پارٹ ٹائم سیاست کرنے میں مصروف ہیں۔ اپنے چیمبر میں بیٹھے غربا کے قصیدے پڑھ رہے ہیں مگر نمایشی پارٹیوں کو للکارتے نہیں۔ مزدور کسان اور غربا کے طرفدار ضرور ہیں، مگر سڑک پر آنے سے گریزاں ہیں۔