بھارت کی سیکولر طاقتوں کی ذمے داری

پرامن ماحول کو پرتشدد ماحول میں بدلنے کے لیے مذہبی انتہا پسند طاقتیں ایسی اشتعال انگیز حرکتیں کرتی ہیں۔


Zaheer Akhter Bedari April 06, 2018
[email protected]

میں مسلمان ہوں مجھے اپنے مذہب سے محبت ہے میں اپنے مذہب کا احترام کرتا ہوں، ایک ہندو ہے اسے اپنے مذہب سے محبت ہے وہ اس کا احترام کرتا ہے، ایک عیسائی ہے اسے اپنے مذہب سے محبت ہے وہ اپنے مذہب کا احترام کرتا ہے۔ ایک یہودی ہے اسے اپنے مذہب سے محبت ہے وہ اپنے مذہب کا احترام کرتا ہے۔

یہ محبت یہ احترام فطری ہے اور قابل تحسین بھی ہے لیکن اس بدقسمتی کو کیا کہیے کہ ہر مذہب کا ماننے والا عموماً دوسرے مذاہب سے تعصب برتتا ہے بلکہ نفرت کرتا ہے اور جب یہ تعصب اور نفرت حد سے گزر جاتے ہیں تو خون خرابے اور جنگوں میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ صلیبی جنگوں سے لے کر 1947ء کی قتل و غارت گری تک نظر دوڑائیں مذہب کے نام پر وحشت و بربریت کے ایسے مناظر سامنے آتے ہیں کہ انسان کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔

فلسطین کو لے لیں لگ بھگ ستر سال سے فلسطین خون میں نہایا کھڑا ہے وجہ کیا ہے کہ یہاں دو مذاہب آمنے سامنے ہیں، ایک عربی مسلم دوسرا یہودی اسرائیلی۔ کشمیر پر نظر ڈالیں یہاں بھی 70 سال سے خون بہہ رہا ہے یہاں بھی اصل تضاد ہندو اور مسلمان کا ہے اس لڑائی میں 70 ہزار کشمیری جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں 1947ء کی تقسیم دو قومی نظریے پر ہوئی یہ دو قومی نظریہ دو مذہبی نظریے میں بدل گیا اور کہا جاتا ہے کہ 22 لاکھ انسان اس دو قومی یا دو مذہبی نظریے کے شکار ہوگئے۔

میں نے ہندوؤں میں بھی ایسے مہان لوگ دیکھے ہیں جو دونوں قوموں میں دوستی کے لیے جدوجہد کرتے رہے، مسلمانوں میں بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں جنھوں نے دونوں قوموں کے درمیان دوستی کے لیے اپنی عمریں بتا دیں لیکن کامیابی حاصل نہ کرسکے۔ کیونکہ مذہبی انتہا پسند جماعتیں مضبوط بھی ہیں مسلح بھی ہیں اور ان کے پاس مذہبی اندھے پن کا شکار کارکن لاکھوں کی تعداد میں ہیں۔

آر ایس ایس، ہندو مہاسبھا، بجرنگ دل، بی جے پی وہ انتہا پسند تنظیمیں ہیں جو فریق مخالف کے خون کی پیاسی رہتی ہیں۔ پاکستان میں بھی مذہبی انتہا پسند طاقتیں موجود ہیں لیکن اقلیتوں کے حوالے سے ان کا رویہ ہندوستان کے ہندو انتہا پسندوں جیسا شدید نہیں۔

اصل میں ہندوستان میں بی جے پی کے برسر اقتدار آنے سے ہندو انتہا پسندی کو فروغ حاصل ہو رہا ہے کیونکہ بی جے پی بھارت میں ہندوتوا یعنی رام راج کے پروگرام پر عملدرآمد چاہتی ہے۔ بی جے پی اور دوسری مذہبی انتہا پسند جماعتوں کی کوششوں کے باوجود بھارتی عوام کی اکثریت غیر متعصب ہے اور مسلمانوں کے ساتھ مل جل کر رہ رہی ہے۔ بھارتی فلم انڈسٹری مذہبی یکجہتی کے حوالے سے بہت مثبت کردار ادا کر رہی ہے۔

پچھلے دنوں بھارتی فلم انڈسٹری کے معروف اداکار سلمان خان نے اپنی ساتھی اداکارہ پوجا ڈیڈوال کو جان لیوا بیماری سے بچانے کے لیے مالی امداد اور اس کا مکمل علاج کرانے کا اعلان کرکے فلم انڈسٹری کے کارکنوں کے ہی دل نہیں جیتے بلکہ عام لوگوں پر بھی اس کا خوشگوار اثر ہوا۔ اس قسم کی کوششوں سے دونوں قوموں کے درمیان خوشگوار تعلقات کی راہیں ہموار ہوتی ہیں جو بھارت کے انتہا پسند ہندوؤں کے منہ پر طمانچے کی حیثیت رکھتی ہیں۔ بھارتی فلم انڈسٹری اس حوالے سے بہت مثبت کردار ادا کر رہی ہے۔

پسماندہ ملکوں میں مذہبی انتہا پسندی ایک وبائی بیماری کی شکل اختیار کر رہی ہے میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام اور چھ لاکھ روہنگیا مسلمانوں کا بنگلہ دیش ترک وطن کرنا ایک ایسا المیہ ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ روہنگیا کے بعد یہ وبا سری لنکا پہنچی اور وہاں بھی سری لنکن مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا۔

یہ صورتحال بہت مایوس کن ہے اور اس قتل و غارت تعصبات اور نفرتوں کا کارن جہل اور ناخواندگی ہے۔ ماضی میں ایک ہزار سال تک ہندوستان پر مسلمانوں نے حکومت کی۔ بارہ فیصد مسلمان 88 فیصد ہندوؤں پر ایک ہزار سال تک حکومت کرتے رہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بادشاہی نظام کے ایک ہزار سالہ دور میں فرقہ وارانہ قتل و غارت کیوں نہ ہوئی۔ جمہوری نظام میں فرقہ وارانہ قتل و غارت کا کلچر کیوں پروان چڑھ رہا ہے۔ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب جمہوریت کے حامیوں کو تلاش کرنا چاہیے۔

ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے جمہوریت میں رائے عامہ کا احترام جمہوریت کی شان ہے۔ سیاسی مفادات سیاستدانوں کو اندھا بنا دیتے ہیں۔ کشمیر کے مسلمانوں کی اکثریت ہندوستانی حکمرانی کو پسند نہیں کرتی۔ جمہوریت کا تقاضا ہے کہ کشمیری مسلمانوں کے جذبات کا خیال کیا جائے۔ اقوام متحدہ نے کشمیر میں رائے شماری کی قرارداد منظور کر رکھی ہے۔

جمہوری بھارت کی یہ ذمے داری تھی کہ وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیر میں رائے شماری کرا کر اس 70 سالہ مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کرے جس نے اب تک 70 ہزار کشمیریوں کی جانیں لے لی ہیں۔ اس کے بجائے کشمیری عوام کو بھارتی کنٹرول میں رکھنے کے لیے وہاں آٹھ لاکھ فوج لگا دی گئی ہے جو پوری کوششوں اور سختیوں کے باوجود کشمیری مسلمانوں کو اپنا حامی نہ بنا سکی۔ آئے دن کشمیریوں کا قتل کشمیری عوام میں بے چینی اور مذہبی تفریق کا سبب بن رہا ہے۔

پرامن ماحول کو پرتشدد ماحول میں بدلنے کے لیے مذہبی انتہا پسند طاقتیں ایسی اشتعال انگیز حرکتیں کرتی ہیں کہ فرقہ وارانہ منافرت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ بابری مسجد کا انہدام بھارت کے عوام کی کارروائی نہیں تھی بلکہ بی جے پی کی قیادت میں بی جے پی کے کارکنوں کی اشتعال انگیز کارروائی تھی۔ بابری مسجد کی جگہ رام مندر کا قیام ایک فتنہ پرور اقدام تھا۔ بابری مسجد ہو یا رام مندر یہ دونوں عبادت گاہیں ہیں اور عبادت گاہوں کو نفرت گاہوں میں بدلنا اور پرامن عوام کو فرقہ وارانہ منافرت کی طرف دھکیلنا کیا بھارتی سیکولرزم کی نفی نہیں ہے۔

70 سال سے بھارت اور پاکستان مستقل محاذ آرائی کا شکار ہیں اور انتہا پسند جنونی اس محاذ آرائی کی آگ پر مسلسل تیل ڈال رہے ہیں۔ اس احمقانہ محاذ آرائی میں بھارت کے اکثریتی عوام ملوث نہیں وہ محبت اور بھائی چارے کے ساتھ زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ بھارت میں 20 کروڑ سے زیادہ مسلمان رہتے ہیں وہ بھارتی حکومت کے وفادار ہیں اور بھارتی ہندوؤں کے ساتھ مل جل کر پرامن زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ بھارتی ہندوؤں کی اکثریت بھی مسلمانوں کے ساتھ پرامن زندگی کے خواہش مند ہے۔

بھارت کی بھاری اکثریت جن میں ہندو اور مسلمان دونوں شامل ہیں ایک پرامن زندگی کے خواہشمند ہیں لیکن بھارت کا حکمران طبقہ آئے دن لائن آف کنٹرول پر اشتعال انگیز کارروائیاں کرکے نہ صرف سرحدی علاقوں کا امن غارت کر رہا ہے بلکہ دونوں ملکوں کے پرامن عوام میں نفرتوں کی آبیاری کر رہا ہے۔ بھارت کی سیکولر طاقتوں کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ بھارتی حکومت پر دباؤ ڈال کر فساد کی جڑ مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل کے لیے مجبور کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں